”ترس گئی بھائی کہنے کو ۔”
”ترس گیا بھائی سننے کو ۔” وہ بے اختیار بنا جھجکے بولا ۔
آئمہ ہنس دی ۔وہ بھی ہنس دیا تھا ، ہنستے ہنستے دونوں پھر رونے لگے تھے ۔ بہت دیر بنا کچھ کہے بنا کچھ بولے دونوں روتے رہے تھے ۔ پھر عبداللہ نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔وہ آہستگی کے ساتھ اس کے سینے سے آلگی۔
لاکھ وہ رشتوں سے منہ موڑتا ، ایک بار پھر زمینی رشتوں کی کشش ثقل نے اپنی جانب کھینچا ۔ بیگم شاہ جہاں کے انتقال کی خبر پڑھ کر وہ اس غار میں بیٹھا نہ رہ سکا تھا ۔ اس کی ماںچل بسی تھی ، اس کے باپ نے ہار مان لی تھی۔ ایسے وقت میں وہی تو تھیں جنہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا ، آشیانہ دیا ۔ وہ عورت ماں ہی نہیں باپ بھی بنی اس کا۔وہ ان کا قرض کبھی اتار نہیں سکتا تھا ۔
ان دونوں نے پھر بیگم شاہ جہاں کی قبر پہ دعا مانگی اور ایک ساتھ باہر نکل آ ئے ۔ ڈرائیور کے ساتھ کھڑا بچہ آئمہ کو دیکھ کر اس کی طرف بھاگا ۔
” آہستہ عبداللہ ۔” آئمہ فورا بولی ۔ اس نے حیران ہو کر پہلے گلاب کی طرف دیکھا پھر بچے کی طرف۔
”میرا بیٹا ہے عبداللہ ۔” بچے کو گود میں اٹھا کر اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولی ۔
”ماموں سے ملو ۔” اس نے بچے سے کہا تو بچے نے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا ۔
اسے پچیس برس پہلے ایک گلابی گڑیا کا ہاتھ اپنی طرف بڑھا ہوا نظر آیا ۔ وہ مُسکرا دیا تھا ۔ اس نے بچے کا ہاتھ تھام کر چوم لیا ۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اسے سمجھ آگئی تھی کہ رشتے خوشیاں بھی دیتے ہیں، زندہ ہونے کا احساس بھی بخشتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
” مکان بیچ دیا آمنہ کے تایا اور چچا نے ، آمنہ کو گھر چھوڑ کر جانا پڑا ۔” نورین باجی نے شربت کا گلاس اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
وہ سر جھکائے بیٹھا رہا ۔
اس نے بہت دیر کر دی ۔
یہ احساس اسے اسی وقت ہو گیا تھا جب اس نے آمنہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ اسے آس تھی کہ وہی دروازہ کھولے گی۔ مگر وہاں تو سات سالہ بچی کھڑا تھا اور وہ کسی آمنہ فرمان کو نہ جانتا تھا ۔ وہ اندر اپنی ماں سے پوچھ کر آیا۔
” آمنہ فرمان اب یہاں نہیں رہتی۔”
وہ ساتھ والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا مگر رک گیا ۔ اس نے گلی میں کھیلتے بچے سے پوچھا تھا کہ اشفاق بھائی کا گھر کون سا ہے ۔ بچے کے اشارہ کرنے پہ وہ یہاں چلا آیا تھا ۔آمنہ کے چچا یا تایا کے گھر سے بہتر معلومات یہاں سے مل سکتی تھیں ۔
” آمنہ کی دادی؟” اس نے آہستہ سے پوچھا ۔
” آمنہ کے ابا کی میت آئی تھی ۔ سنا ہے کہ کسی مزار پہ مردہ حالت میں پائے گئے تھے ۔ اولاد جیسی بھی ہو ، ماں اسے دل سے نکال سکتی ہے نہ ہی ا س کی موت کو آسانی سے قبول کر سکتی ہے ۔ وہ بوڑھی عورت بھی بیٹے کی موت کے بعد زیادہ دن جی نہ پائیں ۔ دو مہینے بعد اللہ کو پیاری ہو گیں ۔ جب تک زندہ تھیں ، کسی نہ کسی طرح گھر کو بیچنے سے بچایا تھا مگر ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی گھر کا سودا بھی ہو گیا ۔ آمنہ سے کہہ دیا۔
کہ جائو اپنی ماں کے پاس ۔”
آمنہ کیسے کیسے حالات سے گزرتی رہی اور وہ یہاں سے سینکڑوں میل دورمنہ چھپائے پڑا رہا۔
یہ کیسی محبت تھی ۔
