عکس — قسط نمبر ۱۴

”شبی کوئی فائدہ ہوتا اس کا… اور اب بھی اگر ہم یہ ڈسکس کررہے ہیں تو کوئی فائدہ ہے اس کا۔” شیردل نے ایک بار پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اپنی تمام تر جھنجلاہٹ اور بے زاری کے باوجود وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ وہ اس کی ماں سے عکس اور اس کے حوالے سے اس طرح کے انکشافات سن کر بہت اپ سیٹ ہوئی ہو گی۔ اس کی جگہ کوئی بھی عورت ہوتی تو وہ بھی اپ سیٹ ہو جاتی اور شیردل کم از کم اس حد تک وضاحت اور صفائی دینے کا پابند خود کو ضرور سمجھتا تھا کہ اس کی یہ غلط فہمی دور ہو جاتی اور وہ کسی عدم تحفظ کا شکار نہ رہتی۔
”ہم زندگی میں بہت ساری اسٹیجز میں بہت سارے لوگوں میں انٹرسٹڈ ہو جاتے ہیں پھر وقت اور حالات بدل جاتے ہیں، کچھ اور لوگ ہماری زندگی میں آجاتے ہیں تو ان کی اہمیت بدل جاتی ہے۔”
”تمہاری زندگی میں عکس کی اہمیت اور جگہ نہیں بدلی۔” شہربانو نے اسے ٹوکا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی وہ جیسے اسے شیشہ دکھا رہی تھی۔
”وہ میرے لیے تم سے زیادہ اہم نہیں ہے شبی۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد شہربانو سے کہا یہ جانے بغیر کہ اس کی ان چند لمحوں کی خاموشی نے شیردل کے منہ کھولنے سے بھی پہلے شہربانو تک اس کا جواب پہنچا دیا تھا۔
”میں تمہاری بیوی ہوں شیردل اس لیے اہم ہوں… وہ کیا ہے؟ وہ کس حیثیت سے اہم ہے تمہارے لیے؟” اس نے عجیب رنج سے اس سے کہا تھا۔
”شبی میرے لیے تم سب سے زیادہ Important ہو۔” شیردل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔ شہربانو تلخی سے ہنس دی۔
”لیکن وہ بھی Important ہے۔”




”شبی وہ ایک دوست ہے اور بس میرے اور اس کے درمیان اب ایسا کچھ نہیں ہے جس پر مجھے تمہارے سامنے شرمندگی ہو۔ نظریں چرانی پڑیں۔” شیردل نے بے اختیار کہا۔
”تم اس سے محبت نہیں کرتے؟” شہربانو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے یک دم کہا۔ ”کہو نہیں۔” وہ اسے چیلنج کررہی تھی۔
”میں تمہارے ہر سال کا جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔” شیردل نے جواباً اس کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔ اس کو پہلی بار اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا تھا جس میں وہ منزہ کی مہربانی کی وجہ سے پھنس گیا تھا۔ جس سے وہ آج مل رہا تھا وہ ایک نئی شہربانو تھی۔
”تم کم از کم اس سوال کا جواب دینے کے پابند ہو، تم کہہ دو تم عکس سے محبت نہیں کرتے۔” شہربانو نے اصرار کیا۔
”شبی میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔” شیردل نے جواباً اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم اس سے ”بھی” محبت کرتے ہو۔” شہربانو کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ شیردل صرف اس کا نہیں تھا۔ کون سا غرور کہاں مٹی ہوا تھا۔
”شبی…” وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن شہربانو اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے صوفے سے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ رات اس نے مثال کے بیڈ روم میں جاگ کر گزاری تھی اور شیردل نے اپنے بیڈ روم میں… وہ دونوں پوری رات نہیں سوئے تھے۔ ان کی ازدواجی زندگی میں وہ پہلی رات تھی جب وہ ایک گھر میں ایک چھت کے نیچے ہوتے ہوئے بھی دو مختلف کمروں میں رہے تھے۔ وہ دونوں نہیں جانتے تھے وہ صرف پہلی رات تھی آخری نہیں۔
……٭……
عکس کو اس شام گھر آکر خیردین کے موڈ سے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ وہ کسی بات پر اپ سیٹ تھا لیکن وہ کیا بات ہو سکتی تھی اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ڈنر ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے اس نے پہلی بار خیردین کو اپنے آپ کو بے حد عجیب نظروں سے دیکھتے پایا تھا اور عکس نے ان نظروں کو خود پر جما ہوا پایا۔
