عکس — قسط نمبر ۱۴

شیردل چار بجے کے قریب اپنے آفس میں مارکیٹ کمیٹی کی ایک میٹنگ کو چیئر کررہا تھا جب اس کے آفس کا آپریٹر بہت گھبراہٹ کے عالم میں اندر آیا تھا۔ میٹنگ روم میں کالز دینے کی اجازت نہیں تھی۔ شاید وہ اس لیے خود آگیا تھا۔
”سر، گھر میں ایمرجنسی ہو گئی ہے۔” شیردل کے دل کی دھڑکن چند لمحوں کے لیے جیسے عجیب خوف کے عالم میں رکی تھی۔
”کیا ہوا؟”
”سر گھر سے آپریٹر کا فون آیا ہے امریکن قونصلیٹ کے لوگ وزارت داخلہ کے چند آفیسرز کے ساتھ وہاں آئے ہیں۔” آپریٹر نے بہت نپے تلے لفظوں میں ان لوگوں کی آمد کا مقصد بتائے بغیر شیردل کو آنے والی مصیبت سے خبردار کیا۔ زندگی میں پہلی بار شیردل کے قدموں کے نیچے سے زمین جیسے واقعی نکل گئی تھی۔ اسے کسی مزید سوال و جواب کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا امریکی قونصلیٹ کو مدد کی کال کس نے دی تھی اور وہ کس کو rescue کرنے وہاں آئے تھے مگر جس چیز پر اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ یہ تھی کہ شہربانو اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتی تھی۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر یک دم میٹنگ کو کینسل کرنے کا اعلان تک کیے بغیر وہاں سے نکل گیا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو گھر چلنے کا کہہ کر اس نے بختیار شیردل کو فون کر کے اس معاملے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ وہ بھی اس کی طرح شاکڈ رہ گئے تھے۔
”آپ ان دونوں کا نام ECL میں ڈلوا دیں ورنہ شہربانو مثال کو لے کر چلی جائے گی۔ امریکن قونصلیٹ والے اس کے travel documents گھنٹوں میں تیار کر لیں گے۔” وہ اب باپ سے کہہ رہا تھا جو اب برہم تھا۔




”شہربانو اس طرح کی حرکت کیسے کر سکتی ہے اس نے تمہاری عزت اور reputation کا خیال نہیں کیا، فیملی کے نام کا خیال نہیں کیا۔ دو چار گھنٹوں میں ڈویژن میں اس چھاپے کا شور مچ جائے گا… Your wife is an idiot۔” بختیار اب شدید برہم تھے۔ ان کے خاندان کو پہلی بار ایسی سبکی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
”پاپا میں وہ فصل کاٹ رہا ہوں جو ممی نے میرے لیے تیار کی ہے۔ ممی کی false pride اور جھوٹ نے میرا گھر توڑ دیا۔” اس نے مزید کچھ کہے بغیر فون بند کر دیا۔
اس کی رہائش گاہ پر بھاری بھرکم گاڑیوں کی ایک لمبی قطار موجود تھی اور گیٹ کھلے ہوئے تھے۔ وہ public humiliation تھی جس کا وہ اس وقت سامنا کررہا تھا اور جو شہربانو کی طرف سے اس کے لیے تحفہ تھی۔
وہ اس کی سرکاری رہائش گاہ تھی اور اس کا دروازہ اس کی اجازت کے بغیر نہ کوئی کھول سکتا تھا نہ وہاں کوئی آسکتا تھا لیکن اس وقت اس کے لاؤنج میں دس بارہ مرد موجود تھے جن میں ایک سفید فام تھا۔ بے حد سردمہری سے ہونے والے چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد شیردل نے ان سے کہا کہ وہ شہربانو کے ساتھ بات کرنا چاہتا تھا۔ اس کی اس بات کو اس سفید فام کے ساتھ آئے ہوئے امریکن قونصلیٹ کے ایک پاکستانی اہلکار نے بڑی بدتمیزی اور رکھائی کے ساتھ رد کیا تھا اور وزارت داخلہ کے ساتھ آئے ہوئے ان اہلکاروں نے اسے اپنے بیڈ روم کی طرف جانے سے روک دیا۔
”میری بیوی جانا چاہتی ہے آپ اسے لے جائیں لیکن آپ لوگ میری بیٹی کو نہیں لے جا سکتے۔” شیردل نے برہمی کے ساتھ کہا۔ وہ اپنے غصے پر قابو رکھنے کی شدید کوشش کررہا تھا کیونکہ اسے صورت حال کی سنگینی کا اچھی طرح اندازہ تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی مزید جھگڑے کے نتیجے میں معاملہ مزید خراب ہو لیکن خود پر کنٹرول کرنا اس وقت بالکل آسان نہیں تھا۔ وہ اس کا گھر تھا اور وہ اسے اس کے اپنے گھر میں اس کمرے سے نکلنے نہیں دے رہے تھے اس سے بڑھ کر کوئی اس کی کیا بے عزتی کر سکتا تھا۔
