عکس — قسط نمبر ۱۱

”تبدیلی کا حصہ بن کر زندگی گزارنا اور بہتری کی جدوجہد کرنا ایک معاشرے کی برائیاں گنتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے بیٹھے زندگی گزارنے سے بہتر ہے۔” ایک عمر میں انسان اپنی ہی سکھائی ہوئی logic سے مار کھاتا ہے۔ بالکل ویسے جیسے ایک نامی گرامی پہلوان اپنے اکھاڑے میں اپنے ہی کسی پٹھے سے وہ داؤ کھا کر چت ہو جو اسی کا سکھایا ہوا تھا۔
”میں پاور حاصل کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اس کے بغیر میں اپنی بقا کی جنگ عزت سے نہیں لڑسکتی، میں نے آپ کے ساتھ رہ کر دیکھا ہے زندگی میں… اچھا اور شریف انسان ہونا بہت اچھی بات ہے نانا لیکن اچھا اور شریف ہونا ایک اچھی زندگی کی گارنٹی نہیں ہوتا اس معاشرے میں… یہ خطرات کو بڑھادیتا ہے، کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔” خیر دین اپنی 23 سالہ نواسی کے منہ سے وہ باتیں سن رہا تھا جو اس نے اسے نہیں سکھائی تھیں جو زندگی اور تجربے جیسے دو ظالم استادوں کی دین تھیں۔
”میں دھکے کھارہی ہوں ہاؤس جاب کے دوران topper ہونے کے باوجود …جن کے پاس اثرورسوخ ہے ان کو ابھی سے جاب سیکیورٹی ہے مجھے نہیں پتا مجھے جاب ملے گی یا نہیں… جن کے پاس پیسا ہے وہ ہاؤس جاب کے بغیر ہی ریذیڈنسی کے لیے امریکا چلے گئے ہیں یا جارہے ہیں… وہاں سے اسپیشلائزیشن کریں گے… پانچ دس سالوں میں واپس آکر اپنی پرائیوٹ پریکٹس کریں گے اور millions لاکھوں بنائیں گے۔ میں پاکستان میں رو دھو کر بغیر سہولتوں والی ایک نوکری کروں گی… دھکے کھا کھا کر مزید پڑھوں گی… اور پانچ دس سال کے بعد بھی اسی طرح دھکے کھارہی ہوں گی۔ میرے پاس باہر کی ڈگری نہیں ہوگی اس لیے مریضوں کو میری اہلیت اور خلو ص نیت پر شبہ رہے گا۔ ایمانداری سے زیادہ قابل بھروسا چیز ان کے لیے امریکا یا برطانیہ سے اسپیشلائزیشن ہے۔” وہ بہت کڑوا سچ بہت مٹھاس کے ساتھ بول رہی تھی۔ تلخی نہیں تھی بس حقیقت پسندی تھی اس کی زبان میں ۔وہ اپنے عوام کی نفسیات اور ترجیحات کو خیر دین سے زیادہ اچھی طرح جانتی تھی۔




”میں تمہیں آگے پڑھنے کے لیے باہر بھیجوں گا۔” خیر دین نے یک دم اسے ٹوک کر کہا۔ وہ ہنس پڑی۔
”آپ کو پتا ہے باہر بھیجنے کے لیے آپ کو مجھ پر کتنا پیسا لگانا پڑے گا… لاکھوں میں۔”
”میرے پاس اب لاکھوں ہیں۔” خیر دین نے بے ساختہ کہا۔
”گھر دکان اور گاڑی کی صورت میں… بینک بیلنس کی صورت میں نہیں۔” چڑیا نے کہا۔
”میں سب کچھ بیچ دوں گا تمہارے لیے چڑیا۔” خیر دین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بے حد جذباتی انداز میں کہا۔ چڑیا کو عجیب تکلیف ہوئی تھی محبت کے اس بے لوث اظہار پر۔
” بس یہی میں اب نہیں چاہتی نانا… میں اب اس عمر میں آپ کو در بدر نہیں کروں گی… آپ نے جتنا بوجھ اٹھانا تھا اٹھالیا۔ اب مجھے اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر اپنا بوجھ اٹھانے کی عادت ڈالنے دیں۔” چڑیا نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”آپ نے ہی ایک بار کہا تھا، زندگی میں کپ اور ایوارڈ کچھ نہیں ہوتے لیکن قابلیت رکھتے ہوئے بھی ان کو حاصل نہ کرنا بد قسمتی ہے۔ مجھے بھی اب اپنی قسمت آزمانے دیں… آپ نے مجھے ایک بہت اچھا اور مثبت سوچ والا انسان بنایا ہے۔ میں اس کے لیے آپ کی بہت شکر گزار ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ اب آپ مجھے وہ کام کرنے دیں جو زندگی میں مجھے اور آپ کو بے بس اورمجبور نہیں رہنے دے گا۔” چڑیا خیر دین سے مشورہ نہیں کررہی تھی نہ ہی وہ اس سے رائے لے رہی تھی۔ خیر دین چڑیا کو اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ اس کے عزم کو پہچان جاتا جو اس کے لہجے میں تھا۔ وہ خیر دین سے بات کرنے سے پہلے اپنے اس فیصلے کے بارے میں بہت غور وخوض کرچکی تھی۔
