سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

’’چلو خیر جیسے تمہاری مرضی مجھے ناشتہ تو بنا دو، میرا بی پی لو ہورہا ہے۔‘‘اس نے بے زاری سے بات ختم کرنے کے لیے کہا۔
’’او معاف کرنا باجی بس ابھی لائی، آپ دکھ سُن لیتی ہیں اور ہم کہہ دیتے ہیں، ذرا دل ہلکا ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دونوں ماں بیٹی کچن میں چلی گئیں۔
اس دن کے بعد وہ دونوں ساتھ ہی کام کے لیے آنے لگیں۔ اکثر اماں رضیہ کی بیٹی صفیہ سارے کاموں سے فارغ ہوکر اس کے پاس آکر بیٹھ جاتی اور پائوں دبانے لگتی، اُسے اس معصوم سی لڑکی سے بہت ہم دردی محسوس ہوتی وہ اکثر اپنے پرانے کپڑے اور چپلیں اسے دے دیتی اور وہ خوشی خوشی لے لیتی اور دوسرے دن پہن کر بھی آجاتی۔ اچھا کھانے پینے کی وجہ سے اس کی صحت بھی روز بہ روز بہتر ہوتی جارہی تھی۔
آج بھی وہ بیٹھی اس کے پائوں دبا رہی تھی کہ احسن چلا آیا اور اس کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رُک گیا۔ وہ احسن کو دیکھ کر سلام کرتی کمرے سے نکل گئی۔
’’کون تھی یہ؟‘‘ اس نے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔
’’اماں رضیہ کی بیٹی۔‘‘ اس نے بھی سرسری انداز میں جوا بدیا۔
’’اماں رضیہ کی بیٹی اور اتنی بد صورت۔‘‘ لہجے میں کراہیت سی تھی۔
’’برُی بات احسن سب کی شکل اللہ کی بنائی ہوئی ہے کسی کو ایسے نہیں کہتے۔‘‘ اُس کو شدید برُا لگا۔
’’یار مجھے اپنے ارد گرد بد صورت لوگ بالکل برداشت نہیں ہوتے۔‘‘ اس کی بات سن کر وہ ٹکٹکی باندھ کر اس کی شکل کو دیکھتی رہی اور اس شخص کی ذہنیت پر حیران ہوئی جی میں آیا کہ کہہ دوں کہ تم نے کبھی اپنی شکل آئینے میں دیکھی ہے لیکن مجازی خدا تھا ایسی بات پر اگر کوئی حد نافذ کردیتا تو کیا ہوتا۔
اپنی کم شکلی کے باوجود وہ بہت خود پسند تھا۔ اس کا اندازہ شادی سے پہلے ربیعہ کو سالوں نہ ہوا، لیکن شادی کے بعد چند مہینوں میں ہی ہوگیا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اسے ربیعہ جیسی خوب صورت، ذہین، سمجھ دار اور پڑھی لکھی لڑکی ملی۔ لیکن ربیعہ کو حیرت تھی جس غرور سے وہ کسی کو حقیر سمجھ رہا تھا وہ غرور اس کی متاع بھی کب تھا؟ وہ کب اتنا حسین تھا کہ دوسروں کی کم صورتی پرتضحیک آمیز گفت گو کرسکے۔ وہ کافی دیر تک دکھی کیفیت میں رہی لیکن پھر اس نے ذہن پر زیادہ زور ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔
آہستہ آہستہ صفیہ اس کے کافی قریب ہوگئی لیکن احسن اُس سے چڑنے لگا۔ یہ بات ربیعہ بھی محسوس کرتی اور اس کی کوشش ہوتی کہ احسن کے گھر آنے سے پہلے ہی وہ لڑکی کو واپس بھیج دے لیکن آخری مہینے میں تو اس سے چلنا پھرنا تقریباً دوبھر ہوگیا تھا۔ ایسے وقت میں ربیعہ کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے اس کا سہارا بہت تھا۔ اماں اسے آرام سے چھوڑ بھی جاتیں۔ وہ ربیعہ کے پاس رہتی اور اس کے چھوٹے موٹے کام کرتی رہتی، اکثر احسن کے گھر آنے کے بعد ہی واپس جاتی۔
