اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اسی وقت خط کا جواب لکھنے بیٹھ گیا۔
پیارے ابا!
میرے اچھے سوہنڑے ابا!
آپ کا خط ملا، یہی بات آپ مجھے فون پر بھی کہہ سکتے تھے، پتا چلا آپ فون کرنے سے کیوں کترارہے ہیں۔میں خود یہاں کئی ذمہ داریوں میں الجھا ہوں۔
حالات چاہے جیسے بھی ہوں، مجھ پہ بھروسا رکھیں۔ بیٹا ہوں میں آپ کا۔ آپ ہی کی طرح جو کہتا ہوں وہ کرکے دکھائوں گا۔ مرد اپنے قول سے نہیں پھرتا میں نے تو پھر بھی نکاح کیا ہے۔آپ انتظار کریں، تھوڑا سا انتظار ابا۔ بس قرض کی دو قسطیں باقی ہیں وہ اُتر جائیں۔ ابھی چھٹی بھی نہیں ملے گی سمسٹر کا آخر ہے۔ پھر چھے ماہ بعد آئوں گا اور اسے لے جائوں گا۔
آپ کا بچہ
کالا، کوجھا، آپ کا سارنگ!
اس نے اسی انداز میں خط کا جواب لکھ دیا۔
مگر ٹھیک ہفتے بعد اسے ابا کی کال موصول ہوئی آواز کمزور سی، لہجہ تھکا ہوا۔
”آپ کی طبیعت کیسی ہے ابا؟آواز کو کیا ہوا؟”
وہ پریشان سا ہوگیا۔
”میری آواز کو چھڈ دے سارنگ، اصل بات کر۔”
لگتا تھا کہ بڑے ضبط سے بول رہے تھے۔
اچانک ہی ڈھیلے پڑجاتے اور پھر لہجہ زور پکڑتا۔
”تیرا خط ملا سارنگ، سب پہلے ہی جانتا ہوں میں۔پتا ہے مجھے جگر اور تجھ پہ بھروسہ بھی ہے۔ پر یار حالات نے کمزور کردیا ہے سارنگ۔سندھیا مُرجھاگئی ہے۔اس کی ماں کو یقین دلادلا کے تھک سا گیا ہوں، نہیں صبر آتا۔” ان لہجہ ڈوبتا جارہا تھا۔وہمی ہوگئی ہیں بہت کتنا سمجھاؤں اسے میں؟”
بے بسی توڑرہی تھی۔
”تو آجا کسی طرح سے سارنگ۔ آ جا میرے جگر پھر سے ہک واری احسان کر میرے اوپر۔ پھر کردے احسان۔”
آواز ڈوبنے لگی، فون بند ہو گیا۔اس نے دو تین بار ملایا۔ریکارڈنگ بتارہی تھی فون بند ہوچکا ہے۔
وہ بے بسی سے سیل فون ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔ابا کی کمزور آواز نے اس کے اندر دراڑیں ڈال دی تھیں۔کمزور سا،خود کو جکڑا ہوا محسوس کیا۔
فون سوئچ آف کرکے بیٹھ گیا۔دماغ سائیں سائیں کرنے لگا، خالی سا۔اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔
ہر طرف جیسے گھپ اندھیرا،سب کچھ بند آنکھوں میں۔چاچے کی محبت،ڈاکٹر بننے کا سپنا۔
جب پہلی بار اسکول کے لیے نکلا،پھرکالج، یونیورسٹی،جشن، گوٹھ، ڈسپنسری، امیدیں، روشنیاں،سب کہاں تھیں۔
اس نے آنکھیں کھول کر دوبارہ بند کرلیں، موند لیں۔پہلی بار دور دیس کے لیے نکلنا، باتیں جوش، خوشی، آوازیں۔ ابا اور چاچا، لمبے انتظار۔اور پھر پہلی بار یہاں آنا، اب نئی دنیا، پروفیسر، یونیورسٹی، گھر، شیبا۔
ایک چہرہ پرُ اعتماد سا،مکمل سا لہجہ،بڑھتے مراسم،دوستی اعتبار،بھروسا،زندگی جیسے مکمل سی۔
چاچا، موت، گوٹھ، زندگی،جیسے کسی نے حیاتی کو چابی دے کر گھمادیا۔
گھر والے اداسی، منظر، چاچی، جیجی، ابا، سوہائی، سندھیا،اس نے سوچا سب کی خوشیاں انہیں لوٹانے کا وقت آگیا۔
قربانی!
