سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

اس نے آنکھیں بند کرلیں، احسن نے اس کے کومل سے ہاتھوں کو پکڑ کر رنگ اس کے ہاتھ میں پہنا دی۔
’’اب کھولو۔‘‘ہاتھوں کو قدرے دبا کر چھوڑ دیا۔
اس نے ہولے سے آنکھیں کھولیں اور بے ساختہ چیخ ماری ۔
’’اوہ مائی گاڈ احسن! یہ… یہ … یہ…‘‘ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی کہ وہ کچھ کہہ پاتی۔
’’مگر یہ تو بہت مہنگی تھی کیسے لی تم نے؟‘‘ اس نے آنکھیں پٹپٹائیں۔
’’دنیا میں کوئی چیز میری جان کی خواہش سے قیمتی نہیں، بے شک میرے پاس بینک میں اتنے ہی پیسے پڑے تھے۔ ایک لمحے کے لییمیں نے سوچا کہ مشکل ہو جائے گی مگر پھر میں تمہیں گاڑی میں بٹھا کر دوبارہ اُس دکان پر گیا اور لے آیا۔‘‘
وہ ساکت تھی اس کی محبت پر… اسے کتابوں میں پڑھی باتیں سچ لگنے لگیں کہ سچی محبت سے قیمتی کوئی چیز اس دنیا میں ہے اور نا ہوگی۔
کتنی انمول ہے اس شخص کی محبت… اس کا دل بھر آیا، جب دل بھرا تو آنکھیں بلاشبہ پانی سے بھر گئیں…
’’اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے…‘‘ وہ گناہ گار تھی اس کی سچائیوں پر یقین نہ کرکے۔
’’تمہیں آج تک یقین نہ آیا میری محبت کا… جب کہ تمہارے لیے جان جیسی چیز کی بھی پروا نہ کی۔‘‘اس کے انداز میں شکوہ تھا۔
’’تم ابھی یہی سوچ رہی تھیں نا کہ کیسے فضول مرد سے شادی کی ہے کہ ایک انگوٹھی بھی نہیں دلا سکتا۔‘‘
وہ تھوڑا شرمندہ ہوئی، نفی میں سر ہلاتے ہوئے ایک دم اثبات میں سر ہلا کر رونے لگیاور اس کے شانوں پر سر دھر دیا…
’’اصل میں یقین نہیں آتا نا کہ کوئی اتنی محبت بھی کرسکتا ہے لیکن ایک وعدہ کرو بوڑھی ہو جائوں گی تب بھی اتنا ہی پیار کرو گے۔‘‘اس نے آنکھیں کھول کربہت مان سے کہا۔
’’سنو! سچی محبت کرنے والوں سے کبھی ایسی باتیں نہیں کرتے۔ کبھی ان کا امتحان نہیں لیتے۔ میں ہمیشہ تم سے ایسی ہی محبت کروں گا۔ بس آخری بار کہہ رہا ہوں اب تم بھی مان لو…‘‘ اس نے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے شانے گرد لپیٹا اور آنکھیں بند کرلیں۔
بہت جلد ربیعہ کو احساس ہوا کہ اس کے وجود میں ایک اور وجود سانس لے رہا ہے۔ وہ خوشی سے بے حال تھی۔ لیکن احسن کو اس خبر سے زیادہ خوشی نہ ہوئی۔
’’کتنی عجیب سی بات ہے احسن ہم دو سے تین ہونے جارہے ہیں اور تم خوش نہیں ہو۔‘‘وہ بہت حیران تھی۔
’’میں نہیں چاہتا کہ کوئی تمہارا وقت تقسیم کردے۔‘‘اس نے منہ بنایا۔
’’کیا مطلب؟ وہ کوئی نہیں ہم دونوں کے وجود کا حصہ ہے، ہمیں مکمل کرنے والا، وہ ہمیں تقسیم نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ بلبلائی۔
’’تم وعدہ کرو میرا ٹائم مجھے ہی دو گی۔اس کے لیے مجھے نظرانداز نہیں کرو گی‘‘وہ نہ جانے کیسے خدشات کا شکار تھا۔ اپنی اولاد سے تو کوئی خدشہ نہیں رکھتا یہ کیسا باپ تھا؟