پانچ منٹ گزرے تھے اسے ان لوگوں سے بحث کرتے جب قونصلیٹ کی ایک خاتون اہلکار کے ساتھ شہربانو، مثال کو اٹھائے ہوئے وہاں آئی تھی اور اس کے آتے ہی وہاں موجود تمام لوگ جانے کے لیے کھڑے ہو گئے تھے۔ مثال نے باپ کو دیکھتے ہی بہت خوشی کے عالم میں دونوں بازو اس کی طرف پھیلائے تھے۔ شیردل بے اختیار اس کی طرف گیا تھا لیکن ایک اہلکار ان دونوں کے درمیان آگیا۔
”شہربانو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ہم یہ مسئلہ خود حل کر سکتے ہیں۔” شیردل نے اپنے سارے غصے ساری انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے مصالحت کی ایک اور کوشش کی تھی۔
”میں تم سے کسی بھی قسم کی بات کرنا نہیں چاہتی۔ You are not worth it۔” شہربانو نے بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے کہہ کر ان تمام لوگوں کے ساتھ بیرونی دروازے کی طرف قدم بڑھادیے۔
”پاپا… پاپا… I want to go to Papa۔” مثال نے ایک دم ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے حواس باختگی میں رونا شروع کر دیا تھا۔ اسے شاید پہلی بار اندازہ ہوا تھا کہ شہربانو اسے شیردل سے دور لے جانے کی کوشش کررہی تھی۔ شیردل اس کے بلکنے پر بے قرار ہو کر اس کے پیچھے گیا تھا۔ وزارت داخلہ کے لوگوں نے اس کا راستہ روک لیا تھا اور تب تک اسے وہیں رکھا جب تک شہربانو قونصلیٹ کے افراد کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کروہاں سے چلی نہیں گئی۔ ان کے وہاں سے جانے کے بعد وہ لوگ بھی شیردل سے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں بات کرتے ہوئے چلے گئے۔ شیردل جانتا تھا کہ وہ لوگ اب وہاں سے جا چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ میکانیکی انداز میں ڈرائیووے میں نکل آیا تھا جو اس وقت مکمل طور پر خالی تھا۔ وہاں فور ویلز گاڑیوں کے ٹائرز کے نشانات کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ ماؤف ذہن اور حواس کے ساتھ بے یقینی کے ایک عجیب عالم میں بہت دیر وہاں کھڑا بہت دیر بند گیٹ کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ گاڑیاں گئی تھیں۔ اس کے کانوں میں مثال کے رونے کے علاوہ کسی کی آواز نہیں آرہی تھی اور وہ جانتا تھا وہ گاڑی میں بھی اسی طرح رو اور چلا رہی ہو گی۔
……٭……
”ECL پر نام ہیں دونوں کے… وہ کم از کم پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔ میں امریکن قونصلیٹ میں کسی جاننے والے کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ شہربانو سے کسی طرح رابطہ ہو سکے۔” بختیار نے شیردل کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔ شیردل، شہربانو کے وہاں سے جانے کے بعد فوری طور پر لاہور بختیار کے پاس چلا آیا تھا۔ منزہ تب تک اس سارے معاملے کے بارے میں جان چکی تھیں اور وہ بھی اسی طرح کے شاک میں تھیں جیسا شاک بختیار اور شیردل کو لگا تھا جو آخری چیز وہ شہربانو سے expect کر سکتے تھے وہ ایسا کوئی قدم تھا۔ بختیار، شیردل کے لاہور پہنچنے سے پہلے منزہ پر بھی خاصا برس چکے تھے۔ کوئی عام حالات ہوتے تو منزہ، بختیار کی اس ڈانٹ ڈپٹ کو کبھی برداشت نہ کرتیں لیکن اب وہ بھی بے حد ندامت کے عالم میں یہ سب کچھ سنتی رہی تھیں اور وہ ندامت دو گھنٹوں کے بعد شیردل کو اپنے گھر پر دیکھ کر بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے شیردل کو کبھی اس حال میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ صرف شہباز حسین تھا جسے شرمین کے شہربانو کو لے جانے کے بعد وہ اس حال میں دیکھتی رہی تھیں اور شیردل اور شہباز میں نظر آنے والی اس مماثلت نے منزہ کو ہولا دیا تھا۔
