عائلہ ذرا سانس لینے کو روکی ، پھو پھو کاہاتھ اب بھی عائلہ کے ہاتھ میں تھا، اُس نے دھیرے سے اُسے چھوڑنا چاہا پر سعدیہ نے عائلہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام لیئے، عائلہ ہلکا سا مسکرا دی۔ نظر اُٹھا کر جو دیکھا تو سعدیہ کی آنکھوں میں اپنے لئے رنگ ہی رنگ نظر آئے، محبت ، رحم ، ہمدردی اوراحترام ۔ عائلہ نے مُڑ کر ایک نظر دونوں بچوں پر ڈالی ، دونوں ہی اپنی اپنی دنیائوں میں مگن تھے، کچھ ہی دیر میں سلیمان کا الارم بج اُٹھتا تو بات اَدھوری چھوڑنی پڑتی ۔ یہ سوچ کر وہ جلدی سے دوبارہ گویا ہوئی ” پھر جن دنوں میں اپنے بچوں اور ریگیولر بچوں کے فرق کو مٹانے میں بری طرح مصروف تھی ، انہی دنوں ابا شدید بیمار پڑ گئے اور میں ایک عجیب مخمصے میں پڑ گئی۔ ایک طرف تو ہماری محنت سے سلیمان اور محمد تیزی سے امپرئو کر رہے تھے تو دوسری طرف میرے ابا کی حالت اُتنی ہی تیزی سے بگڑتی جارہی تھی۔ بڑی بیٹی ہونے کے ناطے اصولاً تو مجھے پہلی فلائٹ لیکر پاکستان آ جانا چاہیے تھا ۔ کچھ ابا کی خدمت کر لیتی، کچھ اپنی ماں کے لیے آسانی کر لیتی، یقین مانیئے ایان اورمیرے سسرال والوں نے مجھے بہت کہا کہ تم بچوں کو ہمارے پاس چھوڑ کر ماں باپ سے مل آئو مگر میں جانتی تھی کہ ایسے تمام بچے ریگریس(regress) بڑی آسانی اور تیزی سے کرتے ہیں ۔ میری ذرا سی توجہ ہٹتی تو اِن کی ساری امپرئومنٹ غائب ہو جاتی اور ہم پھر سے ڈے وین پر کھڑے ہوتے۔ انہیں یہاں لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اماں اور شیراز ابا میں مصروف پھر رشتے داروں کا آنا جانا، میری اولاد کو تو اپنے مخصوص ماحول اور لگی بندگی روٹین کی عادت ہے۔تبدیلی کو اتنی آسانی سے accept )) ایسیپٹ نہیں کر تے ۔اسی لیے میں نے مظہر حسین کی بیٹی بن کر نہیں بلکہ سلیمان اور محمد کی ماں بن کر سوچا اور امریکہ میں ہی رہی”اتنے میں بچوں کی رائم کی طرز پر سیٹ کیا ہوا الارم بج اُٹھا تو عائلہ نے پہلے اپنے سارے بالوں کو خوب اچھی طرح ٹوئسٹ کر کے انہیں ایک جوڑے کی شکل دی پھر جوڑے کو کھوپڑی کے سب سے ہائیسٹ پوائنٹ پر ٹکا دیا ، جب اُٹھنے لگی تو کشش ثقل کے اصولوں کے تحت جوڑا نیچے گرنے لگا مگر عائلہ نے اُسے بیچ راستے میں کیچ کر کے واپس ٹکا دیا۔ عائلہ نے بجتا الارم سلیمان کو سنایا اور دھیرے سے آئی پیڈ واپس لے لیا پھر وہ دونوں بچوں کو سعدیہ پھوپھو کے پاس لے آئی جو اب تک کمرے میں اُن کی موجودگی سے یکسر بے نیاز تھے۔ عائلہ نے تعارف کروایا ۔” سلیمان ، محمد! یہ سعدیہ نانی ہیں۔ ماماز پھو پھو ۔ انھیں سلام کرئیں۔” سلیمان نے ایک نظر اُن پر ڈالی پھر ایک نہایت سیلی(silly) مگر بھرپور قہقہ لگایا۔” السلام و علیکم ” ”وعلیکم سلام” ” آپ کیسی ہیں” ” میں ٹھیک ہوں”
