خیردین کو آج بھی یاد تھا بچپن میں ایبک شیردل کے ساتھ کھیلنے سے منع کرنے پر وہ کتنی ناخوش ہوئی تھی اور اس نے ہمیشہ کی طرح خیردین کی بات او کے کہہ کر مان لینے کے بجائے بہت ساری تاویلیں اور وضاحتیں دے دے کر خیردین کو اسے ایبک شیردل کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دینے کے لیے منانے کی کوشش کی تھی۔ وہ ایبک کے لیے اس کے بچپن کے انس سے واقف تھا۔ وہ شیردل کے لیے اس کی ماضی اور حال کی پسندیدگی اور دوستی سے بھی واقف تھا لیکن اسے اس رشتے کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا یا پھر شاید اسے ایبک شیردل کے حوالے سے چڑیا کی فیلنگز کی صحیح نوعیت اور شدت کا اندازہ نہیں ہو سکا۔ اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔
”آپ کو برا لگا؟” وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی عجیب سے جانچنے اور پرکھنے والے انداز میں… بے حد محتاط سی۔
”یہ اتنا برا نہیں لگا جتنا یہ برا لگا کہ تم نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ کیس کرنے کا فیصلہ کیا۔” خیردین نے اس سے کہا۔
”میں آپ سے پوچھتی تو آپ مجھے اجازت دے دیتے؟” عکس نے خیردین سے پوچھا۔
”نہیں۔” خیردین نے بنا تامل کہا۔
”میں نے اسی لیے نہیں پوچھا آپ سے۔” عکس نے گہری سانس لے کر کہا۔
”تم اتنی سمجھ دار نہیں ہو چڑیا جتنا میں تمہیں سمجھتا تھا۔” خیردین نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔ وہ خیردین کی بات پر مسکرا دی۔
”میرا بھی اپنے بارے میں یہی خیال ہے… اس لیے میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں۔” خیردین اس کے تبصرے سے محظوظ نہیں ہوا تھا۔
”تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے اپنے لیے کتنی بڑی مصیبت کو کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی؟” خیردین اب اس سے کہہ رہا تھا۔
”نانا آپ ضرورت سے زیادہ ڈرتے ہیں۔” عکس نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”تم اسی وجہ سے suspend ہوئی تھیں؟” خیردین کو اب اس پر غصہ آرہا تھا۔ اسے عکس نے اپنی معطلی کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا لیکن گھر شفٹ ہو جانے کے بعد خیردین کو ملازموں سے اس چند روزہ معطلی کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔ عکس سے پوچھنے پر اس نے باٹ کو ٹالتے ہوئے اس سے جھوٹ بولا تھا کہ کسی کیس پر سیاسی مداخلت کو resist کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر اسے معطل کیا گیا لیکن اب فکر والی کوئی بات نہیں تھی۔ خیردین کو تشویش پھر بھی ہوئی تھی۔ اس کے دس سالہ کیریئر میں پہلی بار ایسا کچھ ہوا تھا۔ وہ بہت tactful آفیسر تھی۔ غلط اور ناجائز کام نہیں کیا کرتی تھی لیکن بھاری بھرکم دباؤ اور سفارشوں کو بڑے طریقے سے ٹالتی تھی۔
”نانا آپ tension مت لیا کریں اب میں سینئر آفیسر ہوں۔ زیادہ پاورز ہیں میرے پاس… زیادہ پاورز کے ساتھ زیادہ پریشر آئے گا… لیکن میں ہینڈل کر لوں گی… آپ بس اپنی صحت کا خیال رکھیں۔” اس نے خیردین کو دلاسا دیا تھا۔ ”میں اسی لیے suspend ہوئی۔” عکس نے اس بار جھوٹ بولنے کے بجائے بے حد اطمینان سے خیردین سے کہا تھا۔ ”اور suspend ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے جو حالات اس ملک میں ہیں ان میں کوئی آفیسر suspend ہوئے بغیر اپنی مدت پوری کر لے تو وہ معجزہ ہوتا ہے۔”
