انھیں دنوں صفیہ آنٹی کے ہمارے گھر میں چکر بڑھنے لگے تھے۔ اگر بات صرف چکروں تک ہوتی تو مجھے قابل اعتراض نہ لگتی۔ امی کا میل جول بہت سے لوگوں سے تھا اور ہمارے گھر بہت لوگوں کا آنا جانا تھا… رشتہ داروں کا… امی اور بابا کے جاننے والوں کا… فیملی فرینڈز کا… بابا کے کولیگز اور سٹوڈنٹس کا… ہمیں مہمانداری کی عادت تھی… اور میں نے شروع شروع میں صفیہ آنٹی کو بھی ایسا ہی مہمان سمجھا تھا جو چونکہ بہت عرصہ کے بعد امی سے دوبارہ ملنا شروع ہوئی تھیں اس لیے ان کا آنا جانا بھی زیادہ تھا۔
مگر مجھے پریشانی تب شروع ہوئی جب میں ان کی گفتگو کا مرکز بننے لگی اور ان کی باتوں میں ذومعنویت آنے لگی۔ وہ ہمارے گھر آتے ہی سب سے پہلے میرا ہی پوچھا کرتی تھیں اور مجھے ان کے پاس کافی دیر تک بیٹھنا پڑتا… اور ان کے پاس بیٹھنے کے دوران ان کی گفتگو کا موضوع ان کے بیٹے کی ذات ہوتی تھی… پہلے میں سمجھتی تھی کہ وہ مراد کے بارے میں اس لیے بہت زیادہ بات کرتی ہیں کیونکہ مراد ان کا اکلوتا بیٹا ہے مگر پھر مجھے احساس ہوا کہ اکلوتے بیٹے کے بارے میں کوئی ماں عام طور پر اس طرح کی گفتگو نہیں کرتی جس طرح کی گفتگو وہ کرتی تھیں۔ وہ میرے لیے اپنی محبت کا اظہار اکثر تحفے تحائف سے بھی کرتی تھیں اور ان کے یہ تحفے تحائف مجھے خوش کرنے کی بجائے پریشان کرنے لگتے۔ میری چھٹی حِس مجھے کچھ عجیب سے سگنلز دینے لگی تھی۔ میں بچی نہیں تھی کہ ان کے اس التفات کو صرف التفات ہی سمجھتی… مگر میں جان بوجھ کر ہر چیز سے انجان بنی رہنا چاہتی تھی… امی اور بابا بھی صفیہ آنٹی کے اصرار پر چند بار ان کے گھر گئے اور واپسی پر ان کے تاثرات بھی تبدیل شدہ تھے… مراد کا ذکر ہمارے گھر میں اب کئی بار تب بھی ہونے لگا تھا جب صفیہ آنٹی ہمارے گھر نہیں بھی ہوتی تھیں اور اس سب کے باوجود میں اپنے دل کو یہی تسلی دینے میں مصروف رہتی تھی کہ اس سب کا میری شادی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابھی تو میں نے اپنی تعلیم بھی مکمل نہیں کی اور پھر ابھی مجھے یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنا ہے… اور بابا نے ایک بار میرے سامنے کہا تھا کہ وہ میری تعلیم کے دوران میری شادی کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی بات کریں گے نہ ہی منگنی وغیرہ کا کوئی سلسلہ کریں گے… میں ہر بار ایسے سگنلز کو اپنا وہم سمجھ کر جھٹکتی رہی اور بار بار ان سب باتوں کے بارے میں سوچتی رہتی جو بابا اور امی نے وقتاً فوقتاً میری شادی کے بارے میں کی تھیں… کسی ایک بات سے بھی یوں ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ عنقریب اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے والے تھے۔
اگر مومی کے ساتھ فون پر میری بات چیت کا سلسلہ شروع نہ ہوا ہوتا تو میں آنٹی صفیہ کی آمد کے بارے میں پریشان ہوتی نہ اپنی متوقع شادی اور منگنی کے بارے میں فکر مند… مگر سارا فرق اس ایک شناسائی سے پڑا تھا جس نے میری زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا… اس حد تک کہ میں ان دنوں شادی یا منگنی کے تصور سے بھی بدکنے لگی تھی… آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ میں مومی کے علاوہ کسی اور سے… تو کیا میں مومی سے…؟
……***……
”تم مجھ سے باہر کہیں ملو۔” میں اس دن اس کے مطالبے پر دھک سے رہ گئی۔
”کس لیے؟” ”کس لیے؟…” وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا پھر اس نے کہا۔