” اور اگر تمہاری یہ ساری باتیں سننے کے بعد بھی میں یہ نہ چاہوں کہ تم مقابلے کا امتحان دوتو؟” خیر دین نے یک دم اس سے پوچھا۔
”تو میں نہیں دوں گی۔” جواب ایک لمحے کے تامل کے بغیر آیا تھا۔ خیر دین دم بخود ہوگیا تھا۔ وہ چڑیا سے اس جواب کی توقع نہیں کررہا تھا۔ چڑیا کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے یقین تھا وہ ویسا ہی کرتی جو وہ اسے کہتا ۔ننھا بگلا پہلی پرواز اس سے سیکھنے کے بعد اب اس سے لمبے سفر پر جانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ خیر دین کا دل بھر آیا ۔یہ کیسے ممکن تھا وہ چڑیا کی خواہش پوری نہ کرتا وہ اس کی زندگی کا فوکل پوائنٹ تھا۔ خیر دین کی پوری زندگی چڑیا کی خوشی، ناخوشی ،پسند، ناپسندسے جڑی ہوئی تھی۔ انہیں چیزوں کے گرد گھومتی تھی۔
چڑیا کے طفیل خیر دین کی زندگی میں فخر کے بہت سے لمحے آئے تھے۔ ہر بورڈ کے امتحان میں اخبار میں پوزیشن ہولڈرز کی تصویر خیر دین عجیب فخر اور غرور کے ساتھ اپنی دکان پر آنے والے ہر شخص کو کئی کئی دن دکھاتا رہتا۔ CSS کے امتحان میں ڈاکٹر عکس مراد علی پہلی پوزیشن کی خبر والا اخبار خیر دین کی زندگی کا وہ پہلا اخبار تھا جسے پکڑے وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر اور بلک بلک کر رویا تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی اپنی ننھی چڑیا کا ایسا عروج اور ایسا نصیب نہیں دیکھا تھا۔ اس نے یہ کہاں سوچا تھا کہ اس کی چڑیا ایک دن اس کے نام کا اس قدر معتبر حوالہ بنے گی۔ وہ افسروں کا خدمت گاررہا تھا۔ ساری زندگی افسروں کے لیے کھانے پکاتے، کپڑے استری کرتے، جوتے پالش کرتے گزار دی تھی اس نے اور اس کا خیال تھا اس کا عروج بس وہی تھا… اس سے زیادہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک لوہاروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا دس جماعت پاس آدمی کیا سوچ سکتا تھا… اپنی اگلی نسل میں وہ افسر دیکھنا جس کے جوتے سیدھے کرتے ہوئے خیر دین نے عمر گزاردی تھی۔ معجزے سے کم نہیں تھا… اور معجزے قدرت کی طرف سے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ان میں کبھی کبھی انسانی محنت اور عقل کا نمایاں دخل ہوتا ہے۔
کئی ہفتے خیر دین کی دکان پر مبارک باد دینے کے لیے لوگ آتے رہے تھے۔ چند گھنٹوں میں اس بازار میں خیر دین کا اسٹیٹس بدل گیا تھا جہاں اس کی دکان تھی۔ پہلے خیر دین کی ایک لائق نواسی تھی اب خیر دین ایک افسر نواسی کا نانا تھا… تعارف کا حوالہ بدل گیا تھا۔ خیر دین کو پھر بھی خوشی تھی اور اس کا یہ تعارف گاؤں میں اس کے خاندان تک پہنچ گیا تھا۔
کئی سالوں کے بعد اس کے بھائی اور بھتیجے مبارک باد دینے کے لیے اسے ڈھونڈتے ہوئے اس کی دکان پر پہنچے تھے۔ خیر دین صدمے سے دم بخود رہ گیا تھا۔ وقت کیسی ظالم شے ہے۔ دنوں کو پلٹا تا تھا تو انسانوں کا اصل دیکھ کر ان سے گھن کھانے کو جی چاہتا ہے۔ خیر دین کو بھی بہت دیر سمجھ نہیں آئی تھی وہ ان خونی رشتے داروں کے ساتھ کیسے پیش آئے جو سورج مکھی کی طرح اس کے اچھے دن دیکھتے ہی اس کی طرف لوٹ آنے لگے تھے۔اس نے انہیں دکان پر بٹھا کر کھانا کھلایا ان کی مبارک باد وصول کی لیکن انہیں چڑیا سے ملوانے گھر نہیں لے کر گیا۔ گھروں تک لے جانے والی اب کوئی بات رہ ہی نہیں گئی تھی۔