”چڑیا وہ جنگیں لڑنا بے وقوفی ہوتی ہے جن میں ہونے والی جیت بھی ہماری زندگی کے لیے ضروری نہ ہو۔” خیردین نے اس کی بات کے جواب میں کہا تھا۔ ”یہ میرا کیس تھا میرا معاملہ تھا میں اسے چھوڑ چکا ہوں بھول چکا ہوں کیونکہ مجھے پنشن کے ان چند ہزار روپے اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہونے کے لیبل کی اب ضرورت نہیں ہے… وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا جب یہ سب کچھ میرے لیے کچھ معنی رکھتا تھا۔” خیردین نے نرمی سے اس سے کہا تھا۔
”آپ کا کوئی معاملہ صرف آپ کا معاملہ نہیں ہے۔” عکس نے اتنی ہی نرمی سے خیردین سے کہا تھا۔ ”آپ کا ہر معاملہ میرا معاملہ ہے… ہر مسئلہ میرا مسئلہ اور ہر پریشانی میری پریشانی ہے اور آپ مجھ سے یہ مت کہیں کہ آپ سب بھول چکے ہیں اور جاب سے اس طرح کی برخاستگی آپ کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتی۔” اس نے بڑی سنجیدگی سے خیردین کی بات کے جواب میں کہا تھا۔
”ضروری نہیں ہوتا چڑیا کہ ہم جس چیز کو بھولے نہ ہوں ہمیں اس کی ضرورت بھی ہو… تمہاری کامیابیوں نے میری زندگی کے سارے پچھتاوے، ساری حسرتیں ختم کر دی ہیں… میں اگر اپنی اس نوکری کو یاد رکھے ہوئے ہوں تو اس کی وجہ وہ ذلت تھی جس کے ساتھ مجھے اس نوکری سے نکالا گیا… اس نوکری کے چھوٹ جانے کی کوئی حسرت نہیں تھی جسے میں اپنے دل میں لیے پھرتا ہوں۔” خیردین نے اس سے کہا تھا۔
”وہ نوکری میری وجہ سے چھینی گئی تھی وہ ذلت بھی میری ہی وجہ سے اٹھانی پڑی تھی۔” وہ بہت سالوں بعد پہلی بار اس واقعے کے حوالے سے اپنی اس شرمندگی کو خیردین کے ساتھ بانٹ رہی تھی۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے خیردین کو وہ نو سالہ چڑیا یاد آئی جسے اس نے تھانے سے رہا ہونے کے بعد اس دن اس رشتے دار کی چھت پر کباڑخانے میں چھپا دیکھا تھا۔ اسے آج بھی ان معصوم آنکھوں کا خوف اور شرمندگی یاد تھی۔ وہ آنکھیں آج خوف اور شرمندگی نہیں لیکن درد کا وہی رنگ لیے اس کو دیکھ رہی تھیں۔
”نہیں چڑیا جو بھی ہوا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا اور میں نے اتنے سالوں میں یہ کبھی سوچا تک نہیں کہ میری زندگی میں آنے والی کوئی تکلیف اور ذلت کا باعث تم بنی ہو… تم میری زندگی کا واحد روشن باب ہو جس کے بارے میں ہر دفعہ سوچتے ہوئے خوشی اور فخر کے علاوہ مجھے اور کوئی احساس نہیں ہوتا۔” وہ بہت دفعہ کی دہرائی ہوئی باتوں کو اس کے سامنے ایک بار پھر دہرا رہا تھا۔ عکس مراد علی ہمیشہ کی طرح ایک مسمرائزڈ سامع کی طرح اس کو سن رہی تھی۔ جیسے کوئی بچہ کسی بڑے سے پریوں کی کوئی ایسی کہانی سن رہا ہو جو ناقابل یقین حد تک قابل رشک ہو یوں جیسے وہ کسی اور کی کہانی ہو۔
”تمہیں زندگی میں اس اسٹیج پر اگر میری وجہ سے کوئی نقصان پہنچتا تو میں برداشت نہ کر پاتا… تم نے یہ کیس کرتے ہوئے یہ سوچا تھا کہ تم اپنا سب کچھ میرے لیے داؤ پر لگا رہی ہو۔” خیردین نے اب اسے ڈانٹا تھا۔
”زندگی میں آپ نے بہت بار اپنا سب کچھ میرے لیے داؤ پر لگایا ہے۔ ایک بار میں نے لگا دیا تو کیا ہوا؟” اس نے خیردین کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ ”میں صرف ریکارڈ ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔ ہم تاریخ اور ماضی نہیں بدل سکتے لیکن ان کا ریکارڈ ضرور بدل سکتے ہیں اور ہمیں بدل دینا چاہیے جب بھی ہم بدل سکیں… میرے نانا چور اور بددیانت نہیں ہیں اور میں ایک جھوٹ کو آپ کی سروس ریکارڈ کا حصہ رہنے نہیں دے سکتی تھی… اور نانا زندگی میں کسی بھی نقصان سے ڈرنا تو آپ نے ہی مجھے نہیں سکھایا… اب میں کسی نقصان سے ڈروں تو کس طرح؟” وہ بے حد اطمینان سے خیردین سے پوچھ رہی تھی۔