شیردل نے گھر آکر منزہ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اس نے منزہ کو دیکھنے کے باوجود انہیں مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ملازم سے بختیار کا پوچھا تھا اور ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ منزہ نے اسے روک کر اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن شیردل نے بے حد درشتگی سے ان سے کہا تھا۔
”میں آپ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی میں اور پاپا آپ کے سامنے کوئی بات کریں گے۔ آپ مت آئیں میرے پیچھے۔” وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا۔ منزہ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئیں، وہ جیسے انہیں shutup کال دے کر گیا تھا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو منزہ شیردل کے ایسے جملوں پر اسے اپنے گھر میں کھڑے رہنے تک نہ دیتیں لیکن آج وہ اس کے ان توہین آمیز جملوں کے باوجود اس کے خلاف اپنے دل میں کچھ برا نہیں لا سکی تھیں۔ وہ اپنے بیٹے کی نظروں میں اپنی غلطیوں کی وجہ سے گری تھیں اور انہیں اس وقت پہلی بار بری طرح سے احساس جرم ہورہا تھا۔ شہربانو کا مثال کو اس طرح سے لے جانا ان سے بھی ہضم نہیں ہو پارہا تھا۔ تاریخ جیسے ایک ہی گھر میں اپنے آپ کو دوبارہ دہرانے لگی تھی۔
شیردل کے منع کرنے کے باوجود وہ اس کمرے میں آنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکی تھیں جہاں وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں نے بات چیت کرتے کرتے منزہ کو اندر آتے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کی تھی لیکن اس کے بعد پھر بات کرنے لگے تھے۔ اس وقت منزہ سے زیادہ بڑا مسئلہ ان کے لیے شہربانو اور مثال کو پاکستان سے چلے جانے سے روکنا تھا۔ منزہ کو لعنت ملامت بعد میں بھی ہو سکتی تھی۔
بختیار، شیردل کے ساتھ گفتگو کے دوران مسلسل مختلف جگہوں پر فون کرنے میں مصروف تھے اور شیردل نے لاہور آنے کے سفر کے دوران اپنے کچھ سینئر آفیسرز کی کالز ریسیو کر کے ان سے صورت حال کی وضاحت کی تھی جو اس کے گھر پر ہونے والے اس واقعے سے باخبر ہو چکے تھے۔ شیردل کو اندازہ تھا کہ صرف اس کے ڈویژن کے آفیسرز ہی نہیں اس وقت پورے پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ میں اس کے گھر پر ہونے والا یہ چھاپا ہی ڈسکس ہورہا ہو گا۔ وہ جیسے صرف چند گھنٹوں میں ایک قابل آفیسر سے صرف ایک ”برا شوہر” بن کر رہ گیا تھا جو اپنی امریکن بیوی پر اتنا بھی کنٹرول نہیں رکھ سکا کہ اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کر لیتا۔
شیردل نے چند ایک سینئر آفیسرز کی کالز کے بعد دوسرے آفیسرز اور اپنے بیچ میٹس کی طرف سے آنے والی کالز لینا بند کر دیں۔ اس میں فی الحال بار بار اس سارے قصے اورشہربانو اور اپنے اختلافات کو دہرانے کا کی ہمت نہیں تھی اور نہ ہی اسے ان میں سے کسی کی solidarity اور سپورٹ کی ضرورت تھی… ان میں سے کسی کی سپورٹ اس کی زندگی کے اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتی تھی۔
