شریکِ حیات قسط ۶
باب ششم
نیلے آسمان سے سفیدی غروب تک گھٹ جاتی تھی۔
یہ ستاروں کی آمد کے اوقات تھے۔
جب دھیرے دھیرے زمین والوں کی نظر کے کھیل سے اوجھل آنکھ بچاتے کھیل نچاتے، ستارے ایک ساتھ ہی نمودار ہونے لگتے تھے۔
یہ وقت تھا گرمیوں کے زوال کا۔
یا پھر موسم کی آنکھ مچولی کا کہ دن میں فصلیں پکاتا سورج گرمی کے شرارے ایسے زمین پر پھینکتا جیسے سرکس باز، تماش گر منہ میں تیل چھڑک کر آگ کے شرارے منہ سے نکالتا ہو۔
اور غروب تک ایسے ہوجاتاجیسا زمین پر آگ کی یہ ہولی کبھی نہ چلی ہو۔ یہ درمیانہ موسم ناچتا کھیلتا، تیز ہوا کے جھکڑ چلاتا، جھومتا جھامتا ہوائوں پر کھیلتا غروب کے بعد آنے والی رات کی چادر بچھاکر ہر اک گرماہٹ کو ٹھنڈا کردیتا تھا۔
ایسے میں دیہات کے سادہ لوح لوگ، آدمی، عورتیں، بچے اس وقت صحنوں میں چارپائیاں ڈالے مٹی سے لیپ کیے صحنوں میںچارپائیوں پر طویل تکیے رکھ کر سو لیتے۔ دن کی تھکن کو گھٹانے کی کوشش میں کھیت، کھلیان، پڑوس، محلہ کھیتی، کھلیان، کمہار، لوہار، زر، زمیندار سب کی کچہریاںسجنے لگتیں۔
صحنوں میں عورتیں بیٹھیں گیت گنگناتیں یا بھرت، کڑھائی، کپڑا، سلائی،دھلائی، بُنائی، مال مویشیوں کے چارے باڑے کا انتظام ہوتا پھر چولہے پھونکتے رات کا دال دلیہ ساگ روٹی مکئی مکھن چاول گڑشیرہ بنانے بیٹھتیں۔ ساتھ کچے چولہے کے گرد کچی اینٹوں سے بنی چوکی پر دو تین چار عورتیں چوکڑا مارے کوئی پیاز چھیلتے، کوئی چولہے میں لکڑیاں جھونکتے، کوئی سبزی ساگ صاف کرتے، کوئی چاول چنتے ہوئے باتیں کرتی رہتیں۔ اور اسی طرح سندھو اورسوہائی اماں کی نظر سے ہٹ کر کانوں میں پھسپھساتے ہنستے ہنساتے پیاز، مٹر، گوبھی، پالک، دال، دلیہ، ساگ، چاول پکاتے، ہنڈیا چڑھاتے بہت سی باتیں کرتیں یعنی آج کی نئی کہانی کیا ہے؟
سندھو جو نت نئی کتابی کہانیاں پڑھ ڈالتی سوہائی کو فیض یاب کردیتی اور اسی طرح آج بھی ہوا۔
”تجھے پتا ہے سوہائی سارنگ اور سندھو والی کُل ملا کے پنج کہانیاں ہیں۔
پہلی میں سارنگ بت تراش اور سندھو دیوی۔
سارنگ کے ہاتھ کاٹ لیے جاتے ہیں۔ سندھو دیوی کی قربانی ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں نا کہ سندھو سارنگ نے نہیں ملنا۔
دوسری داستان، سارنگ بنا گھڑ سوار اور سندھو ہائے سوہائی مت پوچھ دونوں کے بیچ کی وہی جدائی، وہی مات۔
آخری سندھو سارنگ وہ جب پاکستان آزاد ہوا۔
سندھو رہ گئی زمین کے اک ٹکڑ پرہند میں اور سارنگ رہ گیا پاکستان۔دونوں کے بیچ لمبی سرحد۔
پہاڑ ،پربت۔
سندھو افسردہ۔
پر سندھو تُو اور ادا سارنگ جو مل گئے ۔سوہائی کہتی۔
مگر سندھو کی آنکھوں میں اداسی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کچھ۔ کچھ ایسا جو سوہائی کبھی نہ سمجھ سکتی۔ وہ بھلا اسے کیا سمجھاتی کہ پگلی یہ ملنا بھی کوئی ملنا ہے۔ وہ یہ سب سوچتی ہی رہ جاتی کہتی کچھ نا۔
٭…٭…٭