”میں پھر بھی تمہیں بے قوف کہوں گا۔” خیردین نے اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ وہ ہنس پڑی۔
”کہہ لیں… دنیا میں بس دو لوگ مجھے بے وقوف کہتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں۔” اس نے عجیب روانی اور بے ساختگی سے کہا پھر ہاتھ میں پکڑے کانٹے سے پلیٹ میں پڑے کباب کو اٹھاتے اٹھاتے اسی بے ساختگی سے رکی۔
”دوسرا شخص شیردل ہو گا۔” خیردین نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ گہری سانس لیتے ہوئے اس سے کہا۔ وہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے شیردل کے لیے حسد محسوس کیا تھا۔ اسے یہ حسد ایبک سلطان سے نہیں ہوا تھا۔ غنی حمید سے نہیں ہوا تھا۔ جواد ملہی سے نہیں ہوا تھا لیکن ایبک شیردل … خیردین نے بے اختیار گہری سانس لی۔ کباب کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے عکس مراد علی نے نظریں اپنی پلیٹ پر جمائے یوں ظاہر کیا جیسے اس نے خیردین کا اندازہ سنا ہی نہیں تھا۔
……٭……
”Thank you” کے دو لفظ عکس کے نام کے ساتھ شیردل کے سیل فون کی اسکرین پر جگمگائے تھے۔ وہ اس وقت آفس میں بیٹھا فون ہاتھ میں لیے کسی کو کال کرنے ہی والا تھا جب عکس کا نام وہاں نمودار ہوا تھا۔ شیردل کال کرتے کرتے رک گیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس text کے جواب میں اسے کال کرتا لیکن فی الحال وہ جس ذہنی کیفیت میں تھا اس میں وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ہی ڈویژن میں service کررہے تھے۔ کتنی بھی کوشش کر لیتے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دفتری معاملات کی وجہ سے بھی ایک دوسرے سے بات نہ کرتے لیکن پچھلی رات شہربانو کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کے بعد شیردل نے یہ طے کیا تھا کہ وہ عکس سے دور رہنے کی کوشش کرے گا۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے دور رہنا اب اس کی ازدواجی زندگی میں آنے والی ممکنہ بہتری کے لیے ضروری تھا۔ عکس نے جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا۔ سیل فون پر ان دو لفظوں کو دیکھتے ہوئے وہ سیکنڈز میں پتا نہیں کیا کیا سوچ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ شکریہ کس چیز کے لیے تھا لیکن اس وقت اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ بختیار شیردل کے ساتھ بیٹھ کر کیے جانے والے اس فیصلے نے اس کے اپنے گھر کو داؤ پر لگا دیا تھا۔
”سب ٹھیک ہے؟” وہ اس کے text کا جواب ٹائپ کر رہا تھا جب اس کا ایک اور text آگیا۔ وہ جانتا تھا وہ اس کے اور شہربانو کے حوالے سے پوچھ رہی تھی۔
”Perfect۔” اس نے جواباً ایک جھوٹ بولا۔ وہ اپنا اور شہربانو کا مسئلہ کسی اور سے ڈسکس نہیں کرنا چاہتا تھا اور عکس سے اس معاملے کو ڈسکس کرنے کا مطلب مزید خرابی تھا۔
”Great۔”ایک smiley کے ساتھ عکس کا text اسے آیا تھا۔ شیردل نے کال کرنے کے بجائے سیل فون بڑی بے دلی کے عالم میں میز پر رکھ دیا۔
