وہ کلینک گئی، پھر ہاسپٹل۔ اس کی ہائوس جاب شروع ہوگئی تھی۔ اس کے ساتھ لاسٹ ائیر کی کلاس اور آخری سمسٹر، لگ رہا تھا جیسے اب سب مٹھی میں آنے والا ہی ہے۔

سب کچھ نظر میں سمانے ہی لگا تھا۔

کلاس کے بعد ان کو بات کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ میٹنگ سے فارغ ہوکر وہ گھر آگئی۔ کچھ دیر آرام کیا اور پھر کلینک سے ایک چکر لگاکر وہ سیدھا پھولوں کی دُکان میں گُھس گئی۔

ایک گل دستہ خریدا اور فرنٹ سیٹ پر رکھتے ہوئے وہ کسی خیال کے تحت مُسکرادی۔

آج، بس بہت قریب تھا کہ وہ اس سے کچھ کہنے والی تھی۔

بہت قریب تھا وہ پل،جو اس کی زندگی میں اس کے خیال کے مطابق خوشیاں لانے والا پل تھا۔

٭…٭…٭

حسن چشمہ لگائے کچھ کاغذات دیکھ رہے تھے جب سندھیا چائے کا کپ لیے اندر آئی تھی۔

”سلام چاچا سائیں، چائے۔”

”والسلام، کیسے خبر ہوگئی میری دھی کو کہ مجھے چائے کی طلب ہورہی ہے۔”

”آپ بڑی دیر سے کاغذوں میں گم تھے۔ میں نے سوچا تھکن ہوگئی ہوگی۔ چائے لے آؤں۔”

اچھا، یہ نیک خیال۔” کہنا چاہتے تھے کہ پہلے تو نہیں آیا کبھی مگر مسکرا دیے۔

وہ دو لمحے کھڑی رہی گڑبڑاہٹ سے۔ وہ چشمہ ٹھیک کرتے اُسے دیکھتے رہے۔ آنکھوں کے اشارے سے پوچھنے لگے۔

وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔

”چائے اچھی بنی ہے ۔بڑی اچھی۔”

وہ گھونٹ بھرکرمسکرائے، وہ اثبات میں سر ہلاکر چلی گئی۔

سوہائی باہر کھڑی تھی۔

”کیا ہوا؟”

”پتا؟”

”نہیں دیا؟” اشاروں سے پوچھا۔

”انکار کردیا؟” منہ بنایا۔

”میں نے مانگا کہاں تھا جو انکار کرتے۔”

سوہائی نے پیشانی پر ہاتھ مارا۔”سندھو تو نے ترقی کرلی اور دنیا نے دیکھ لی۔اک پتا تجھ سے نہیں مانگا جاتا۔”

”تیری طرح بے حیا جو نہیں ہوں،ہاں۔”

سوہائی ایک پلیٹ میں باقر خانیاں لے آئی۔ ” چل یہ پکڑ، لے جا۔” وہ لے گئی۔

”یہ آپ کے لیے چاچا سائیں۔”

چاچا سائیں پر آج حیرتوں کے پہاڑی تودے گررہے تھے۔

”اچھا؟ میں تو کم کھاتا ہوں میٹھا۔ سارنگ منع کرتا ہے۔”

”اباجی تو بہت کھاتے تھے۔ دل نے کہا کہ آپ کے لیے لے آؤں۔” وضاحت کی۔

”اوہ اچھا۔ میں نے تو کبھی مولا بخش کو کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔” بُڑبُڑائے۔

”چلو کھلا دو۔” ایک اُٹھاکر تھوڑا سا چکھا۔

سندھیا کمرے سے باہرآگئی، سوہائی کے پھر سر پر ہاتھ آگئے۔

”اب بھی نہیں ملا؟”

”نہیں مانگا جاتا۔”

”سندھو چری ہوگئی ہے۔ جا!” وہ پھر پلٹ کر آئی، چادر درست کرنے لگی بستر کی،وہ دیکھنے لگے۔ ”اب کیا؟” چشمہ اتار کر رکھا۔

”آپ کے سر میں تیل کی مالش کردوں؟”

”کردو۔واہ،چاچے کے تو بھاگ کھلے۔” سندھو رانی نے مالش کی۔تھکن اتاردی۔ تیل بال بال میں جذب ہوگیا، جیسے کھیتی پانی پی گئی۔

”آپ کے سر میں کتنی خشکی ہے چاچا سائیں۔”

”سندھو!”

”ہک گل مانے گی چاچے کی؟”

”جی حکم کریں چاچا سائیں۔”

”تو مجھے آج سے چاچا نہ کہہ ابا کہہ۔دیکھ میں تیرا ہر طرح سے ابا ہی ہوا نا۔”

”چاچا سائیں ڈرتی ہوں۔”

”کیوں ڈرتی ہے چری چھو کری؟کس لیے۔”

”ابا بڑی جلدی ساتھ چھوڑجاتا ہے۔”

چاچے نے لپٹالیا۔ آنکھیں آنسووں سے بھرگئیں۔ ”چری میری دھی۔”

خود رو رہے تھے اور اسے چپ کرانے لگے۔

سوہائی نے کھڑکی سے دیکھا تو سمجھ کچھ نہ آیا۔

سندھو باہر نکلی تو آنکھیں رگڑتی ہوئی۔

”اب کیا ہو گیا؟”

”پتے کی بات چھڈدے سوہائی۔”کمرے کی طرف چلی گئی۔

سوہائی نے چاچے کے کمرے کی راہ لی۔

”چاچا سائیں، چاچا سائیں۔”

”ہاں بول، کیا چاہیے۔”

”چاچا سائیں خط کا پتا اور کیا؟”

”کس کے خط کا پتا؟”

وہ عینک رکھ کر کاغذ تہ کرکے لیٹے ہی تھے جب وہ آگئی تھی۔

”ادا سارنگ کے خط کا پتا اور کیا۔”

”سارنگ کے خط کا پتا؟”

”ہاں جی۔”

”سارنگ کو کس نے خط لکھنا ہے؟”

پیشانی پر ہاتھ مار کر کہنے لگی۔ ”کون لکھے گا،سندھیا اور کون۔”

وہ پہلے حیرت میں پڑے پھر مسکرائے اور پھر ہنس دیے۔

”چری، تو یہ گلھ کر نہ۔”

اُٹھ کے بیٹھ گئے۔

”میں بھی کہوں سندھو کو کیا پڑی اج چاچے کی خدمتیں کرنی یاد آگئیں ۔” ہنسنے لگے۔

”تو یہ ماجرا ہے۔ چل لکھ خط، پوسٹ میں کل کردوں گا۔”

چِٹ پر پتا لکھ کر دے دیا۔

”چاچا سائیں سلامت رہیں۔” چِٹ لے کر رفو چکر ہوگئی۔

ان کے دل سے جیسے ایک بڑا سا پتھر ہٹ گیا، اب بھی مگر کچھ باقی تھا۔

سوچا وہ بھی ہٹ جائے گا۔

امید بھی انسان کا دل بڑھا دیتی ہے، حیاتی کچھ آسان لگنے لگتی ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!