” ہائو وز یور ڈے” ( آپ کا دن کیسا تھا) ”بزی”۔ سلیمان نے سعدیہ سے نظرئیں ملائے بغیر تمام رٹے ہوئے سوال دُھرائے اور پھر سعدیہ کے رسپونس (response) کا انتظار کئے بغیر خود ہی سارے جوابات دے ڈالے۔ سعدیہ تو بس اُسے بات کرتا دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہیں تھی۔ ” قربان، نانی قربان۔ نانی کی جان” ۔ انھوں نے بڑھ کر سلیمان کو دونوں بازوئں میں بھر لیا۔ سلیمان نے موقع دیکھ کر پھوپھو کو نوچنا کھسوٹنا چاہا مگر سعدیہ اتنی سی دیر میں خاصی ٹرین ہو چکی تھیں۔ نامحسوس انداز میں انہوں نے بچے کے دونوں ہاتھ پکڑ لیئے اور اِسے پیار کرتی رہیں۔ سلیمان نے ایک آدھ منٹ تو برداشت کر لیا پھر اُس نے اُن کے چہرے اور دایاں کندھے پر مارنا شروع کر دیا تو عائلہ نے اُسے کندھوں سے پکڑ کر پیچھے کر لیا۔ محمد نے پھوپھو کے لپٹانے چپٹانے پر کوئی ری ایکشن شو کیا نہ اُن پر ایک بھولی بھٹکی نظر بھی ڈالی بلکہ چہیوئی منہ میں ڈالے بے نیاز سا اُن کے ساتھ لگا کھڑا رہا۔ پھوپھو نے بچوں کو ساتھ لگائے لگائے بہتری دعائیں دے ڈالیں ۔” میرے مولا! اِس جہانِ بے حس میں تو نارمل لوگوں کا گزارا کرنا اِس قدر مشکل ہے یہ بچے تو پھر ایک ایسی کنڈیشن کا شکار ہیں جو بہترین علاج سے تو بہتر ہو سکتی ہے مگر اِن دونوں کامکمل طور پر اُس سے باہر آ جانا تقریبا! ناممکن ہے۔ یا اللہ ! تو اِن کا ضامن بن جا۔ اِن کے دماغ اور زبان کی گرہیں گھول دے۔
رقیبہ کی کمرے میں آمد سے اِن کی دُعائوں کا تسلسل کچھ ٹوٹ سا گیا۔ عائلہ نے بغلی دراز کھول کر ایک ایک بائٹ سائز ڈارک چاکلیٹ سب کو دی پھر بچوں کو رقیبہ کے ساتھ باہر سائکلنگ کرنے کے بھیج دیا اورخود قدرے ریلیکس ہو کر پھوپھو کے پاس بیٹھ گئی۔ پھوپھو نے چاکلیٹ ختم کر کے بہت دیر سے دماغ میں گشت کرتے خیالات کو بالاآخر زبان دے ڈالی۔
” عائلہ ! میں بہت دیر سے ایک بات سوچے جا رہی ہوں کہ تم ٹھہری ایک پڑھی لکھی قابل لڑکی پھر میں اُس بے انصاف رویے کی بھی گواہ ہوں جو مظہر بھائی نے ہمیشہ تمہارے ساتھ روا رکھا۔ بھائی ہر عورت کو پھر چاہے وہ ماں ہو بہن، بہو ہو یا بیٹی اپنے سے کئی درجہ کم مخلوق گردانتے تھے۔ تعلیم سے لیکر زندگی کے ہر معاملے میں اِن کے اصول تمہارے لیے کچھ اور تھے اور شیراز کے لیے کچھ اور لیکن اِن تمام حالات نے تمہارے اندر کوئی بگاڑ پیدا نہیں کیا بلکہ تمہاری شخصیت کچھ مزید نکھر کے سامنے آ گئی ۔ مانو جیسے اللہ نے بہت پہلے سے تمہیں اِس آزمائش کے لئے چُن رکھا تھا۔ اِسی لیے شروع سے تمہیں سختیوں میں رکھا بہر حال تمہاری محنت ایک طرف امریکہ اور پاکستان کا فرق ایک طرف، وہاں تو ڈیلی بیسس پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ جدید ترین تھیراپیز اور ٹریٹمنٹ اپروچیز متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ پیسہ خرچ کر کے ہی سہی مگر تمہیں یہ تمام سہولیات میسر تو ہیں۔ تمہارے کمپئریزن (comparison) میں پاکستان میں رہنے والی کسی نسبتاً کم پڑھی لکھی ، دن رات بچوں کی روٹی ، کپڑا اور بنیادی تعلیم کی تگادو میں مصروف ماں کی اولاد کے ساتھ یہ سب ہوتا تو سوچو ہم اور ہمارا معاشرہ بھلا اُس کا کیا حال کرتے ۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ضرور کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں میں ایک (awareness) پیدا کی جائے کیونکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آئٹزم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
لوگ بڑی آسانی سے اِن بچوں کو مینٹلی محذوب (mentally retarded) یا اللہ لوک کہہ دیتے ہیں۔ زندگی کے دروازے اِن کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اپنے ہم عمر بچوں سے لیکر بڑوں تک یہاں تک کہ اپنے خاندان والے انہیں قبول نہیں کرتے۔ ماں الگ چور سی بن جاتی ہے کہ جیسے بچوں کی اِس حالت کی وہ بھلی مانس ذمہ دار ہے ۔ اِیون (even) اچھی اچھی پڑھی لکھی فیملیزمیں بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پھوپھو نے مایوسی کے عالم میں سر کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔
” پھوپھو! زمانے کی بھی آپ نے خوب کہی اِن کا تویہی وطیرہ ہے “۔یہ بات مانے والی ہے کہ دس سال امریکہ میں گزارنے کے باوجود عائلہ کی اُردو اور انگریزی دونوں ہی کما ل کی تھی ۔دونوں پھوپھو اور بھتیجی انگریزی تھریلر ز(thrillers) اور اردو کے اخبارات و رسائل پڑھنے کی بے حد شوقین پھر گھنٹوں یہ کہانیاں ڈسکس ہوتی رہتیں۔آج ایک عرصے کے بعد دونوں مل کر بیٹھیں تو پھوپھو کو لگا جیسے گیا وقت پھر سے لوٹ آیا ہو۔
” اب میرے ہی معاملے میں دیکھ لیں۔ ابا کی بیماری اور پھر انتقال پر نہ آ کر میں نے لوگوں کو گوسیپ کے لیے ایک دلچسپ موضوع دے دیا۔ امی تو صاف چھُپا جاتیں مگر شیراز کی بابت بہت سی باتیں مجھ تک بھی پہنچ ہی جاتیں۔ اپنے اللوں تللوں میں مصروف بے حس ، نا خلف اولاد حالانکہ اِن بچوں کے پیچھے تو میں اپنا کہیں رکھ کر بھول گئی تھی۔ اتنے سالوں میںکھبی ، لمحے بھر کے لیے بھی کمزور نہیں پڑی۔ اللہ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کیامگر میرے اپنے رشتہ داروں کی باتوں نے مجھے توڑ ڈالا۔ میری روح تک کو زخمی کر دیا اور جس روز ابا کے انتقال کی خبر آئی اُس روز مجھے ایسا لگا کہ اُن کا سارا درد سمیٹ کر میرے اندر کوچ کر گیا ہے۔ یکایک آنسوئوں کے کئی شفاف قطرے عینک کے شیشے سے جڑی مڑی ہوئی پلکوں کی لمبی قطروں سے بہہ جانے کو تیار تھے۔
