عکس — قسط نمبر ۱۱

بدقسمتی… حماقت… خوش فہمی… پتا نہیں کیا چیز تھی جس نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی تھی۔ ایبک شیردل نے لاہور ائرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں داخل ہونے سے بھی پہلے بہت دور سے اسے دوسرے ساتھی آفیسرز کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے دیکھ کر سوچا تھا۔ وہ سنگاپور روانہ ہونے کے لیے لاہور ائرپورٹ پر اکٹھے ہورہے تھے۔ آٹھ گھنٹے کے بعد انہیں لاہور سے کراچی پہنچ کر سنگاپور کے لیے روانہ ہونا تھا۔
اپنا ٹرالی بیگ کھینچتے ہوئے ایبک شیردل لاؤنج میں داخل ہو گیا تھا اور اس پر پہلی نظر ڈالنے والی وہی تھی۔ ایک سی گرین سوٹ کے اوپر بیج کلر کا کوٹ پہنے اور گردن کے گرد ایک باٹل گرین اور بیج کلر کا پرنٹڈ سلک کا اسکارف لپیٹے وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح اسٹائلش تھی۔ اسٹائلش اور اٹریکٹو… اور شیردل ہمیشہ کی طرح اس سے نظریں نہیں ہٹا پایا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔ وہی گرم جوش، خوب صورت نرم مسکراہٹ جس کے لیے وہ اکیڈمی میں مشہور تھی۔ شیردل کوشش کے باوجود اس مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے نہیں دے سکا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ عکس مراد علی سے نظریں چرا گیا تھا۔ لاؤنج میں آگے بڑھتے ہوئے اس نے وہاں بیٹھے دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملایا پھر وہ عکس کے پاس آیا تھا۔




”ہمیشہ کی طرح سب سے آخر میں آئے ہو۔” اس نے مسکراتے ہوئے شیر دل کو جیسے یاد دلایا۔ وہ اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران ہر فیلڈ ٹرپ میں سب سے آخر میں پہنچنے والوں میں سے ہوتا تھا۔
وہ کچھ کہے بغیر اس کے قریب خالی صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔ عکس نے اسے بغور دیکھا اور پھر کہا۔
”خیریت؟” شیردل نے گردن موڑ کر اس کو دیکھا۔ اس عورت کو جسے وہ زندگی میں سب سے زیادہ چاہتا تھا جس سے وہ متاثر تھا، مرعوب تھا، fascinated تھا۔ جس سے زیادہ اس نے زندگی میں کسی عورت کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ صوفے پر ایک دوسرے کے برابر بیٹھے وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ بے حد قریب سے… ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے… اور اس دن وہاں بیٹھے ایبک شیردل نے پہلی بار اس چہرے کے نقوش میں چڑیا کو کھوجنا شروع کیا… ذہانت سے بھرپور وہ چمکدار کالی گہری آنکھیں… وہ آنکھوں سے آگے کہیں نہیں جا سکا۔ کسی اور مشابہت کی ضرورت ہی نہیں تھی اسے… وہ چڑیا کی آنکھیں تھیں۔ عکس مراد علی آنکھوں کے علاوہ کچھ تھی ہی نہیں… وہ اندھا تھا… شیردل نے اس کے چہرے سے بے اختیار نظریں ہٹائیں اور گردن موڑ کر جیسے اپنے چہرے کو عکس کی نظروں سے بچانے کی کوشش کی۔ وہ چہرہ اسے بار بار کسی سے مشابہت کا احساس دلاتا تھا لیکن وہ کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ مشابہت اس کی زندگی کے بھیانک ترین خواب کے مرکزی کردار سے تھی۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” اس بار اس نے دوبارہ شیردل سے پوچھا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے میں ایک سگریٹ پی کر آتا ہوں۔” وہ اس کی طرف دیکھے بغیر یک دم اس کے پاس سے اٹھ گیا تھا۔ عکس نے اسے اسموکنگ ایریا کی طرف جاتے دیکھا۔ وہ ایک بلو casual جینز اور سفید شرٹ میں تھا… اپنی جینز کی پاکٹس ٹٹولتا سگریٹ کا پیکٹ تلاش کرتے ہوئے… عکس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی تھی۔ اس نے زندگی میں کسی کو اس مرد سے زیادہ نہیں چاہا تھا… خیردین کے بعد۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ کبھی اس کو حاصل نہیں کر سکتی تھی…وہ اس کے لیے نہیں تھا۔
اس کائنات محبت میں ہم مثل شمس و قمر کے ہیں
اک رابطہ مسلسل ہے ایک فاصلہ مسلسل ہے
ہم خود کو بیچ دیں پھر بھی ہم تجھ کو پا نہیں سکتے
میں عام سا ہمیشہ ہوں، تو خاص سا مسلسل ہے
لیکن بہت سی چیزوں پر دل کا اختیار نہیں ہوتا۔ وہ ایبک شیردل سے 26 سال پہلے ملی تھی اور وہ 26 سال اس سے نہ ملنے کی خواہش رکھنے کے باوجود غیر ارادی طور پر ہر جگہ ہر شخص میں اسے ہی ڈھونڈتی رہی تھی۔ ہر ایبک کے لیے لاشعوری طور پر وہ نرم گوشہ رکھتی تھی… ایبک سلطان سے ہونے والی طوفانی محبت بھی اس کے نام کی وجہ سے تھی… وہ شعوری طور پر یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھی لیکن اس کا لاشعور جانتا تھا وہ ایبک کے نام کی طرف کسی مقناطیس کی طرح جاتی تھی۔
ایبک شیردل اس کا پہلا بیسٹ فرینڈ تھا… بیرونی دنیا میں جھانکنے میں مدد دینے والی وہ کھڑکی جس میں سے دیکھی جانے والی دنیا کو وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ وہ ایک خوف ناک واقعہ رونما نہ ہواہوتا تو 26 سال پہلے وہ گرمیوں کی چھٹی کے چند ہفتے اس کی زندگی کی سب سے بہترین چھٹیاں ہوتیں۔اس نے ایبک شیردل کے ساتھ دنیا اور زندگی کے بہت سے حصوں اور چیزوں کو explore کیا تھا… دوستی، ساتھ، وفاداری، بے وفائی، تجدید تعلقات… ایک بچے کے طور پر وہ ایبک کے ساتھ ا پنے اس مختصر relationship میں ہر اسٹیج سے گزری تھی۔
وہ اسے ایک بار پھر نظر آنے لگا تھا۔ اسی casual انداز میں… تیز قدم اٹھاتا ہوا… اپنے دھیان میں گم …وہ آج بھی وہاں بیٹھی بہت سی خواتین کی نظروں کو بھٹکانے کا باعث بن رہا تھا۔ اور وہ اس سے بے خبر تھا۔ عکس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔ پتا نہیں کیوں لیکن اسے کبھی شیردل کو عورتوں کا مرکز نگاہ بنتے دیکھ کر حسد نہیں ہوا تھا۔ ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوتا تھا۔
وہ دوبارہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا… دونوں کے درمیان خاموشی تھی… اور وہ دونوں اس خاموشی کے عادی نہیں تھے۔
”تم مجھ سے کچھ کہناچاہتے ہو؟” عکس نے بالآخر اس خاموشی کو توڑا۔ شیردل نے کوئی تاویل سوچی لیکن پھر جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔”
”کہو۔” ایبک شیردل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر شیردل نے یک دم بے حد غیر محسوس انداز میں اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا تھا
”یہ مت کرو چڑیا۔” اس نے بے حد گہری آواز میں اس سے کہا۔
……٭……




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۰

Read Next

وہم — حنا اشرف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!