آخری مہینے میں امی اُسے آکر لے گئیں۔ احسن نے تو بہت کوشش کی خالہ جی کو واپس بلانے کی۔ وہ چاہتا تھا کہ ان دنوں وہ پاس آکر رہ جائیں لیکن اس وقت ان کے جوڑوں کا آپریشن ہوا تھا اور ان سے ہلنا جلنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی معذرت کرلی۔ تو بادلِ نہ خواستہ احسن نے بہت بُرے دل کے ساتھ اُسے میکے جانے کی اجازت دی۔ لیکن پھر رات گھنٹوں فون پر وہ اس کو اپنی بے تابیوں کے قصے سناتا۔
’’یار بہت مشکل سے وقت کٹ رہا ہے۔‘‘ اس کا انداز بہت دکھی ہوتا تو وہ ہنس پڑتی اس کی شدید محبت پر۔
’’چند دن اپنی اولاد کے لیے انتظار نہیں کرسکتے۔‘‘ وہ ہونٹ دبا کر مُسکرائی۔
’’کر تو رہا ہوں اور کتنا کروں تم بھی بہت ظالم ہو۔‘‘وہ بہت تپا ہوا تھا۔
’’اچھا وہ کیسے؟‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنستی۔





’’یہ جو میرے حال پر ہنس رہی ہو نا، کاش کہ تم میری جگہ ہوتیں تو پوچھتا۔‘‘ وہ اس کے ہنسنے پر بُری طرح تپ گیا۔
’’اچھا چھوڑو! یہ بتاؤ اماں رضیہ آرہی ہیں کام کے لیے؟ کوئی مشکل تو نہیں۔‘‘ربیعہ نے اس کا غصہ کم کرنے کے لیے بات بدلی۔
’’جی آپ کی اماں بھی آرہی ہیں اور ان کی لاڈلی بھی۔‘‘وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
’’ویسے بہت میسنی ہے۔ چُپ چُپ سارا کام کرتی ہے مجال ہے جو کچھ پوچھو تو جواب دے دے۔‘‘ بہت خائف سا انداز تھا اس کا۔
’’کل میری بلو شرٹ نہیں مل رہی تھی، میں نے اس سے کہا تو پہلے تو کوئی جواب نہ دیا پھر نہ جانے کس کونے سے شرٹ نکال کر ہاتھ میں پکڑا دی۔‘‘
’’شرٹ استری کی ہوتی تھی نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں وہ تو تھی لیکن بندہ کوئی جواب تو دیتا ہے میسنیوں کی طرح شرٹ لاکر ہاتھ میں پکڑا دی۔‘‘
’’چلو چھوڑو، تم کو تو وہ ویسے ہی پسند نہیں۔‘‘ اس نے بات ٹالنے کے لیے کہا۔
’’بندے کی شکل اچھی نہ ہو بندہ بات ہی اچھی کرلے۔‘‘ وہ مسلسل اُسے موضوعِ گفت گو بنائے ہوئے تھا۔
’’اچھا بس رہنے دو کوئی اور بات کرو۔‘‘ اسے نہ جانے کیوں اس لڑکی کا زیادہ موضوع گفت گو بننا اچھا نہیں لگ رہا تھا اس لیے بات ختم کردی۔
پھر ایک شام ربیعہ نے بالکل اپنے جیسی ایک خوب صورت سی بچی کو جنم دیا۔
احسن بہت خوش تھااور اسے گود میں اٹھائے کھڑا تھا۔ کبھی اس کے گال اور کبھی ماتھے پر پیار کررہا تھا۔
’’ارے واہ! آج تو اپنے فریق پر بڑا پیار آرہا ہے۔‘‘ربیعہ نے اُسے چڑایا۔
’’یہ فریق نہیں ہماری رفیق ہے یار! دیکھو اس نے سارے نقش تمہارے چرائے ہیں اسی لیے اور زیادہ پیار آرہا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں بیٹی کے لیے محبت ہی محبت بول رہی تھی۔
’’ہاں! اب تو آپ اسے اور زیادہ پیار کریں گے۔‘‘ وہ ہنسی اور اُس کے ساتھ اندر ایک سکون اترآیا۔
ہانیہ نے اس کی زندگی میں آکر بہت مصروف کردیا تھا۔ اماں نے ربیعہ کو سوا مہینہ سے پہلے گھر بھیجنے سے سختی سے انکار کردیا۔ خالہ جی کا بھی فون آگیا۔
’’بڑے آپریشن سے ہوئی ہے بچی ابھی جتنا آرام کرسکتی ہو کر لو پھر آرام نہ ملے گا، ابھی گھر مت جانا۔‘‘خالہ جی نے سمجھایا۔
اور یہی بات انہوں نے احسن کو بھی سمجھائی جس پر وہ تپ کر رہ گیا۔
