‘
‘ کالے رنگ کی ایڑی والی وہ جوتی آمنہ کو بہت تنگ کرتی ہے ۔ مجھے اس کی چال سے محسوس ہوتا ہے ۔ میں جائوں گا تو اس کے لیے آرام دہ جوتا لے کر جائوں گا ۔”
آج بہت دن بعد وہ پھر ایک ڈائری کھولے بیٹھی تھی۔
اسے اس لڑکی سے ملنے کا شوق ہوا ، جس کا نام آمنہ فرمان تھا اور جس کو وہ اپنی گلاب کے لیے چھوڑ کر آیا تھا ۔
لاہور کے رستے پھر اسے بلا رہے تھے ، اس دفعہ اس نے خاقان کو بتایا تھا ۔وہ اس کو اکیلا بھیجنا نہ چاہتا تھا ۔
”اس دفعہ احتیا ط کے ساتھ ڈرائیو کروں گی ۔ ” اس وعدے کے ساتھ وہ اکیلی نکل آئی تھی۔ بیگم شاہ جہاں سے آمنہ کا پتا لے کر وہ اس کے گھر تک پہنچی تھی۔ جس لڑکی نے دروازہ کھولا تھا ، اس کی گندمی رنگت اور سیاہ آنکھوں کو دیکھ کر آئمہ کو لگا کہ یہی آمنہ فرمان ہے ۔
” میں آئمہ ۔۔۔” اس نے سن گلاسز آنکھوں سے اتارتے ہوئے اپنا تعارف کروایا ۔ آمنہ اجنبی نظروں سے دیکھتی رہی۔
”سوری ۔۔۔ میں گلاب ۔”
اس نے آمنہ کی آنکھوں میں ایک دم ظاہر ہوتی چمک کو محسوس کیا ۔
”آئیں ناں ۔۔۔” اس نے سامنے سے ہٹتے ہوئے آئمہ کو رستہ دیا ۔
وہ اندر چلی آئی ، آمنہ دروازے کے پٹ سے ابھی بھی لگی کھڑی تھی، وہ گلاب کے پیچھے پیچھے کسی اور کے اندر داخل ہونے کی منتظر تھی ۔ اس کے پیچھے کوئی اور نہ آیا تھا ۔اب وہ دروازے سے باہر جھانکنے لگی تھی۔ گلی کو سنسان پا کر مایوسی کے عالم میں پلٹی۔
”آپ کسی اور کی منتظر ہیں ؟” آئمہ پوچھے بنا رہ نہ سکی۔
”نن۔۔۔نہیں ۔ آئیںناں آپ ۔”وہ اسے لیے برآمدے میں چلی آئی اور دادی کے تخت کے پاس رکھی کرسی پیش کی ۔
”کون ہے ؟” دادی نے آنکھ پہ ہاتھ کا چھجا بنا کر پہچاننے کی کوشش کی ۔ ان کی نظر مزید کمزور ہو گئی تھی۔
”عبداللہ کی بہن ہے ۔”
یہ تعارف آئمہ کے اندر اُداسیاں بھر گیا ، اس کی آنکھوں کی سطح زیر آب آئی ۔اس نے پلکیں جھپک کر آنسوئوں کو باہر آنے سے روکا ۔
”عبداللہ نہیں آیا ؟” دادی نے پوچھا ۔
”نہیں ۔” آمنہ نے آہستہ سے جواب دیا ۔
”حفیظاں کا نمبر ملا کر دے مجھے ۔” اب یہ جملہ دادی کا تکیہ کلام بننے لگاتھا ۔
”میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں ۔” آمنہ جلدی سے وہاں سے ہٹی ۔ آئمہ اٹھ کر اس کے پیچھے چلی آئی ۔ اکھڑے فرش، بے رنگ دیواروں والا چھوٹا ساباورچی خانہ اہل خانہ کی غربت کا حال سناتا تھا مگر آئمہ کو اس وقت آمنہ فرمان بہت امیر لگی ۔ جس نے اس کے بھائی کے ساتھ باتیں کی تھیں ، جو اس کے بھائی کے ساتھ ساتھ چلی تھی، جو اس کے بھائی کے ساتھ کبھی روئی تھی کبھی مسکرائی تھی۔ اس سے زیادہ بھلا کون امیر ہو گا ۔
آمنہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
”میں نے سوچا ، شاید تمہیں پتا ہو کہ عبداللہ کہاں ہے ۔” اس نے اک آس کے ساتھ پوچھا ۔