شہربانو اور اس کے درمیان آج صبح بھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح اس کے ساتھ ناشتا نہیں کیا تھا۔ وہ مثال کے بیڈ روم میں اس کے بیڈ پہ جاگتے ہوئے بھی سو رہی تھی۔ وہ آفس کے لیے نکلنے سے پہلے مثال کو دیکھنے گیا تھا جو جاگ رہی تھی اور صبح سویرے جاگنے کے بعد اس کے پاس بیڈ روم میں آگئی تھی۔ وہ فجر کے آس پاس کا کوئی کوئی وقت تھا اورشیردل کچھ دیر پہلے ہی سونے کے لیے لیٹا تھا لیکن نیم تاریکی میں بھی مثال سیدھا باپ کے پاس جاکر اس کا کندھا ہلانے لگی تھی۔ اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولتے ہوئے شیردل نے لیٹے لیٹے ہی اسے اپنے بازوؤں میں بھر کر کمبل کے اندر اپنے سینے پر لٹا لیا تھا۔ وہ نیند میں بھی آنکھیں بند کیے لاشعوری طور پر اس کا سر چومنے لگا ۔
”Papa you missed me?۔” مثال نے اس کے سینے پر اوندھے منہ لیٹے لیٹے پوچھا تھا۔
”I missed you a lot۔” شیردل نے ایک بار پھر اسی طرح آنکھیں بند کیے اس کا سر چومتے ہوئے کہا۔
”I missed you too۔” مثال نے پاپا کے اس اعتراف سے بے حد مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
”I know۔” شیردل اب جیسے ہلکی غنودگی میں تھا۔
”پاپا آپ زیادہ بزی ہیں؟” شیردل نے چند لمحوں بعد غنودگی میں مثال کی آواز سنی۔ اس نے نیند کو جھٹکتے ہوئے اسے جواب دینے کی کوشش کی۔
”Not for you honey۔”اس نے ایک بار پھر اس کے بالوں کو چوما تھا۔
“But Mummy said you are busy and you can’t live with us in America.” (لیکن ممی کہتی ہیں کہ آپ بہت مصروف ہیں اور ہمارے ساتھ امریکا میں نہیں رہ سکتے)۔ شیردل نے اسے جواباً کہتے سنا اور اس نے نیند میں ہی اس کا جملہ سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ نہیں سمجھ پایا۔
”Honey we don’t have to live in America۔” (ہنی ہمیں امریکا میں نہیں رہنا ہے)۔ شیردل نے کہا۔
”But Mummy said we will live there۔” (مگر ممی کہتی ہیں کہ ہم وہیں رہیں گے)۔ مثال نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ شیردل غنودگی میں ہی اس کی باتیں سن رہا تھا۔”Only Mummy and I not you because you are busy and you can’t live with us in America” (صرف ممی اور میں، آپ نہیں کیونکہ آپ مصروف ہیں اور ہمارے ساتھ امریکا میں نہیں رہ سکتے)
شیردل کی آنکھوں سے نیند ایک دم اڑ گئی تھی۔ مثال اسی طرح اس کے سینے پر اوندھے منہ لیٹے بول رہی تھی۔ “But I have told Mummy I can’t live without you Papa I really love America. Can you please come with us?” (لیکن میں نے ممی کو بتا دیا ہے کہ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ پاپا مجھے امریکا بہت پسند ہے۔ پلیز ہمارے ساتھ چلیں)
شیردل کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح ری ایکٹ کرے۔ ان دونوں نے آج تک کبھی مثال کے سامنے کوئی argument نہیں کیا تھا کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی تھی یہ جیسے ان دونوں کے درمیان طے پائے جانے والا ایک unsaid rule تھا کہ وہ مثال کو اپنے اختلافات سے دور رکھیں گے اور اب وہی بچی اسے شہربانو کے ساتھ کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کررہی تھی جس کا سر پیر سمجھ میں نہ آنے کے باوجود شیردل کم از کم یہ ضرور اندازہ لگا سکتا تھا کہ شہربانو نے اس سے کیا ڈسکس کیا تھا اور اسے شاک اس بات پر لگا تھا کہ وہ سب کچھ پہلے ہی طے کر آئی تھی کہ اسے کس صورت حال میں کیا کرنا تھا۔ کیا ان دونوں کا رشتہ اس قدر کمزور تھا کہ وہ شہباز حسین کے مسئلے پر اسے بھی چھوڑ دینے کا تہیہ کیے ہوئے بیٹھی تھی۔ شیردل کے لیے یہ سب جیسے ناقابل یقین تھا۔