”یہ میں بھی سمجھتا ہوں ۔میں نے یہ نہیں کہا کہ آپ خاقان کی فیملی کے سامنے confess کریں ۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ میری گلاب کو اس تکلیف سے نکالیں ۔ اسے بتائیں کہ آپ اس کے باپ ہیں ، سگے باپ ۔”
”ٹھیک ہے ۔۔۔ ٹھیک ہے میں اسے بتا دوں گا مگر وقت اور موقع دیکھ کر ۔”
اس نے میری بات کا یقین کیا تھا یا نہیں ، میں نہیں جانتا مگر وہ وہاں سے چلا گیا تھا ۔ میرا بس نہ چلتا تھاکہ اس شخص کو اٹھوا کر اپنے گھر سے باہر پھنکوا دوں جو ایک دو ٹکے کا ملازم ہو کر میرا احتساب کرنے چلا تھا ۔ مگر اس موقع پر میں ایسا نہ کر سکتا تھا ۔
پھرایک دن خاقان میرے پاس آیا ۔ اپنے باپ کو مطمئن کرنے کے لیے اس نے بیگم شاہجہاں کی منتیں کر کر کے آئمہ کا ریکارڈ نکلوایا تھا ۔ اس نے بتایا کہ وہ آئمہ کی فیملی کے بارے میں جان گیا ہے ۔ اس وقت یقیناً میرے چہرے پہ ایسے تاثرات نمودار ہوئے ہوں گے کہ خاقان بات کرنا بھول کر جلدی سے میری طرف بڑھا تھا ۔
”کیا ہوا انکل، آپ ٹھیک تو ہیں ۔”
میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی ۔مجھے پتا ہی نہ تھا اور خاقان بیوی سے پتا لے کر اس یتیم گھر جا پہنچا تھا جہاں سے میں نے اپنی بیٹی کو واپس لیا تھا ۔مجھے لگا کہ مجھے ہارٹ اٹیک آجائے گا ۔وہ سب کچھ جان گیا ہو گاآئمہ کی ماں کے بارے میں ، آئمہ کے باپ کے بارے میں ۔
میں آنے والے نتیجے کے بارے میں سوچ چکا تھا مگر یہ کیا ۔۔۔۔ خاقان تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا ۔
آئمہ کا تعلق اعلیٰ حسب نسب والے خاندان سے تھا ۔ خاندانی دشمنی کی بنا پر اس کے ماں باپ اور گھر کے باقی افراد کو کو مار دیا گیا تو وفادار ملازم بچی کو بچا کر بھاگا اور بیگم شاہ جہاں کے حوالے کر گیا ۔
”اوہ۔” میں نے سینے میں رکا سانس خارج کیا تھا ، اور ایک دفعہ پھربیگم شاہجہاں کا شکر گزا ر ہو ا حالاںکہ ان دنوں مالی کی خود پہ بار بار اٹھنے والی کچھ جتاتی ہوئی نظریں محسوس کر کے مجھے بیگم شاہ جہاں پہ غصہ بھی تھا ۔ یقینا ان کے توسط سے ہی وہ یہ راز جان پایا تھا ۔ مالی نے پھر مجھ سے کئی دن کوئی بات نہ کی تھی مگر مجھے اس کا وجود کھٹکنے لگا تھا ۔ ہماری خوشیاں لوٹ آئیں تھیں لیکن میرا راز بھی اب ایک سے زیادہ لوگوں کے پاس تھا اس لیے دل کو کھٹکا سا لگا رہتا تھا۔
شادی سے ایک دن پہلے پھر وہ میرے پاس آیا تھا ۔
”آپ نے گلاب کو بتایا ؟”
دو ٹکے کا مالی پھر محتسب اعلیٰ بنا میرے سر پہ سوار تھا ۔
”اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے ، اب ضرورت نہیں ہے ۔” میں نے جواب دیا ۔
”ضرورت ہے ۔۔۔ کسی اور کو نہیں ۔۔۔گلاب کو ضرورت ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ وہ اب بھی مرجھائی ہوئی سی ہے ۔کسی خوشی کو محسوس نہیں کر پا رہی ۔”