” وہ اپنا پتا بتاتا تو پہلے آپ کو ہی بتاتا ۔ اس کی زندگی میں میرا نمبر بعد میں ہے ۔” آمنہ اپنے ہاتھ کی ریکھائوںکو تکتے ہوئے بولی ۔
آئمہ کو اس اہمیت پہ خوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ مزید اداس ہو گئی تھی۔ اس کے ضمیر پہ پڑا بوجھ بڑھ گیا تھا ۔
”میں نے عبداللہ کو کھو دیا ۔” وہ رو دی تھی۔
آمنہ کو اس لڑکی پہ ترس آیا جس کی تلا ش میں کبھی عبداللہ مارا مارا پھرتا تھا اور آج اُس کی تلاش میں وہ بے حال تھی۔
” اپنی راہ میںپڑے نا امیدی اور مایوسی کے ہر پتھر کو ٹھوکر مار کر ہٹا دو ۔ تلاش سہل ہو جائے گی۔” آمنہ نے ا س کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے جانے اسے دلاسہ دیا تھا یا خود کو بہلایا تھا ۔
آئمہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اس پُر امید لڑکی کو دیکھا ۔
وہ واقعی اس قابل تھی کہ عبداللہ اس سے محبت کرتا ۔
٭٭٭٭٭
گلابی گلابوں کا قطعہ بے دم ہونے لگا تھا ۔ نیا مالی اس کی حفا ظت نہ کر پا رہا تھا۔ پودوں پر Botrytis کا حملہ ہو گیا تھا ۔ ان کا کاشت کار جانے کہاں چلا گیا تھا ۔
گلابوں جیسی لڑکی نے شوہر کے ساتھ سارا شہر چھان مارا ۔ جہاں جہاں اس کے ہونے کی امید تھی وہاں وہاں گئے ، جس جس کے پاس اس کے ہونے کی آس تھی ، اس اس سے ملے ۔ عبداللہ نہیں ملا۔ اب اسے احساس ہوتا تھا کہ اس کا بھائی اسے کیسے کیسے ڈھونڈتا ہو گا ، اسے نہ پا کر کیسا محسوس کرتا ہو گا۔
وہ نازو نعم میں پلی لڑکی تھی، اتنا بوجھ اتنی تکلیف زیادہ دیر اٹھا نہ پائی ، ایک دن اس نے ساری ڈائریاں جہانگیر عثمان کے سامنے رکھیں ۔
” مجھے عبداللہ چاہیے ۔ آپ اسے ڈھونڈ کر لائیں کہیں سے بھی کسی بھی طرح ۔میں سب بھول جائوں گی ،آپ کو معاف کر دوں گی ۔”
جہانگیر عثمان نے ا س کی بات سُن کر الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا اور ٹھٹھک کر رہ گئے ۔ وہ ان کی دُکان پر جس طرح آئی تھی ،اسی طرح لوٹ گئی ۔ وہ چاہ کر بھی اسے روک نہ پائے تھے ۔ انہیں لگا ان کا احتساب ابھی جاری ہے ۔
اگلے کئی مہینے انہوں نے عبداللہ کو ڈھونڈنے کی جان توڑ کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہے ۔دن ، مہینے پھر سال گزرے ۔ عبداللہ لوٹ کر نہ آیا ۔
٭٭٭٭٭
سطح زمین سے کئی ہزار فٹ بلندی پہ ،پہاڑوں کے دامن میں ایک بہتا جھرنا تھا ، اس جھرے کے دائیں طرف سبزے سے ڈھکے پہاڑ میں قدرتی طور پر بنا ہوا ایک غار تھا ۔اس غار میں رشتوں سے روٹھا ہوا ایک شخص بسیرا کرتا تھا ۔
صبح میں اس غار سے نکل کر پہاڑوں پہ اگائی گئی آلو کی فصل میں کام کرتا ، اس کے بعد جھرنے کے پاس پڑے ایک پتھر پہ بیٹھ کر کچھ پڑھتا رہتا یا لکھتا رہتا ۔ رات ہونے پہ غار میں چلا جاتا ۔