”باتیں کریں گے… گھومیں پھریں گے۔”
”باتیں تو ہم فون پر بھی کرتے ہیں۔”
”مگر فون پر ہم گھوم پھر تو نہیں سکتے۔”
”پر اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟”
”کیوں ضرورت نہیں ہے… میں تمھیں دیکھنا چاہتا ہوں۔”
”تم تو پہلے ہی مجھے دیکھ چکے ہو۔” وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔
”ہاں… مگر پھر دیکھنا چاہتا ہوں۔”
”لیکن اس کی کیا ضرورت ہے؟”
”کیا تم مجھے دیکھنا نہیں چاہتی؟” اس نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”نہیں۔” واقعی اس لمحے میں نے سوچا… آخر اتنے عرصے سے اس سے باتیں کرنے کے باوجود کبھی اس کو دیکھنے کی خواہش میرے دل میں پیدا کیوں نہیں ہوئی۔
”تم عجیب لڑکی ہو تمہارا دل نہیں چاہتا تم مجھے دیکھو۔” مومی بے حد حیران ہوا تھا۔
”نہیں۔” ”مگر میں تمھیں دیکھنا چاہتا ہوں۔” اس نے جیسے ضد کی۔
”تم کالج کے باہر آؤ اور مجھے دیکھ لو…” میں نے اس سے کہا۔
”مگر میں تمھیں پہچانوں گا کیسے؟” اس نے بے اختیار کہا۔ میں ایک بار پھر حیران ہوئی۔
”تم پہچانتے تو ہو مجھے۔”
”ہاں… ہاں پہچانتا ہوں… مگر میں صرف دیکھنا نہیں چاہتا میں تو ملنا چاہتا ہوں۔” وہ گڑبڑایا۔
”مگر میں تم سے اکیلے کہیں نہیں مل سکتی۔”
”کیوں؟” ”ایک غلط کام کر رہی ہوں میں دوسرا غلط کام نہیں کر سکتی۔”
”مجھ سے محبت غلط کام ہے۔” اس نے شکوہ کیا۔
”نہیں اس طرح ملنا غلط کام ہے۔”
”میں تمھیں کہاں بلوا رہا ہوں می می کسی کھلی جگہ پر… سب لوگوں کے سامنے… تمھیں اعتبار نہیں ہے مجھ پر؟”
”کوئی دیکھ لے گا تو میرے لیے اور مصیبت آئے گی۔”
”کراچی جیسے بڑے شہر میں تمھیں کون دیکھے گا؟”
”میں پھر بھی تم سے نہیں مل سکتی۔”
”ٹھیک ہے پھر میں فون بند کررہا ہوں۔” اس نے جیسے دھمکی دی۔
میں نے اس کے فون رکھنے سے پہلے فون بند کر دیا۔ مجھے اس پر غصہ آیا تھا۔ وہ مجھے بلیک میل کر رہا تھا… میں نہیں ملنا چاہتی تھی تو وہ کیوں اس پر ضد کر رہا تھا اور پھر فون بند کرنے کی دھمکی… میری آنکھوں میں آنسو آنے لگے… وہ جانتا تھا کہ میں اس کے فون کا انتظار کرتی ہوں اور اس کو یہ آگہی دینے والی میں خود تھی… اب اگر وہ مجھے بلیک میل کر رہا تھا تو… اس رات میں دیر تک روتی رہی۔ آخر اس نے ایسی بات کیوں کہی تھی… میں نے تو اسے عام لڑکا نہیں سمجھا تھا مگر وہ… وہ عام لڑکوں کی طرح… مجھے اس کی بات کے بارے میں سوچ کر اور رونا آیا… یہ واحد کام تھا جو میں بڑی آسانی سے کرتی تھی… آنسو… آنسو… آنسو لڑکیوں کے پاس اس سے زیادہ اچھا ساتھی بھی تو نہیں ہوتا۔
میں اس کو کیا سمجھنے لگی تھی اور وہ مجھ سے کیا کہہ رہا تھا… مزید آنسو… مزید رونا… آخر اس کو اس بات کا احساس کیوں نہیں تھا کہ وہ مجھ سے ایک غلط بات کا مطالبہ کر رہا تھا… باہر ملنا… آنسو، آنسو، آنسو… اور اگر میں نہیں ملوں گی تو وہ مجھ سے بات نہیں کرے گا… اور میں… میں Scorpion کے بارے میں پڑھ پڑھ کر پاگل ہو رہی تھی… اور اب تو میری ان کے لیے نفرت بھی ختم ہو گئی تھی… اور میں پچھلے ہفتے دو سوٹ خرید کر لائی اور دونوں White… کسی اور کلر کی طرف میرا دھیان ہی نہیں گیا… اور مجھے چکن پسند نہیں تھا اور اب میں پچھلے تین ہفتے سے ہر دوسرے دن چکن کھا رہی تھی… فرائیڈ چکن… اور میں پیپسی پیتے پیتے سپرائٹ پینا شروع ہو گئی تھی اور میں اپنے کالج بیگ میں لیمن رکھنے لگی تھی جسے میں روز سپرائٹ میں نچوڑ کر پیتی… اور اپنی فرینڈز کے مذاق کا نشانہ بنتی اور وہ… وہ کہہ رہا تھا کہ میں اگر اس سے نہیں ملوں گی تو وہ وہ مجھے فون نہیں کرے گا۔ اس رات میں ہچکیوں سے روئی… آخر اس نے مجھ سے ایسی بات کیوں کی تھی؟