”نانا کیا بات ہے؟ آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟” اس نے بالآخر کھانے سے ہاتھ روکتے ہوئے خیردین سے پوچھا۔ خیردین نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے ٹیبل پر اپنی بائیں طرف پڑا ایک لفافہ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ عکس نے حیران ہو کر اس لفافے کو دیکھا۔ پھر ہاتھ میں پکڑا چمچ اور کانٹا پلیٹ میں واپس رکھتے ہوئے اس نے لفافے کو اٹھاتے ہوئے خیردین سے کہا۔
”یہ کیا ہے؟” خیردین نے جواب نہیں دیا تھا۔ عکس نے ڈنر ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے وہ لفافہ ٹیبل کے ایک کونے میں دیکھا تھا لیکن اس نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔ خیردین کئی بار کسی نہ کسی جاننے والے کی کوئی درخواست اسی طرح ڈنر ٹیبل پر لے کر بیٹھا ہوتا تھا اور ڈنر کے بعد اس سے بات چیت کرتے ہوئے وہ اس درخواست پر بھی بات کر لیتے تھے۔ آج پہلا موقع تھا کہ ڈنر کے دوران خیردین نے اس کے سامنے کوئی لفافہ بڑھایا تھا۔
لفافے میں سے کاغذ نکال کر اس نے اسے کھول لیا۔ وہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن (SAGAD)کی طر ف سے ایشو ہونے والا ایک سرکاری نوٹیفکیشن تھا جس میں خیردین کی طرف سے اپنی ملازمت کی برخاستگی کو غیرقانونی اور بلاجواز قرار دینے کے اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی پنشن، واجبات اورمراعات کی بحالی کا اعلان تھا۔ وہ کوئی لمبا چوڑا خط نہیں تھا۔ ایک سرکاری کاغذ پر تحریر کچھ سطریں تھیں جنہیں رکے ہوئے سانس کے ساتھ لاشعوری طور پر اس نے کئی بار پڑھا تھا۔ بے یقینی کی ایک عجیب سی کیفیت میں… یہ کام اتنی آسانی سے ہو جانے والا تو اس نے کبھی بھی نہیں سمجھا تھا لیکن وہ کام ہو گیا تھا۔
”یہی وہ دوسرا کام تھا نا جو تم کرنا چاہتی تھیں۔” اس نے خیردین کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا۔ خیردین کی آنکھوں میں جو خوشی اور فخر وہ دیکھنا چاہتی تھی وہ اسے نظر نہیں آیا تھا۔ اس نے اس کاغذ کو دوبارہ اسی طرح تہ کر کے واپس لفافے میں ڈالتے ہوئے لفافہ اسی جگہ پر رکھ دیا جہاں سے خیردین نے اٹھایا تھا اور پھر بڑے پرسکون انداز میں خیردین سے کہا۔
”جی نانا۔”
”تم نے مجھ سے پوچھا تک نہیں… مجھ سے مشورہ کیے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔ میں تم سے اس طرح کی حماقت کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ وہ خیردین سے یہ سارے جملے سننے کی توقع کررہی تھی لیکن خیردین نے اسے ایسا کچھ نہیں کہا۔ اس نے اسے کچھ اور کہہ کر اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچی تھی۔
”آج ایبک شیردل کے ماں باپ آئے تھے۔” چمچ کو دوبارہ تھامتا ہوا عکس کا ہاتھ ایک بار پھر فریز ہو گیا تھا۔ اس نے عجیب بے یقینی کے عالم میں خیردین کو دیکھا تھا۔ اس نوٹیفکیشن کا معما جیسے سیکنڈز میں حل ہوا تھا۔ وہ ایبک شیردل کی مہربانی تھی۔
”کس لیے آئے تھے؟” عکس نے اپنی آواز کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”معذرت کے لیے۔” خیردین نے مدھم آواز میں کہا۔ عکس ہمت نہیں کر سکی کہ اس سے پوچھ پاتی کہ کس چیز کی معذرت، بہت سارے زخم ایک بار پھر سے رسنے لگے تھے لیکن وہ انہیں ادھیڑنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔
”انہیں شہباز حسین کے رویے پر شرمندگی اور افسوس تھا۔ تم سے بھی معذرت خواہ تھے وہ۔” خیردین نے رک کر اپنی آواز کی بھراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی۔ عکس نے بھی خیردین سے نظریں ہٹالیں۔ کئی سالوں کے بعد وہ دونوں آج اس ایک موضوع کو دوبارہ چھیڑ بیٹھے تھے جس پر وہ اتنے سالوں میں گونگے بن کر رہے تھے۔ لیکن زندگی خاموشی کو بھی خاموش کہاں رہنے دیتی ہے۔ درد کو بھی وقت بن کر کہاں گزر جانے دیتی ہے۔ عجیب طرح سے چپ توڑتی ہے، عجیب طرح سے ٹیس بن کر اٹھتی ہے۔
