” بہت اچھا تھا۔ میری بیٹی کی شادی تھی، پوری تنخواہ میرے ہاتھ پہ رکھ دی ۔”
اس لمحے آئمہ جہانگیر پہ یہ راز آشکار ہوا تھا کہ امیر ہونے کے لیے سونے اور ہیروں کے بیوپاری کی بیٹی ہونا ضروری نہیں ۔
وہ یک دم مڑی اور کمرے سے باہر نکل کر پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔
وہ گاڑی دوڑاتی ہوئی بغیر کسی جگہ رکے چار گھنٹے میں اسلام آباد سے لاہور پہنچی اور سیدھی اس یتیم خانے گئی تھی جس کی انچارج بیگم شاہجہاں تھیں ۔وہ اپنے آفس میں نہ تھیں ۔وہ بے قراری کے ساتھ ٹہلتے ہوئے ان کا انتظار کرنے لگی۔ لنچ کا وقت ہو رہا تھا ۔یتیم لاوارث بچے میس میں جا رہے تھے ۔
وہ بھی تھی ایسی ہی یتیم لاوارث بچی جس کے سر پہ ایک بے اولاد جوڑے نے ہاتھ رکھا اور وہ آئمہ جہانگیر بن گئی۔ اس کے نام کے ساتھ باپ کا نام تھا ۔ ارب پتی باپ کی سونے و جواہرات کی کئی دکانوں کی اکلوتی وارث تھی۔وہ لاوارث نہ تھی ۔زمین پہ اکڑ کر چلتی تھی مگر منہ کے بل گری تھی جب اس کے سسرالیوں کو کسی نے بتا دیا تھا کہ آئمہ جہانگیر لے پالک ہے ۔ اعلیٰ حسب نسب والے سسر کوکو خدشہ ہوا کہ جانے کس کے گناہ کی پیداوار ہے انہیں اپنی اگلی نسلوں کے خون میں ملاوٹ نظر آنے لگی اور شادی روک دی گئی۔خاقان احسن نے یتیم خانے کے چکر لگا لگا کر اپنے باپ کے سامنے اس کا حسب نامہ رکھا تھا۔
”وہ ایک شریف خاندان کی بیٹی ہے۔”
تب کہیں جا کر سسر نے اسے قبول کیا تھا۔
”تم ۔” جانے وہ کتنی دیر وہاں کھڑی رہی تھی جب بیگم شاہجہاں پہنچیں اور اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں ۔
”مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ۔”
”آئو۔” انہوں نے آفس میں قدم رکھتے ہوئے کہا۔وہ ان کے پیچھے چلی آئی اور ان کے کہنے پہ ایک کرسی پہ بیٹھ گئی۔
”میں جانناچاہتی ہوں اس کے بارے میں ۔آئی ۔۔۔آئی مین عبداللہ کے بارے میں ۔آپ نے اس دن کہا کہ اس نے میرے لیے بہت کچھ کیا ۔۔۔اور میں نے ۔۔میں نے کیا کیا ؟مجھے پتا نہیں۔” وہ بے بسی کے ساتھ بولی ۔
بیگم شاہجہاں کچھ دیر اس کی طرف دیکھتی رہیں پھر دراز میں سے کچھ ڈائریاں اور ان کے اوپر ایک تصویر نکال کر رکھ دی۔تصویر پہ نظر پڑتے ہی اس پہ جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔وہ اس تصویر میں کھڑے سات اٹھ سالہ لڑکے کو پہچان نہ سکتی تھی مگر اپنے آپ کوتو پہچان سکتی تھی ناں۔
ایک گھنٹے بعد جب وہ مرے مرے قدموں کے ساتھ بیگم شاہجہاں کے آفس سے نکل رہی تھی تو اس کے سوالوں کے جواب مل چکے تھے ۔
”میں نے سب معلوم کروا لیا۔۔۔آئمہ ایک عزت دار گھرانے کی بیٹی ہے۔خاندانی دشمنی میں ماں باپ کو مار دیا گیا ، وفا دار ملازم کسی طرح بچی کو بچا کر یہاں لایا اور بیگم شاہجہاں کے حوالے کر دیا۔اور ایک ہفتے بعد ہی جہانگیر عثمان اور ارم جہانگیر نے اسے گود لے لیا۔”