زمین پہ بسنے والی ایک گھمنڈی مخلوق نے اسے غاروں میں دھکیل دیا تھا ۔ وہ جگہ جہاں پیسے سے انسا ن کی حیثیت طے ہو ، مہنگے لباس سے انسان کی عزت بنے ۔ وہ جگہ جہاں محبت ، سچائی ،خلوص کی ضرورت نہ ہو قدر نہ ہو ، وہ دنیا چھوڑ آیا تھا وہ۔
اس رات اس کی بہن کی شادی تھی ۔ وہ بہت خوش تھا ۔ اس کی بہن کو اللہ نے ایک مخلص ہم سفر عطا کیا تھا ۔ ایک بھائی ہونے کی حیثیت سے جتنا بن پڑا تھا ، اتنا فرض اس نے ادا کیا تھا ۔ اب بس اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دے کر اسے رخصت کرنا چاہتا تھا۔ مگربہن بھائی کے بیچ کلاس آ گئی تھی، اسٹیٹس آگیا تھا ۔ پیسہ آگیا ۔ محبت کی کہیں ضرورت نہ رہی تھی۔اسے زیادہ کی حرص بھی کب تھی ۔ وہ تو بس ایک بار صرف ایک بار اس کے منہ سے ”بھائی ” سننا چاہتا تھا اور بس ۔اب تو اس نے اس خواہش سے بھی ہاتھ اٹھا لیا تھا ۔ بس اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے دعا دے کر رخصت کر دیتا پھر چلا جاتا ۔بڑے لوگوں نے اس قابل بھی نہ سمجھا اسے ۔ دھکا دے کر پیچھے کر دیا ۔ گلابی گلابوں کا گل دستہ اس کے ہاتھ سے نکل کر نیچے جا پڑا۔
میرج ہال سے نکل کر وہ دیوانہ وار سڑکوں پہ پھرا تھا ۔
وہ رو رہا تھا ، وہ بہت رو رہا تھا ۔اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ بھی اپنے باپ کی طرح کسی نہر میں چھلانگ نہ لگا بیٹھے ۔ اس نے بیگم شاہ جہاں کو فون کیا تھا۔
”آپ ٹھیک کہتی تھیں ۔ آپ سچ کہتی تھیں ۔ میں پاگل تھا دیوانہ تھا ۔”
”عبداللہ ۔” وہ اس کے اس طرح رونے پہ پریشان ہو اٹھی تھیں ۔
”میں آپ سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں نے آپ کو بہت تکلیف دی۔ رشتے ہوتے ہی تکلیف دینے کے لیے ہیں ۔میں جارہا ہوں ، اس دنیا اور اس دنیا کے رشتوں سے دور ۔”
وہ گھمنڈی مخلوق سے روٹھ گیا تھا ، وہ اس مخلوق کے بیچ بننے والے رشتوں سے بھی روٹھ گیا تھا ۔ بیگم شاہ جہاں اسے روکنا چاہتی تھیں مگر اس نے ان کی بات سنی کب تھی۔
اسے کسی رشتے کی ضرورت نہ تھی ۔
ہاں رشتے ۔۔۔اس کا باپ ، اس کی بہن ۔ کیا ملا اسے ان سے ؟
وہ جان گیا تھا کہ رشتے تکلیف دیتے ہیں ۔
اس نے بھی تو رشتوں کو تکلیف ہی پہنچائی ۔ کیا ، کیا تھا اس نے بیگم شاہ جہاں کے ساتھ۔ کیا ، کیا تھا اس نے آمنہ فرمان کے ساتھ ۔
رشتے کا دوسرا نام ہی شاید تکلیف ہے ۔ اس لیے اسے کوئی رشتہ نہیں بنانا تھا ، اسے اکیلے رہنا تھا۔ نہ تکلیف سہنی تھی نہ کسی کو تکلیف دینی تھی۔
٭٭٭٭٭
میں اس کہانی کا عام سا کردار ۔۔۔کسی بھی ناول، ڈرامہ یا فلم میں ایک باپ کا جتنا ہوتا ہے بس اتنا سا کردار۔