نہ اسے محبت کے حصار میں قید کیا نہ محبت کی خوشبو سے آزاد کیا ۔
اس نے اپنے آپ کو کوسا ۔
” کیا وہ اپنی اماں کے پاس گئی تھی؟”
”ہاں ۔”
”ٹھیک ہے ۔ پھر میں چلتا ہوں ۔” و ہ اٹھنے لگا تھا ۔
”اس نے تمہارا بہت انتظا ر کیا ۔لیکن تم نے آنے میں دیر لگا دی۔”
”جی ۔” اس نے شرمندگی کے ساتھ سر جھکایا ۔
”اللہ کرے کہ بہت دیر نہ ہوئی ہو۔”
نورین باجی نے دل سے دعا دی ۔ اس نے دل میں آمین کہا اور اس پُر خلوص عورت کو ”اللہ حافظ ” کہہ کر باہر نکلنے لگا۔
‘میرا موبائل نمبر لے لو، مجھے بھی اچھی خبر سنا دینا ۔”
”جی۔” اس نے نورین باجی کا فون نمبر اپنے موبائل میں سیو کیا اور وہاں سے نکل کر سیدھا بیگم شاہ جہاں کے گھر چلا آیا ۔ حفصہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔
” بیگم شاہ جہاں بہت یاد کرتی تھیں آپ کو ۔”
”اولاد کیسی بھی ہو ،ماں اسے نہیں بھولتی ۔ ” اس نے سر جھکا کر وہ رشتہ تسلیم کیا جو بیگم شاہ جہاں کی زندگی میں نہ کیا تھا ۔
ان دونوں نے اس دن اپنے بچپن کی ، بیگم شاہ جہاں کی ،آیا کی اور اس گھر میں پلنے والے باقی بچوں کی بہت سی باتیں کیں ۔ لائبہ ایک اسکول میں پڑھا رہی تھی اور ما شاء اللہ سے دو بچوں کی ماں بن گئی تھی۔ ثانیہ چائنا سے ڈاکٹر بن کر آگئی تھی اور کسی سرکاری اسپتال میں جاب کر رہی تھی۔حفصہ کا ایک بیٹا تھا اور آیا آمنہ کے ساتھ یہاں سے د و سال پہلے چلی گئی تھی۔ یہ خبر سُن کر اسے دھچکا لگا ۔
”کہاں؟”
” میں نہیں جانتی۔”
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا ۔
” میں اتنا بتا سکتی ہوں کہ کوئی مرد انہیں لینے آیا تھا ۔”
”کون تھا وہ مرد؟” اس نے فورا پوچھا ۔
”سوری ، اس نے بیگم شاہجہاں کے ساتھ میٹنگ کی تھی ۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ آیا اور آمنہ کو کسی اور یتیم خانے میں نوکری مل گئی۔ آیا تو جانا نہ چاہتی تھیں مگر بیگم شاہ جہاں کے سمجھانے پر وہ آمنہ کے ساتھ چلی گئیں ۔”
وہاں سے نکلتے ہوئے اس کے اندر بہت ساری تھکن اتر آئی تھی۔
اسے لگا کہ زندگی شاید یونہی ایک دوسرے کی تلاش میں بسر ہونے والی ہے ۔
٭٭٭٭٭
”عبداللہ اے شیلٹر”
اس نے خوبصورت عمارت کے ماتھے پہ سنہری حروف میں لکھے ان الفاظ کو پڑھا پھر مڑ کر آئمہ کی طرف دیکھا ۔
” ڈیڈی نے دو سال پہلے اس یتیم خانے کی بنیاد رکھی ۔ چلیں ۔۔۔” اس نے اپنی جگہ منجمد کھڑے عبداللہ کو آگے قدم بڑھانے کا اشارہ کیا ۔ ”ڈیڈی آ پ کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تو میرے سکون یا شاید اپنے سکون کے لیے یہ گھر بنایا ۔ ہم جو یونہی زندگی بسر رہے تھے ۔ ہمیں ایک مقصد مل گیا ۔” آئمہ عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔ ننھا عبداللہ بھی ان کے ساتھ تھا ۔ ڈیڈی عبداللہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے مگر جب خود ماں بنی تو ڈیڈی کو معاف کر دیا۔
”اب میں اور ڈیڈی چاہتے ہیں کہ اس گھرکو آپ سنبھالیں ۔”
” مگر ۔۔۔” اس نے کہنا چاہا کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا ۔
”بیگم شاہ جہاں نے کہا تھا کہ عبداللہ سے یہ کام لینا ۔ اسے بھی تو پتا چلے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ ہاں ۔۔۔ ”بیگم شاہ جہاں راپنزل کی جعلی ماں گوتھیل جیسی تھی” لکھنا بڑا آسان کام ہے ۔” وہ مُسکراتے ہوئے بتارہی تھی۔
وہ بھی ہلکا سا مسکرا دیا ۔