عائلہ نے بھی انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ گردن کے گرد دائرے میں لپٹے بیج اسٹول (stool) کو تھوڑا سا ڈھیلا کیا ( کمرے میں یک دم بہت گھٹن سی محسوس ہونے لگی تھی) اور اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا۔” اُن دنوں بے چینی کسی طرح کم ہی نہیں ہو پائی۔ اپنے اندر جھانک کر سینکڑوں مرتبہ پوچھ بیٹھی کہ کیا میں نے صحیح کیا؟ کیا کروں ۔ کیا ایسا کروں کہ اِس دل بے قرار کو قرار نصیب ہو۔تو پھر اللہ کی بارگاہ میں یوں دونوں ہاتھ پھیلا کر بیٹھ گئی” عائلہ نے بھیگی پلکوں کے ساتھ اسٹول دونوں ہاتھوں پر ڈال کر باقاعدہ دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔
” اے باری تعالیٰ! میرے شب و روز کے عمل سے تو با خوبی واقف ہے ۔ میں ویسی نہیں ہوں جیسا کہ یہ لوگ مجھے سمجھتے ہیں ۔پورٹرے (portray) کر رہے ہیں۔ پرور دگار! اگر میں نے ابا کی آخری خواہش پوری نہ کر کے اُن کے آخری وقت میں محمد اور سلیمان کو اُن سے نہ ملوا کر کوئی گناہ کیا ہے تو میرے رب تو مجھے معاف کر دے۔ ابا کو اب میرے پاکستان آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، وہ تو اب اس جہان فانی میں ہے ہی نہیں ۔فرق پڑتا ہے تو میری دُعائوں ِ،صدقات اور اُن کے نام پر کہئے میرے نیک اعمال سے۔ میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمام عمر اُن کے لئے صدقہ جاریہ کا سبب بنوں گی بس تو میری محنت میں برکت ڈال دے”۔
آمین کے انداز میں عائلہ نے اسٹول سمیت دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے اور آنکھوں کو صاف کیا ۔ ایک ولولے ، ایک ارادہِ مظبوط سے چمکتی شفاف آنکھیں۔
And our unbreakable Ailyah is back
اینڈ اوّر اَن بریک اِبیل عائلہ اِز بیک ( اور ہماری کبھی نہ ٹوٹنے والی عائلہ واپس آ گئی ہے)
سعدیہ پھوپھو دھیرے سے مسکرا دئیں۔
” میں نے سید مظہر حسین کے لیئے تا عمر صدقہ جاریہ کا آغاز اپنے ریجنل اسلامک سینٹر سے کیا۔ ہماری مسجد ایک ویک اینڈ اسلامک اسکول رِن کرتی ہے جس کے کچھ کلاس رومز صرف اسپیشل نیڈز اسٹودنٹس (student) کے لئے مختص ہیں۔ یہ بچے کیونکہ (visual learners)ہوتے ہیں اِس لیئے اِن کی اپنی مخصوص کتابیں ہیں جن میں الفاظ سے زیادہ با معنی تصاویر سے بات کو واضح کیا جاتا ہے سو میں نے سن ڈے اسکول میں اپنا پہلا ولینٹیئر(volunteer) ورک کیا ۔ اِن بچوں کو اللہ کے نام سیکھاتے، عربی حروف تہجی کے ساونڈ پزل کرواتے اور سورہ فاتحہ کی آخری آیات کو اَیکسپلین (explain)کرتے جن کی پکچرز میں شیطان کے راستے پہ اندھیرا ور نیکو کاروں کے لئے متعین راستے پہ ٹھنڈی میٹھی روشنی دکھائی گئی ہے۔ میں نے یہ نیت رکھی کہ میرے ہر ہر عمل کا ثواب میرے مرحوم والد کو پہنچے۔ اِس کے ساتھ ویک میں کسی ایک ورکنگ ڈے پر میں اپنے بچوں کے اسکول ڈسٹرکٹ (District)میں جو اسپیشل نیڈز اسکول ہے وہاں کلاس ٹیچراسسٹینٹ(Assistant) کے طور پر بھی ولینٹیر (volunteer) کرتی ہوں کیونکہ اِن بچوں کے ساتھ کام کرنے کے لئے بہت صبر اور ایک ہمدرد محبت کرنے والے دل کی ضرورت ہوتی ہے اِس لیے اسکول سسٹم ہمیشہ اچھے رضا کاروں کی تلاش میں رہتا ہے”۔
