عکس — قسط نمبر ۱۴

مثال، شیردل کے گھر سے صرف لاہور کے سفر کے دوران ہی روتی نہیں رہی تھی، وہ امریکا کی فلائٹ میں بھی اسی طرح روتی رہی تھی۔ شہربانو کی دھمکیوں، ڈانٹ ڈپٹ، پیار، تسلیوں اور کسی جھوٹ اور دلاسے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی ماں اسے اس کے باپ سے بہت دور لے کر جارہی تھی کیونکہ اس کے اور اس کے باپ کے درمیان اب ”فائٹ” ہو چکی تھی اور اس کی ممی اب کبھی بھی اس کو واپس شیردل کے پاس نہیں لے جانے والی تھی۔ وہ بے حد کم عمر تھی نہ مسائل سمجھ سکتی تھی نہ وجوہات نہ نتائج لیکن وہ ”جدائی” اور ”جھگڑے” کو سمجھ سکتی تھی۔ بچوں کی چھٹی حس ان دو چیزوں کو بڑوں سے بھی جلد بھانپتی ہے۔ اس کے مسلسل رونے اور سوالوں سے تنگ آتے ہوئے ایک اسٹیج پر آکر شہربانو نے اس کو چپ کرانے کی ہر کوشش چھوڑ دی تھی۔ اس کے پاس مثال سے بولنے کے لیے اب کوئی جھوٹ نہیں رہا تھا اور اگر ہوتا بھی تو وہ بولنا نہیں چاہتی تھی۔
شرمین سے اس کی بات امریکن قونصلیٹ میں قیام کے دوران ہوئی تھی۔ اس نے شرمین کو بتا دیا تھا کہ وہ شیردل کا گھر چھوڑ آئی ہے تاہم اس نے وجوہات نہیں بتائی تھیں نہ ہی شرمین نے اس سے اس وقت کچھ بھی پوچھا تھا لیکن اس کی امریکا روانگی سے پہلے شیردل نے اس سے رابطہ اور بات کرنے کی کوشش کی تھی جسے اس نے بہت خفگی کے عالم میں جھٹک دیا تھا لیکن بختیار کی کال لینے سے وہ کوشش کے باوجود انکار نہیں کر سکی تھیں اور وہ کال لینے کے بعد وہ اس کال کو لینے پر بہت پچھتائی تھیں۔ ان کی دنیا دوسری دفعہ ہل کر رہ گئی تھی۔ عکس نام کی بازگشت نے اس بار ان کی بیٹی کی پرسکون زندگی میں طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ شہباز حسین کے اس گناہ پر انہوں نے ساری عمر پردہ ڈالا تھا ساری عمر انہوں نے شہربانو سے اس کو چھپایا تھا۔ اس کی نظروں میں خود برا بن کر بھی انہوں نے شہباز حسین کے ”بت” کو اس کے ذہن اور نظروں میں ٹوٹنے نہیں دیا تھا اور وہ بت کہاں اور کس عمر میں آکر ٹوٹا تھا۔ ماں باپ کے کیے ہوئے بعض گناہ صرف ان کی اپنی زندگی برباد نہیں کرتے وہ وراثت کی طرح چلتے ہوئے ان کی اولاد کے سامنے پاتال بن کر آجاتے ہیں اور کس طرح… کہ انسان کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا…




شرمین، بختیار شیردل کی بات صرف سنتی رہی تھیں، انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ اپنا غصہ بھول گئی تھیں اور شہربانو کے اٹھائے ہوئے قدم پرکچھ کہنے کے لیے ان کے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے۔ عکس مراد علی کا سایہ کبھی بھوت بن سکتا تھا یہ انہیں انداز نہیں تھا۔ اگر انہوں نے رات کے اس پہر شیردل کے فون پر تب عکس سے بات نہ کی ہوتی توآج وہ شہربانو کو ہی قصوروار سمجھ کر سمجھانے کی کوشش کرتیں مگر شرمین خود اسی غلط فہمی کا شکار تھیں کہ شیردل، عکس کے ساتھ نہ صرف افیئر چلا رہا تھا بلکہ وہ افیئر بہت غلط حدود تک جاپہنچا تھا۔ انہوں نے اس کے باوجود اس فون کال کو شہربانو سے چھپا کر جیسے اسے ایک بار پھر اپنا گھر بچانے اور بنائے رکھنے کا موقع دیا تھا لیکن اب وہ اس راز کو بھی شہربانو سے چھپانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھیں۔ اگر باقی سب کچھ چھپا نہیں رہ سکا تھا تو پھر اس ایک راز کو چھپانے کا بھی کیا فائدہ تھا لیکن اس دن عکس مراد علی کے لیے اتنے سالوں سے ان کے دل میں موجود ہمدردی اور اس کے حوالے سے ان کا احساس جرم ختم ہو گیاتھا۔ انسان اپنی اولاد پر آنے والی تکلیف کو کبھی justify نہیں کر سکتا نہ ان لوگوں سے ہمدردی رکھ سکتا ہے جو اس تکلیف کے ذمہ دار ہوں۔
……٭……
عکس کو اس سارے واقعے کے بارے میں چند گھنٹوں میں پتا چل گیا تھا۔ وہ لوگ ایک ہی ڈویژن میں کام کررہے تھے یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دیر تک چھپا رہتا۔ کچھ دیر کے لیے وہ بھی شاکڈ ہی رہ گئی تھی۔ وہ شیردل کو directly اور شہربانو کو indirectly جانتی تھی اور وہ یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ ان دونوں میں اچانک ایسا کیا ہوا تھا کہ شہربانو کو امریکن قونصلیٹ والوں کی مدد لینی پڑی تھی۔ صرف ایک دن پہلے تک شیردل اس کو سب “Perfect” بتا رہا تھا اور ایک دن بعد… اس نے یقینا اس سے جھوٹ بولا تھا۔ وہ اس سے فون کر کے بات کرنا چاہتی تھی لیکن چاہتے ہوئے بھی اس نے شیردل کو فون نہیں کیا۔ وہ اس کے اور شہربانو کے درمیان ہونے والے کسی مسئلے میں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن اس کے باوجود اسے شیردل سے پوری ہمدردی تھی۔ وہ اس وقت اس کی ذہنی حالت کا بھی اندازہ کر سکتی تھی۔ جو چیز اسے رہ رہ کر پریشان کررہی تھی وہ اس کا یہ شک تھا کہ اس سارے واقعے کی وجہ دو دن پہلے شہباز حسین کے معاملے پر شیردل کے خاندان کی خود اختیار کردہ پسپائی اور مصالحت نہ ہو۔ وہ اس دن عجیب ذہنی اضطراب کے عالم میں گھر آئی تھی اور وہ خیردین سے یہ بات ڈسکس کیے بغیر نہیں رہ سکی۔
”شیردل تو بہت اچھا لڑکا ہے… ایسا کیا ہو گیا کہ اس کی بیوی کو اس طرح کا قدم اٹھانا پڑا؟” خیردین بھی اسی کی طرح حیران اور متفکر ہوا تھا۔ عکس کا دل بے اختیار چاہا کہ وہ خیردین کو یہ بتائے کہ شیردل کی بیوی شہباز حسین کی بیٹی تھی… وہی باربی ڈول جس پر بچپن میں عکس کا بری طرح دل آگیا تھا اور وہ جس کے گرد منڈلاتی رہتی تھی لیکن پتا نہیں کیوں اس وقت وہ چاہتے ہوئے بھی خیردین کو یہ بات نہیں بتا سکی۔
”تمہاری شیردل سے بات ہوئی؟” خیردین نے اس سے پوچھا۔
”نہیں۔” اس نے بے اختیار کہا۔
”کیوں؟” خیردین جیسے کچھ حیران ہوا تھا۔
”اس کا فون آف تھا میں نے کوشش کی رابطہ کرنے کی… ایک دو دن تک بات کروں گی۔” اس نے کچھ بے ربطگی سے کہا۔ خیردین اسے دیکھ کر خاموش ہو گیا تھا۔
