شاہین قسط ۲  ”سانپ اور سپیرے” – عمیرہ احمد

شاہین قسط ۲  ”بسانپ اور سپیرے” – عمیرہ احمد

وہ تینوں بیک وقت فریز ہوگئے تھے۔ یوحنّا نے آئس کریم کھاتے ہوئے رُک کر جیسے تسلی کرنے والے انداز میں اُس کھوپڑی کو دیکھا اور پھر مطمئن ہوکر فاتحانہ انداز میں اُن تینوں کو دیکھتے ہوئے کہا:
”دیکھا! اب یہ مت کہنا کہ یہ کھوپڑی بھی کسی پرندے کی ہے۔”
اُس نے شیردل کا جیسے مذاق اُڑایا تھا اور پھر وہ آئس کریم کھاتے کھاتے ٹھٹکا۔
”یہ تم تینوں کے چہرے اتنے پیلے کیوں ہورہے ہیں ؟” شیر دل نے نایاب اور احد کو دیکھا اور پھر اپنے پائوں سے بس ایک ڈیڑھ فٹ دور پڑی اُس خون آلود کھوپڑی کو دیکھا اور پھر ایک بھی لفظ کہے بغیر اُس نے دوڑ لگادی تھی۔ اور اُسے بھاگتے دیکھ کرنایاب اور احد بھی وہاں نہیں رُکے تھے۔ وہ اُس سے بھی زیادہ سرپٹ بھاگے تھے۔ یوحنّا آئس کریم چھوڑ کر اُنہیں آوازیں دینے لگا تھا مگر اُن میںسے کسی نے ایک لمحہ کے لئے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جب وہ اُس کے لان سے غائب ہوگئے تو یوحنّا نے بڑے پراسرار انداز میں مسکراتے ہوئے اوپر منہ کرکے جیسے آواز لگائی۔
”آجائو یہ وہی ہیں۔” برگد کے درخت کی شاخوں میں حرکت ہونے لگی اور پھر کوئی درخت سے اُترنے لگا۔





…٭…

شیر دل ،نایاب اور احد یوحنّا کے گھر سے بھاگتے ہوئے نکلے تھے اور انہوں نے اپنے گھر کے گیٹ پر سانس لیا تھا۔
”تمہیں کس نے کہا تھا کہ جن بھوتوں اور چڑیلوں کے کیس لینے شروع کردو؟”
اپنے گھر پہنچتے ہی نایاب پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اُس پر دھاڑی تھی۔
”مجھے کیا پتہ تھا کہ اصلی چڑیلیں نکل آئیں گی۔”
شیر دل نے اپنا سانس بحال کرتے ہوئے کچھ کمزور سے لہجے میں اُس سے کہا تھا۔
”وہ ہمارے پیچھے تو نہیں آجائیں گی؟”
احد نے خوفزدہ ہوکر پلٹ کر اُس سڑک کو دیکھا جس کے آخری سرے پر یوحنّا کا گھر تھا۔
”I don’t think so… اور آنا چاہیے بھی نہیں… ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں ابھی تو پھر کیوں آئیں گی۔” شیر دل نے گڑبڑا کر احد کووضاحت دی اور وہ وضاحت بڑی بلند آواز میں تھی یوں جیسے وہ وہاں موجود ہر غیرمرئی مخلوق کو یہ سُنا نا چاہتا تھا۔
”ہم یہ کیس نہیں کررہے۔” نایاب نے فیصلہ سنایا۔
”اور شاہین جن بھوتوں کا کیس حل نہیں کرے گی۔”
”بالکل ٹھیک!” احد اور شیر دل دونوں نے بیک وقت کہا تھا ۔
اُس رات وہ تینوں کئی بار سوتے میں جاگے اور نیند میں بھی وہ عجیب عجیب شکلوں کی برگد کی چڑیلیں دیکھتے رہے۔