”اور ہماری عائلہ سے زیادہ نرم دل کوئی اور ہو نہیں سکتا، اِس بات کا مجھے صد فیصد یقین ہے”۔ حلیمہ جو کچھ دیر پہلے کمرے میں آئیں تھی گفتگو کا آخری حصّہ سُن چکی تھیں۔
” عائلہ ! تم نے اِنہیں ” محسن ” (Muhsen)کے بارے میں نہیں بتایا ۔پروجیکٹ تو تم اور ایان مل کر اپنے ابا کے نام پر کر رہے تھے ”نام تو بہت اچھا ہے ”ذرا اِسے پہلے میرے لیے اسپیل spell ))کرو پھر اِس کی(Details)ڈیٹیلزبتانا ”سعدیہ کو پہلے ہی عائلہ نے اپنی اپروچ سے بہت متاثر کیا تھا ۔اسی لیے اب وہ سنجیدگی سے ” محسن ” (Muhsen)کے بارے میں جاننا چاہ رہی تھیں ۔
M-U-H-S-E-N
محسن لائیک ایم -یو -ایچ -ایس -ٹی -این یعنی (Beneficial )سود مند یہ ایک ناٹ فار پروفٹ (Not for profit charitable websit)چیری ٹیبل ویب سائٹ ہے ۔ یہ جسے میں نے ابا مرحوم کے نام کیا ہے۔ ” محسن ” پر میں ، ایان اور ہمارے جیسے کئی والدین مل کر کام کر رہے ہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ ابا کے نام پر میں کچھ بڑا ، کچھ ایسا کرنا چاہ رہی تھی جس کا نفع بندگان خدا کو رہتی دنیا تک پہنچے مگر کیا؟؟ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بڑے محدود وسائل اور بڑا محدود وقت ہی تو تھا میرے پاس ۔ سوئم پہ جب آپ سب لوگ یہاں قرآن پڑھ کر بخش رہے تھے میں وہاں گرِوسہری کرتی پھر رہی تھی کیونکہ ہماری کمیونٹی سے اسپیشل نیڈز پیرنٹس کا ایک گروپ تعزیت کے لیے آ رہا تھا۔ سبھی فیملز اپنے گھر سے کھانا پکا کر لا رہیں تھی مگر آنا تو انہوں نے میرے گھر تھا تو مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ فون بھی میرا وقفے وقفے سے بج رہا تھا۔ پاکستان سے رشتے دار فون کر کے تعزیت کم کرتے تھے کچو کے زیادہ لگاتے ۔ میں چپ ہی تھی کہ اپنے بچوں کا پردہ رکھنا بے حد ضروری تھا۔ صد شکر کہ جب تک میں یہاں آئی تمام رش چھٹ چُکا تھا ورنہ میرے بچے تو اتنے جمگھٹے میں دیواروں سے سر ٹکراتے پھیرتے اور لوگوں کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آ جاتا ۔ شام میں میرے گھر کم و بیش پندرہ فیملیز تعزیت کے لیے آئیں۔ پاکستانی ، انڈین، عربک، بنگالی سبھی تھے ایک درد مشترک کے ساتھ، کسی کا ایک ، کسی کے دو اور کسی کے سارے بچے اسپیشل نیڈز تھے۔ مجھے اُن کے ساتھ بیٹھ کر لگا کہ یہ لوگ میری بات زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ اِن کے سامنے مجھے اپنا آپ جسٹی فائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب وہی ڈسکس کر رہے تھے کہ اپنی صحت مند اولادوں کے ساتھ ایک آرام دے نارمل زندگی گزارتے یہ لوگ کبھی ہمارے جیسے والدین کی اسٹریگل (struggle)کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہم ” ہیلی کوپٹرپیرنٹس ” (Helicopter parents) نہیں ہیں بس فرق صرف یہ ہے کہ ہمیں روزانہ صرف اپنے بچوں
