سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

باہر محلے میں شور کی آواز آنے لگی، تو امی بھی بڑ بڑانے لگیں۔
’’ شروع ہو جاتی ہیں صبح صبح ۔‘‘ امی کھانا لگاتے ہوئے غصے سے بول رہی تھیں،باہر گلی میں بھی خواتین کی اونچی اونچی آوازیں آ رہی تھیں ۔
’’ کیا ہوا امی؟ یہ کیسا شور ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ایسے ہی یہ محلے کی عورتیں۔کہتی ہیں ہمارے دروازے کے سامنے کوڑا کیوں پھینکا یہ وہ…‘‘امی نے بتایا۔ وہ جب کالج کے لیے تیار ہونے لگی۔ تو بجلی چلی گئی تھی۔ روشنی کے لیے اس نے کھڑکیاں کھولیں، تب اس نے امی کو گلی کے نکڑپر کوڑا چند گھروں کے سامنے پھینکتے دیکھا تھا۔ باہر آ کر بات چھیڑنے سے پہلے وہ خود امی سے اُلجھ گئی تھی۔
’’ تو امی انہوں نے غلط بھی تو نہیں کہا۔‘‘ اس کے جواب نے امی کو مزید آگ بگولا کر دیا۔
’’ لے ۔اب تو بھی شروع ہو جا۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ کیاہوا امی؟‘‘ وسیم ناشتے کی میز پر پہنچ چکا تھا۔
’’ باہر گلی میں کوڑا کیا رکھ دیا کہ کوڑے والا اٹھا لے جائے گا۔ سب میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ‘‘ امی سر تھام کر بیٹھ گئیں۔
’’ اپنے دروازے کے سامنے بھی تو رکھا جا سکتا ہے ناں امی۔‘‘وہ قدرے دھیمے لہجے میں بات کر رہی تھی۔
’’ میرا دماغ نہ خراب کر۔شروع ہی ہو جاتی ہے۔‘‘
’’ امی میں تو صرف اتنا کہہ رہی ہوں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ رہیں۔‘‘
’’ چھوڑیں امی اسے تو عادت ہے تقریریں کرنے کی…مجھے ناشتا دیں۔‘‘ وسیم نے چڑ کر کہا۔وہ غصے سے پاؤں پٹختے ہوئے چل دی۔
٭…٭…٭