”وہ اس کہانی کو تسلیم کر چکی ہے جو خاقان نے سنائی۔”
”تسلیم کر چکی ہے مگر خوش تو نہیں ہے ناں ۔ میں اپنے گلابی گلاب کو مرجھایا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔”
یہ شخص عجیب عذاب بن کر میرے سر پہ سوار ہو گیا تھا ۔
”تم چاہتے ہو کہ میں عین اس کی شادی کے وقت اسے یہ بات بتائوں کہ وہ illegitimate ہے؟”
لگتا تھا کہ بات اسے سمجھ آگئی ۔ وہ جو داروغہ بنا سر پہ کھڑا تھا ، ایک دم ڈھیلا پڑا ۔
”یہ اس کا حق ہے کہ اسے اپنی ماں کا اپنے باپ کا پتا ہو۔” وہ آہستہ سے بولا تھا ۔ اس کا لہجہ تبدیل ہو گیا تھا۔
”میں بتائوں گا اسے ۔۔۔ ضرو بتائوں گا مگر وقت آنے پر ۔”
پتا نہیں وہ مطمئن ہوا تھا یا نہیں مگر میرے سر سے ٹل ضرور گیا تھا ۔ میں بیٹی کے شادی کے انتظامات میں مصروف ہو گیا ۔ میں تسلیم کروں یا نہ کروں ، آئمہ کے آنسوئوں اور مالی کے جملوں نے میرے اندر گناہ کا احساس پیدا کر دیا تھا ۔ میں اپنی بیٹی کو سینے سے لگا کر یہ قسم نہ کھا سکتا تھا کہ وہ میری بیٹی ہے میرا خون ہے ۔ اس لیے میں کوئی اور کمی باقی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔ میں اس کی شادی اتنی دھوم دھام سے کرنا چاہتا تھا کہ لوگ برسوں یاد رکھتے ۔
شادی والے دن سات لاکھ کے لباس میں میری بیٹی دمک رہی تھی ،ا س کے سر کے جھومر سے لے کر پیر کی انگلیوں تک کے زیورات میں ہیرے جڑے تھے ۔میری بیٹی کی شادی میں کھانو ں کی اتنی لمبی قطار تھی کہ کھانے والے کو سمجھ نہ آتی ، کیا کھائے اور کیا چھوڑے ۔ میری بیٹی کی شادی میں قطعاً عام لوگ مدعو نہ تھے، ان کو دیکھ کر ان کے اسٹیٹس کا پتا چلتا تھا ۔ میں گردن اکڑا کر ملک کے سب سے بڑے جیمولوجسٹ کے ساتھ بیٹھا تھا جب میں نے مالی کو ہاتھ میں گلدستہ لیے اسٹیج کی طرف جاتے دیکھا ۔
میرا تو دماغ گھوما ، یہ مالی میری نرمی کا نا جائز فائد ہ اٹھا رہا تھا ۔ میں تو گھر کے ملازمین کو شادی میں بلانے کے حق میں ہی نہ تھا مگر میری بیوی کا کہنا تھا کہ ان کا حق بنتا ہے ۔ میری بیوی بھی ناں اندر سے ایک چھوٹے شہر کی سنارن ہی رہی۔
”دانی ، یہ کہاں جا رہا ہے ، ہٹائو اسے وہاں سے ۔” میں نے بہن کے بیٹے کو بلا کر اس کے کان میں کہا۔
دانی تو ویسے ہی خار میں تھا ، اس کو اپنا داماد جو نہ بنایا تھا میں نے ۔ مجھ سے تو بیر لے نہ سکتا تھا، مگر مچھ سے بیر لیتا تو کھاتا کہاں سے ۔ میری جی حضوری اس کی مجبوری تھی۔ساری خار جا کر اس نے مالی پہ نکالی ۔اس نے دھکا دے کر مالی کو اسٹیج سے پرے کیا تھا اور شاید کچھ کہا بھی تھا ۔ میں نے گلدستے کو زمین پہ گرتے اورمالی کو تیزی کے ساتھ ہال سے نکلتے دیکھا ۔ اس کے بعد میں نے اسے نہ دیکھا ۔
وہ غائب ہو گیا تھا ۔
میں خوش تھا کہ چلو خس کم جہاں پاک ۔
