“Misal we are not going any where” (مثال ہم کہیں نہیں جارہے) شیردل نے بالآخر اس خفگی کو جھٹکتے ہوئے مثال سے دوٹوک انداز میں کہا جو اس وقت وہ شہربانو کے لیے محسوس کر رہا تھا۔
“But why Papa?” (لیکن کیوں پاپا؟) مثال نے احتجاج کیا۔
“Because I want you to live with me” (کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ رہو)۔ شیردل نے اس سے کہا تھا۔ مثال اگلا سوال کرنے کی تیاری میں تھی لیکن شیردل فی الحال سوال و جواب کے اس سلسلے کو آگے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے مثال کو ٹوکتے ہوئے پیار سے کہا۔ ”Papa wants to sleep sweetie۔”
”oh ok۔” مثال نے فوراًکہا۔ وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئی۔ شیردل نے آنکھیں بند کرلیں۔
“Papa do you want me to give you a Paarie” (پاپا کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کوپیار کروں) مثال نے چند لمحے بعد یک دم سر اٹھا کر شیردل سے کیا۔
“Oh yes honey how can I forget that?” (او ہاں ہنی یہ میں کیسے بھول سکتا ہوں) شیردل نے جواباً کہا۔ مثال نے بڑی خوشی خوشی اس کے سینے پر ہی کچھ آگے کھسکتے ہوئے اس کے دونوں گال باری باری چومے۔ یہ بھی ایک معمول تھا۔ وہ اگر شیردل کے پاس سو رہی ہوتی اور شیردل تھکا ہوا ہوتا اور سونا چاہتا تو مثال اس کے گال چومتی تھی اور شیردل ظاہر کرتا جیسے اس کے بعد اسے فوراً نیند آگئی تھی۔ مثال اس کے گال چومنے کے بعد ایک بار پھر اس کے سینے پر سر رکھ کر اطمینان سے لیٹ گئی تھی۔ اس کے وجود کے گرد اپنے بازو لپیٹے شیردل نے آنکھیں بند کر لیں۔ فی الحال دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے وہ سکون کی اس جنت سے بدلنا چاہتا تھا جو اس کے سینے پر اس وقت دھری تھی۔
وہ جس وقت الارم کی آواز پر دوبارہ جاگا تھا اس نے مثال کو اپنے پاس نہیں پایا۔ اسے اندازہ تھا وہ اٹھ کر یا تو واپس شہربانو کے پاس چلی گئی ہو گی یاپھر اس وقت صبح سویرے اپنے معمول کے مطابق گھر میں ادھر ادھر پھر رہی ہو گی اپنی کسی سائیکل پر یا کسی کھلونے کے ساتھ۔
گھر کا اندرونی دروازہ ملازموں کے لیے کھولنے کے بعد وہ آکر آفس کے لیے تیار ہونے لگا تھا اور ناشتا کرنے کے بعد وہ آفس جانے سے پہلے مثال کے بیڈ روم میں آیا تھا۔ شہربانو جاگ رہی تھی لیکن اس کے کمرے میں داخل ہونے پر اس نے کمبل خود پر کھینچتے ہوئے کروٹ لے کر آنکھیں بند کرلی تھیں۔ شیردل نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اگر اس نے صبح سویرے مثال کی وہ گفتگو نہ سنی ہوتی تو وہ اس سے بات کرنے کی ایک اور کوشش ضرور کرتا لیکن اس وقت اس نے بستر میں ایک ٹیڈی بیئر کے ساتھ لیٹی ہوئی مثال کے ساتھ چند باتیں کر کے اسے پیار کر کے خدا حافظ کہا اور آفس آگیا تھا۔
آفس میں اس دن کام کے دوران وہ لاشعوری طور پر شہربانو کی طرف سے کسی ٹیکسٹ میسج یا کال کا منتظر رہا۔ اس نے رابطہ نہیں کیا تھا۔ ان کی ازدواجی زندگی میں یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ آفس میں پورے دن کے دوران ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا رابطہ نہ ہوا ہو۔ وہ دونوں دن میں ایک آدھ بار ضرور کال کر لیتے تھے چاہے چند منٹ ہی کے لیے… شہربانو اسے سارا دن text کرتی رہتی تھی اور وہ مصروف ہونے کے دوران بھی ان ٹیکسٹ میسجز کو reply کرنا نہیں بھولتا تھا۔ اس کے بھیجے ہوئےJokes اور quotes بھی شیردل کے لیے آفس کی تھکا دینے والی مصروفیات کے دوران جیسے relaxation دینے والے چند Invaluable لمحے تھے جن کا وہ منتظر رہتا تھا اور آج سیل فون پر اس کے نام کی عدم موجودگی نے شیردل کے اسٹریس میں بغیر کسی وجہ کے اضافہ کیا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے فرینڈز اور بیچ میٹس سے سنتا رہتا تھا کہ بیویوں کے ساتھ ہونے والے تنازعات کس طرح ان کی ذہنی اور کام کی استعداد کو متاثر کرتے تھے لیکن وہ خود پہلی بار اس کا سامنا کررہا تھا۔
اس دن وہ آفس میں اتنا زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار رہا تھا کہ شام کو خلاف معمول آفس سے جلدی گھر آگیا تھا۔ شہربانو مثال کے ساتھ لان میں تھی۔ شیردل ڈرائیووے میں اترنے کے بعد گھر کے اندر جانے کے بجائے سیدھا لان میں ہی چلا گیا تھا۔ شہربانو لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھی اور مثال سائیکل چلا رہی تھی۔ شیردل نے ملازم سے اپنے لیے بھی چائے وہیں لانے کو کہا تھا۔ مثال کچھ دیر اس کے ساتھ بات کرتی رہی اور اس دوران شہربانو چائے پیتی رہی۔ جب تک شیردل کے لیے چائے آئی وہ اپنی چائے ختم کر چکی تھی۔ مثال اب دوبارہ اپنی سائیکل کے ساتھ مصروف ہو چکی تھی۔ شہربانو کو بنا بات کیے اٹھتے دیکھ کر شیردل نے اسے روکنے کی کوشش کی۔
”چائے بنا دو مجھے۔”
”ملازم کو بھیجتی ہوں وہ بنا دے گا۔” وہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔ اسے وہاں سے جاتے دیکھ کرشیردل کا دل کچھ عجیب انداز میں ہر چیز سے اچاٹ ہوا تھا۔ اس تنازعے کے حل ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے سوائے اس کے کہ وہ اس سے جھوٹ بولتا اور وہ اب یہی کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔
……٭……
”یہ جو کچھ بھی ہوا ہے شیردل کی وجہ سے ہوا ہے۔” منزہ نے فون پر شہربانو سے کہا۔ ”تمہیں اس کے بارے میں اسی سے پوچھنا چاہیے۔”
”ممی آپ مجھ سے پوچھے بغیر صرف شیردل کے کہنے پر اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتی ہیں؟” شہربانو نے شدید برہمی کے عالم میں منزہ سے کہا۔ منزہ نے اس کے فون کرنے پر اسے یہ اطلاع دے دی تھی کہ وہ بختیار کے مجبور کرنے پر عکس کے گھر ان کے ساتھ گئی تھیں اور وہاں بختیار نے شہباز کی غلطی تسلیم کرتے ہوئے خیردین کا دعویٰ درست قرار دیتے ہوئے اس کے واجبات اور مراعات کا نوٹیفکیشن جاری کروا دیا تھا۔البتہ انہوں نے شہربانو کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ دونوں وہاں معذرت کے لیے گئے تھے نہ ہی انہوں نے اس معذرت کی اصل وجہ شہربانو کو بتائی تھی۔ شہربانو کو بتانے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ بختیار اور شیردل نے شہباز کو defend کرنے کے بجائے اس کی غلطی تسلیم کرلی تھی۔
”اگر میرے ہاتھ میں کچھ ہوتا تو تم دیکھتیں میں عکس اور خیردین کا کیا حشر کرتی، میں انہیں مزہ چکھا دیتی اس قسم کا کیس کرنے پر… لیکن شہربانو میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا یہ سارا مسئلہ شیردل کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ اگر اس عورت کو اس طرح blindly سپورٹ نہ کرتا تو بختیار کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے لیکن شیردل کو عکس کے سامنے اور کوئی نظر نہیں آتا۔ ماں نہیں… بیوی نہیں… وہ انکل نہیں جو سارا بچپن اسے سر پر اٹھائے پھرتا رہا۔” شہربانو کے ساتھ بات کرتے ہوئے منزہ کو وہ ہتک یاد آرہی تھی جو انہوں نے شیردل کے انکشافات کی وجہ سے اپنے شوہر کے سامنے اٹھائی تھی۔ شیردل نے ان کے شوہر کے سامنے ان کے اپنے خاندان کی جیسے دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں اور منزہ کے لیے ہتک اور ہزیمت کے اس احساس کو بھلانا آسان نہیں تھا لیکن شیردل کے خلاف شہربانو سے یہ ساری گفتگو کرتے ہوئے انہیں اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ شہربانو اور شیردل کے درمیان اختلافات کے جو بیج بو رہی تھیں وہ ان دونوں کا رشتہ توڑ دینے کا باعث بنے گا۔
اپنے شوہر کی ماں کے منہ سے سننے والے آخری جملے شہربانو کے لیے بے حد تکلیف دہ اور حوصلہ شکن تھے۔ منزہ نے جیسے اس کے ان خدشات پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی جو وہ عکس اور شیردل کے کسی تعلق کے حوالے سے رکھتی تھی۔ وہ یہ ساری باتیں کسی دوسرے شخص سے سن رہی ہوتی تو وہ کبھی یقین نہ کرتی لیکن شیردل کی بدقسمتی یہ تھی کہ یہ ساری باتیں شہربانو سے کہنے والی خود منزہ تھیں جو سازشی یقینا نہیں تھیں لیکن فی الحال لاجواب بے وقوفی کا مظاہرہ کررہی تھیں۔
”آپ لوگ میرے پاپا کے خلاف یہ نہیں کر سکتے… You can’t disgrace his name۔” شہربانو بات کرتے کرتے رو پڑی تھی اور اس کے رونے پر منزہ کی آنکھیں بھی نم ہونے لگی تھیں۔
”بیٹامیں تمہاری فیلنگز سمجھتی ہوں، میں تمہیں بتا چکی ہوں بختیار اور شیردل کے سامنے میں helpless ہوں۔” انہوں نے گلوگیر آواز میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”آپ helpless ہوں گی ممی… میں نہیں ہوں۔ اگر پاپا کے خلاف کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو پھر کورٹ میں ہو… کیس چلے… شیردل یا پاپا کون ہوتے ہیں میرے پاپا کے نام کو اس طرح خراب کرنے والے… انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان الزامات کو مان لیں جو عکس اور اس کے نانا کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔” شہربانو اسی رنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ”میں شیردل سے خود بات کروں گی۔ وہ مجھے بتائے بغیر یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔”
”تم اس سے اب بات مت کرو۔ اب بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔” منزہ نے اسے یک دم ٹوک کر کہا۔ انہیں پہلی بار ایک نیا خدشہ ہوا تھا۔
”ممی مجھے بات کرنی ہے اس سے… کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔” شہربانو نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تم شیردل کے شہباز پر لگائے ہوئے کسی الزام پر یقین مت کرنا۔ وہ اس وقت وہی سب کچھ کہہ رہا ہے جو عکس کہہ رہی ہے۔” منزہ نے جیسے حفظ ماتقدم کے تحت اس کو پہلے سے شیردل کے ممکنہ الزامات کے انکشاف پر ان سے بدظن کرنے کی کوشش کی۔ شہربانو کو منزہ کی بات اور اس کا کوئی سیاق و سباق سمجھ آیا تھا نہ ہی اس نے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ منزہ اسے کوئی وارننگ نہ بھی دیتی تب بھی وہ شیردل کی کسی بات پر یقین کرنے والی نہیں تھی۔
