”تم نے اس کے ساتھ بات کی؟”

”موڈ کیوں آف ہے؟”

”کیا ہوا؟”

”لڑائی؟”

”وہ تم سے لڑتا تو نہیں ہے؟”

فرح کے سوالات، اور اس کی بے بسی۔

”سونا چاہتی ہوں۔”

اس کا فون بند رہنے لگا رات میں۔کمرے سے باتیں کرنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آنا بند۔ گیلری کا دروازہ بند،کھڑکی اور کمرے کی بتی بند۔

ناشتے پر چُپ، لنچ پر غائب، رات کو دیر سے واپسی، کام کا بہانہ۔

سوجی آنکھیں، تھکن غالب، یہ سب کیا تھا۔

فرح نے تو سر پکڑ لیا تھا۔

شہاب کو پیچھے لگادیا۔”آپ پوچھیں، پلیز پوچھیں۔ وہ گُھل رہی ہے اس کا سارنگ کے ساتھ شاید جھگڑا ہوا ہے۔”

”آپ پوچھیں شہاب، بات کریں سارنگ سے۔”

انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

وہ باہر آئی۔ ”جی پاپا؟”

وہ اندر آئے۔

”بیٹھیے۔”

خود بھی چپ تھے۔

”ادھر آئو، میرے پاس بیٹھو۔”

”کچھ نہیں ہوا پاپا۔”

وہ بند باندھے رکھنا چاہتی تھی، اسی میں بہتری تھی۔

”میں نے کب پوچھا کہ کچھ ہوا؟”

ان کی آواز دھیمی تھی۔

”پاپا! ساری کہانی یہ ہے کہ ہم غلط تھے، وہ ٹھیک تھا۔”

”ہم سمجھ نہ سکے۔ آج اس نے کہا، کوئی دھوکا نہیں کیا، کوئی فلرٹ نہیں،ہم تو بس دوست تھے۔”

آواز کچھ بھرائی، لاکھ ضبط کرنے کے بعد بھرا گئی۔

وقفہ آگیا گفتگو میں۔

انہوں نے اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلالیا۔

”میں نے تصویر دیکھی اس کی بیوی کی، وہ شادی کرآیا ہے۔”

”مما ٹھیک کہتی ہیں،سارے ایشینز برے ہوتے ہیں، پاکستانی تو بہت برے۔آپ کے سوا۔” وہ ان سے لگ گئی۔

وہ نم آنکھوں سے مُسکرائے۔

”میری بیٹی بہت بہادر ہے، اسے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔وہ جس کا ہاتھ تھامے گی اس سے چند قدم آگے ہوگی میری بیٹی، میری شیبا۔”

آواز نہ چاہتے ہوئے بھرا گئی۔

”نو پاپا نو، اٹس اوکے۔یہ لائف ہے، زندگی میں آپ کو اپنی غلطیوں کی سزا ملتی ہے۔ آپ پریشان نہیں ہوں گے، نہیں سوچیں گے۔”

 وہ نفی میں سر ہلانے لگے۔

”ہم کہیں اور اپنے دوست نہیں بنائیں گے۔”

” کیوں؟”

”کیوں کہ ہم خود ایک دوسرے کے دوست ہیں۔”

وہ مُسکرائے،وہ بھی مُسکرائی۔

”کچھ نہیں ہوا۔بس چھوٹی سی غلط فہمی تھی، دور ہوگئی۔ٹھیک ہے؟”

”یس اٹس رائٹ۔”

دونوں نے سر جھٹکا اور ہنسے۔

اندر مگر بہت کچھ ٹوٹا تھا،جیسے بھروسا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!