عکس — قسط نمبر ۱۱

”میں جب بڑی ہوجاؤں گی نانا تو میں ایک کھیل بناؤں گی چیس کی طرح کا… جس میں سب کوئین کے لیے لڑیں گے اور کوئین ہی بادشاہ ہوگی۔” سیاہ اسٹاف کار کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے خیر دین نے اس کوئین کو ڈی سی ہاؤس کے وسیع وعریض داخلی گیٹ سے چند قدم آگے دونوں گارڈ پوسٹ کے درمیان کھڑا دیکھا تھا۔ ڈی سی ہاؤس کا گیٹ پورا کھلا ہوا تھا ۔ گاڑی ڈی سی ہاؤس سے پہلے آنے والا آخری اسپیڈ بریکر کراس کر کے ابھی اس گیٹ کے سامنے آئی تھی۔
عکس مراد علی گھر میں آنے والے اس مہمان کا استقبال وہاں نہیں کررہی تھی جہاں ڈی سی سب کا کیا کرتا تھا۔ وہ خیر دین کا استقبال وہاں اس دروازے پر کررہی تھی۔جس دروازے سے 26 سال پہلے ایک رات ان تینوں کو اٹھا کر باہر پھینکا گیا تھا۔ خیر دین کو یاد تھا اس ڈی سی ہاؤس کے گارڈز اسے گریبان سے پکڑے گھسیٹتے اور دھکے دیتے ہوئے اسی گیٹ کو کھول کر باہر لائے تھے اور باہر کھڑی ایک پولیس موبائل میں ڈال کر لے گئے تھے۔ خیر دین کو یہ بھی یاد تھا اس نے اپنے پیچھے روتے ہوئے بھاگتی چڑیا سے واپس حلیمہ کے پاس جانے کے لیے کہا تھا ۔وہ نو سال کی بچی اس خوف اور سراسیمگی کی حالت میں بھی نانا کے حکم پر رک گئی تھی لیکن خیر دین اس کی پکار کو ساتھ لے کر جیل گیا تھا۔