…٭…
”ان کا تعارف؟” شیر دل نے اگلے دن یوحنّا کے ساتھ آتی ہوئی ہادیہ کو دیکھ کر پوچھا۔ جو مسلسل مونگ پھلی کھاتے ہوئے اُن تینوں کو گھور رہی تھی۔
”یہ میری کلاس فیلو اور Neighbour ہیں اور میری فرینڈ بھی۔” یوحنّا نے ہادیہ کی طرف دیکھتے ہوئے شیردل سے کہا۔ وہ شیر دل کے بلانے پر بریک میں اُن سے ملنے آیا تھا۔
”کچھ ذاتی وجوہات کی وجہ سے ہم آپ کا کیس نہیں کرسکیں گے۔” شیر دل نے فیس کا لفافہ یوحنّا کے سامنے رکھتے ہوئے بڑے نارمل سے انداز میں کہا۔
یوحنّا نے لفافہ کھول کر روپے گنے ۔
”50 روپے کم ہیں۔” اُس نے فوراً سے بیشتر کہا۔
”وہ پہلے ہی کم تھے۔اُس کالفافہ لیاتھا تم نے ۔” نایاب نے دانت پیستے ہوئے یوحنّا سے کہا۔
”اوہ ہاں مجھے یاد آگیا۔” یوحنّا نے کہا اور لفافہ جیب میں رکھ لیا۔
”پر آپ کیس کیوں نہیں لے رہے؟ کیا آپ ڈر گئے ہیں؟ اور کیا شاہین بھوتوں اور چڑیلوں کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور۔” احد نے بڑی ناگواری سے ہادیہ کی بات کاٹی تھی۔ جس نے یک دم اُن پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی تھی وہ ساتھ ساتھ کسی بندر کی رفتار سے مونگ پھلی کے دانے بھی پھانکتی جارہی تھی۔
”ہم آپ کے کسی سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ یہ کیس مسٹر یوحنّا کا تھا اور ہم صرف اُن ہی سے بات کریں گے۔”
”اصل میں برگد کا آدھا درخت ان کے گھر کے لان کی طرف ہے اور اس کیس کی آدھی فیس بھی ہادیہ نے دی ہے۔” یک دم یوحنّا نے کچھ گڑبڑا کر اُن سے کہا۔
شیر دل نے احد اور نایاب کو دیکھااور پھر اُس نے یوحنّا سے کہا۔
”Whtaeverآپ اب جاسکتے ہیں۔” ہادیہ نے لفافے سے مونگ پھلی کا آخری دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے لفافے کو اچھی طرح جھاڑ کر بلکہ لفافے کے اندر منہ ڈال کر دیکھا کہ کہیں اُس کے اندر کوئی دانہ رہ نہ گیا ہو۔ پھر اُس نے انگلی سے لفافے کے اندر لگا ہوا نمک اور مصالحہ چاٹنا شروع کردیا۔
شیر دل ، نایاب اور احد نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ کنجوسی اور غیر مہذب ہونے کی انتہا تھی۔
”ہم دونوں یہاں سے اسی صورت جائیں گے جب تم تینوں ہمیں اپنے ساتھ شاہین کے چوتھے اور پانچویں ممبر بنالوگے۔”
نمک چاٹنے کے بعد جو جملہ ہادیہ کے منہ سے نکلا تھا اُس نے تینوں کو ہکا بکا کردیا تھا۔
”مطلب؟” نایاب نے ہونٹ سکوڑ کر کہا۔
”مطلب یہ ہی ہے کہ ہم بھی شاہین میں کام کرنا چاہتے ہیں۔” ہادیہ نے کہا۔
”شاہین کی تنظیم بچوں کو اپنا ممبر نہیں بناتی۔” شیر دل نے کھٹاک سے کہا۔
”تو تم تینوں کیا ہو؟” ہادیہ نے اُسی انداز میں جواب دیا۔ چند لمحوں کے لئے شیر دل لاجواب ہوگیا۔
”ہم شاہین کے نمائندہ ہیں ممبر نہیں ۔”
”مسٹر شیر دل میں اور یوحنّا اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم تینوں کے علاوہ شاہین میں اور کوئی نہیں ہے اور شاہین تم نے بنائی ہے ورنہ پاکستان میں کہیں شاہین کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اور یہ ساری باتیں ہم پورے اسکول کو بتادیں گے اُس کے بعد ہم پرنسپل کے پاس جائیں گے اور اُنہیں بتائیں گے کہ تم لوگ بچوں سے پیسے لے کر اُن کے ساتھ فراڈ کررہے ہو۔” ہادیہ نے مونگ پھلی کا لفافہ اپنی شرٹ کی جیب میں تہہ کرکے رکھتے ہوئے اُن تینوں کو دھمکایا اور شیر دل اور اُس کے ساتھیوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔
”ہم نے فیس واپس کردی ہے اور ابھی کسی سے کوئی کیس نہیں لیا۔” نایاب نے ہکلاتے ہوئے ہادیہ سے کہا۔
”اور اگر تم لوگ ہمیں اپنے ساتھ شامل نہیں کروگے تو کبھی بھی کوئی کیس نہیں کرسکتے۔ شاہین شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی۔ ” اس بار یہ یوحنّا تھا۔
شیر دل نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا پھر اُس نے سر کھجاتے ہوئے ہادیہ سے کہا۔
”ایسی کیا خاص بات ہے تم دونوں میں کہ ہم تم دونوں کو شاہین میں شامل کریں؟”
”ہمارے پاس Lab ہے جو تم تینوں کے پاس نہیں ہے اور ہر بڑی اور اچھی جاسوسی تنظیم کے پاس ایک Lab ہوتی ہے۔” ہادیہ نے بڑے اطمینان سے کہا اور شیر دل سمیت اُن دونوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
”کیا ہم Lab دیکھ سکتے ہیں؟” شیر دل نے بے اختیار کہا۔
”آف کورس۔”ہادیہ نے کندھے جھٹک کر جواب دیا۔