پکار پر لبیک کہا۔ ایک بھابھی کاپی پینسل لیکر سب والنٹیئرز کے نام لکھنے بیٹھ گئیں۔ سامنے پڑی کافی ٹیبل پر سب نے اپنے اپنے پیسے اور آئیڈیاز چپ اِن (chip in)کئے ” محسن” کے نام پر فٹافٹ ایک ہزار ڈالر سے کچھ زیادہ ہی اکٹھا ہو گیا، پاکستانی یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے۔اُس رات ”بسم اللہ” پڑھ کر میں نے اور ایان نے ”محسن” کا باقاعدہ آغاز کیا”۔
عائلہ کی لگن سچی ،نیت نیک اور حوصلہ بلند تر تھا، سورج میاں اپنی بچی کچُی کرنیں سمیٹ سماٹ اپنے ٹھکانے کو ہو لیئے۔ مغرب سے پہلے کا ہلکا ہلکا اندھیرا کمرے میں پھیل گیا تو اِس تاریکی کو سب سے پہلے عائلہ نے محسوس کیا، بڑھ کر بیڈ کی اینڈ ٹیبل پر پڑے سیاہی مائل سرمئی فیک (fake)ماربل کے لیمپ کو روشن کر دیا اور اپنی بات جاری رکھی۔
” میں یہاں سے ہیومن سائیکولوجی میں ماسٹرز کر کے گئی تھی۔ اِن بچون کے ڈئیگنوز ہونے کے بعد میں نے اَریلی ایجوکیشن فار اسپیشل نیڈز چلڈرن(Early education for special needs children )کا ایک سرٹیفیکٹ کورس کیا، (Behaviour therapy)بی ہیوئر تھراپی کی کئی ورکشاپس اٹینڈ کیں۔ آئٹزم و دیگر مورثی بیماریوں اور اِن کے ٹریٹمنٹ آپشنز کے بارے میں کئی بیسٹ سیلنگ اوتھرز(Best selling authors)کی کتابیں خود سے پڑھیں۔ اپنے بچوں کے ہر تھراپی سیشن میں ، میں خود تھراپسٹ کے ساتھ بیٹھا کرتی یوں میرا نالیج اور ایکسپیرینس (experience)کئی پروفیشنل تھراپسٹ سے زیادہ ہو گیا۔ میں سادہ الفاظ میں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھ لیا کرتی تھی۔ دیگر کئی معلوماتی آرٹیکلز کا آسان فہم اردومیں ترجمہ کیا تاکہ وہ تمام مائیں جو ذرا کم پڑھی لکھی ہیں ، انگریزی زبان پر عبور نہیں رکھتیں وہ اپنی زبان میں جدید تحقیق اور نئی حکمت عملی (strategies)کے بارے میں جان لیں۔
میرا ایک فِرم بیلف(firm belief)ہے کہ دنیا کا بہترین تھراپسٹ ہر ماں کے اندر موجود ہوتا ہے ہمارا مقصد صرف اُسے ٹریں کرکے باہر لانا ہے۔ سو میں سے اسی فیصد کیسیز (Cases)میں ہر کوئی ساتھ چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ بچے کی پیدائش میں نصف حصّہ دار باپ بھی ۔ سو ہم جیسی تمام مائیں جنہیں اللہ نے کچھ سوچ کر اِس آزمائش کے لئے چُنا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کا سب سے مضبوط سہارا ہیں۔ ہمت نہیں ہارنی، تھکنا کبھی نہیں ۔ ماں جتنی جلدی ڈینائل (Denial)کے فیز سے باہر آ کر اِس حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ ہاں نہیں ہے میری اولاد اوروں جیسی بلکہ کچھ مختلف اور بعض اَریئز (areas)میں اوروں سے کہیں بہتر ہے اُتنی جلدی پہلے خاندان اور پھر معاشرہ اُس بچے کو ایک کارآمد ، فعال اور خود انحصار فرد واحد کی حیثیت سے قبول کر لیں گے۔ (Autistic)افراد ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں صرف اِن کی حسیات ہم سے دس فیصد زیادہ ہوتی ہیں ۔آپ کیسے ری ایکٹ کرئیں گے اگر ٹیوب لائٹ کی معمولی سی روشنی آپ کو بہت تیز چُبھتی ہوئی محسوس ہو ؟عائلہ نے کمرے میں موجود ٹیوب لائٹ کی طرف اشارہ کیا تو یک بارگی دونوں خواتین نے مُڑ کر بُجھی ہوئی ٹیوب لائٹ کی طرف دیکھا یا پھر پارک میں کھیلنے کچھ بچوں کی ہسننے کھیلنے کی آوازئیں ایسی محسوس ہوں کہ جیسے کئی افراد مل کر آپ کے کانوں میں چیخ رہے ہوں۔ اپنی اندرونی بے چینی کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ بچے منفی رویوں کو ایڈپٹ (adopt)کر لیتے ہیں جنہیں مختلف حکمت عملی (Strategies)کے ذریعے مثبت رویوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بچے چونکہ (visual learners)ہوتے ہیں یعنی سُننے سے زیادہ دیکھ کر سیکھنے والے ، اِس لیئے انہیں تعلیم و دیگر غیر نصابی سرگرمیاں اِن کی ذہنی عمر اور رجحان کے مطابق الگ الگ طریقوں سے سیکھائی جاتی ہیں۔ اِس ویب سائٹ کو کمپائل کرنا ایک بہت بڑا ٹاسک ہے کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ با معنی پکچرز ‘ورک شیٹس’ریسرچ ٹریٹ منٹ آپشنز کے علاوہ مختلف غیر نصابی سرگرمیاں جیسے آرٹ ، میوزک تھراپیزکے بارے میں جتنی ہیلپ فل ویڈیوز ہم ایک جگہ اکٹھی کر سکیں ، کر لیں ہر چیز اردو ٹرانسلیشن کے ساتھ موجود ہو تاکہ ہر ماں چاہے وہ تعلیمی میدان میں کہیں بھی اسٹینڈ کرتی ہو، والدین کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو اُن کی مددہو سکے ۔ ایان مجھے خوب گائیڈ کر رہے ہیں ۔ دراصل انہوں نے ہی اسپیشل نیڈز کے لئے میرے اِس پیشن (passion)کو سب سے پہلے پہچانا تھا پھر میری ٹیم آف (volunteers)بھی بہت ٹرینڈ and educated” “dedicatedایجوکیٹڈ اور ڈیڈیکیٹڈہے۔ ہم سب اِسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جلد از جلد ” محسن” کا کام مکمل ہو اورہم اِسے آفیشلی لانچ (officially launch)کر سکیں بلکہ میری خواہش تو یہ ہو گی کہ پاکستان میں چونکہ امی بچوں کے سلسلے میں ہر ممکن طریقے سے میری ہیلپ کروا دیتی ہیں ۔ اِس لئے ” محسن” کو ایکسٹرا ایفرٹ (Extra effort) کر کے یہیں مکمل کر لوں ہماری ریاضت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے بس آپ سب لوگوں کی دعائوں کی اشد ضرورت ہے”۔