بختیار اور شیردل شام تک بیٹھے مختلف جگہوں پر فون کرتے ہوئے شہربانو سے رابطہ کی کوشش کرتے رہے۔ صرف اس اطمینان کے ساتھ کہ وہ پاکستان میں ہی تھی لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ امریکن قونصلیٹ کی مدد کے ساتھ شیردل کے گھر سے آنے کے چار گھنٹے کے بعد مثال کے وزارت داخلہ کی مدد سے بنوائے گئے ایمرجنسی ٹریول ڈاکومنٹس کے ساتھ پاکستان سے جا چکی تھی۔ یہ بختیار کی خوش فہمی تھی کہ اس کی ہدایات پر ان دونوں کا نام ECL پر ڈالا جا چکا تھا۔ ان دونوں کا نام ECL پر ڈالنے کے احکامات تو یقینا ایشو ہو چکے تھے لیکن ان احکامات کو امریکی قونصلیٹ کی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے تب تک مؤخر رکھا گیاجب تک شہربانو اور مثال اپنی فلائٹ پر بیٹھ نہیں گئیں۔
شیردل اس تمام عرصے کے دوران پاگلوں کی طرح بار بار شہربانو کے فون پر کال کرنے کی کوشش کرتا رہا، صرف اس امید پر کہ شاید اس کا بند فون کسی دوسرے سے بات کرنے کے لیے کھلا ملتا اور اس کی کال آنے پر شاید شہربانو اس کی کال ریسیو کر لیتی۔ شاید تب تک اس کا غصہ ختم ہو چکا ہو۔ اس نے اسے درجنوں نہیں سیکڑوں text کیے تھے معذرت کے… ایک دفعہ بات کرنے کی request کے… اس کی ہر بات ماننے کے وعدے کے… اس کی تمام شکایات دور کرنے کے… اور ان میں سے ہر text کو ٹائپ کرتے اور بھیجتے ہوئے شیردل نے اپنی انا اور عزت نفس کو بار بار روندا تھا… اسے شہربانو پر جتنا غصہ تھا اس کے بعد وہ زندگی میں دوبارہ کبھی اس کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتا تھا… اس کے ساتھ رہنا دور کی بات تھی۔ لیکن اس کے پاس مثال تھی۔ روتی ہوئی مثال… وہ طوطا جس میں جن کی جان تھی… اور شیردل اپنی بیٹی کی خاطر اس وقت اپنے غصے اور انا کو بھلا بیٹھا تھا۔
اس کے کسی text کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ شہربانو کا فون مسلسل بند ہی رہا تھا۔ شام کو سات بجے بختیار کو بالآخر قونصلیٹ کے کسی اہلکار نے شہربانو اور مثال کے پاکستان سے چلے جانے کی اطلاع دی تھی۔ بختیار اور شیردل کے لیے یہ جیسے ایک اور بڑا سیٹ بیک تھا۔ ECL پر نام ہونے کے باوجود وہ دونوں کیسے چلی گئی تھیں یہ بھی بہت دیر تک راز نہیں رہا تھا۔ وہ لوگ جیسے سکتے میں چلے گئے تھے۔ ابھی تک جو امید شیردل کو جدوجہد کرتے رہنے پر اکسا رہی تھی وہ یہی تھی کہ وہ دونوں پاکستان میں ہی تھیں اگر فوری طور پر نہیں تو چند دنوں میں اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا لیکن ان دونوں کا تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان سے نکل جانا جیسے شیردل کے لیے پھانسی کے پھندے سے لٹک جانے کے مترادف تھا۔ بری خبر صرف یہ نہیں تھی کہ وہ دونوں پاکستان سے چلی گئی تھیں۔ بری خبر یہ تھی کہ شیردل کی شہربانو کے ساتھ شادی امریکا میں ہوئی تھی اور وہ نکاح نامے میں طلاق کا حق شادی کے وقت شہربانو کو تفویض کر چکا تھا۔ شہربانو کو اب اس سے طلاق کے لیے پاکستان واپس آنے کی ضرورت نہیں تھی۔یئ٥
……٭……
پتا نہیں غصے کی وہ کون سی حالت ہوتی ہے جس میں انسان برسوں کے ساتھ اورساتھی کو لمحوں میں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ پیار، محبت، اعتماد، دوستی کوئی چیز پاؤں کی زنجیر نہیں بن پاتی۔