عکس نے شیردل کو آنے والے دنوں میں بھی کال نہیں کیا تھا… شدید خواہش رکھنے کے باوجود اور یہ احساس ہونے کے باوجود کہ وہ شدید پریشانی کی حالت میں ہو گا… وہ چاہتی تھی کہ اگر یہ کرائسس اس کی وجہ سے آیا ہے تو وہ اس کو اپنی کسی مداخلت سے مزید بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔
خیردین اگلے چند دن اس سے شیردل کے بارے میں پوچھتا رہا تھا لیکن اس کی خاموشی اور عدم دلچسپی پر بالآخر اس نے بھی اس مسئلے پر بات کرنا چھوڑ دی تھی۔
حلیمہ ان دنوں اپنے سسرال گئی ہوئی تھی اور جب وہ واپس آئی تو اس نے ایک بار پھر عکس کی شادی کے حوالے سے بات شروع کر دی تھی۔ وہ اس بار اپنے شوہر کے دور پار کے رشتے داروں میں کسی ڈاکٹر کے پروپوزل کے بارے میں خیردین اور عکس سے بات کررہی تھی جو دبئی کے کسی ہاسپٹل میں کام کررہا تھا اور ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا۔ جواد ملہی سے منگنی ختم ہونے کا خیردین کو اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا جتنا حلیمہ کو ہوا تھا۔ اسے جواد ملہی سے بھی زیادہ اس کا خاندان پسند تھا اور اس کے لیے یہ بہت فخر کی بات تھی کہ اس کی بیٹی اتنے بڑے خاندان کا حصہ بننے والی تھی۔ وہ ایک سال سے عکس کے مستقبل کے حوالے سے نہ صرف مطمئن ہو گئی تھی بلکہ فخریہ انداز میں اپنے سسرالی خاندان میں سب کو اس کے بارے میں بتاتی بھی رہی تھی اور اب خیردین کی بیماری کے دوران اس طرح ان لوگوں کا رشتہ توڑ دینا نہ صرف اس کے لیے بہت صدمے اور سبکی کا باعث تھا بلکہ پریشانی کا بھی اور وہ اسے عکس کی خوش قسمتی سمجھتی تھی کہ جواد سے رشتہ ختم ہونے کے چند دنوں کے اندر عکس کے لیے ایک اوررشتہ آگیا تھا۔
عکس نے خیردین اور حلیمہ کے اصرار کے باوجود انہیں جواد کے خاندان سے رابطہ کر کے منگنی توڑنے کی وجوہات کے بارے میں پوچھنے نہیں دیا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ جواد یا اس کا خاندان شیردل کی ماں کے لگائے ہوئے الزامات دہرائے گا اور وہ خیردین اور حلیمہ کو اس شاک اور ایک نئے تماشے سے بچانا چاہتی تھی لیکن بعض چیزیں لاکھ کوشش کے باوجود ہو کر رہتی ہیں۔ وہ کبھی یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ شرمین خیردین سے رابطہ کر کے اس سارے معاملے پر بات کر سکتی تھی۔
”بہت اچھا لڑکا ہے چڑیا وہ… ایک بار مل لو اس سے… ابھی پورا مہینہ یہاں ہے۔” حلیمہ اس دن بھی صبح سویرے ناشتے کی میز پر اسے اس لڑکے سے ملنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ عکس خاموشی سے ناشا کررہی تھی۔ ”اور وہ تمہیں جانتا بھی ہے تمہارے ساتھ پڑھا ہوا ہے… کہہ رہا تھا تم بھی اسے جانتی ہو۔” وہ ناشتا کرتے کرتے چونکی تھی۔
”میرے ساتھ پڑھا ہوا ہے…؟ کیا نام ہے اس کا؟’ اس نے کچھ دلچسپی لیتے ہوئے ماں سے پوچھا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Read Next

دادی جان نے دال پکائی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!