”میرے نانا کو مت ماریں، میرے نانا کو مت ماریں۔” کیا ذلت سی ذلت تھی اس جملے میں… بے بسی کا ایک سمندر تھا… وہ اس سمندر کے پار آکر کھڑے ہوگئے تھے۔
خیر دین نے واسکٹ کی جیب سے رومال نکال کر آنکھیں پونچھیں اور سر اٹھا کر فخر سے اسے دیکھا۔ اس کی چڑیا اس کھلے گیٹ کے بیچوں بیچ کھڑی تھی… ویسے ہی مستعد اور مودب گارڈز کے بیچ میں جو گیٹ کے دونوں اطراف میں اب اپنی گارڈ پوسٹ سے باہر تھے ۔ ڈرائیور کو جیسے سمجھ نہیں آیا وہ گاڑی آگے بڑھائے یا وہیں روک دے۔ خیر دین جانتا تھا وہ کھلا دروازہ کس بات کا اظہار تھا کس بات کا اعلان کررہا تھاوہ قلعہ تسخیر کر لیا گیا تھا۔
ڈرائیور کی گاڑی کے رکتے ہی ایک گارڈ نے بڑی مستعدی سے آگے بڑھ کر خیر دین کی طرف کا دروازہ کھول دیا۔
”آپ جب وہاں آئیں گے تو روئیں گے نہیں…” اس نے فون پر خیر دین سے کچھ دیر پہلے کہا تھا۔
”لیکن کہاں بلا رہی ہو تم مجھے؟” خیر دین حیران ہوا تھا۔
”ایک جگہ۔” چڑیا نے اس سے کہا۔
”کھانا کھلانے۔” خیر دین کو اس کی ٹرانسفرکے بارے میں پتا نہیں تھا نہ ہی یہ پتا تھا کہ وہ آج وہاں آکر چارج لے چکی ہے۔ وہ قریبی شہر میں تھی اکثر اسے گاڑی بھیج کر بلوالیا کرتی تھی۔ خیر دین آج بھی یہی سمجھ کر آیا تھا۔گاڑی اور ڈرائیور دونوں وہ نہیں تھے جو اسے پہلے لینے آیا کرتے تھے۔ وہ پھر بھی نہیں چونکا تھا۔ وہ ڈی سی روڈ پر لیا جانے والاموڑ تھا جس نے خیر دین کو چونکا دیا تھا۔ اس شہر میں اتنے سالوں سے رہنے کے باوجود یہ وہ واحد سڑک تھی جس پر وہ کبھی مجبوری کی حالت میں بھی نہیں آیا تھا۔ اس سڑک پر موجود ایک گھر کے ساتھ اس کی ایسی یادیں وابستہ تھیں کہ وہ اس سڑک پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
”تم کہاں جارہے ہو؟” اس نے ڈرائیور سے پوچھا تھا۔
”ڈی سی ہاؤس۔” ڈرائیور نے مودبانہ انداز میں جواب دیا۔ چند لمحوں کے لیے خیر دین کنگ رہ گیا تھا۔ اسے تب بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ وہ وہاں اس گھر کے مالک کے طور پر اسے بلا رہی تھی۔ وہ یہی سمجھا تھا کہ وہ وہاں کسی لنچ پر آئی تھی۔ وہ خفا ہوا تھا یہ سوچ کر کہ اس نے اس طرح بے خبری میں اسے وہاں بلایا تھا۔
سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ کئی گز دور کھڑی مسکرارہی تھی۔ اس کے چمکدارسیاہ اسٹیپس میں کٹے ہوئے بال مسلسل چلتی ہوئی نرم ہوا کے جھونکوں سے اس کے ماتھے اور گالوں پر آرہے تھے جنہیں وہ گردن کی ہلکی سی حرکت سے بار بار جھٹک رہی تھی۔ خیر دین کو وہ ایک چھوٹی بچی لگی تھی جو بڑے فخریہ انداز میں اپنے اس پسندیدہ کھلونے کے ساتھ کھڑی تھی جس کو اس نے بڑی محنت اور ضد سے لیا ہو۔
وہ گیٹ سے باہر کھڑا تھا اور کئی گز اندر وہ اس کے بالمقابل کھڑی تھی۔ اسے خیر دین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کہ وہ وہاں کس حیثیت سے کھڑی تھی۔
پانی کے ایک ریلے نے عکس مراد علی کا چہرہ دھند لادیا تھا۔خیر دین نے سر جھکا کر اپنے رومال کے ساتھ اس دھند لاہٹ کو صاف کرکے دوبارہ گردن اوپر اٹھا کر اسے دیکھنا چاہا وہ چند گز کے اس فاصلے کو سمیٹتے ہوئے اس کے بالکل قریب اس کے سامنے کھڑی تھی یوں کہ خیر دین اس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ سکتا تھا پھر اس نے خیر دین کی آنکھوں کی نمی کو بیک وقت اپنے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کی پوروں سے صاف کیا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے کئی سال پہلے اس گھر کی چھت پر کاٹھ کباڑ کے ڈھیر میں سے اسے نکال کر اس کی آنکھیں پونچھیں تھیں اس کو سمیٹ لیا تھا۔ 26 سال بعد چڑیا نے بالکل اسی طرح اپنے نانا کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لیا تھا۔ تب خیر دین نہیں رویا تھا نہ ہی اس نے چڑیا کو رونے دیا تھا۔آج چڑیا نہیں روئی تھی نہ ہی وہ خیر دین کو رونے دے رہی تھی۔ وہ دنیا کا واحد شخص تھا جو اس کے سامنے ٹوٹتا تو وہ بھی ٹوٹتی اور عکس مراد علی اس گھر اور شہر میں آنے والی پہلی خاتون آفیسر تھی۔ وہ ا س گھر کے ماتحت مرد عملے کے سامنے وہ کمزور لمحے نہیں دکھانا چاہتی تھی جو اس کی عدم موجودگی میں اس کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال ہوتے۔
