عکس — قسط نمبر ۱۴

”شیردل میں واقعی تمہیں نہیں جانتی۔ جس شیردل کو میں جانتی تھی وہ تم نہیں ہو۔” وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ شاید اب یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ شہباز حسین کے معاملے کو ڈسکس کر لینا چاہیے اس سے شہربانو کو کتنی بھی تکلیف کیوں نہ ہوتی۔ شہربانو کی بات سنتے ہوئے شیردل نے سوچا تھا اور اسے ایک بار پھر اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک اور غلط فیصلہ غلط وقت پر کر رہا تھا۔
”شہربانو بیٹھو۔” شیردل نے بالآخر اس کو بازو سے پکڑ کر زبردستی صوفے پر بٹھا لیا تھا۔ شہربانو پر بہت غصہ ہونے کے باوجود شیردل کو اس وقت سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اگر شہربانو کو شہباز حسین کے حوالے سے تفصیلات بتائے تو کس طرح بتائے۔ اسے وہ بت توڑنا تھا جو شہربانو ساری عمر پوجتی رہی تھی اور اس بت کے ٹکڑے شہربانو کو بھی بری طرح زخمی کرنے والے تھے۔ وہ خفگی بھرے انداز میں منتظر تھی اس کے کچھ بولنے کی۔
”میں تمہیں کبھی یہ سب بتانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں اس سے تمہیں بہت تکلیف پہنچے گی لیکن تم نے مجھے بہت مجبور کر دیا ہے۔ تم نے میرے پاس دوسرا کوئی آپشن چھوڑا ہی نہیں۔” شیردل نے بے حد سنجیدگی سے کہنا شروع کیا تھا۔ وہ ماتھے پر بل لیے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
ایک گہری سانس لے کرشیردل نے کہا۔ ”شہباز انکل نے عکس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ وہ اس وقت نو سال کی تھی اور خیردین کو نوکری سے انکل شہباز نے صرف اپنے اس جرم کو چھپانے کے لیے نکالا تھا۔” شیردل نے شہربانو کا چہرہ سفید ہوتے دیکھا… شاک، بے یقینی، خوف… کیا نہیں تھا اس چہرے پر… اسے شہربانو پر ترس آیا تھا۔ وہ بات جاری رکھنا چاہتا تھا اور اس نے آگے
بات شروع کرنے کی کوشش کی جب شہربانو نے اس کے چہرے پر پوری قوت سے تھپڑ کھینچ مارا۔ شیردل نے دوسرے تھپڑ سے پہلے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔




”Don’t you dare do this again… ہاتھ اٹھانا مجھے بھی آتا ہے لیکن بہتر ہے ہم اس کا استعمال نہ کریں۔” اس نے شہربانو کی دونوں کلائیوں کو بہت طیش کے عالم میں جھٹکتے ہوئے کہا تھا۔
”تم اتنا گر سکتے ہو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی شیردل۔” اس نے شہربانو کو کہتے سنا۔ اس کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی اور اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔
”اگر تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو اپنی ممی سے پوچھو اور…” شیردل نے سردمہری سے کہا لیکن شہربانو نے تقریباً چلاتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”میں کسی سے کچھ نہیں پوچھوں گی اور تم دوبارہ پاپا کے بارے میں ایسی کوئی بات کرنے کی جرأت بھی مت کرنا۔” شیردل نے اسے زندگی میں پہلی بار چلاتے سنا تھا یہ ناقابل یقین تھا وہ اس انکشاف پر اس سے اس ردعمل کی توقع نہیں کررہا تھا۔
”تمہاری ممی نے کہا تھا مجھ سے۔ تم اب یہی کرو گے… اس عورت کے کہنے پر پاپا پر الزامات لگاؤ گے لیکن میں کبھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ تم ایک دو ٹکے کی عورت کے لیے اپنی فیملی اپنے خونی رشتے پر کیچڑ اچھال سکتے ہو۔” وہ مزید کچھ کہے بغیراس کے قریب سے اٹھ گئی تھی۔ شیردل کو زندگی میں کبھی منزہ پر اتنا غصہ نہیں آیا تھا انہوں نے اپنے بھائی اور اپنے خاندان کی عزت بچانے کی کوشش میں اس کی زندگی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
شہربانو اب وارڈروب کھول کر اس میں سے اپنے کپڑے نکال نکال کر بیڈ پر پھینکنے لگی تھی۔ اس کا ذہن اس وقت صدمے اور غصے سے ماؤف ہورہا تھا۔
”تم کیا کررہی ہو؟” شیردل نے اسے اپنے کپڑے نکالتے ہوئے دیکھ کر پوچھا مگر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیا کررہی تھی۔
”میں تمہارے جیسے آدمی کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ ممی تمہارے بارے میں جو بھی کہتی تھیں وہ ٹھیک کہتی تھیں کہ تمہاری فیملی کے مرد…” وہ بے حد غصے میں بات کرتے کرتے رک گئی۔
”جملہ پورا کرو اپنا شہربانو… رکو مت۔” شیردل نے اسے جملہ ادھورا چھوڑتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔ ”تمہاری ممی کے اس جملے میں جس مرد کا ذکر ہے وہ انکل شہباز ہیں اور اس جملے میں ان کا ذکر کیوں ہے میں تمہیں ابھی یہی سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔” شیردل نے سردمہری سے اس سے کہا۔ وہ فی الحال شہربانو کو سمجھا بجھا یا منا کر روکنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس کو سامان پیک کرتے ہوئے دیکھ کر اس کی خفگی جیسے کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ شہربانو جذباتی اور امیچور تھی اس کا اندازہ اسے اس سے شادی کرتے وقت بھی تھا لیکن اس سے شادی کے تمام سالوں میں آج پہلی بار اس کی وہ دو خامیاں اس کے لیے مسائل کھڑے کر رہی تھیں۔
”میں تمہاری زندگی سے جارہی ہوں شیردل تمہیں اب یہ سب بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ ایک بار پھر اس پر چلائی تھی۔ شیردل کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
”ٹھیک ہے تمہیں جانا ہے تم جاؤ… مثال تمہارے ساتھ نہیں جائے گی… تم امریکا جاکر چند ہفتے اپنی ممی کے پاس رہو۔ ٹھنڈے دل سے اس ساری صورت حال کے بارے میں سوچو جب تمہارا غصہ ختم ہو جائے اور تمہیں عقل آجائے تو تم واپس آجانا۔” شیردل نے سردمہری سے کہا تھا۔
”مثال کو میں ساتھ لے کر جاؤں گی۔ تم مثال کو کیسے روک سکتے ہو؟” شہربانو نے تلخی سے اس سے کہا تھا۔
”میں کیا کر سکتا ہوں اور کیا نہیں تم مجھے یہ دکھانے کے لیے challenge مت کرو… مثال تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔” شیردل نے دوٹوک انداز میں اس سے کہا۔
”تم اسے روکنے کا کوئی حق نہیں رکھتے سنا تم نے۔” شہربانو نے ایک بار پھر چلا کر کہا تھا۔
”چلانے کی ضرورت نہیں ہے شہربانو… چلانے سے تمہاری بات کی زیادہ سمجھ نہیں آرہی مجھے۔ میں مثال کو تمہارے ساتھ جانے نہیں دوں گا اور میں اس کا باپ ہوں اسے روک سکتا ہوں۔” شیردل نے تحکمانہ انداز میں اسے بتایا۔
”شادی کے پیپرز میں تم نے اولاد کی کسٹڈی مجھے دے دی تھی شیردل۔” شیردل کا دماغ چکرا کر رہ گیا۔ وہ ایک جھگڑے پر نہ صرف طلاق تک جا پہنچی تھی بلکہ شادی کے پیپرز میں لکھی ہوئی شرائط اور حقوق کو اس کے سامنے دہرا رہی تھی۔
”شہربانو میں شہباز حسین نہیں ہوں کہ اپنی بیٹی تمہیں تھما کر پھر ساری عمر اس کی شکل دیکھنے کے لیے ترسوں۔ تمہیں مجھ سے الگ ہونا ہے تو بھی تمہیں پاکستان میں ہی رہنا ہو گا اگر تم مثال کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوتو… میں تمہیں اس کو امریکا ساتھ لے جانے نہیں دوں گا۔” وہ بھی اب بالکل ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔ وہ وارڈروب کے سامنے کھڑی بے بسی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔ وہ مثال کے بغیر وہاں سے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی اور وہ شیردل کے ساتھ مر کر بھی اب رہنا نہیں چاہتی تھی۔
”تم میری بیٹی کو مجھ سے چھین نہیں سکتے۔”
”وہ صرف تمہاری بیٹی نہیں ہے، تمہیں اگر اس کی اتنی پروا ہے تو تم رہو یہاں پر۔” شیردل نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، میں اتنی گری ہوئی ذہنیت کے آدمی کے ساتھ کبھی نہیں رہوں گی۔” شیردل ہونٹ بھینچے اس کی بات سنتا رہا۔
”Thank you very much میں ایسا ہی ہوں اور میں ایسا ہی رہوں گا اور مجھے تم پر اپنی اچھائی ثابت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تم اگرمیرے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تو ٹھیک ہے میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا لیکن مثال کو میں تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔” شیردل نے حتمی انداز میں اس سے کہا۔
”میں legally entitled ہوں اسے اپنے پاس رکھنے کی۔” وہ بات کرتے کرتے بے بسی سے روپڑی۔ شیردل ایک لمحے کے لیے ہل نہیں سکا۔ ان کی شادی شدہ زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ شہربانو کسی بات پر روئی ہو اور شیردل موم نہ ہو گیا ہو لیکن یہ مثال کا معاملہ تھا اور وہ اپنی بیٹی کے لیے ہر قسم کے جذبات کی قربانی دے سکتا تھا۔
”تم اسے امریکا میں رکھ کر اس کی برین واشنگ کرتی رہیں… تم اسے یہ بتاتی رہیں کہ میں بہت بزی ہوں تم لوگوں کے ساتھ وہاں نہیں رہ پاؤں گا اس لیے اسے تمہارے اور تمہاری ممی کے ساتھ ہی وہاں رہنا پڑے گا اور تم یہ چاہتی ہو کہ میں اسے تمہارے ساتھ بھیج دوں تاکہ سال چھ مہینے کے بعد وہ میری شکل تک دیکھنا نہ چاہے… تم شہربانو یہ سارا تماشا پہلے سے پلان کر کے آئی تھیں۔ تم طے کر کے آئی تھیں کہ تمہیں میرے ساتھ نہیں رہنا۔” شیردل چاہنے کے باوجود اپنے لہجے کو نرم نہیں رکھ سکا تھا۔ چند دنوں میں ان دونوں کے بیچ میں اتنی دراڑیں اور دیواریں آگئی تھیں کہ انہیں یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کو جانتے تک نہ ہوں۔
”شیردل میں تم سے کوئی مزید argument نہیں چاہتی، میں صرف اپنی بیٹی کو ساتھ لے جانا چاہتی ہوں یہاں سے۔” شہربانو نے اس کی بات کے جواب میں روتے ہوئے کہا۔
”تم ممی کے پاس لاہور چلی جاؤ وہاں چند ہفتے رہو اس کے بعد…” شیردل نے جیسے اس کے آنسوؤں سے مجبور ہوتے ہوئے کہا۔ شہربانو نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں تمہاری فیملی کے پاس نہیں اپنی فیملی کے پاس جانا چاہتی ہوں، تم لوگوں کی sincerity اور loyalities میرے ساتھ نہیں ہیں۔” وہ اسی طرح روتے ہوئے تلخی سے بولتی جارہی تھی۔ ”You all are a bunch of cheaters and liers (تم سب جھوٹوں اور دھوکہ بازوں کا ٹولہ ہو)۔’ ‘ اس کے جملے نے شیردل کو دوبارہ تپا دیا تھا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ… تمہیں واقعی اپنی ہی فیملی کے پاس جانا چاہیے اور مثال اپنی فیملی کے پاس رہے گی۔ No more argument۔” وہ بے حد غصے میں کہتا ہوا اپنے بیڈ روم سے اوپر اسٹڈی میں آگیا تھا۔ وہ اس کی زندگی کی بدترین راتوں میں سے ایک تھی۔ آپ کو اپنا گھر ٹوٹتا نظر آرہا ہو اور آپ کچھ بھی نہ کرسکتے ہوں اور آپ اس گھر کو قائم رکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہوں۔ ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگاتا ہوا وہ بیٹھا صرف یہ سوچتا رہا کہ وہ کیا کرتا تو اس صورت حال سے بچ سکتا تھا اور وہ کیا نہ کرتا تو یہ جھگڑا اتنا نہ بڑھتا۔ اسے اپنی غلطیاں نظرآرہی تھیں لیکن جو بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اب کیا کرے اس ساری صورت حال سے نکلنے کے لیے… اپنے گھر کو بچانے کے لیے۔
……٭……