میرے مطابق سب کچھ بالکل ٹھیک ہو گیا تھا۔ میری بیٹی ہنی مون سے لوٹی اور خاقان کے ساتھ ملنے آئی تو اس کے چہرے پہ خوشیوں کے رنگ بکھرے دیکھ کر میں اندر تک شاد ہوا۔ مگر یہ سکون جلد ہی غائب ہو گیا ۔ اگلے دن صبح آئمہ گھر سے غائب تھی ۔ ہم پریشانی کے عالم میں اسے ڈھونڈ رہے تھے جب پتا چلا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔ مجھے لگا کہ میں مر جائوں گا ۔میری تو کل متاع ہے میری بیٹی۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔۔۔
اس سے آگے میں سوچ نہ سکا اور ایک بار پھر اللہ کو پکارا ۔ وہ سمیع ہے ،اس نے اس بار بھی میری پُکار سُن لی ۔
آئمہ بچ گئی ، اسے چھے گھنٹے بعد ہوش آیا تھا ۔ آہستہ آہستہ اس کے زخم بھرنے لگے مگر جانے کیا بات تھی جو اسے تکلیف دے رہی تھی۔ وہ روتی رہتی تھی۔ خاقان اور اس کے گھر والے بھی پریشان تھے ۔ مگر وہ کچھ بتا نہ رہی تھی۔ ایک دن میں بیوی کے ساتھ اسپتال اسے دیکھنے گیا تو مجھے احساس ہوا کہ اس کی آنکھیں بہت سوجی ہوئی ہیں ، وہ بہت روئی ہے ۔ وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اس پہ بوسہ نہ دیا تھا ۔ میں نے اسے سینے سے لگانا چاہا تو وہ پرے کو ہٹی ۔ وہ میری کسی بات کا صحیح طرح سے جواب نہ دے رہی تھی ۔ میں پریشان سا ہو کر واپس آیا تھا ۔ اس کے بعد میں جب بھی اس سے ملا ، ا س کا رویہ وہی رہا ۔یہ رویہ مجھے ہرٹ کرتا تھا ۔ میری بیٹی مجھ سے دور ہو رہی تھی۔ میری نیندیں حرام ہونے لگیں ۔
میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے بتائے کہ وہ میرے ساتھ اتنا اجنبیت بھرا سلوک کیوں کرنے لگی ہے۔ آخر ایک دن مجھے پتا چل ہی گیا ۔ وہ میری شاپ پر آئی تھی اور اس نے میرے سامنے چند ڈائریاں رکھی تھیں۔
” مجھے عبداللہ چاہیے ۔ آپ اسے ڈھونڈ کر لائیں کہیں سے بھی کسی بھی طرح ۔میں سب بھول جائوں گی ، آپ کو معاف کر دوں گی ۔”
وہ وہاں مزید ایک منٹ بھی نہ رکی تھی۔ میں شش و پنج میں ڈائریاں اُٹھا کر گھر آیا ۔ بیوی کو ہدایت کی کہ کوئی بھی مجھے ڈسٹرب نہ کرے اورآئمہ کے کمرے میں آ کرسال کے حساب سے ان میں سے سب سے پرانی ڈائری کھول لی ۔
دوپہر سے شام ہوئی ، شام سے رات ہوئی ۔ کسی ملازم کی تو ہمت نہ ہوئی مگر بیوی تین بار دروازہ کھٹکھٹا کر گئی ۔ اسے تشویش تھی کہ میں کمرے میں کیوں قید ہوں ۔ میں اسے مطمئن کر کے واپس بھیج دیتا تھا مگر حقیقت تو یہ تھی کہ میں اس وقت بالکل بھی ٹھیک نہیں تھا ۔ مجھے وہ لڑکابہت اچھی طرح یاد آچکا تھا جس کی بابت بیگم شاہجہاں نے کہا تھا کہ بچی کے ساتھ اس کا بہت لگائو ہے ۔
میرے ضمیر نے کبھی بھی بے محل جاگنے کی کوشش نہیں کی مگر آج ۔۔۔آج وہ مجھے میری اصل شکل دکھا رہا تھا۔
جو غلطیاں جو گناہ مجھ سے ہوئے ، جو بے فائی میں نے بیوی کے ساتھ کی ، جو زیادتی میں نے ریحانہ پروین کے ساتھ کی ، وہ تو ایک طرف رہیں ۔ ان کے حساب کتاب تو بعد کی بات ہے ۔ ابھی تو صرف ایک باپ ہونے کی حیثیت سے خود پہ چارجز لگا رہا تھا۔