حلیمہ اورر سعدیہ عائلہ کے ساتھ جس جہان نو کے سفر کو نکلی تھیں مغرب کی پہلی اذان کی گونج اُنہیں اُس جہان سے واپس کھینچ لائی۔ حلیمہ نے بڑی محبت سے اپنی بے تحاشہ باتیں کرنے والی انوکھی قدرے کھسکی ہوئی مگر ہر ایک کا بھلا سوچنے والی بیٹی کو دیکھا۔ اذان کے الفاظ با آواز بلند دھراتے ہوئے اُس کا سر اور ماتھا چوما پھر دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر اُس کی نیت و محنت میں برکت اور کامیابی کے لیے دعا مانگنے لگیں۔ اِن کی ہر دعا کے اختتام پر سعدیہ پھوپھو نے صدق دل سے آمین پڑھی۔
رقیبہ غالباً چکور کا پنجرہ اندر سیڑھیوں کے نیچے موجود اسٹور میں رکھ چکی تھی وہ خوب ہی آوازئیں نکال رہا تھا۔ وہ محمد اور سلیمان کو گھیر گھار لان سے واپس لیکر آئی تو عائلہ بچوں کو دیکھنے پوچھنے آ گے بڑھ گئیں سعدیہ اور حلیمہ بھی ایک ہی جائے نماز پر مغرب کی نماز پڑھنے کھڑی ہوگئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعدیہ پھوپھو اُس روز کافی بھرے دل سے گھر واپس آئیں ۔شرمندگی سی شرمندگی تھی کہ کیسے دوسروں کی باتوں میں آکر اپنی ہی بچی پر شک کر بیٹھی جس کی پوری زندگی ایک جہاد ہے ۔عشاء کی نماز کے بعد کتنی ہی دیر جائے نماز پربیٹھی عائلہ کے لیے آسانی اور خیر مانگتی رہیں ۔ساتھ میں یہ نیت بھی کی کہ محمد اور سلیمان کی مکمل اور جلد صحت یابی کے لئے باقاعدگی سے دو رکعت نماز حاجات پڑھا کریں گی۔
عائلہ اِ ن کے خاندان کی پہلی بھتیجی تھی مگر اُن کے لیے تو وہ بیٹیوں سے بھی بڑھ کر تھی۔ اکثر حلیمہ سے کہتیں کہ عائلہ ہے تو میری بیٹی مگر رہ تم لوگوں کے پاس رہی ہے۔ مظہر صاحب عورتوں کو حقارت کے چشمے سے دیکھا کرتے تھے کچھ یہ درد بھی اِن دونوں کو قریب لے آیا تھا۔
اُس کے امریکہ جانے کے بعد کافی عرصے تک تو دونوں آڈیو اور ویڈیو کالز کے ذریعے کنیکٹیڈ(connected)رہیں پھر یہ سلسلہ ٹیکسٹ اور فیس بک پر ایک دوسرے کی پوسٹ چیک کرنے تک محدود ہو گیا۔ بیاہی بیٹی پھر دو بچوں کی ماں سے بھلا وہ کیا شکوہ کرتیں اِسی پر اکتفا کیا کہ بھابھی سے تفصیلی خیریت معلوم ہو جاتی ہے۔
خود اِن کے دو ہی بیٹے تھے بڑا شرجیل علی جس نے (structural engineering) اسٹرکچرل انجینئرنگ پڑھی پھر اُسے دبئی میں اچھی توجاب ملی تو وہ بیوی اور بچوں کو لیکر وہیں بس گیا۔ چھوٹا مومن علی اے سی سی اے (ACCA) کرنے جو کراچی گیا تو پھر اپنی بیوی ڈاکٹر پلوشہ کے ساتھ وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اِن کی شادی کو تین چار سال ہو چکے ہیں مگر اولاد کوئی نہیں ۔ پلوشہ پہلے اپنی ریذیڈینسی (Residency) مکمل کرنا
4 Comments
Such a nice concept
Lovely story
Hi Dear , very informative and well written story. Is it possible to contact to writer to get information about “Mohsin” kind of program if its its really excites. Thank you.
بہت عمدو اندازِ بیان ہے 👍