…٭…
”تو یہ ہیں برگد کی چڑیلوں کا لنچ اور ڈنر۔” ہادیہ نے بڑے فخریہ انداز میں اُن تینوں کو اپنے گھر میں اپنی  Lab کے ایک میز پر رکھی ہڈیاں اور کھوپڑی دکھاتے ہوئے کہا۔
وہ تینوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
”مطلب ؟” نایاب نے اٹکتے ہوئے اُن خون آلود ہڈیوں اور کھوپڑی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”مطلب یہ کہ برگد پر کوئی چڑیلیں نہیں صرف ایک چڑیل تھی ہادیہ جس نے اوپر سے باری باری تم لوگوں کو ڈرانے کے لئے یہ ساری چیزیں پھینکیں۔”
یوحنّا نے فاتحانہ انداز میں اُن تینوں سے کہا جن کے چہرے اب خفت سے سرخ ہورہے تھے۔
”لیکن تم لوگوں نے یہ سب کیا کیوں؟” شیر دل نے کچھ اٹکتے ہوئے پوچھا۔
”تاکہ ہم جان سکیں کہ شاہین کی اصلیت کیا ہے۔” ہادیہ نے اطمینان سے کہا۔
”اور اس میں شامل ہوسکیں۔” یوحنّا نے شیر دل کے بگڑتے ہوئے تیور دیکھتے ہوئے کہا۔
”پر تم نے یہ سب بنایا کیسے؟” احد نے ڈرتے ڈرتے کھوپڑی کو چھو کر دیکھا۔
”فریج سے گوشت نکالو۔ اُسے پیسو۔ پھر میرے اسپیشل کلر میں ڈبو کر ان ہڈیوں پر گلو سے چپکا دو۔ ” ہادیہ نے اس طرح طریقہ بتانا شروع کیا جیسے وہ کوئی کھانے کی receipe تھی۔
”اور یہ ہڈیاں اور کھوپڑی کہاں سے آئیں؟” شیر دل کو تجسس ہوا۔
”پلاسٹک کی ہیں بازار سے سب ملتا ہے۔ میرے پاس ہر طرح کی ہڈی ہے۔”
ہادیہ نے فخریہ انداز میں کہتے ہوئے کمرے کی ایک الماری کھولی ۔ وہ واقعی ہر طرح کی ہڈیوں سے بھری ہوئی تھی۔
”اس چیز کا بدلہ لیں گے ہم۔” احد کو اب بے حد شرمندگی اور ہتک محسوس ہورہی تھی۔ وہ اُن دو بچوں کے ہاتھو ں الّو بن گئے تھے۔
”ہم نے کیا کیا؟ تم لوگ خود بھاگے تھے۔” یوحنّا نے جھٹ سے کہا۔
”بھاگے تو ہم تینوں صرف ایکسرسائز کے لئے تھے۔ ہم تینوں کو جاگنگ کا شوق ہے۔” شیر دل نے جیسے اپنی ٹیم کا پردہ رکھنے کی کوشش کی۔ یوحنّا اور ہادیہ نے اپنی ہنسی چھپائی ۔
”لیکن تم لوگوں کی Lab پسند آئی ہے اور شاہین کو ضرورت ہے ایک Lab کی تو ہم غور کر سکتے ہیں تم دونوں کو شامل کرنے پر۔ ” شیر دل نے بظاہر متاثر نہ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔ لیکن اندر ہی اندر وہ اُن دونوں سے بے حد مرعوب ہوا تھا۔
”غور نہیں کروگے تم ابھی فیصلہ کروگے آر یا پار ہم شاہین ہیں یا نہیں۔” ہادیہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”ورنہ؟” نایاب نے تیکھے انداز میں کہا۔