شہربانو، شیردل کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی اور اسے اس شخص کو زندگی سے نکال دینے کا فیصلہ کرنے میں چند منٹ لگے تھے۔ شہباز حسین کے بارے میں کیے جانے والے اس کے انکشاف نے شہربانو کو کچھ اس بری طرح سے ہرٹ کیا تھا کہ وہ اپنے اور اس کے تعلق کے بارے میں سب بھول گئی تھی۔ اگر کوئی چیز اسے یاد رہی تھی تو صرف یہ کہ شیردل نے اس کے پاپا پر ایک عورت کی باتوں میں آکر گھناؤنا الزام لگایا تھا… اس کے آئیڈیل پاپا پر… جو کبھی کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے تھے… جن کو وہ سارا بچپن آئیڈیلائز کرتی رہی تھی۔ وہ اس mode of denial (کسی بات سے انکاری ہونا) میں تھی جس میں ہم سب اپنے اپنے آئیڈیل کو defend کرنے کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ حقائق کو جھوٹ کہتے ہیں اور اس کے لیے دیے جانے والے دلائل کو بکواس… کیونکہ ہم اپنے بہت اندر کہیں نہ کہیں اس یقین کے جڑ پکڑنے سے ڈرتے ہیں جو ہمیں آئینے میں حقیقت کا اصل عکس دکھا رہا ہوتا ہے۔ آنکھیں اور کان بند کر کے کبوتر بن کر ہم اپنے آئیڈیل اور عزیز ترین شخص کے بت کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے ہیں۔ شہربانو نے بھی یہی کیا تھا وہ اپنے ”آئیڈیل پاپا” کے image (ساکھ) کو بچاتے بچاتے اپنی ”آئیڈیل زندگی” کو گنوا بیٹھی تھی بالکل منزہ کی طرح جو ایک ”آئیڈیل بھائی” کے image کا دفاع کرتے کرتے اپنے شوہر اور اولاد کی نظروں میں گر گئی تھی۔
شہربانو کے لیے ”حقیقت” شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ بنتی اگر اس نے حقیقت کو منزہ یا شرمین کی کسی سرگوشی میں سنا ہوتا لیکن وہ حقیقت اس نے شیردل کے منہ سے علی الاعلان سنی تھی اور اس وقت سنی تھی جب خود شیردل کا image عکس کی وجہ سے اس کی نظروں میں مسخ ہو چکا تھا۔
امریکن قونصلیٹ کو فون کرنے سے ان کی آمد، پھر شیردل کے گھر سے روانگی اور پھر پاکستان سے امریکا جانے والی فلائٹ پر چڑھنے تک وہ اشتعال میں تھی… ہوش و حواس کو کھا جانے والا اشتعال… شیردل یک دم جیسے وہ punching bag (باکسروں کے پنچ مارنے کی پریکٹس کرنے والا بیگ) بن گیا تھا۔ جس کی شہربانو کو ساری عمر ضرورت رہی تھی کوئی ایسا شخص جس پر وہ سارا غصہ نکال سکے جو اس نے شہباز حسین کو کھو دینے پر محسوس کیا تھا اپنے بچپن کی وہ ساری فرسٹریشن جو باپ کے ایک دم کسی وجہ کے بغیر زندگی سے غائب ہو جانے پر اس کے پورے بچپن کو مسخ کرتی رہی تھی۔ وہ شرمین پر بچپن میں بھی اپنا غصہ اس طرح سے نہیں نکال پائی تھی جس طرح وہ نکالنا چاہتی تھی کیونکہ لاشعوری طور پر اسے کہیں نہ کہیں یہ احساس تھا کہ اب اس کے علاوہ دنیا میں فیملی نام کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں تھی اور وہ مالی، جسمانی، جذباتی طور پر اس کی مدد اور سہارے کی محتاج تھی۔ فاروق سے شرمین کی شادی نے ماں کے حوالے سے اس کے عدم تحفظ کو جیسے اور بڑھا دیا تھا لیکن شیردل کے ساتھ معاملہ دوسرا تھا۔ اسے دشمن بنانا آسان تھا کیونکہ شہربانو کی نظروں میں اب وہ ایک پیار کرنے والا جان چھڑکنے والا وفادار ساتھی اور شوہر نہیں تھا صرف ایک cheater (دھوکے باز) تھا جو اس کے ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسری عورت کے ساتھ بھی افیئر چلا رہا تھا اور اس عورت کی محبت میں وہ اس کے باپ پر کیچڑ اچھال رہا تھا۔ اس کے پاس مثال کی شکل میں اب فیملی تھی وہ تنہا نہیں تھی۔ وہ شیردل کی محتاج نہیں تھی۔ وہ شیردل کو اتنا ہی ہرٹ کرنا چاہتی تھی جتنا وہ ہوئی تھی۔




Loading

Read Previous

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Read Next

دادی جان نے دال پکائی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!