عکس — قسط نمبر ۱۴

”شبی اس کیس کو تم بھول جاؤ تم اس میں فریق نہیں ہو۔ تم اس کی تفصیلات نہیں جانتیں… تم حقائق نہیں جانتیں… اس لیے تم سے کہہ رہا ہوں تم اس سارے معاملے سے الگ رہو۔” شیردل نے اس کی بات کے جواب میں بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میں الگ رہوں…؟ میرے باپ کے خلاف ہے یہ کیس… میں کیسے الگ رہ سکتی ہوں۔” وہ شیردل کی بات پر جیسے کچھ اور طیش میں آگئی۔ ”وہ پاپا کو بدنام کرنا چاہتی ہے اور تم اس کا ساتھ دے رہے ہو اور میں اس سارے معاملے سے الگ رہوں کیونکہ تم کیس میں فریق ہو… میں نہیں… اور تم اس لیے فریق بنائے گئے ہو کیونکہ وہ جانتی ہے تم اس کو سپورٹ کرو گے… تم یہ کیس plead نہیں کرو گے… And she will walk away with the cake۔” وہ بے حد طیش میں بول رہی تھی۔ ”اسے مجھے پارٹی بنانا چاہیے تھا… میں شہباز حسین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ تم تو صرف بھانجے ہو۔”
”اس نے اگر تمہیں یا ممی کو فریق بنانے کے بجائے مجھے فریق بنایا ہے تو یہ اس کی favour ہے۔ تم کو اندازہ ہی نہیں ہے پاکستان کے کورٹ سسٹم کا… تمہیں اگر پیشیاں بھگتانی پڑتیں اور گواہوں اور ثبوتوں کا انتظام کرنا پڑتا تو تمہاری عقل دو دن میں ٹھکانے آجاتی وہ بھی اس صورت میں جب یہ کیس 26 سال پرانا ہے۔” شیردل نے بنا لحاظ اسے کہا تھا۔ شہربانو اس کی بات پر تلخی سے مسکراتے ہوئے بولی۔




”میں پاپا کے لیے کچھ بھی کرتی۔ کچھ بھی کر سکتی ہوں۔” شیردل ذرا سا اس کی طرف جھکا اور اس نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”اب تم سمجھ سکتی ہو وہ کیوں 26 سال بعد بھی اپنے نانا کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ صرف تم ہی تو محبت نہیں کرتیں اپنے پاپا سے… ہوسکتا ہے وہ بھی اتنی ہی محبت کرتی ہو۔” شہربانو کچھ دیر کے لیے بول نہیں سکی تھی اور پھر جب وہ لفظ ڈھونڈ پائی تو وہ بری طرح اشتعال میں تھی۔
”تم اس سارے معاملے میں کس کے ساتھ کھڑے ہو؟ کس کو سپورٹ کررہے ہو؟” اس بار چپ ہونے کی باری شیردل کی تھی۔ سامنے پڑی ٹیبل پر سگریٹ کی ڈبیا سے سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے اس نے شہربانو سے کہا۔
”یہ میرا dilemma (دہری مشکل) ہے کہ میں کس کو سپورٹ کروں۔” شہربانو کو اس کے جملے سے زیادہ اس الجھن نے تکلیف دی جس کے ساتھ وہ یہ بات کہہ رہا تھا۔
”تمہارے لیے عکس مجھ سے زیادہ Important ہے نا؟” وہ سوال کرتے ہوئے اس کی آواز میں آجانے والی بھراہٹ نے خود شہربانو کو جھنجلایا۔ اسے لگا وہ خودترسی کا شکار ہورہی تھی۔
”تم بات کو ایک بار پھر غلط ٹریک پر لے کر جارہی ہو۔” وہ پھر برہم ہوا تھا۔
”نہیں یہ بالکل صحیح ٹریک ہے۔ تمہیں یہ dilemma صرف اس لیے ہے کہ تمہیں عکس اور میرے درمیان چوائس کرنی پڑ رہی ہے اوراس عورت کے ساتھ تمہاری bonding اتنی strong ہے کہ تمہیں میں نظر نہیں آرہی… تمہیں اپنے انکل نظر نہیں آرہے… خونی رشتے نظر نہیں آرہے… تمہیں صرف عکس نظر آرہی ہے… اس کا نانا نظر آرہاہے… اور تم مجھ سے کہہ رہے ہو کہ مجھے غلط فہمی ہے… میں بات کو غلط ٹریک پر لے جارہی ہوں۔”وہ خفگی سے بولتی گئی۔ ”تم مجھے صرف ایک بات بتاؤ… یہ عکس کا نانا نہ ہوتا اور ایسا کوئی کیس کسی اور نے میرے پاپا کے خلاف کیا ہوتا تو تم کیا کرتے؟” شیردل سگریٹ پیتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی اس کا dilemma صرف عکس ہی کی وجہ سے تھا اور اس سے بھی بڑھ کر اس لیے کیونکہ وہ اس ‘ماضی’ کا چشم دید گواہ تھا جسے وہ شہربانو کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ شہربانو کو یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کے باپ نے اسے عکس مراد علی کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
”تمہارے پاس جواب نہیں ہے نا؟ میں تمہیں بتاتی ہوں۔” اس کو خاموش دیکھ کر شہربانو نے چند لمحے کے بعد خود ہی کہنا شروع کیا۔ ”عکس کی جگہ کسی اور نے ایسا کوئی کیس کیا ہوتا تو تم اس کا حشر کر دیتے۔”