معذرت کے وہ چند لفظ اس خاندان کی طرف سے 26 سال بعد آئے تھے اور اس معذرت نے مرہم بننے کے بجائے درد کو جیسے کچھ اور بڑھا دیا تھا۔ 26 سال بعد اس خاندان نے انہیں اس قابل سمجھا تھا کہ ان کے سامنے اپنی شرمساری کا اظہار کر کے ان سے معذرت کرتا۔ 26 سال بعد انہیں جیسے ”انسان” اور ”برابر کے حقوق” والے انسان سمجھ لیا گیا تھا اور یہ جس طرح بھی ہوا تھا اس ٹیبل پر بیٹھے ان دو لوگوں کے لیے راحت اور فخر کا باعث نہیں تھا۔ عکس کے لیے ایبک شیردل کے خاندان کی طرف سے کی جانے والی معذرت شاکنگ تھی۔ وہ اس کی توقع ان سے نہیں رکھتی تھی۔ رکھ ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے لیے میز پر پڑا وہ ایک خط بہت تھا جس کے لیے وہ جدوجہد کررہی تھی۔ معذرت تو بہت غیر متوقع تھی۔
”آپ نے کیا کہا ان سے؟” عکس نے خیردین سے پوچھا۔
”میں نے انہیں معاف کر دیا۔” خیردین یہ بات نہ بھی کہتا عکس کو تب بھی اس کے جواب کا اندازہ تھا۔ ”تم بھی ان کو معاف کر دو چڑیا۔” خیردین نے اب اس سے کہا۔ عکس نے سر اٹھا کر خیردین کو نہیں دیکھا وہ نہیں چاہتی تھی وہ اس کی آنکھوں کی نمی دیکھے۔ وہ اس نمی کو پینے کی کوشش کررہی تھی جیسے اس نے زندگی کی بہت ساری تلخی اور زہر کو پیا تھا لیکن اس کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔ آنکھیں بھی کبھی پیمانوں کی طرح کم ظرفی اور چھوٹاپن دکھانے لگتی ہیں۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپتے ہوئے اس نے انگلیوں سے آنکھوں کو رگڑ کر جیسے ان کی نمی پی جانے کی ایک اور کوشش کی۔ یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ ہاتھ ہٹاتے ہی اس کی آنکھیں ایک بار پھر چھلکی تھیں اور پھر برستی ہی چلی گئیں۔ ایسی ہی برسات خیردین کی آنکھوں سے بھی ہورہی تھی۔ معذرت کا ایک چھوٹا سا لفظ ان کی زندگی میں کچھ بھی بدل نہیں سکتا تھا… اذیت، رسوائی کا کوئی داغ دھبا ان کے دامن سے ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا مگر وہ ان کے دلوں کے غبار کو نکل جانے کا موقع دے رہا تھا جیسے کسی بھرے ہوئے آبلے کو کوئی پھٹ کر بہہ جانے دے اور اندر سے نکلنے والا مواد سارا زہر اور ٹیس اپنے ساتھ ہی لے جائے۔
اتنے سالوں بعد وہ معذرت بے وقعت اور بے معنی تھی۔ ان کو اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ دونوں یہ جنگ اس ایک معذرت سے بہت پہلے جیت چکے تھے لیکن اس کے باوجود ایبک شیردل کے ماں باپ کا وہاں آکر معذرت کا اظہار عکس اور خیردین کے لیے عجیب کتھارسس کا باعث بنا تھا۔
”تم نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ ایبک شیردل…” خیردین نے خود پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وہ اب اپنے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کررہا تھا۔ جملہ ادھورا چھوڑا تھا اس نے لیکن وہ جملہ ادھورا سمجھ کر نہیں چھوڑا گیا تھا۔ عکس جانتی تھی وہ اس سے کیا کہنا چاہ رہا تھا لیکن اس کے پاس خیردین کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ٹیبل پر پڑے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر وہ اب اپنی آنکھیں اور ناک اس سے رگڑ رہی تھی۔ کسی ملازم کے وہاں آنے اور اسے اس حالت میں دیکھنے سے پہلے وہ جیسے خود پر قابو پالینا چاہتی تھی۔ خیردین چند لمحے اس کے جواب کے انتظار میں اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”تم ایبک شیردل کے خاندان کے بارے میں کب سے جانتی تھیں؟”