”ورنہ!” یوحنّا اور ہادیہ نے ایک دوسرے کو دیکھااور پھر ہادیہ نے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ وہ تینوں جہاں کھڑے تھے وہاں ایک باکس کھلا تھا اور سات آٹھ موٹے موٹے چوہے اُن پر چڑھ دوڑے تھے۔ اُن تینوں نے بھاگتے ہوئے دروازے سے نکلنے کی کوشش کی مگر دروازہ لاکڈ تھا۔ یوحنّا اور ہادیہ اب بڑے اطمینان سے کمرے میں کھڑے تھے اور وہ تینوں چیخیں مارتے ہوئے چوہوں کے آگے پیچھے دوڑ رہے تھے اور جو بھی چوہا اُن کے پاس آتا وہ اُن پر اُچھل کر چڑھ جاتا ۔
”اچھا اچھا! ٹھیک ہے۔” بھاگتے ہوئے شیر دل نے اُن سے کہا۔
”تم شامل ہو آج سے شاہین میں۔” ہادیہ اور یوحنّا نے Hurrah! کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ high five کیا اور پھر ہادیہ نے ایک اور بٹن دبایا۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک اور باکس کا منہ کھلا اور اُس میں سے عجیب سی خوشبو کے ساتھ کچھ آوازیں آنے لگی تھیں۔ اُن چوہوں نے یک دم اُن تینوں کی طرف بھاگنے کی بجائے اُس باکس کے کھلے منہ میں گھسنا شروع کردیا تھا اور ایک منٹ میں وہ اُس باکس کے اندر تھے اور آخری چوہے کے اندر جاتے ہی ہادیہ نے باکس بند کردیا تھا۔
”ہم اس کا بھی بدلہ لیں گے۔” پھولے ہوئے سانس کے ساتھ احد نے ایک بار پھر اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے کہاتھا۔
”بدلہ لینا بُری بات ہوتی ہے۔” ہادیہ نے اطمینان سے اُن تینوں سے کہا جو اب میز کے ایک طر ف کھڑے اپنے کپڑے ٹھیک کررہے تھے۔
”تو Boss ہم آج سے ٹیم شاہین میں ہیں نا؟” یوحنّا نے آگے بڑھ کر شیر دل کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ شیر دل نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”بس یوحنّا! تم شاہین four ہو اور ہادیہ تم شاہین five۔ ” اُس نے فوری طور پر اُنہیں اُن کے نمبرز بھی بتادیئے تھے اور یوحنّااور ہادیہ دونوں کی خوشی کا جیسے کوئی ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔
”They are cool…… really cool۔”
وہاں سے واپس جاتے ہوئے شیر دل نے نایاب اور احد سے کہا تھا جو خود بھی مرعوب تھے۔ ہادیہ اور یوحنّا کی Labمیں وہ جو کچھ دیکھ آئے تھے اُنہیں اچانک ہی لگ رہا تھا جیسے شاہین سٹار ٹریک ہی بن گئی تھی اُن دونوں کے آجانے پر۔






…٭…

Loading

Read Previous

الف نگر میگزین ۔ جولائی اور اگست ۲۰۲۲

Read Next

انارکلی — خالد محی الدین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!