دربارِدل — قسط نمبر ۱

”تمھیں پتہ ہے میں تم سے کیوں محبت کرتا ہوں؟”
”کیوں؟”
”کیونکہ تم آج کل کی لڑکیوں سے مختلف ہو۔” اس نے میرے لیے وہی جملہ بولا تھا جو میں سینکڑوں بار بہت سے لوگوں سے سن چکی تھی مگر اس دن مجھے لگا میں نے زندگی میں پہلی بار کسی سے وہ جملہ سنا تھا۔
”مجھے ایسی ہی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں… جو تمہاری طرح ہوں… عبادت گزار، نیک، باحیا، پرہیزگار، پارسا۔” میں چپ چاپ اس کی بات سنتی رہی۔
”لڑکیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے… مجھے اچھا لگتا ہے کہ تم پردہ کرتی ہو۔” میں اب بھی خاموش تھی۔
”شادی کے بعد بھی کرو گی؟” اس نے یک دم پوچھا۔
”کیا؟” میں چونکی۔
”پردہ۔”
”ظاہر ہے۔”
”اور اگر تمھارے شوہر نے تمھیں مجبور کیا کہ نہ کرو تو؟”
”تو… پتہ نہیں…”
”پتہ نہیں کیا؟”
”میری امی اور بابا میرے لیے ایسی ہی فیملی کا انتخاب کریں گے جو لوگ ہمارے ہی جیسے ہوں۔”
”اور تم لوگ کیسے ہو؟”
”ہم لوگ کیسے ہیں؟” مجھے اس کا سوال عجیب لگا۔
”یعنی مذہبی۔” اس نے خود ہی چند لمحوں کے بعد ہی۔ ”ہاں۔” ”میری فیملی بھی بہت مذہبی ہے۔” اس نے یک دم کہا۔
میں خاموش رہی اس بار وہ بھی خاموش ہو گیا۔
مومی دوسرے لڑکوں سے مختلف تھا۔ میری طرح ہر لڑکی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد یہی کہتی ہے… اور میں… میں آخر اور کتنے لڑکوں کو جانتی تھی کہ یہ کہہ سکتی کہ وہ دوسرے لڑکوں سے مختلف تھا… اس نے مجھے انھیں سارے ہتھکنڈوں کے ساتھ زیر کیا تھا۔ جنھیں دوسرے لڑکے استعمال کرتے تھے اور میں… میں پھر بھی سمجھتی تھی کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے… کیونکہ میں اس سے محبت کرتی تھی… اندھی محبت اور میں اس سے محبت اس لیے کرتی تھی کیونکہ… کیونکہ… پتہ نہیں ہم سب کسی نہ کسی سے محبت کس لیے کرتے ہیں؟
……***……





”مرد جس سے محبت کرتا ہے… واقعی محبت کرتا ہے اس سے شادی کر لیتا ہے۔”
”90 فیصد کیسز میں مرد ایسا نہیں کرتا۔” کیونکہ 90 فیصد کیسز میں مرد محبت نہیں کرتا صرف فلرٹ کرتا ہے۔
”مگر بعض دفعہ محبت کرنے کے باوجود مرد کچھ مجبوریوں کی وجہ سے شادی نہیں کر پاتا۔”
”مرد اور مجبور؟… جو مرد خود کو مجبور کہتا ہے وہ جھوٹا ہے۔”
وہ سب اس دن پھر بحث کر رہی تھیں اور میں ہمیشہ کی طرح چپ چاپ ان تینوں کی بحث سن رہی تھی۔
”تم انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو… مرد کو جب بھی کسی عورت سے محبت ہوئی ہے… حقیقی محبت… تو اس نے ہر قیمت پر اس کو پانے کی کوشش کی ہے… اسے دولت سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں تو اس نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی… جان داؤ پر لگانی پڑی ہے تو وہ اس حد تک بھی گیا ہے… تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کے اس حصے میں اب مرد عورت سے شادی کے بارے میں مجبور ہو گیا ہے… مجبوری کا تعلق کمزوری سے ہوتا ہے اور اگر ہم آج مرد کو مجبور مانتے ہیں تو کیا پھر اسے کمزور بھی مان لیں۔” سمیعہ مقرّر تھی اور جب وہ بولنے پر آتی تو اس کو چپ کروانا مشکل ہو جاتا۔
