وہ اسے تو کہہ آیا تھا مگر خود اپنے اندر کتنی صفائیاں دیتا، سب سے زیادہ وہ خود غیر مطمئن تھا۔
پروفیسر کا برتائو نارمل تھا مگر ان کی آنکھیں ان کے خلاف بولتی تھیں، وہ شکوہ کناں تھیں۔
وہ بیمار ہوگئے تھے۔ بہت سے اسٹوڈنٹس کے ساتھ وہ بھی گیا تھا۔سب کے ساتھ اس کے لیے بھی وہی برتائو تھا۔
اس نے سوچا اب اکیلے میں جاکر دیکھوں گا، کسی کا دل تو اس کی طرف سے صاف ہو تاکہ اس پر سے کچھ بوجھ ہٹے مگر اس نے اسے اپنی نادانی سمجھا اور ہر طرح کے حالات کو قبول کرلیا۔
اب سب کچھ نارمل تھا۔سب کچھ ہی کلاس، ہاسپٹل اور کام۔لوگ، باتیں، کیفے،گھر، آئوٹنگ، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا،گھومنا، پھرنا اور یہ سب اکیلے۔
فون نے بے سبب بجنا چھوڑ دیا تھا۔اسے لگا سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
بس ایک دل نہیں رہا، روٹھ گیا ہے۔وہ کہاں سے لائے گا، کوئی احساس نہ تھا جیسے۔ نہ غم نہ خوشی۔
نہ امید نہ حوصلہ۔
وہ خود اک جگہ کھڑا تھا اور دل جیسے دوسری جگہ کھڑا تھا۔
جیسے اجنبی، جیسے نامعلوم۔
جیسے خفاجیسے لاتعلق سا۔
٭…٭…٭