ایک ارب پتی جوہری جس کی سونے و جواہرات کی ملک کے سات بڑے شہروں میں دکان ہے اور ایک دکان دبئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ہے ۔ جس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ لاکھوں میں ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ جس کی کوئی اولاد نہیں ، جس نے یتیم خانے سے ایک بچی گود لی، اپنا نام دیا ، باپ کا پیار دیا ۔ بس اتنا سا کردار ۔یوں تو یہ کردارچھوٹا ہے مگر عظمت کی بلندی کو چھوتا ہے۔ کسی لاوارث کو یتیم خانے سے اٹھا کر اپنے گھر لے آنا ،اسے اپنا نام دینا ،اس کی پرورش کرنا ،ہر ضرورت و خواہش پوری کرنا ، اپنی کل جائیداد اس کے نام کر دینا اور اچھے گھر میں اس کی شادی کرناہر کسی کے بس کی بات تو نہیں ناں ۔دنیا نے دیکھا کہ جہانگیر عثمان نے یہ سب کیا ۔اس لیے کہانی میں اس کا کردار چھوٹا ہی سہی مگر شخصیت قد آور ہے۔ مگر جب سے عبداللہ کی ڈائریاں پڑھی ہیں یہی جہانگیر عثمان اپنے آپ کو بونا لگنے لگا ہے ۔
ڈائری لکھنا میری عادت نہیں ۔ ایک مصروف ترین جوہری ایسے شوق پال بھی نہیں سکتا ۔یہ تو فارغ لوگوں کا کام ہے ۔مگر آج جی چاہ رہا ہے کہ میں بھی لکھوں ۔ڈائری کے کورے رہ جانے صفحات کو کالا کروں ۔عبداللہ نے لکھا ہے کہ لکھ کر غم ہلکا ہوتا ہے ۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا لکھ کر بوجھ بھی ہلکا ہوتا ہے ؟
بوجھ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ایک بوجھ ہے میرے سینے پہ بہت۔ برسوں سے ہلکا کرنا چاہتا ہوں مگر کر نہ پایا ۔بزدل ہوں ناں ،دنیا کی نگاہوں میںعزت دیکھنے کا عادی ہوں ،لوگوں کی زبان سے توصیف و تحسین کے کلمات سننے کا عادی ہوں ۔ان نگاہوں میں حقارت اور ان زبانوں پہ طعنے نہیں سہہ سکتا ۔چلو آج یہ ڈائری ہی لکھ ڈالوں ۔لکھ کے پھاڑ ڈالوں ۔بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا اور میرا قد بھی بنا رہے گا ۔
آج سے چوبیس سال پہلے جب میں ایک عام سا سُنار تھا ۔جب میری آبائی شہر میں باپ کی چھوڑی ہوئی سونے اور چاندی کی دکان تھی۔تب ریحانہ پروین آیا کرتی تھی میرے پاس ۔شروع میں گہنے بیچنے پھر اپنے آپ کو بیچنے ۔جھکی ہوئی نگاہ کے ساتھ آتی اورلوٹ جاتی۔جتنا دام میں اس کا لگاتا ،لے لیتی ۔
ایک دن آئی اور کہنے لگی کہ ماں بننے والی ہے اور اس کے بچے کا باپ میں ہوں ۔
میں جانتا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی۔وہ صرف میرے پاس آتی تھی۔وہ جھوٹ نہیں بول رہی تھی مگر میں نے اسے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے ۔
میں احمق تھا کیا جو کہتا کہ تم سچ کہتی ہے ۔
میں اپنی بیوی کے ساتھ خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہا تھا ۔اور اب تو شادی کے چھے سال بعد خوش خبری بھی تھی۔ پھر میں پاگل تھا کیا جو ریحانہ پروین کا ہاتھ تھا م کر اسے دلاسہ دیتا کہ ہاں تم سچ کہتی ہو ۔ میں سونے کا کاروبار کرتا تھا ،پیتل کو اپنے شوکیس میں کیسے سجا لیتا ۔