”چلیں آئیں ، ہم ایکٹنگ انچارج سے مل لیتے ہیں ۔”
آئمہ نے ایک آفس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ اس وقت وہ بالکل نہ جانتا تھا کہ اس کی تلاش کہاں جا کر ختم ہونے والی تھی۔ اس نے آفس میں قدم رکھا اور وہیں منجمد ہو گیا ۔ کسی فائل میں گم ایکٹنگ انچارج نے بھی سر اٹھا کر دیکھا تو اسی حالت میں آگئی۔
آئمہ نے مُسکرا کر دونوں کو دیکھا ۔ یوں لگتا تھا کسی شرارتی بچے نے دونوں کو ”اسٹیچو ” کہہ کر وہیں اسٹاپ کر دیا ہے ۔
”میں عبداللہ کو دیکھتی ہوں۔” آئمہ مسکراتی ہوئی کمرے سے نکلنے لگی، پھر رکی اور انگلیوں کا اشارہ کر کے شرارت بھرے انداز میں ”موو” کہا اور ہنستی ہوئی باہر چلی گئی۔ وہ دونوں ایک دم ہوش میں آئے تھے مگر بہت دیر تک بول کچھ نہ پائے تھے ۔آمنہ فرمان نے اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے کرسی کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ کھڑا اسے دیکھتا رہا تھا ۔
”کیسی ہو؟”
”ٹھیک ۔” اس نے یک لفظی جواب دیتے ہوئے نم آنکھوں کو صا ف کیا ۔
” میں نے تمہیں بہت تلاش کیا ۔ پہلے ایک عمر بہن کی تلاش میں گزار دی ۔ اب لگتا تھا باقی عمر تمہاری تلاش میں گزرنے والی ہے ۔”
”میں نے آپ کا بہت انتظار کیا۔ پہلے باپ کا انتظار کرتی تھی۔ اب لگتا تھا کہ باقی عمر آپ کے انتظا ر میں گزرنے والی ہے ۔”
اس کا لبا س ،اس کا انداز آسودہ حالی کا پتہ دیتے تھے مگر چہرے پہ سنجیدگی کا گھیرائو تھا ۔
”تم یہاں کیسے ۔۔۔”
”مجھے اور اماں کو جہانگیر عثمان لے کر آئے تھے ۔”
وہ حیران تھا جہانگیر عثمان کے اس روپ پر ۔ ایک گھمنڈی انسان جو اپنی بیٹی کو اپنی سگی بیٹی بتانے سے ڈرتا تھا ،اس میں آئی یہ تبدیلیاں۔۔ بے شک اللہ جسے چاہے ،بدل ڈالے۔
” میں نے صاحب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ، پھر بھی ابھی تک کھڑا ہے ۔۔۔لگتا تھا اب بھی فرار ہونے کے چکر میں ہے ۔” آمنہ فرمان کے ہونٹ ہلے تھے ۔
”کیا تم ابھی بھی منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہو ؟” عبداللہ نے دیکھ لیا تھا۔
وہ بے ساختہ مسکرا دی ۔ عبداللہ بھی مسکراتے ہوئے کرسی پہ بیٹھ گیا ۔
٭٭٭٭٭
”عبداللہ اے شیلٹر ” ایک یتیم خانہ ہے جس کو ڈھائی سال پہلے جہانگیر عثمان نے قائم کیا ۔اس گھر میں بہت سارے بچے ہیں ۔ اس گھر میں ایک باپ ہے جس کا نام عبداللہ ہے ، ایک ماں ہے آمنہ نام کی۔ اس گھر میں روئی کے گالوں جیسے سفید بالوں جیسی نانی بھی ہیں ۔
اب و ہ کرخت چہرے والی ڈانٹنے اور مارنے والی آیا نہیں رہیں ۔ ایسا نہیں کہ اس کے اند ر سے یہ خصوصیات ختم ہو گئی ہیں بلکہ ایسا اس لیے ہے کہ ان میں ڈانٹنے اور مارنے کی سکت اب باقی نہیں رہی ۔ ایک جملہ بول کر ہانپنے لگتی ہیں ۔یہاں کبھی کبھی ایک بڑی سی گاڑی سے اتر کر نفیس سی دادی اور سوٹڈبوٹڈ دادا بھی آتے ہیں ۔ اس دن بچے بہت خوش ہوتے ہیں ، دادا ، دادی بہت سے تحفے جو لے کر آتے ہیں۔ اس گھر میںگلابی گلابوں جیسی ایک پھوپھو بھی اپنے بچے کا ہاتھ تھامے اکثر شام چلی آتی ہیں کبھی کبھی ان کے ساتھ بہت ہنسانے والا پھوپھا بھی آتے ہیں ۔ سب بچوں کے ایک ”ابا جی ” بھی ہیں، جو ہفتے کی شام انہیں اردو پڑھانے آتے ہیں ۔
جی ہاں ۔۔۔”عبداللہ” ایک ایسا گھر ہے جہاں بہت سارے لوگ ہیں ، بہت سارے رشتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
(ختم شد)