”تم سمجھتی ہو اگر شادی نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت سچی نہیں تھی؟” اس کے مدّمقابل صوبیہ تھی اور وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی اس کا اور سمیعہ کا کسی ایک بات پر متفق ہونا ناممکن ہوتا تھا۔
”دیکھو مرد اگر کسی عورت سے محبت کرتا ہے اور پھر اس سے شادی نہیں کرتا تو اس کا مطلب کیا ہے؟… اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عورت کو کسی دوسرے مرد کی بیوی بننے کے لیے چھوڑ رہا ہے اور جس عورت سے مرد محبت کرتا ہے وہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس عورت کو کوئی دوسرا مرد دیکھے، چھوئے وہ کسی دوسرے مرد کے گھر میں ہو… امپاسبل… عورت کسی مرد سے محبت کرتی ہو تو اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی… مرد تو پھر مرد ہے۔”
”مگر ہماری سوسائٹی میں مرد پر اتنے پریشر ہوتے ہیں کہ وہ بعض دفعہ چاہتے ہوئے بھی اپنی پسند کی عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔” صوبیہ نے کہا۔
”پہلے تو یہ طے کر لو کہ پسند کی عورت اور وہ عورت جس سے محبت ہو میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پسند کی عورت کا مطلب ہے کہ کچھ کوالٹیز آپ کو عورتوں میں اچھی لگتی ہیں تو ان کوالٹیز کی عورتوں میں سے اگر کسی عورت سے شادی ہو جائے ٹھیک ہے اور اگر پریشر ہو اور شادی نہیں ہوتی تو بھی ٹھیک ہے… یہ ہوتی ہے پسند… محبت کا مطلب ہے کہ کوئی ”ایک” عورت ہے جس سے آپ کسی خاص وجہ سے محبت کرتے ہیں… یا بغیر کسی وجہ کے محبت کر رہے ہیں اور وہ ایک ہی ہوتی ہے۔ مرد جانتا ہے وہ مل جائے تو ساری زندگی کے لیے… نہ ملے تو ساری زندگی کے لیے… تو پھر وہ اس ایک عورت کو پانے کے لیے کیا نہیں کرتا… یہ دل کا معاملہ ہوتا ہے اور دل کے معاملے میں وہ کسی پریشر کو نہیں دیکھتا کیونکہ مرد بنیادی طور پر خود غرض ہوتا ہے۔ اس کے لیے اپنی ذات سب سے اہم ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے اس کی خوشی کا تعلق اس عورت کے حصول سے ہے "It’s simple” اس نے کندھے اُچکا کر بات ختم کی۔
”تم کچھ نہیں کہو گی مہر؟” صوبیہ نے مجھے مخاطب کیا۔
”مہر کیا کہے گی… مہر کو تو محبت پر ہی یقین نہیں ہے تو یہ شادی وغیرہ کی بات تو بعد میں آتی ہے۔” سمیعہ نے میرے کچھ کہنے سے پہلے کہا میں خاموش رہی… ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں اب "Non-believer” نہیں رہی تھی۔
”ویسے تم نے نوٹ کیا ہے مہر پچھلے چند ہفتوں سے کچھ بدلی بدلی نظر آ رہی ہے۔” میں ثناء کی بات پر گڑبڑا گئی۔
”اچھا…؟… میں سمجھ رہی تھی یہ صرف میرا ہی احساس ہے۔” سمیعہ نے بھی مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر یہ مہر نہ ہوتی تو میں کہہ دیتی کہ یقینا یہ کسی سے محبت کے اثرات ہیں مگر مہر کو تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔” صوبیہ نے شوخی سے کہا۔ سمیعہ اور ثنا اس کی بات پر مسکرائیں۔ میں کوشش کے باوجود مسکرا نہیں سکی۔ میں ان سے کیا کہتی کہ مہر کی زندگی کی فلاسفی بدل گئی ہے… مہر بدل گئی ہے… یا پھر دنیا بدل گئی ہے… مہر کی دنیا۔
یا پھر یہ کہتی کہ مہر اب ایک نئی دنیا میں جینے لگی ہے… خوابوں اور خیالوں کی دنیا… رنگوں اور روشنیوں کی دنیا… کانچ کی دنیا…