میں آئمہ کا سگا باپ تھا ، میں نے اسے نہیں اپنایا ۔ عبداللہ صحیح کہتا تھا۔ یہ اسے نظر انداز کرنا ہی توتھا کہ میری بیٹی اپنے باپ کے گھر میں رہ کر لے پالک سمجھی جاتی تھی۔ بے شک میں نے دنیا کی ساری نعمتیں اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیں مگر جب اسے حقیقی بیٹی کے طور پر اپنایا نہیں تو ڈس اون ہی کیا ناں۔۔۔ ہاں میں نے اپنی سگی بیٹی کو ڈس اون کیا اور عبداللہ اس کا کچھ نہ لگتا تھا پھربھی اس نے نا صرف بھائی بن کر اسے اون کیا بلکہ عمر بھر یہ رشتہ نبھایا ۔
جب عرفان احسن نے میری بیٹی کے بیک گرائونڈ پہ شک کرتے ہوئے رشتہ ختم کیا تو میں تو اپنی ہی فکروں میں اپنے ہی غموں میں پڑ گیا ۔وہ عبداللہ ہی تھا جس نے بیگم شاہجہاں کو مجبور کیا کہ وہ آئمہ کا ریکارڈ بدلیں ۔
آئمہ کے لیے میرے پیار میں ملاوٹ تھی ، کسی حد تک خود غرضی تھی۔ میں اپنی بیٹی کو اپنا نام بھی دینا چاہتا تھا اور اپنا دامن بھی صاف رکھنا چاہتاتھا ۔ اپنا نام بنا کر رکھنا چاہتا تھا ۔ عبداللہ کا پیار خالص تھا ۔ اس نے آئمہ کی تلاش میں اپنا کیرئیر دائو پہ لگایا ۔ اسے ملائشیاکی یونیورسٹی کی طرف سے اسکالر شپ آفر ہو رہا تھا، وہ ایک بینک میں نوکری کرتا تھا ، اسے بیگم شاہ جہاں کسی کا ذاتی ملازم نہ بنانا چاہتی تھیں مگر وہ دیوانہ بہن کے پیار میں مالی بن بیٹھا ۔ میں نے شاہ زادوں کی داستانیں سنی تھیں جنہوں نے اپنے پیار میں تخت و تاج تھکرایا ۔آج تک کسی بھائی کی کہانی نہ سنی تھی جو بہن کے پیار میں مالی بن بیٹھا ۔
ایک مالی مجھے اپنے مقابلے پہ قد آور لگ رہا تھا اور میں اس کے سامنے بونا تھا۔
میں نے اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ، اپنی بیٹی کے ہونٹوں پہ جان دار مسکراہٹ لا نے کے لیے، اس کی نگاہ میں اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس پانے کے لیے سارے ذرائع استعمال کیے مگر ناکام رہا ۔ وہ تو جانے زمین کے کس کونے پر چلا گیا تھا۔
اب میں نے ایک بار پھر اللہ کو پکارا ہے ۔ بندہ تو ناکام ہو گیا ۔ وہی ہے جو سمیع ہے ، مجھے یقین ہے کہ مجھ گناہ گار کی پُکار پھر سُنے گا ۔
٭٭٭٭٭
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی عورت نے اپنا میک اپ صاف کیا اور غور سے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھنے لگی ۔ کبھی یہ چہرہ کھلی کتاب ہوا کرتاتھا، د ل کا حال چہرے سے جھلکتا تھا۔ ہر جذبے کا عکس اسی چہرے پہ جھلملاتا تھا ۔ پھر اس چہرے پہ ایک تہ چڑھی، اس کے اوپر ایک او رتہ، اس کے اوپر ایک اور۔۔۔ بہت زمانے بعد اس عورت نے اپنے چہرے سے یہ تہیں ہٹا کر اپنا اصل چہرہ دیکھا تھا ۔
یہ عورت ارم جہانگیر تھی۔