خیر دین کی پشت کو تھوڑا سا رگڑتے ،تھوڑا سا تھپکتے ہوئے وہ اس سے الگ ہوگئی۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ ڈی سی ہاؤس کے اندر جانے والے اس راستے پر چلنے لگی جو رہائشی عمارت کی طرف جارہا تھا۔
”یہ تمہارا دوسرا کام تھاجو تم میرے لیے کرناچاہتی تھیں۔ ” خیر دین نے یک دم اس دوسرے کام کو بوجھنے کی غیر متوقع کوشش کی۔ چڑیا نے گردن موڑ کر ساتھ چلتے ہوئے خیر دین کو مسکرا کر دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ خیر دین فخریہ انداز میں مسکرایا وہ چڑیا کا پہلا کام نہیں بوجھ سکا تھا لیکن دوسرا بوجھ گیا تھا… چڑیا ایک بار پھر بہت آرام سے خیر دین کو خوش فہمی کا شکار کر گئی تھی۔
”تمہیں یاد ہے یہاں اس راستے پر میں تمہیں سائیکل پر بٹھا کر اسکول لے کر جایا کرتا تھا۔” اس ڈرائیو وے پر چلتے ہوئے خیر دین کو کیا کیا یاد آنے لگا۔ چڑیا نے اسے بولنے دیا۔ اس شخص نے اپنی جوانی کے پندرہ بہترین سال اس گھر میں گزارے تھے۔ اس کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔
وہ دونوں چلتے ہوئے اندرونی دروازے کے باہر بر آمدے میں لگے اس آئینے کے سامنے آکر رک گئے۔ خیر دین نے آخری بار جب اس آئینے میں اپنا عکس دیکھا تھا تو اس کا لباس… اس کا چہرہ… اور اس کا جسم… اور ان تینوں چیزوں سے بھی بڑھ کر اس کی روح، اس کی زندگی اور اس کے وجود کے پرخچے اڑ گئے تھے… اب 26 سالوں بعد وہاں اس آئینے کے سامنے کھڑے اپنے آپ کو دیکھنا کیسا صبر آزما کام تھا کوئی اس سے پوچھتا… لیکن اگر کسی کو یہ پتا ہوتا کہ وہاں اس پر اور اس کے خاندان پر کیا گزری تھی تو کوئی کبھی اس سے کچھ بھی نہیں پوچھتا۔
وہ ایک نظر جو اس آئینے کے سامنے سے چیختے چلاتے اس نے اپنے چہرے پر ڈالی تھی… وہ چند سیکنڈ ز اس کے اندر سمندر کی کسی شو ریدہ سر لہر کی طرح پلٹ کر آئے تھے… سب کچھ اتھل پتھل کرتے… ایک طوفان تھا جو اس کے اندر آیا تھا اور ایک طوفان تھا جو اس کی آنکھوں میں آیا تھا۔
پانی نہیں تھا وہ جو اس کی آنکھوں سے برس رہا تھا …پانی ہوتا تو بہہ جاتا…ہاتھ سے پونچھ لیا جاتا… وہ تو آبلے تھے جو اس گھر میں داخل ہو کر اس آئینے تک آتے آتے یوں پھوٹے تھے کہ پھوٹتے ہی چلے گئے تھے… اور کیا کیا تھا جو ان آبلوں سے نہیں بہہ نکلا تھا… درد کا ایسا سمندر اس کے اندر اتنے سالوں سے یوں قید تھا… اس کو خود بھی کبھی پتا نہیں چلا تکلیف تو تھی… اذیت تو تھی… جس کو اپنے وجود کے اندر مقید کرتے کرتے اس پر خاموشی کے تالے لگاتے لگاتے اس نے بہت سا وقت گزار دیا تھا… اور وہ تکلیف دہ اذیت یوں پلی بڑھی تھی اس کے اندر کہ ایک قطرے سے سمندر ہوگئی تھی۔
وہاں اس گھر کے دروازے پر اس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر رونا خیر دین کی زندگی کی خواہشات میں کبھی شامل نہیں تھا۔ اس گھر کو دوبارہ دیکھنا وہاں دوبارہ آنا بھی اس کی زندگی کی خواہشات میں نہیں تھا… لیکن وقت اسے وہاں لے آیا تھا اور کیسے لے کر آیا تھا…آبلوں سے رسنے والی اذیت ،ذلت، اب تشکر بننے لگا تھا… عاجزی، احسان مندی، تشکر… اس کائنات کے حاکم اس ذات کے لیے تشکر او راحسان مندی…جو دن پلٹا سکتا تھا اور جس نے دن پلٹا دیے تھے۔
زمین پر گھٹنوں کے بل گرتے ہوئے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے خیر دین نے اس گھر کے حاکم کے طور پر پہلا سجدہ کیا تھا… اور وہ سجدہ کبھی ختم نہیں ہوتا اگرچڑیا کا وہ مہربان نرم مضبوط ہاتھ اس کی پشت کو مشفقانہ انداز میں نہ تھپکنے لگتا… اس نے چڑیا کی تمام ہدایات اور نصیحتوں کو یکسر فراموش کردیا تھا… چڑیانے سہارا دے کر اسے اوپر کھینچ لیا تھا ۔ساری زندگی اس ہاتھ نے یہی کیا تھا اس کے لیے… اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے ساتھ اسے کسی ننھے بچے کی طرح چپکائے وہ دونوں اس گھر کے اندر جارہے تھے۔ وہ صرف ایک چیز باہر بھول گئے تھے… بدقسمتی۔
……٭……




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۰

Read Next

وہم — حنا اشرف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!