وہ کالج میں درخت کی چھاؤں میں بنچ پر اپنی دوست فرحت کے ساتھ بیٹھی تھی ۔
’’کیسا گزر رہا پہلا روزہ؟‘‘ فرحت نے مسکرا کر پوچھا۔
’’الحمد للہ…مجھے تو شدت سے انتظار تھا رمضان کا…مجھے روزے میں دلی تسکین حاصل ہوتی ہے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں یار الحمد للہ…یہ تو فیق بھی اللہ کسی کسی کو دیتا ہے کہ وہ عبادت سے تسکین حاصل کر ے اور پھر اس عبادت کے لیے تڑپ اٹھے۔‘‘ فرحت نے کہا۔
’’ یار ! ایک مسئلہہے میرے ساتھ…مجھے کسی کو غلط کام کرتے دیکھ کر غصہ آ جاتا ہے۔ میں الجھ جاتی ہوں،کتنی کوشش بھی کرتی ہوں ایسا نہ ہو، مگر پھر بھی ناکام ہو جاتی ہوں ۔جانے تبلیغ والے کس طرح آرام اور تحمل کے ساتھ درس دے لیتے ہیں ۔‘‘ اس نے افسردگی سے کہا۔
’’ تبلیغ بڑا نازک کام ہے، میری جان یہاں خو دکو ساتھ ملا کر سمجھانا پڑتا ہے۔ آپ کسی کوسمجھانا چاہتے ہیں تو یوں بات کرو کہ وہ گناہ آپ میں بھی پایا جاتا ہے۔۔۔۔تمہیں ایسے نہیں کرنا چاہیے کے بجائے ہمیں ایسے نہیں کرنا چاہیے سے کام لینا ہو گا۔‘‘ فرحت نے اسے ایک نیا راستہ دکھا دیا تھا۔
٭…٭…٭
افطاری کے وقت وہ میز تیار کرچکی تھی۔وسیم آکر کرسی پر بیٹھ کر سب کچھ باری باری چکھنے لگا۔
’’ کیساہے تمہارا روزہ؟ اتنی شدت کی گرمی میں۔‘‘ وسیم نے طنزیہ مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’الحمدللہ…اللہ پاک کا کرم ہے اچھا دن گزرا۔‘‘ وہ وسیم کے سامنے والی کرسی پر جا بیٹھی۔
’’ میں آج سارا دن پیاسا مرتا رہا جتنا پانی پیتا اتنا ہی کم لگتا اور تم کہتی ہو اچھا گزرا۔‘‘ وسیم نے حیرت سے کہا۔
’’ روزہ اللہ کے لیے ہے اس لیے صبر بھی وہی دیتا ہے۔‘‘
’’ اتنی ساری چیزیں دیکھ کر تمہارا جی نہیں کرتا کہ کھا لوں ۔‘‘
’’اللہ نہ کرے میں ایسی نفس کی غلام بن جاؤں…اور تھوڑے گناہ کرتی ہوں جو یہ بھی سر لے لوں…؟‘‘ وہ مسکرا کر بولی۔
’’ نفس کی غلامی؟ وہ کیا بھلا ہے؟‘‘ اس نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔
’’انسان کے اندر بھی شیطان ہے۔ اسے نفس کہتے ہیں جس کی بات مان کر ہم اللہ کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اچھا ایسا بھی ہوتا ہے۔‘‘ وہ سنجیدہ ہوا۔
’’ جی… کتنا وقت رہتا ہے تمہاراروزہ کھلنے میں؟‘‘ وسیم نے پوچھا۔
’’معلوم نہیں میں نے گھڑی نہیں دیکھی۔جب اللہ پاک کہہ دیں گے کھول لوں گی۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ دن کو ڈاکیا آیا تھا یہ تمہاری کوئی کتابیں آئی ہیں شاید کسی فرح نے بھیجی ہیں ۔۔‘‘ امی کتابوں کا لفافہ اٹھائے اس کے پاس آئیں۔
’’ جی امی۔فرح میری دوست ہے۔ لاہور میں ہوتی ہے کبھی کبھی آتی رہتی ہے۔ اب کے بار جب آئی تھی میں نے اسے پیسے دیے تھے۔‘‘ وہ خوشی سے لفافہ کھولتے ہوئے بول رہی تھی
’’ میری سب کتابیں آ گئی۔او شکر یہ اللہ جی۔‘‘ اس نے اوپر چھت کی جانب دیکھا ’’ آئی لو یو اللہ جی۔‘‘ ہونٹوں پر دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں رکھ کر محبت کا اظہار کیا ۔وسیم مسکرا دیا۔
’’ سارہ۔یہ کیا بے ہودگی ہے۔؟‘‘ امی نے جھڑکا۔
’’ کچھ نہیں امی اللہ کا شکر ادا کر رہی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ شکر ادا کرنے کے لیے نفل پڑھو،دیگ بانٹو یہ کون سا شکر ادا کرنے کا طریقہ ہے۔‘‘ امی کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی تھیں۔
’’ جی امی وہ بھی کروں گی، مگر مجھے ایسے بھی اس سے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’ ہر گز نہیں…میں آیندہ تمہیں ایسے کبھی نہ کہتے ہوئے دیکھوں۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ امی! پلیز مجھے سے اس بات کرنے سے نہ روکیے۔ آگے جانے اللہ کو میری عبادت پسند آتی ہے یا نہیں …بس اس سے بات کرتی ہوں وہ بھی آپ منع کر رہی ہیں۔‘‘
’’یہ کیا ضروری ہے۔ ‘‘
’’ جی امی میرے لیے ضروری ہے۔ میں اس سے بات نہ کروں مجھے چین نہیں ملتا ،ویسے بھی فرحت نے مجھے بتایاکہتی ہے اس کی عالمہ باجی کے بقول اصل توحید یہی ہے کہ آپ اللہ سے ہر دکھ سکھ شیئر کر لیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ کیا کسی عالمہ نے یہ کہا؟‘‘ امی حیران ہوئیں۔
’’ جی امی۔بہت بڑی عالمہ ہیں ، سوچ رہی ہوں بی ایس کے بعد میں بھی تجوید اور تفسیر کا کورس کر لوں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ کیوں؟ سب کچھ تو تجھے پتا ہے۔‘‘ امی نے اس کی جانب حیرانی سے دیکھا۔
’’امی مجھے کیا پتا ہے ، روزہ رکھتی ہوں، مگر روزہ کیسے رکھا جاتا اس کے بارے میں مجھے خبر ہی نہ تھی۔ یہ تو آج مجھے میری دوست فرحت نے بتایا کہ ہم جب روزہ رکھتے ہیں، تو ہمارے ہر عضو کا روزہ ہوتا ہے۔ صرف بھوک پیاس کا نہیں۔ ہمارے ہاتھ، پیر ،کان ،ناک، آنکھ سب کا روزہ ہوتا ہے ۔اپنے جسم کے کسی عضو کو بھی غلط استعمال کریں گے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔میرا روزہ نہ جانے قبول ہوا یا نہیں۔‘‘ اس کی آنکھیں برس پڑی تھیں۔
’’ کیا ایسا ہوتا ہے؟ اس طرح تو میں دوسروں کو بہت تکلیف دے دیتی ہوں۔ دوسروں کا دل دکھاتی ہوں،وہ دیکھو نا کوڑے ہی کی وجہ سے کیا کیا ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو میرا روزہ نہیں ہوا محض بھوک پیاس ہی کاٹی۔‘‘ امی بھی افسردگی سے سر تھام کر بیٹھ گئیں۔
’’ ابھی ایک ہی روزہ گزرا ہے امی آیندہ احتیاط کر لیں ‘‘ وسیم نے کہا
’’تم بھی رکھ لیا کرو روزے کیا جائے گا سارا دن بھوک پیاس مٹاتے پھرتے ہو۔ سارہ سے پوچھو ہمارا کس قدر اچھا دن گزرا۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ ٹھیک ہے امی میں رکھوں گا…لیکن میں بھوک پیاس کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے رکھوں گا کیونکہ میرے پاس وہ خوشی نہیں جو اس وقت آپ دونوں کے پاس ہے۔ایک عجب سی خوشی میں نے آج سب روزیداروں کے چہرے پر دیکھی اور جو روزہ خور تھے ان کے چہرے میری طرح پھیکے اور بے رنگ…‘‘ وسیم کے لہجے میں ندامت تھی۔وسیم کے منہ سے یہ کلمات سن کر سارہ کی کیفیت عجب ہورہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تعلیم کے گہنے ہم نے پہنے — عائشہ تنویر

Read Next

اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!