تیس سال پہلے اس نے جہانگیر عثمان کے سنگ نیک نیتی کے ساتھ ایک سفر شروع کیا ۔ وہ بہت خوش تھی ، بہت شاد تھی ۔ مگر جب شادی کے کئی سال بعد بھی ماں نہ بن سکی تو زندگی میں ادھورا پن محسوس ہونے لگا ۔بچہ تو اس کی قسمت میں تھا ہی نہیں ، اس کی گود بھری اور پھر اجڑ گئی ۔ سات سال تو سسرال والے بھی چپ رہے پھر کوئی امید نہ پا کر ساس نند جہانگیر پہ دوسری شادی کے لیے دبائو ڈالنے لگیں تو اسے لگا کہ بس اب اس کے گھر کی دیواریں گرنے ہی والی ہیں مگر اس وقت جہانگیر نے اس کا ساتھ دیا اور دوسری شادی سے انکار کر دیا ۔ اسے اپنے شوہر کے پیار اور اس کی وفا پہ ناز ہوا۔اس نے ایک دو بار بچہ گود لینے کی بات کی تھی مگر جہانگیر نے قطعیت سے منع کر دیا۔ وہ بھی خاموش ہو گئی یہ اور بات کہ بچے کی خواہش اسے ذہنی طور پر بیمار کر رہی تھی۔ اسے اپنے آپ ادھورا ادھورا سا لگتا ۔اسے لگتا اس کے اندر کا یہ سونا پن ، گھر کا سناٹا ا س کی جان لے ،لے گا ۔ اس کے علاوہ یہ ڈر بھی جونک بن کر اس کے ساتھ چمٹا رہتا کہ جہانگیر کب تک اپنی ماں اور بہن کو ٹالیں گے ۔کہیں وہ دوسری شادی کے لیے مجبور نہ کر دیئے جائیں ۔ ایسے حالات میں جب اچانک ایک دن جہانگیر نے بچہ گود لینے کی بات کی تو وہ حیران تو ہوئی مگر خوش زیادہ ہوئی ۔ اسے لگا کہ ا ب ہر مسئلہ حل ہو جائے گا ۔
ایسا ہی ہوا، آئمہ ان کی زندگی میں آئی تو رونق آگئی۔ اس کے اندر کا ادھورا پن ختم ہونے لگا ۔ جہانگیر کی دوسری شادی کا سر پہ منڈلاتا خوف بھی دور ہوا ۔ نند اس فیصلے سے زیادہ خوش نہ تھی ، اسے لگتا تھا کہ بچہ ہی گود لینا تھا تو اپنے بہن بھائی کا لیتے ، اپنا خون تو ہوتا ۔ اس نے جہانگیر کویہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اپنا بیٹا انہیں دے سکتی ہے ۔
جہانگیرنہیں مانے تھے ۔
آئمہ کے آجانے سے زندگی پہ جو جمود طاری ہونے لگا تھا ، وہ ختم ہوا۔ وہ اس میں مگن ہو کر بہت خوش رہنے لگی تھی ، جہانگیر بھی خوش رہنے لگے تھے ۔ بھلے وہ کبھی اس کے سامنے اولاد کی خواہش کا اظہار نہ کرتے تھے مگر اولاد کون نہیں چاہتا ۔ جہانگیر نے بچی کے لیے دنیا کی ہر نعمت کاڈھیر لگا دیا تھا۔ حیرت کی بات تھی ارم سے زیادہ وہ اس کے مستقبل کے لیے پلاننگز کرنے لگے تھے ۔ ارم خوش تھی ۔ اس کی ذات اور اس گھر کا سونا پن ختم ہو گیا تھا ۔
آئمہ ساڑھے تین برس کی تھی جب جہانگیر کی چچی کا انتقا ل ہوا۔ وہ سب اپنے آبائی شہر گئے تھے ۔ وہاں کی دُکان جہانگیر کا چچا زاد بھائی جو کہ بہنوئی بھی تھا ، وہ دیکھتا تھا ۔وہ مہینے کے مہینے لاہور آتا اور سارا حساب کتا ب ہوتا ۔جہا نگیر خود تو بہت کم اب یہاں کا چکر لگاتے تھے ۔ اب بھی کافی عرصے بعد وہ یہاں آئے تھے ۔