اس رات ان کا ایک اور شدید جھگڑا ہوا تھا اور وہ شیردل کے جھوٹ سے شروع ہوا تھا۔ اس نے مصالحت کی ایک اور کوشش کا آغاز کرتے ہوئے ڈنر ٹیبل پر شہربانو سے کہا تھا کہ عکس نے کیس واپس لے لیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اب اتنا جھوٹ بول دینے کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ شہربانو کو کبھی پتا نہیں مل سکتا تھا کہ کیس واپس لیا گیا تھا یا اسے نمٹایا گیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اب عکس کے ساتھ معاملہ مصالحت آمیز انداز میں حل کرلینے کے بعد شہربانو سے ایک چھوٹا سا جھوٹ بول لینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن اسے اپنی بدقسمتی کا اندازہ نہیں تھا۔
”تم دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے ہو شیردل۔” شہربانو اس کے انکشاف پر یک دم جیسے آگ بگولا ہو گئی تھی اسے یوں لگا تھا جیسے وہ اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا تھا۔ شیردل اس کی بات پر کچھ دیر کے لیے فریز ہو گیا تھا۔ وہ اس ردعمل کی توقع نہیں کررہا تھا۔
”بیٹا تم نے کھانا کھا لیا؟” شیردل نے شہربانو کی بات کے جواب میں مثال سے کہا تھا جو بہت ہکا بکا سی ماں کو دیکھ رہی تھی۔
”Yes۔” اس نے بمشکل شیردل سے کہا اور پھر اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بے حدعجلت کے عالم میں وہ کرسی سے اتر گئی۔ پھر وہ عجیب خوف کے عالم میں وہاں سے چلی گئی تھی یوں جیسے اسے اندازہ تھا کہ اب اسے ان دو بڑوں کے درمیان نہیں ہونا چاہیے تھا۔
”تم مثال کے سامنے کس طرح بات کررہی تھیں؟” مثال کے وہاں سے چلے جانے کے بعد شیردل نے بے حد خفگی سے اس سے کہا۔
”I don’t care۔” شہربانو نے جواباً بے حد تلخی سے اسے کہا۔ ”اگر تمہیں میرے باپ کی پروا نہیں ہے تو مجھے تمہاری بیٹی کی پروا نہیں ہے۔” شیردل اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا۔
”تم مجھے کیا سمجھتے ہو شیردل…؟ idiot… تمہیں کیوں ساری دنیا میں ایک میں ہی عقل سے پیدل لگتی ہوں۔” وہ بے حد خفگی سے بول رہی تھی۔
”شہربانو میں یہاں تم سے argument نہیں کروں گا کیونکہ میں نوکروں کو کوئی تماشا نہیں دکھانا چاہتا۔ تم بات کرناچاہتی ہو کھانا کھانے کے بجائے توچلو بات کر لیتے ہیں۔” شیردل بھی کچھ برہمی کے عالم میں کھانا چھوڑ کر ٹیبل سے اٹھ گیا تھا۔
آگے پیچھے چلتے وہ دونوں بیڈ روم میں آگئے تھے اور بیڈ روم کا دروازہ بند کرتے ہی شیردل نے اس سے بے حد خفگی سے کہا۔ ”شہربانو اب اس سارے تماشے کو ختم کر دو… I have had enough of it مجھے تمہیں جتنی وضاحتیں دینی تھیں میں دے چکا، جتنی صفائیاں پیش کرنی تھیں میں نے کر لیں… انکل شہباز کا کیس ختم ہو چکا تھا اور ہم اب اس معاملے پر بات نہیں کریں گے۔”
”کیس ختم نہیں ہوا تم نے کیس ختم کروایا ہے۔ میرے پاپا کو جھوٹا اور غلط ثابت کر کے اور اس پر تم مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے کہ عکس نے کیس واپس لے لیا۔” شہربانو پر اس کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”اگر ممی نے تمہیں ہر چیز کے بارے میں update کر دیا ہے تو ان سے یہ بھی پوچھ لینا چاہیے تھا تمہیں کہ ہم یہ کیس عکس کی terms پر حل کرنے پر کیوں تیار ہوئے۔” شیردل نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”عکس کی وجہ سے ہوا یہ سب کچھ۔” شہربانو نے بے ساختہ کہا اور وہ بری طرح مشتعل ہو گیا۔
”تم نے اگر اب ایک بار بھی میرے اور اس کے حوالے سے کوئی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ مجھے اگر افیئر چلانا ہوتا تو میں دس سال پہلے اس کے ساتھ شادی کر کے بیٹھا ہوتا۔ تم اتنے عرصے سے میرے ساتھ ہو تم مجھے نہیں جانتیں کیا؟” وہ بہت خفگی میں کہہ رہا تھا۔