ریحانہ پروین چلی گئی تھی۔اس کے بعد وہ کبھی میری دکان پہ نہ آئی پھر سنا کہ شہر چھوڑ گئی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ہیرا منڈی کا دلال لے گیا اسے اپنے ساتھ ۔یہ سُن سُن کر تکلیف سی ہوتی مگر دھیان بیوی کی طرف کر لیتا جس کی طبیعت ان پورے دنوں میں کافی خراب رہنے لگی تھی۔
کبھی کبھی گرمیوں کی سنسان دوپہروں میں دکان پہ بیٹھاہوتا تو ریحانہ پروین یاد آتی۔میں بیوی سے بے وفائی نہ کر رہا تھا نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا تھا مگر مرد تھا ناں ۔کبھی کبھی ۔۔۔یونہی کبھی کبھی ریحانہ پروین یاد آجاتی ۔ پھر جب مہ پارہ آنے لگی توریحانہ پروین کی یاد جاتی رہی۔
بیوی نے جس بچے کو جنم دیا تھا وہ چند گھنٹوں بعد مر گیا ۔ اس وقت بیوی کی حالت اتنی بگڑی کہ ڈاکٹر نے کہہ دیا ۔
”بیوی عزیز ہے تو اولاد کی خواہش چھوڑ دو ۔”
بیوی عزیز تھی اس لیے سوچا کہ اولاد کی تمنا چھوڑ دیتا ہوں مگر ایسا بھی ہوتا ہے بھلا کیا ۔عورت ہو یا مرد ،اولادکی خواہش پیچھا نہیں چھوڑتی اور جب معلوم ہو جائے کہ اب اولاد قسمت میں نہیں تو یہی خواہش آخری خواہش بننے لگتی ہے ۔
میرا کاروبار پھیل رہا تھا ۔جائیداد بڑھ رہی تھیں مگر وارث کوئی نہ تھا ۔ ٹرسٹ میں دینے کے لیے تھوڑی اتنی محنت کرتا تھا میں ۔
ریحانہ پروین تو کبھی کبھار یاد آ ہی جاتی تھی مگر اس کا بچہ پہلی بار یاد آنے لگا تھا ۔
”پتا نہیں لڑکا ہوا ہو گا یا لڑکی۔” میں سوچنے لگا تھا ۔
”اب تو دو سال کا ہونے والا ہو گا ۔” میں اندازے لگانے لگا تھا ۔
”اگر بیٹی ہو گی تو اس کے ہاتھوں میں یہ کتنا پیارا لگے گا ۔” چھوٹا سا کنگن دیکھ کر سوچتا اور اسے شو کیس سے اٹھا کر دراز میں رکھ لیتا ۔
کاروبار بڑا نفع دینے لگا تھا ۔کافی عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ بڑے شہر میں منتقل ہونا عقل مندی تھا ۔میں بھی لاہور چلا آیا اور شہر کے و سط میں ایک بڑی دکان کھول لی۔مصروف ہوتا چلا گیا ۔ دنیا کی ہر نعمت بیوی کے قدموں میں ڈھیر کی ۔مگر اسے تو تنہائی کاٹنے لگی تھی۔خالی گود ڈسنے لگی تھی۔ وہ بچہ گود لینے کی باتیں کرنے لگی تھی۔میں ا س حق میں ہر گز نہ تھا ۔میں احمق تھا کیا جو پرائی اولاد کو اپنا وارث بناتا ۔ایسا تو وہ کرتا ہے جس کی اپنی اولاد نہ ہو اور میں کون سا بے اولاد تھا ۔میرا تو بچہ تھا ۔
بچے کا خیال آتے ہی میرے ذہن نے کام کیا اور میں نے ریحانہ پروین کی تلاش شروع کر دی۔ڈھائی مہینے کی تلاش کے بعد کسی کنگنا کا پتا چل پایا جس کا اصل نام ریحانہ پروین تھا ۔
”جب وہ یہاں آئی تو ما ں بننے والی تھی؟” میں نے بے تابی کے ساتھ خبر دینے والے سے پوچھا ۔اس کے اثبات میں ہلتے سر کو دیکھ کر میں مزید بے تاب ہوا۔
”کہاں ہے وہ ؟”
”مر گئی۔” دینے والے نے سپاٹ انداز میں اطلاع دی مگر مجھ پہ آسمان ٹوٹ کر آ گرا۔
”اس کا بچہ۔” بہت دیر بعد جب میں سکتے اور صدمے کی حالت سے باہر آیا تو پوچھا ۔