”انٹر سے… آپ کو یاد ہو گا ایک debate ہاری تھی میں نے… وہاں پہلی بار شیردل کو دیکھ کر پہچانا تھا میں نے۔” وہ خیردین سے نظریں ملائے بغیر اپنی پلیٹ میں کانٹا پھیرتے ہوئے اسے بتاتی رہی۔
”اور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟” عکس نے اس بار بھی خیردین کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا… اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اس کے پاس… وہ خیردین کو یہ کیسے بتا دیتی کہ وہ کبھی شیردل کے اصلی تعارف کو اس کے سامنے پیش کرنے کی ہمت ہی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکی۔ اسے ڈر تھا خیردین اسے شیردل سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھنے پر مجبور کر دے گا۔ اسے خدشہ تھا خیردین کو اتنے سالوں بعد یہ جان کر تکلیف ہوگی کہ وہ ایک بار پھر اس خاندان سے رابطے میں ہے جو ان کی تباہی کا ذمے دار تھا۔ وہ شیردل سے دوستی ہو جانے سے بھی پہلے اس بات سے خوف زدہ تھی کہ خیردین سے اس خاندان کا دوبارہ ذکر کرے… اس خاندان کا ذکر جیسے اس واقعے سے منسلک اس تکلیف اور بے عزتی کے احساس کو دوبارہ لے بیٹھنے کے مترادف تھا۔ خیردین اور وہ کبھی اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کرتے تھے اور وہ جیسے عکس کے لیے ایک نوگو ایریا بن گیا تھا جہاں سے وابستہ کوئی یاد وہ دہرانا نہیں چاہتی تھی… وہاں سے منسلک کسی فرد کو وہ اس حوالے سے شناخت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ خیردین کے ساتھ خدشات اور اندیشوں کے اس ڈھیر میں سے کون کون سا اندیشہ اور خدشہ شیئر کرتی۔
”میں نے ضروری نہیں سمجھا۔” وہ خیردین کو یہ جواب نہیں دینا چاہ رہی تھی جو اس نے دیا تھا لیکن جیسے وہ اس کے لاشعور سے کہیں باہر آیا تھا۔ خیردین نے اسے بے یقینی سے دیکھا وہ اس کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
”چڑیا تم نے ضروری نہیں سمجھا؟” خیردین نے جیسے اسی بے یقینی کے ساتھ اسی کا جواب دہرایا۔ ندامت اور شرمساری کے ایک عجیب سے احساس نے عکس کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ وہ اپنے نانا سے کوئی بات راز میں نہیں رکھتی تھی لیکن یہ ”راز” نہیں تھا یہ ان کی زندگی کا وہ mess تھا جس کو اس نے خیردین کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی تھی۔
”میں اس کی شناخت کے بارے میں آپ کو بتا کر آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی تھی۔” عکس نے بالآخر ایک توجیہہ دینے کی کوشش کی۔ وہ اس سے اب بھی نظریں نہیں ملا رہی تھی، اب بھی سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ اس ضلع کی حاکم تھی۔ اس ضلع میں پتا بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں ہلتا تھا۔ اس کے فیصلوں اور احکامات پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہوتا تھا۔ ایس اینڈ جی اے ڈی کے rules اور ریگولیشنز اس کی فنگر ٹپس پر ہوتی تھی اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات اسے طوطے کی طرح رٹی ہوئی تھیں… وہ گورنمنٹ آف پاکستان کی Ace officer تھی جس کے سامنے اچھے اچھوں کو پسینہ آجاتا تھا لیکن وہ خیردین کی چڑیا تھی جو اس کی گودوں کھلائی ہوئی تھی اور جس کو وہ اندر باہر سے شیشہ کی طرح دیکھ اور پہچانتا تھا۔ وہ اس کی چپ کو کتاب کی طرح پڑھتا تھا اور اس کے جھوٹ کی پیاز کی طرح پرتیں اتار لیتا تھا… اور اس کے باوجود وہ حیران تھا چڑیا اتنی بڑی بات اس سے کیسے چھپا سکتی تھی۔ وہ خیردین کو تکلیف سے بچانا چاہتی تھی یا وہ ایبک شیردل کو خیردین کے کسی متوقع شدید ردعمل سے بچانے کی کوشش کررہی تھی۔




Loading

Read Previous

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Read Next

دادی جان نے دال پکائی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!