’’میرا وعدہ لیکن کبھی کبھی اس کو زیادہ ٹائم دے دوں تو ناراض نہ ہونا۔‘‘ ربیعہ نے ٹھنڈی سی سانس بھر کر جواب دیا۔
’’میں تو ہوں گا ناراض میں بالکل برداشت نہیں کرسکتا کہ تم مجھے نظرانداز کرو۔‘‘ اس نے منہ پُھلا لیا۔
’’وہ کوئی نہیں ہے ہمارا خون ہے ہمارا اپنا بچہ، مجھے تمہاری کیفیت کچھ سمجھ نہیں آرہی۔‘‘وہ بہت پریشان ہوگئی۔
’’تم سمجھو گی بھی نہیں، تم مجھ سے وعدہ کرو مجھے تمہاری بہت ضرورت ہے میں بالکل برداشت نہیں کرسکتا تمہاری توجہ مجھ سے ہٹ کر کسی اور کی جانب ہو جائے۔‘‘
’’اچھا بابا ابھی اس کو آنے تو دو ایسی باتیں اس وقت کے لیے سنبھال کر رکھو لیکن یہ یاد رکھو جو تم ہو وہ کوئی نہیں۔‘‘اس نے پوری محبت اور مان سے کہا۔
’’واقعی!‘‘ اس کی آنکھوں میں ستارے چمکے۔
’’ہاں! realy تمہیں یقین کیوں نہیں آتا۔‘‘
’’بس میں جس سے محبت کرتا ہوں وہ چیز مجھ سے چھن جاتی ہے میں بدقسمت ہوں اس معاملے میں۔‘‘اس کے انداز میں بہت اُداسی تھی۔
’’میں چیز نہیں ہوں احسن، جیتی جاگتی انسان ہوں، دوسرے تمہاری محبت اور تیسرے تمہاری بیوی اب یہ تینوں باتیں ایک جگہ جمع ہوں تو یقین تو کرنا پڑے گا تمہیں اپنی خوش قسمتی پر…‘‘ اس نے شرارت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔
’’ہاں یہ تو ہے اللہ نے تمہارے معاملے میں مجھے بہت خوش نصیب بنایا ہے، تمہاری محبت میرا نصیب بن گئی لیکن ربیعہ میں آج تک یقین نہ کرپایا کہ تم میری ہوچکی ہو، یہ سب آج بھی خواب لگتا ہے، ایک عجیب سا خواب۔‘‘اس کے انداز میں کسی چیز کے کھو جانے کا خوف بھی تھا۔
’’جناب اب آپ آنکھیں کھولیں اور دیکھیں آپ کا خواب پورا ہوچکا ہے، آپ کی محبت آپ کے پاس ہے، ویسے مجھے آج تک یقین نہ آیا احسن کے تم نے میری خاطر نیند کی گولیاں کھالیں۔‘‘ وہ شرارت سے بولی۔
’’ہاں تو اور کیا، بچپن سیتمہارے علاوہ کبھی کسی کا خواب ہی نہیں دیکھا تھا ، اب جب وہ خواب آنکھوں میں مرنے لگا تو میں نے سوچا کہ بنا خواب کے بھی کوئی زندگی ہے بس ختم کردو ایسی زندگی۔‘‘
’’لیکن احسن یہ تو سخت گناہ تھا اللہ کی دی ہوئی نعمت کی ایسی ناشکری۔‘‘وہ تاسف بھرے لہجے میں بولی۔
’’ہاں میں نے بھی بہت بار یہ سوچا لیکن جب تم سامنے آکر کھڑی ہوتیں تو مجھے لگتا کہ تمہارے بغیر تو زندگی کچھ نہیں تو پھر ایک جیتے جاگتے وجود کو کب تک گھسیٹوں گا۔‘‘
’’کہیں تم مجھے ایمویشنل بلیک میل کرنے کے لیے تو ایسا نہیں کررہے تھے جوکہ میں واقعی ہوگئی۔‘‘ وہ اب بھی شرارت کے موڈ میں ہے۔
’’یعنی میری اتنی بڑی قربانی نے تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں بنائی۔ اگر میں واقعی دوسری دنیا سدھار جاتا تو تم کیا کرتیں؟‘‘اس کے لہجے میں قدرے خفگی تھی۔
