فکریں کبھی پوچھ کر نہیں آتیں اور یہ ان کا معمول ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے دوڑتی ہوئی آتی ہیں۔
ہفتے کا پہلا دن تھا۔گھر میں معمول کی ہل چل تھی جب گوٹھ کی ایک مائی دوڑتی ہوئی چلی آئی۔
”جیجی میں مرگئی،میری بچی۔خدا کے واسطے،سائیں حسن کہاں ہے؟”
”مائی خیر ہے ہوا کیا ہے، پہلے یہ تو بتائو؟”
”جیجی غضب ہوگیا، ناحق ہوگیا۔ میری بچی کا جہاں نکاح ہوا تھا، اس کے شوہر نے وہاں شادی رچالی اور اسے طلاق کا پرچہ بھجوادیا۔”
اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
”مار پڑ ے ایسے لوگوں پر۔” جیجی نے گھٹنے پر ہاتھ مارا۔ سندھیا کچن کی کھڑکی میں رُک گئی، سوہائی آٹا گوندھتے ہوئے لمحہ بھر کو رکی۔ سبھاگی سبزی لے کر آئی تھی کاٹنے، تھال گرتے گرتے بچا اور وہ بیٹھ گئی۔ جیجی کے تخت کے برابر۔
حسن نے ابھی اخبار کھولاہوا تھا۔اخبار ایک طرف رکھا، چشمہ جیب میں ڈالا۔
”اس موئے کو کیا مار پڑنی، میری دھی نے زہر پھک لیا۔ نہ کوئی سواری نہ گاڑی، تڑپ رہی ہے، مرجائے گی جیجی میری دھی۔” مائی کے رونگٹے کھڑے تھے۔ حسن نے دیر نہ کی، اٹھا اور اس کے ساتھ چل دیا۔ تانگے میں بچی کو ڈالا۔ مائی کے ساتھ کچے تک تانگہ لے گیا پکے تک گاڑی پکڑلی، لڑکی کا بچنا مشکل نظر آرہا تھا۔
ادھر پورے گوٹھ میں جیسے راقاص گھوم گیا تھا۔
اس صُبح کسی نے ناشتہ نہیں کیا۔
سب کے دماغ میں ایک الگ فلم چل رہی تھی ہر کوئی اس واقعے کو لے کر سوچنے لگا۔
اب کبھی کوئی شہر میں اپنی لڑکی نہ بیاہے۔
گوٹھ کے نکمے، جیسے تیسے ہیںاپنے تو ہیں۔جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔
بھرائی انہی وقتوں میں آجاتی تھی، دل خراب کرنے۔
”اللہ اب خیر رکھے کسی اور کی دھی کے ساتھ نہ کبھی ایسا فریب ہو۔لڑکے باہر جاکے اپنے کہاں رہتے ہیں۔چھوریوں کے بالوں میں چاندی پڑجاتی ہے۔بڈھی ہوجاتی ہیں۔”
اس کا کام تھا وہم کو پکا کرنا سو وہ اپنا کام بہ خوبی کرگئی۔
سبھاگی بے دلی سے اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
جیجی کو عصر کی نماز کا بہانہ تھا۔ بیٹی کو ٹوکا اور انہیں وضو کرنے کا کہا۔
بھرائی نے ملازمہ کو گاڑی نکلوانے کے لیے کہا، اس کا کام تو ہوچکا تھا۔
سندھیا اپنی سوچ میں غرق،سوہائی کھوئی کھوئی سی،سب کو سانپ سونگھ گیا۔
شام گئے تھکا ہارا حسن گھر پہنچا تو بتایا چھوری بچ گئی ہے پر زہر چڑھ گیا ہے۔معدہ صاف تو کردیا مگر زہر کے اثرات باقی ہیں۔
”یادداشت ٹھیک نہیں ابھی اس کی۔کسی کو نہیں پہچان رہی، بس جان بچ گئی یہی خیر ہوئی۔”
سوہائی نے پانی کا گلاس تھمایا اسے ۔
سب نے جان بچ جانے پر شکر ادا کیا مگر سوچیں جیسی چھڑی ہوئی تھیں وہیں کی وہیں تھیں۔