”اگر کیس غلط ہوتا تو!” شیردل نے اسے ٹوکا تھا وہ اس کی بات پر اور برہم ہوئی تھی۔
”تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ عکس کا نانا جھوٹ نہیں بول رہا اور بابا غلط ہیں۔ تم کیسے 26 سال پہلے ہونے والے ایک واقعے پر judgement دے سکتے ہو۔ صرف اس لیے کہ عکس کہہ رہی ہے۔” وہ شدید غصے میں تھی۔ ”اب تم پاپا کو کیس چلنے اور اس کا کوئی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی مجرم قرار دے رہے ہو۔”
”شبی میں نے کیس کی details دیکھی ہیں۔ documents دیکھی ہیں۔ کسی بھی سرکاری ملازم کی ملازمت سے برخاستگی اس طرح نہیں کی جاتی… انکل شہباز نے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عکس کے نانا کو ملازمت سے نکالا تھا۔ کوئی جرم ثابت ہو یا نہ ہو وہ اسی بنیاد پر ہی اپنی پنشن اور مراعات بحال کروا سکتے ہیں کہ ان کو ملازمت سے نکالتے ہوئے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا۔” شیردل اسے تحمل سے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
”بھاڑ میں جائیں تمام قواعد و ضوابط اور طریقہ کار… I don’t care… میرے لیے اتنا کافی ہے کہ پاپا نے اس کے نانا کو کسی غلط بات پر سزا دی اور یہ بات ختم ہو گئی…” شیردل اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔
”کوئی بھی بات اس طرح ختم نہیں ہو جاتی شبی… اگر انکل شہباز نے rules کو follow کیا ہوتا تو آج ان کے خلاف یہ کیس ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ غلط کام انہوں نے کیا۔”
”جو بھی ہوا ہو گیا۔” شہربانو نے اسی اکھڑے ہوئے اندازمیں کہا۔ ”پاپاجا چکے ہیں اس دنیا سے اور میں تمہاری کسی گرل فرینڈ کو یہ تماشا کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔” شیردل نے اس کے جملے میں موجود اس قابل اعتراض لفظ کو نظرانداز کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”تو میں کیا کروں؟ تم بتاؤ مجھے میں کیسے یہ ثابت کروں کہ انکل شہباز غلط نہیں تھے۔” وہ کچھ جھنجلا گیا تھا۔
”کچھ بھی کرو… تمہارے اور پاپا کے لیے تو یہ مشکل نہیں ہے۔” وہ صاف لفظوں میں شیردل کو جو کہہ رہی تھی اس نے شیردل کی برہمی میں اضافہ کیا تھا۔
”شبی وہ اس شہر میں اس سیٹ پر کام کررہی اور ضلعی انتظامیہ کی ہیڈ کے طور پر وہ سب کچھ کر سکتی ہے اور کررہی ہے… وہ اس سیٹ پر نہ بھی ہوتی تب بھی اس کیس میں انکل شہباز کو defend کرنا مشکل ہوتا۔”
”وہ suspend ہو چکی ہے اوراس کے باوجود وہ اتنی طاقتور ہے کہ تم اور پاپا اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے؟” شہربانو نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”وہ suspend تھی لیکن اب بحال ہو چکی ہے۔” وہ شیردل کی اطلاع پر جیسے چونک گئی تھی۔
”کیسے بحال ہو گئی؟ پاپا نے اسے suspend کروایا تھا پھر وہ کیسے بحال ہو گئی؟” اس بار اس کی بات پر شیردل چونکا تھا۔
”تمہیں کس نے بتایا کہ پاپا نے اسے suspend کروایا تھا؟”
”ممی نے بتایا تھا مجھے امریکا میں۔” شہربانو نے جواباً کہا۔
”اور یہ تمہارے مشورے پر ہوا ہوگا۔” شیردل نے بے حد چبھتے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔ وہ ایک لمحے کے لیے جھجکی پھر اس نے کہا۔
”ہاں میں نے ممی سے کہا تھا۔”
”تو اب وہ دوبارہ آچکی ہے۔” شیردل نے اسی برہمی سے کہا۔
”اور یہ تمہاری کوششوں سے ہوا ہو گا۔” شہربانو نے تلخی سے کہا۔
”شبی تم اپنے ذہن سے یہ بات نکال دو کہ مجھے عکس کے کام نمٹانے کے علاوہ دنیا میں اور کوئی کام نہیں ہے اور اس کا ہر کام میری مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔” وہ اس بار شہربانو کی بات پر جھنجلایا تھا۔ شہربانو پر اس کی خفگی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”اگر پاپا نے اسے suspend کروایا ہے اور وہ چند ہفتے بھی suspend نہیں رہ سکی اور دوبارہ اپنی پوسٹ پر واپس آگئی ہے تو یہ تمہاری مدد کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے…؟ یا وہ تم سے اور پاپا سے زیادہ powerful ہے؟”