’’ارے تم تو جذباتی ہوگئے یار، اسی دن تو احساس ہوا کہ شادی کے لیے بہت مل جائیں گے اتنا سچا انسان ملنا مشکل ہے، جو میرے لیے اپنی زندگی کی بھی پروا نہ کی بس قدر ہوگئی تھی تمہاری۔‘‘
’’تم ہزار بار یہ بات کہہ چکی ہو اور میں ہزار بار سُن چکا ہوں لیکن اب تک دل کیوں نہ بھرا کیوں بار بار تمہارے منہ سے یہ بات سُن کر اچھا لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں ہر بار جی اُٹھتا ہوں۔‘‘
’’تم بہت جذباتی ہو احسن! میں نے کبھی کسی مرد کو کسی عورت کے لیے اتنا جذباتی نہیں دیکھا۔
’’ان مردوں نے عشق نہیں کیا ہوگا، میں نے تم سے عشق کیا ہے جانِ من اور عشق محبوب سے ہمیشہ اپنے ہونے کا احساس مانگتا ہے، اسے تائید ِتازہ کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے۔ اپنی روح کو زندہ رکھنے کے لیے…‘‘اس کے لہجے میں جذبے لو دینے لگے تو ربیعہ نے بات بدل دی۔
’’چلو چھوڑو یہ سارا فلسفہ مجھے اس وقت بہت شدید cravingہورہی ہے۔ آئس کریم کھا کر آتے ہیں۔‘‘
’’اس وقت۔‘‘ احسن نے ہاتھ کی گھڑی پر نظر ڈالی۔
’’بس بس دیکھ لی تمہاری محبت، چاند تارے توڑنے کی باتیں کرنے والوں کو جب پتھر اٹھانے پڑتے ہیں تو ان کے کندھے معذور ہو جاتے ہیں۔‘‘وہ غصے سے بلبلائی۔
’’ارے واہ! میں نے صرف پوچھا ہے منع تو نہیں کیا، اٹھو بس ابھی چلتے ہیں۔‘‘ احسن نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی گاڑی کی keysاٹھائیں اور تیار ہوگیا۔ تو وہ بھی مُسکراتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
ڈیلیوری میں دو تین ماہ باقی تھے، طبیعت بہت گرِی گرِی سی تھی، آج اماں رضیہ بھی ابھی تک نہیں آئیں۔ طبیعت پر کافی بوجھ سا تھا، دل چاہ رہا تھا کہ کوئی اس کے لیے ناشتہ بنا دے… وہ ابھی دعا کرہی رہی تھی کہ اماں رضیہ اندر چلی آئیں، ساتھ میں ایک دبلی پتلی، کالی سی کم زور لڑکی بھی شرماتی جھجھکتی چلی آئی۔
’’ارے اماں آج بڑی دیر کردی، میں بس اُٹھنے ہی لگی تھی ناشتہ بنانے کے لیے۔‘‘وہ بستر سے اُٹھ بیٹھی۔
’’بس باجی قسمت خراب ہے، ہفتے سے یہ بھی گھر آکر بیٹھی ہے۔‘‘ اماں رضیہ پاس ہی کا رپٹ پر پائوں پسار کر بیٹھ گئیں۔
’’کیا مطلب کون ہے یہ؟‘‘ اس نے حیرانی سے لڑکی کو دیکھا۔
میری بیٹی ہے صفیہ اس کے میاں نے مار پیٹ گھر سے نکال دیا۔‘‘دوپٹے سے آنکھوں میں آئی نمی پونچھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟ اس نے کیا کیا ہے؟‘‘ ربیعہ متعجب سی تھی کیوں کہ لڑکی شکل سے ہی بے چاری نظر آرہی تھی۔
’’بس وہ کہتا ہے کہ تو صحیح عورت نہیں، بہتشک کرتا ہے ۔‘‘ اماں منہ بنا کر بولی۔
’’ارے یہ کیا بات ہوئی کیسا آدمی ہے تیرا داماد؟‘‘ وہ بہت حیران ہوئی۔
