اس دن کے بعد شیبا کا رویہ اس کے ساتھ وہی تھا جیسے کوئی نیا نیا نظر آئے، مگر اس کے دکھنے میں کچھ نیا نہ ہو یہاں تک ناگواری بھی نہیں۔وہ کلاس میں کلینک سے نکلتے ہوئے اس سے سرسری بات کررہی تھی سب کے سامنے اس نے احساس نہیں ہونے دیا مگر وہ اکیلے میں ایسے ہی بی ہیو کررہی تھی جیسے سب کچھ نا شناسائی ہی ہو۔
وہ بات کرنا چاہتا تھا خود اسے نہیں پتا تھا کیا؟مگر کرنا تو تھی۔وہ ہاسپٹل سے نکل رہی تھی جب اس نے پیچھا کیا۔پارکنگ ایریا کی طرف جاتے ہوئے۔
”شیبا! بات سنو،میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، شیبا!”
وہ اس کے پیچھے تقریباًدوڑتا ہوا آیا۔
”دیکھو ہم بہت اچھے دوست ہیں شیبا۔”
”دوست تھے۔” وہ تیزی سے آگے جارہی تھی۔
”تمہیں میری بات تو سننی چاہیے۔”
”کوئی وضاحت نہیں، ناٹ، نو۔” تلخی سے تیزی سے کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔وہ اب گاڑی کی طرف جارہی تھی۔
”ایسا نہیں کہ میں کوئی وضاحت دینا چاہتا ہوں۔ بس تم ایک بار میری بات سن لو، پلیز۔ دوست، شیبا، پلیز۔”
”میں کلاس میں اور ہاسپٹل میں تم سے بات کرلیتی ہوں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے تم سے صفائیاں چاہئیں۔صرف اس لیے کہ ہماری دوستی مشہور ہے۔ لوگ سوال نہ اُٹھائیں دوستی پر۔
سارنگ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کہ لوگ مجھ سے سوال کریں۔ سمجھے؟اور وہ بھی تمہارے متعلق۔” انگلی سیدھی اس کے کندھے پر رکھی۔
”بالکل پسند نہیں کرتی میں۔” اس کا مطلب تھا اپنا منہ بند رکھنا۔
”دیکھو میں خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے تمہارے سامنے کوئی صفائی نہیں دوں گا۔بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ کوئی فلرٹ نہیں کیا شیبا۔”
وہ اسے استہزائیہ انداز میں دیکھنے لگی۔ صرف ایک لمحہ، افسوس، استہزاء اور پتا نہیں کیا کیا تھا اس کی نظر میں۔پھر گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھ گئی۔
”ہم دوست تھے اچھے دوست، میں نے تمہیں کبھی کوئی خوش فہمی نہیں دی، کبھی نہیں۔ نہ کوئی جھوٹا آسرا، نہ دھوکا۔کچھ نہیں۔”
وہ حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثر کے ساتھ صرف ایک لمحہ اسے دیکھتی رہی۔
کیا کہتی؟ وہ کہہ رہا تھا اس نے فلرٹ نہیں کیا، اس نے دھوکا نہیں دیا۔ وہ روتی یا پھر روتے روتے ہنس دیتی۔ اس وقت اس کا دل چاہا کہ وہ سامنے کھڑا ہو اور وہ اسے اپنی کار تلے کچل دے۔وہ سب کچھ کچل دینا چاہتی تھی۔
اس نے سڑک کو شیشے میں جانچتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ریورس، پھر سیدھی سڑک پروہ پیچھے پارکنگ میں ہانپتا رہا۔دل کی دھڑکن تیز۔
گاڑی چرچراتی ہوئی بہت آگے بڑھ گئی اور وہ وہیںکھڑا رہا۔
اسے یا پھر خود کو تسلی دے،نہیں کوئی نہیں۔
سر جھٹکا۔
اسے لگا کچھ نہیں بچا، پانی تھا بہہ گیا، ساتھ پیار بھی۔
٭…٭…٭