انہیں یہاں آئے ہوئے تیسرا دن تھاجب جہانگیر کا بہنوئی کچھ لفافے دے کر گیا ۔ وہ جہانگیر کے نام کی ڈاک تھی، جو جانے کب سے اکٹھی ہوئی رہی تھی۔ انہوں نے اسے لاپرواہی سے ایک طرف ڈال دیا تھا ۔وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے۔ ان کا لین دین زیادہ تر فون کالز پہ طے ہوتا ۔ کوئی خاص ڈاک ہوتی تو لاہور کے پتے پہ منگواتے ۔ یہاں کی ڈاک یا تو یونہی پڑی رہتی یا کبھی ارم سے چیک کرنے کو کہتے ۔
جس دن ان کی واپسی تھی، جانے سے پہلے ارم نے پیکنگ کی تو ایک طرف پڑی ڈاک پہ نظر پڑی ۔ وہ اسے پھینک دینے سے پہلے ایک نظر دیکھنے لگی کہ کہیں کوئی ضروری پیپر یا لیٹر نہ ہو ۔ اس قت وہ بے خبر تھی کہ اس کے ہاتھ میں جہانگیر عثمان کی ڈاک نہیں بلکہ ایک دھماکہ خیز مواد ہے ۔
وہ شاید اس لفافے پر بھی ایک نظر ڈال کر اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیتی مگر رک گئی ۔ کیوںکہ یہ کسی بینک کا لیٹر نہ تھا ، خیرخواہوں کی طرف سے بھیجا گیا تہنیتی پیغام نہ تھا۔ یہ ڈاک کا عام لفافہ تھاجس پہ ہاتھ سے پتا لکھا ہوا تھا اور اس کی پچھلی جانب لکھے پتے نے اسے چونکا دیا تھا۔جس علاقے کا نا م لیتے ہوئے اسے جھجک آتی تھی، یہ خط وہاں سے آیا تھا وہ بھی اس کے شوہر کے نام۔ وہ اسے کھولے بنا نہ رہ سکی تھی۔ اس کے بعد وہ ساری عمر پچھتائی کہ کیوں وہ پرخچے اڑا دینے والا لفافہ کھول لیا ۔
جہانگیر عثمان !
میری موت مجھے آواز دے رہی ہے ۔ ہماری ایک بیٹی ہے گلاب، خدا کے واسطے اس کو آکر لے جائیں ۔ ورنہ وہ ان گلیوں کی سجاوٹ یا دھول بن کر رہ جائے گی۔ دونوں صورت میں آپ کا خون، آپ کی بیٹی مٹی میں رُل جائے گی۔
آپ کی راہ تکتی ریحانہ پروین ۔
خط کی تحریر نے اس سکتے میں ڈالا ہی تھا مگر ساتھ پڑی بچی کی تصویر نے اسے اس حال تک پہنچا دیا کہ پھر وہ ساری عمر زندوں میں رہی نہ مردوں میں ۔
بے شک تصویر والی بچی سال بھر کی لگ رہی تھی اور جس بچی کو انہوں نے گود لیا تھا وہ پونے تین سال کی تھی مگر اس کی آنکھیں تو سلامت تھی ناں ۔ وہ پہچان گئی تھی ۔ساری کہانی ایک فلم کی صورت اس کے سامنے چلی اور بہت کچھ یاد آتا گیا ۔
”میں چاہتا ہوں کہ ہم ایسا بچہ گود لیں جس کے نین نقش ، آنکھوں بالوں کا رنگ وغیرہ ہم سے ملتا جلتا ہو تا کہ مستقبل میں ہم اور خاص طور پر بچہ یا بچی بہت سے مسائل سے بچے ۔ اُمید ہے آپ میری بات سمجھ رہی ہوں گی۔ ”
” میں نے یہاں آتے ہوئے ایک چھے سات سالہ بچے کے ساتھ ایک بچی دیکھی ۔۔۔ یہی کوئی ڈھائی تین برس کی ۔”
نہ وہ یہ جانتی تھی کہ بچی کی ماں کا کیا بنا ، نہ وہ یہ جانتی تھی کہ بچی یتیم خانے کیسے پہنچی اور نہ ہی وہ یہ جانتی تھی کہ جہانگیر وہاں تک کیسے پہنچا ۔
وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ جہانگیر نے اس کے ساتھ کیا ،کیا ؟
وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ جہانگیر نے اسے کس کس طرح سے دھوکا دیا؟