”شبی یہ سوال تم پاپا سے کرنا مجھ سے نہیں۔” شیردل نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”اور شبی تم ایک بات اپنے دماغ سے نکال دو کہ اس طرح powers کا استعمال کر کے کوئی فائدہ ہو گا۔ پاپا یا میں اس کو ساری عمر suspend نہیں رکھ سکتے۔ وہ ایک سینئر آفیسر ہے ڈی ایم جی کی۔ ایک باورچی نہیں ہے کہ اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔ گورنمنٹ نے 60، 70 لاکھ روپیہ لگوا کر اسے ہارورڈ سے دو سال train کروایا ہے۔ تمہیں لگتا ہے کہ گورنمنٹ اسے کسی fake انکوائری میں سالوں suspend رکھ سکتی ہے۔ she is one of the best officers that we have وہ اگر آج جاب چھوڑ دے تو بھی اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ وہ ڈاکٹر ہے… ہارورڈ گریجویٹ ہے۔ ڈی ایم جی میں دس سال کام کر چکی ہے… شبی وہ پاکستان کے اندر اور باہر کسی بھی آرگنائزیشن میں اس سے بھی اچھی پوسٹ پرکام کر سکتی ہے۔ یہ پوسٹ اس کے لیے مجبوری نہیں ہے اور اس نوکری کو ہم اس کے لیے پھندا نہیں بنا سکتے جو تم چاہتی ہو۔”
”تم یہ سب بتا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو مجھ پر؟”
”کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنی آنکھوں پر لگی ہوئی تعصب کی اس عینک کو اتار کر اس سارے معاملے کو دیکھو… عکس مراد علی جو بھی کررہی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں ہے۔” شیردل نے بات کرتے ہوئے نرمی سے اس کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی جو شہربانو نے انتہائی بے رخی کے ساتھ جھٹک دی۔
”شیردل تم اس عورت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کس حد تک جاؤگے؟”
”شبی تم بار بار یہ بات کیوں کررہی ہو؟ تم بار بار اس عورت کو اپنے اور میرے بیچ کیوں لارہی ہو؟” اس بار شیردل نے بالآخر بہت خفگی کے ساتھ اس سے کہا تھا۔
”میں لارہی ہوں؟ شیردل اسے ہم دونوں کے درمیان لاکر تم نے کھڑا کیا ہے۔” شہربانو نے جواباً تلخی سے اس سے کہا تھا۔
”تم کیا چاہتی ہو مجھ سے؟ میں کیا کروں؟” شیردل نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے یک دم اس سے پوچھا۔ وہ دونوں ایک بار پھر چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”تم اسے کہو گے کہ کیس واپس لے لے تو وہ لے لے گی۔” شہربانو نے بالآخر اس سے کہا۔
”میں نہیں کہوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں وہ نہیں لے گی۔” شیردل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا۔
”شیردل تم اس عورت کے لیے…” شیردل نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”شبی وہ میری دوست ہے اور دوست کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس لیے تم بار بار اس کے اور میرے حوالے سے کچھ ایسا مت کہو جسے سن کر مجھے تمہاری mentality پرافسوس ہو۔” شہربانو اس کی بات پر یک دم برہم ہو گئی۔
”تم دونوں ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے تھے… مر رہے تھے ایک دوسرے سے شادی کے لیے… اور تم مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں تم دونوں کو صرف دوست سمجھوں۔”
”وہ ماضی کی بات ہے اور وہ سب گزر چکا ہے۔ میں happily married ہوں اور اس کی بھی شادی ہونے والی ہے تو تم بار بار وہ والا chapter مت کھولو جسے میں بند کر چکا ہوں۔” شیردل نے اس بار بہت خفگی سے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ وہ واقعی عکس اور اپنا اس پیرائے میں بار بار ذکر سن کر تنگ آگیا تھا۔ شہربانو اور اس کے درمیان زندگی میں پہلی بار اس طرح کی گفتگو ہورہی تھی اور شیردل کے لیے شہربانو کی زبان سے اس طرح کی باتیں سننا سخت تکلیف دہ تھا۔
”تم نے مجھ سے کبھی اپنی زندگی کا یہ chapter شیئر نہیں کیا… کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ تم عکس میں انٹرسٹڈ تھے۔” شہربانو نے عجیب سی رنجیدگی کے ساتھ اس سے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Read Next

دادی جان نے دال پکائی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!