مجھے توقع تھی کہ اگلے دن اس کا فون نہیں آئے گا مگر خلاف توقع اگلے دن اس کا فون آ گیا تھا۔ مجھے اس کی آواز سنتے ہی ایک بار پھر رونا آیا۔ وہ چونکا۔
”کیا ہوا؟”
”کچھ نہیں۔”
”تم رو رہی ہو؟”
”نہیں۔”
”پھر آواز کو کیا ہوا؟”
”کچھ نہیں۔” وہ کچھ دیر چپ رہا پھر اس نے کہا۔
”کل فون کیوں بند کر دیا تم نے؟”
”میں نہیں کرتی تو تم کر دیتے۔”
”مگر کیا تو تم نے۔”
”مگر کرنے والے تو تم تھے۔”
”تم ناراض ہو؟” اسے اچانک خیال آیا۔
”نہیں۔”
”اور رو رہی ہو۔”
”نہیں۔”
”اس لیے کہ میں نے تم سے ملنے کے لیے کہا؟” میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”میرے خدا… اب اتنی سی بات پر اس طرح رونے والی کیا بات ہے۔”
”یہ میرے لیے اتنی سی بات نہیں ہے۔”
”اچھا رونا تو بند کرو۔”
”میں رو نہیں رہی ہوں۔” میں نے روتے ہوئے کہا۔
”تم جو بھی کر رہی ہو اسے بند کر دو۔” میں نے فون بند کر دیا۔ فوراً سے پہلے گھنٹی دوبارہ بجی۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا۔
”فون کیوں بند کر دیا؟”
”تم نے خود کہا تھا جو بھی کر رہی ہوں بند کر دوں۔” میں نے ا سی طرح روتے ہوئے کہا۔
”میں نے رونا بند کرنے کے لیے کہا تھا۔”
”اور میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میں رو نہیں رہی ہوں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
”اچھا روتی رہو مگر بات کرو۔” میں اپنا چہرہ رگڑنے لگی۔
”میں نے ایسا کون سا غلط مطالبہ کر دیا تھا تم سے… لاکھوں لڑکے لڑکیاں ملتے ہیں آپس میں۔”
”ملتے ہوں گے میں نہیں مل سکتی۔”
”اگر ہم مل نہیں سکتے تو پھر ہمارے فون کرنے کا مقصد کیا ہے؟”
”مجھے تو نہیں پتہ تم نے مجھے فون کرنا شروع کیا تھا۔”
”ہاں میں نے ہی کرنا شروع کیا تھا۔” وہ بڑبڑایا۔
پتہ نہیں اس وقت میرے ذہن میں کیا آیا شاید میں اسے ”پرکھنا” چاہتی تھی… ”آزمانا” چاہتی تھی… یا پھر صرف ”پانا” چاہتی تھی… جو بھی تھا بہرحال میں نے اس سے کہا۔ ”تم مجھ سے شادی کر سکتے ہو؟” دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
”جو مرد محبت نہیں کرتا وہ شادی بھی نہیں کرتا۔” سمیعہ کی آواز میرے دماغ میں گونجی تھی اور میرا دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔
”ہاں… کر سکتا ہوں… کب؟” اس نے کچھ دیر بعد ہنس کر کہا۔ مجھے لگا اس نے میری بات کو مذاق سمجھا ہے۔
”میں مذاق نہیں کر رہی مومی۔”
”تو میں کب مذاق کر رہا ہوں؟”
”تم اپنے گھر والوں سے میرے بارے میں بات کرو۔”
”میرے گھر والے میری شادی وہیں کریں گے جہاں میں چاہوں گا۔”
”تو پھر تم ان سے بات کرو۔”
”اوکے میں بات کروں گا۔” میرے آنسو یک دم تھمنے لگے۔ کم از کم وہ محبت میں جھوٹا نہیں تھا۔ میرا دل خوشی سے اُچھل رہا تھا۔
”شادی کا وعدہ کرنے اور شادی کرنے میں فرق ہوتا ہے۔” سمیعہ کا ایک اور جملہ اس وقت میرے ذہن میں گونجا تھا۔ مگر میں نے اسے جھٹک دیا۔ مومی نے شادی کا وعدہ کر لیا تھا تو وہ شادی بھی کر لے گا۔ میں نے خود کو تسلی دی۔ میں مطمئن ہو گئی مومی نے اس رات دوبارہ باہر ملنے کے بارے میں نہیں کہا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اسے میری فیلنگز کا احساس ہو گیا تھا۔
……***……