’’ارے اماں یہاں بھی دو دو لوگ ہیں اس کی خدمت کو، سب ہو جائے آپ فکر مت کریں بلکہ میں چھٹی لے لیتا ہوں۔‘‘
’’تم نہیں جانتے، ایک عورت کو ان دنوں میں مکمل آرام کی ضرورت ہوتی ہے، بچی کو رات میں کون سنبھالے گا؟ ابھی تو اس کی ماں سنبھال رہی ہے۔ کچھ دنوں آرام کر لینے دو اسے۔‘‘ انہوں نے جھاڑا۔
’’عجیب سی منطقیں ہیں آپ لوگوں کی۔‘‘ وہ بھنا سا گیا۔ اس وقت ان سب کی باتیں اسے سخت زہر لگ رہی تھیں۔ وہ سیدھا اس کے پاس آگیا۔
’’تمہیں گھر چلنا ہے ربیعہ۔‘‘بہت حکمیہ سا انداز تھا حتمی سا۔ وہ گڑ بڑا کر رہ گئی۔
’’ہاں احسن میں نے تو بیگ بھی پیک کرلیا تھا لیکن خالہ اور اماں دونوں نہیں مان رہیں ہانیہ بہت چھوٹی ہے ابھی۔‘‘ وہ خود بھی اُداس تھی۔ احسن کی حالت اس سے بھی نہیں دیکھی جارہی تھی۔ یقینا وہ اسے بہت missکر رہا تھا۔
’’اور میرا کیا، یہ کبھی تم نے سوچا ہے۔‘‘ وہ بُری طرح تپ گیا۔
’’بس کچھ دنوں کی بات ہے احسن میں آجائوں گی پلیز تھوڑا انتظار کر لو۔‘‘ اس نے سمجھایا۔
’’ربیعہ پلیز مجھے تمہاری اور ہانیہ کی بہت ضرورت ہے۔‘‘وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر التجا کر رہا تھا۔
’’لیکن میں بڑوں کی بات کیسے رد کردوں احسن۔‘‘وہ خود تھوڑا شرمندہ تھی۔
وہ کافی دیر خاموشی سے ربیعہ کو دیکھتا رہا اور غصّے میں اس کو چھوڑ کر آگیا۔
وہ شدید ناراض تھا۔ اب اس کے میسجز اور فون کی تعداد بھی اتنی نہ ہوتی۔ ربیعہ یہ سب محسوس کررہی تھی اور دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھی۔ آخر اس نے اماں سے بات کر ہی لی۔ ان کو سمجھا لیا اور وہ راضی ہوگئیں۔
’’ٹھیک ہے بھئی اگر تم سب آسانی سے سنبھال سکتی ہو تو چلی جائو میں کیا کہہ سکتی ہوں یہ تم دونوں میاں بیوی کا معاملہ ہے۔‘‘ انہوں نے منہ بنا لیا۔
تو اس نے خوشی خوشی سامان پیک کیا اور احسن کو سرپرائز دینے کے لیے گھر چلی آئی۔ بابا اسے دروازے پر ڈراپ کرکے چلے گئے۔ انہیں آفس جانا تھا۔ وہ جانتی تھی اس وقت آٹھ بجے تھے اور ابھی احسن آفس جانے کے لیے تیار ہورہا ہوگا۔ اس نے خاموشی سے اندر آکر سارا سامان ایک طرف رکھا۔ گھر بہت صاف ستھری حالت میں تھا، اسے خوشی ہوئی کہ اس کے پیچھے دونوں ماں بیٹیوں نے گھر کو اچھی حالت میں رکھا ہوا تھا۔ وہ ہانیہ کو لے کر اپنے کمرے کی طرف چلی آئی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ یہ سوچ کر کہ احسن واش روم میں ہوگا لیکن اندر کے منظر نے ایک لمحے کو اسے تھرّا کر رکھ دیا۔ وہ بد صورت سی لڑکی اس کے شوہر کے بہت قریب کھڑی تھی اور بالکل ربیعہ کے انداز میں احسن کے شرٹ کے بٹن بند کررہی تھی اور احسن نے نہ جانے اس کے کان میں کیا سرگوشی کی کہ وہ شرما کر سُرخ پڑ گئی۔
ربیعہ ہکاّ بکاّ سی کھڑی صرف یہ سوچ رہی تھی کہ کسی وقت مرد کو نہ تو محبوبہ اور نہ ہی بیوی چاہیے اسے صرف ایک عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ عورت چاہے جتنی بھی بد صورت ہو اُس وقت مرد کی محبوبہ اور بیوی دونوں کے کام بہ خوبی سر انجام دے سکتی ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!