قبول ہے۔
نکاح۔
ہر اک چیز کو جیسے چابی مل گئی تھی۔
شیبا، اس کی مسکراہٹ، زندگی کے احساس سے بھری روشنی، امنگ، حوصلہ،سوچا یہی درکار تھا۔
مگر پھر سے چابی گھومی اور ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔
اس نے تیزی سے آنکھیں کھولیں۔
کسی کی سوالیہ نگاہیں،آنکھیں اور چہرہ۔
بے اعتباری اور دھوکا،فریب اور سزا۔
اس کے ہاتھ کیا لگا؟
خالی، سب خالی،ہر جگہ۔
اور اب ابا کی بے بسی۔
کیا وہ کسی ایک جگہ بھی اپنا اعتبار نہیں بٹھا سکتا؟
مستقبل قریب کے ڈاکٹر سارنگ کے پاس صرف اندیشہ تھا۔
اور کیا تھا؟
اس نے آنکھیں موندیں۔ایک آنسو لڑھک گیا۔
گولہ گلے میں پھانس کی طرح اٹکا ہوا تھا۔
اس کے پاس دو راستے تھے۔
ایک طرف گھر والوں کے خدشے۔ان کو دور کرنا، ان کی طرف واپسی کا،سندھیا کو گھر لے کر آنے کا۔
دوسرا،سب چھوڑ چھاڑ کر،زندگی کی ایک امید بچانے کا،جس مسکراہٹ سے وہ کھلکھلاتا تھا۔
کئی دن سے فون نہ بجا۔
کئی دن سے ہنسا نہ تھا۔
دل نے کہا، چھوڑدے سب کچھ۔اپنی دنیا بسا،تجھے اوروں سے کیا ملنا،خوش رہ اپنی دنیا بسا،اسے منالے،
سب پیچھے چھوڑ دے۔
دو فیصلے۔ایک دِقت، جو کسی ایک فیصلے کا حل تھی۔
وہ کھڑکی تک آیا، لمبی اور گہری سانس لی۔ دل نے کہا بند کردے کچھ عرصے کے لیے فون، تجھ سے کون پوچھے گا۔کام کا بہانہ بنا،نکاح تو کرآیا نا۔
اب کیا،جانے کی چھوڑ،اسے منا لے،زندگی سجا لے۔
لے آ، تجھے زیادہ وقت تو یہیں رہنا ہے،تو نکل آیا ہے،گوٹھ سے نکل آیا ہے۔دور،بہت دور۔
اور ادھر اس کے ابا وہی خدشے لیے کھلی چھت آسمان تلے منجی ڈالے لیٹے دونوں بازوئوں پر سر رکھیسوچتے رہتے،انتظار تھا۔ہر جگہ انتظار تھا۔
سبھاگی
سندھیا
سوچ، مرحلہ آگے کا فیصلہ، خدشے اور خرابہ،خدشے کا دوسرا نام خرابہ تھا۔
ادھر اس کی زندگی کسی ڈوبتی ہوئی کشتی کی طرح ڈولنے لگی تھی۔
اسے ایک طرف ڈالنا تھا۔
فیصلہ اس کے سر تھا۔
اسی نے آخری بار سب سوچ کر،اپنے لیے ایک آخری قدم اُٹھانا تھا۔
اور دل اسے مسلسل اپنی اور بلارہا تھا۔
٭…٭…٭