بس اللہ نے رحم کیا چھوری تو بچ گئی نا۔
مگر رہا اور کیا؟ سب کے اندر سوال تھا سوال۔ اس رات سب خاموشی سے سوگئے مگر فکریں جاگتی رہیں دیر تک۔
صبح سبھاگی نے وہی راگ الاپنا شروع کردیا۔
”سارے حالات آپ کے سامنے ہیں ادا۔کہنا تو نہیں چاہتی پر ماں ہوں ڈرتی ہوں۔ کہیں میری دھی بھی زہر نہ پھک لے۔”
”اللہ نہ کرے بھرجائی کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ ایسی کیا نوبت آگئی؟”
”بڑی شرمندہ ہوں ادا لوگوں کی باتیں نہیں سن پاتی۔”
”لوگوں کی باتوں پہ مت جائیں بھرجائی لوگ تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں ۔”
”مگر ہمارے پاس بھی تو بس لارے ہی ہیں۔ آسرے ہیں خالی خولی۔”
”فکر تو مجھے بھی ہے۔ پر جانتا ہوں وہ ذمہ داریوں میں جکڑا ہوا ہے، کئی کام ہیں اسے بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے اس کے سر۔”
”مجھے خبر ہے ادا۔”
”مگر ہمارے پاس بھی کوئی اور راہ تو نہیں ہے نا۔”
”اسے کہیں چار دن کے لیے آجائے بس۔ سندھیا رخصت کرکے لے جائے اپنے ساتھ، لوگوں کا منہ بند ہوجائے گا۔”
”اس کے بعد ہم نے اسے کچھ نہیں کہنا۔”
”وہ جب تک لے نہیں جاتا تب تک ساہ سولی پہ لٹکا ہے۔ہر دفعہ لوگ کوئی نیا وہم ڈال جاتے ہیں،ہر دفعہ کوئی رکاوٹ رستہ روک لیتی ہے۔ہر واری کچھ رہ جاتا ہے دل میں کانٹا سا چبھا ہوتا ہے۔ ڈر ہے کہ سونے نہیں دیتا، اس خوف نے میری نیندیں اُڑا دی ہیں۔ اسے کہہ ادا، کچھ توکہہ۔”
” میںکہتا ہوں اسے۔”
کچھ تو کہتا ہوں،خط لکھ دیتا ہوں۔ڈر تواندرہی اندر حالت بگڑجانے کا اسے بھی تھا۔مگر بیٹے کی مجبوریوں کو بھی جانتا تھا۔دونوں باتوں کا جھگڑا تھا۔مگر جیت ہمیشہ اسی فکر کی ہوتی ہے جو مضبوط ہوتی ہے۔
اس بار ان کی فکر تگڑی تھی۔
وہ خط لکھنے بیٹھ گیا۔
سارنگ بچڑا!
دنیا کا نظام بدلتا رہتا ہے۔کل ہمارے اوپر بار تھے آج تیرے اوپر ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔تیری بے دلی کو ایک میں نے ہی نہیں سب نے محسوس کیا سارنگ۔کئی باتوں سے یارتو نے صاف بتادیا۔خود کو قصور وار ٹھہراتا ہوںکہ تجھ سے قربانی مانگ بیٹھا۔کیا کرتا سارنگ؟دنیا دار ہے تیرا ابّا۔ تیرا چاچا اگر ہوتا تو ابھی حالات اور ہوتے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر وہ ہوتا۔وہ نہیں ہے، بہت کچھ نہیں ہے۔ تیرے ابا کے اندر دنیاداری کو نبھانے کا حوصلہ بھی تھوڑا ہے۔تھکتا جارہا ہوں،مزید نہ تھکا مجھے سارنگ۔جو فرض لیا ہے اسے نبھا،ابا کا منہ سرخرو کردے ۔ہک واری اور آ۔ چاہے ہک دن کے لیے آ، یا دو دن کے لیے، پر آکر سندھیا کو لے جا۔یہ تجھ سے میری آخری التجا ہے سونٹھاں۔
تیرا ابا
کوجھا کالا
بڈھا
حسن بخش
٭…٭…٭