’’میری سہیلی کا بیٹا تھا اور دیکھیں نا باجی، اس کی پسند سے شادی ہوئی، میرا میاں تو بالکل نہیں مانتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس جگہ شادی مت کر لیکن اس کی ماں نے گھر کے پھیرے ہی ڈال لیے تھے کہ میرا بیٹا تو تیری بیٹی سے ہی شادی کرے گا۔ بہت محبت کرتا ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوا؟ اب وہ محبت کیا ہوئی کہ مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔‘‘ربیعہ کو دکھ ہورہا تھا۔
’’میں تو ابھی تک خود حیران ہوں باجی کہ اتنی محبت کرنے والا بندہ دوسرے دن ہی اپنی بیوی کو کیسے مار پیٹ سکتا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ چلائی اُسے واقعی دُکھ ہوا تھا۔
’’ہاں باجی دوسرے دن ہی اس نے صفیہکو بہت مارا کہ تو مجھ سے پوچھے بغیر اپنی ماں کے گھر کیوں رُکی۔ دیکھو باجی بیٹی دی ہے بیچی تو نہیں۔ صفیہ کے باپ نے بہت لاڈ اٹھائے ہیںبیٹی کے۔ اس نے کہا کہ آج تو یہیں رُک جا یہ رُک گئی، دوسرے دن جب واپس گئی تو خوب مارا اس کے میاں نے۔‘‘
’’اور تم نے برداشت کرلیا، اس کا یہ وحشی پن؟‘‘وہ چلائی۔
’’کیا کرتے باجی! بیٹی کو گھر تو نہیں بٹھا سکتے تھے۔‘‘ اماں رضیہ نے بہت مایوسی سے کہا۔
’’ہاتھ پیر جوڑ کر لے گیا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ کُھل کر سامنے آنے لگا۔ ذرا ذرا سی بات پر شک کرتا ہے۔ اب سُنا ہے اس کا چکر کسی اورعورت کے ساتھ ہے۔ صفیہ کو پتا چلا تو اس نے اس بارے میں پوچھا۔ اس بات پر مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔ اتنا معصوم سا نظر آنے والا ایسا نکلے گا اس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ مرد ذات ہے ہی ایسی۔‘‘ اب وہ زار و زار رو رہی تھیں۔
’’ارے نہیں اماں رضیہ سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔‘‘ اس کو واقعی اماں کا سارے مردوں پر الزام دھرنا اچھا نہ لگا۔
’’باجی آپ بہت بھولی ہو، سارے مردایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ میری اماں کہتی تھیں کہ مرد سرہانے کا سانپ ہوتا ہے، موقع ملنے پر ڈستا ضرور ہے۔‘‘ان کے انداز میں بہت نفرت تھی۔
’’سارے مرد بُرے نہیں ہوتے تمہارے خاندانوں میں ایسا ہوتا ہوگا ہمارے پڑھے لکھے مرد ایسا نہیں کرتے۔‘‘ربیعہ نے سر جھٹک کر بات کی نفی کی۔
’’باجی مرد صرف مرد ہوتا ہے، پڑھا لکھا یا جاہل نہیں جسے موقع ملتا ہے چھوڑتا نہیں ہے۔‘‘ ایک جاہل عورت کے منہ سے ایسی پڑھی لکھی سی بات سُن کر وہ حیران سی رہ گئی لیکن پھر سر جھٹک دیا۔
’’چلو خیر چھوڑو میں احسن سے بات کرتی ہوں وہ سمجھاتا ہے اس کے میاں کو شاید اللہ کرم کرے۔‘‘ اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
’’نہیں باجی وہ کُتے کی دم ہے کبھی نہیں سمجھے گا، ہم تو رو پیٹ لیے ہیں روز کے اس تماشے سے آپ رہنے ہی دو، بٹھا لیا ہے اس کے باپ نے اب وہ نہیں جانے دے گا۔‘‘ وہ بالکل قطعیت سے بولی۔




Loading

Read Previous

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!