شہربانو اگلی صبح دس بجے جاگی تھی۔ بھاری سر اور بوجھل آنکھوں کے ساتھ اس نے مثال کو بتایا تھا کہ وہ لوگ دوبارہ امریکا جارہے ہیں اور اس کے سوالوں کا جواب دیے بغیر اس نے فون اٹھا کر آپریٹر سے rent a car سے ایک گاڑی منگوانے کے لیے کہا تھا۔ جواباً اس نے آپریٹر سے جو سنا تھا اس نے اس کے دماغ کا فیوز اڑا دیا تھا۔
”سوری میڈم ڈی سی صاحب کا حکم ہے کہ یہاں کوئی گاڑی وغیر نہیں آئے گی اور ان کی اجازت کے بغیر آپ گھر سے کہیں نہیں جا سکتیں۔” شہربانو نے ایک لفظ بھی کہے بغیر ریسیور رکھ دیا تھا۔ تذلیل کا ایسا احساس اسے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایک ملازم اس کی بات ماننے سے انکار کررہا تھا کیونکہ اس کے صاحب نے اس کے سامنے اس کی کوئی عزت نہیں رکھی تھی۔ شیردل کے خلاف اس کے دل میں لگنے والی گرہوں میں ایک اور گرہ کا اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ اس کی بیوی تھی اور وہ یہ سلوک deserve نہیں کرتی تھی کہ وہ اسے اپنے ہی گھر میں ایک قیدی بنا دیتا۔ بے حد غم اور خفگی کے عالم میں اس نے اس لاکر میں سے اپنا اور مثال کا پاسپورٹ نکالنا چاہا تھا جہاں ان لوگوں travel documents رکھے ہوتے تھے۔ وہاں اس کا پاسپورٹ تھا لیکن مثال کا پاسپورٹ نہیں تھا۔ شیردل یقینا حفظ ماتقدم کے طور پر صبح آفس جاتے ہوئے مثال کا پاسپورٹ وہاں سے لے گیا تھا۔ وہ کچھ دیر ساکت اس لاکر کے سامنے کھڑی رہی تھی۔ شیردل نے جیسے ان دونوں کے رشتے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔
……٭……




Loading

Read Previous

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Read Next

دادی جان نے دال پکائی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!