اس رات چڑیا اور خیر دین پھر جاگتے رہے تھے۔ گاؤں میں گزارہ ہوا وہ سارا وقت نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دہراتے رہے تھے۔ خیر دین نے چڑیا کو اپنے خاندان والوں سے ملنے والی اور بہت سی تکلیفوں اور باتوں کو پہلی بار چڑیا کے ساتھ بانٹا تھا اور ان کانٹوں جیسی باتوں کو دہراتے ہوئے بار بار رویا تھا۔ چڑیا اسے تھپکتی بہلاتی رہی تھی۔ اس کا نانا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہوتا جارہا تھا۔ جلد ہنس پڑتا تھا اور اس سے بھی جلد رو پڑتا تھا۔
”دیکھو چڑیا زندگی میں نام اور رتبہ بہت کم لوگوں کو ملتا ہے لیکن اس سے بھی کم لوگ اس نام اور رتبے کو سنبھال پاتے ہیں۔ رتبہ ملنا اعزاز کی بات ہے لیکن یہی سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔” چڑیا کو سول سروسز اکیڈمی ٹریننگ کے لیے چھوڑنے جانے سے ایک رات پہلے خیر دین نے اسے بہت ساری نصیحتیں کی تھیں۔ چڑیا ہمیشہ کی طرح خیر دین کی باتیں سنتی رہی تھی۔
”یہ جو طاقت اور افسری ہوتی ہے یہ انسان کو اندھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، عقل والے اچھے انسانوں کو بھی… تم عاجز رہنا، اپنے ماضی کو کبھی مت بھولنا اور اس ملک کی خدمت کرنا۔” خیر دین بات کرتے کرتے رکا ”تم مردوں کے ساتھ اور ان کی طرح کام کروگی لیکن چڑیا تم مرد مت بن جانا۔ مردوں کی طرح دلیری اور بہادری دکھانا لیکن اپنی فطرت کی نرمی اور نسوانیت کھوئے بغیر عزت اور وقار سے کام کرنا۔ یہ نام ونسب سے زیادہ بڑی چیزیں ہیں۔” چڑیا سر جھکائے خیر دین کی ایک ایک بات پر سر ہلاتی گئی تھی۔
”آپ کو پتا ہے جاب ملنے کے بعد میں پہلا کام کیا کروں گی؟” اس کی باتیں سنتے ہوئے چڑیا نے یک دم خیر دین سے پوچھا تھا۔
” کیا؟” وہ اس سے بات کرتے کرتے چونک گیا۔ وہ بے حد پراسرار انداز میں اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
”دو کام کرنے ہیں نانا میں نے۔” خیر دین حیران ہوا تھا۔
”کون سے دو کام؟”
”وقت آنے پر بتاؤں گی نانا۔” اس نے بہت عجیب انداز میں خیر دین سے کہا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے خیر دین نے ان تمام ممکنہ کاموں کے بارے میں سو چنے کی کوشش کی تھی جو چڑیا کر سکتی تھی۔ اس کا ذہن کسی ایسی چیز کے بارے میں نہیں سوچ سکا تھا جس کے بارے میں چڑیا نے کبھی اس سے ذکر کیا تھا۔
چڑیاوہ کام سات سال بعد کر سکی تھی …پہلا کام بھی اور دوسرا کام بھی۔ پہلے کام کے لیے اس نے خیر دین سے اجازت لی تھی دوسرے کام کے لیے نہیں۔ وہ چڑیا کی زندگی کی پہلی نافرمانی تھی۔ خیر دین اگر وقت پر اس کے بارے میں جان جاتا تو وہ مر کر بھی چڑیا کو یہ قدم نہ اٹھانے دیتا۔ چڑیا اس سے زیادہ گہری تھی جتنا وہ اسے سمجھتا تھا… چڑیا اس سے زیادہ ذہین تھی جتنا وہ خیر دین کو ساری زندگی ثابت کرتی رہی تھی… اور چڑیا اس سے زیادہ شاطر تھی جتناخیر دین اسے شطرنج کے بورڈ پر مانتا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۰

Read Next

وہم — حنا اشرف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!