میرے ہونٹوں پر یک دم چپ لگ گئی تھی اور میں غائب دماغ رہنے لگی تھی۔ کوئی مجھ سے یہ کہتا نہ کہتا… مجھے بتاتا نہ بتاتا… میں تب بھی جانتی تھی کہ میں اب ذہنی طور پر ہر وقت کہیں اور رہتی تھی… اس ایک آواز کے ساتھ… اس ایک شخص کو سوچتے ہوئے… اس ایک آدمی کو تصور میں لاتے ہوئے میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی تھی۔
ہر رات اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو اگلے کئی گھنٹے درجنوں بار میرے ذہن میں گونجتی تھی… درجنوں بار میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آتی تھی… درجنوں بار میں گرد و پیش سے بے خبر ہو جاتی تھی۔
میں زندگی میں پہلی بار محبت کے تجربے سے گزر رہی تھی… تب میں یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ تجربہ میرے لیے پہلا اور آخری بھی ثابت ہونے والا تھا۔
……***……
”اچھا اب فون بند کر دو۔” میں نے دس منٹ میں کوئی دسویں بار صوبیہ سے کہا۔
”آخر تمھیں ہو کیا گیا ہے؟” وہ جھلائی۔
”پہلے تو کبھی تم اتنی Rude نہیں ہوتی تھی۔” "Rude” میں حیرت زدہ رہ گئی۔
”میں Rude تو نہیں ہوئی۔” میں نے کچھ حیرانگی سے صوبیہ سے کہا۔
”تو پھر کیوں اس طرح فون بند کرنا چاہتی ہو… کیا آنٹی نے کوئی پابندی لگا دی ہے تم پر؟” صوبیہ نے فوراً سے پہلے ایک دوسرا نتیجہ اخذ کیا۔
”کس چیز پر پابندی؟” مجھے اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔
”مجھ سے لمبی بات پر پابندی… یا پھر فون پر لمبی بات پر پابندی۔” میں ہنس پڑی۔
”دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہے۔” میں نے اسے جیسے تسلی دی۔
”پھر؟”
”پھر میں یہ کہ مجھے خود ہی خیال آ رہا تھا کہ ہم فون پر ضرورت سے زیادہ دیر تک لمبی گفتگو کرتے ہیں۔” میں نے بہانہ گھڑا۔
”اتنے سالوں کے بعد اب تمھیں یہ خیال آ رہا ہے کہ ہم فون پر لمبی گفتگو کرتے ہیں۔” وہ مطمئن نہیں ہوئی۔ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو مطمئن نہ ہوتا۔ مگر مجھے اس وقت اس کو مطمئن کرنے میں کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں… میں تو جلد از جلد فون رکھ دینا چاہتی تھی… مومی اسی وقت فون کیا کرتا تھا… اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں صوبیہ سے فون پر بات کر کے فارغ ہوتی اور اس کا فون آ جاتا… اور اس کی لگاتار آنے والی کالز نے برسوں سے چلی آنے والی اس روٹین کو خراب کر دیا تھا جسے میں اور صوبیہ نے بڑے شوق اور محبت سے بنایا تھا۔ ہم لوگ ہر رات ایک ڈیڑھ گھنٹہ آپس میں بات کیا کرتے تھے… روز کالج میں ملنے کے باوجود… کبھی بے مقصد اور بے سروپا باتیں کرتے… وہ مجھے اپنے افیئرز اور بوائے فرینڈز کے بارے میں بتاتی جن کے ساتھ وہ کالج کے بعد کہیں گھومنے جاتی تھی۔ اس کے پیرنٹس کو لڑکوں کے ساتھ اس کی دوستیوں کا پتہ تھا مگر وہ جس کلاس سے تعلق رکھتے تھے وہاں یہ دوستیاں ایک عام اور نارمل چیز سمجھی جاتی ہیں… البتہ ان کا نہ ہونا ایک ابنارمل چیز ہوتا ہے۔
وہ ہر رات کو مجھے کالج کے بعد رات تک اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات بتاتی… اور میں اسے گھر میں کیے جانے والے ہر کام کی۔
اور اب یک دم یہ روٹین خراب ہونے لگی تھی… مجھے رات کے وقت صرف ایک کال کا انتظار رہتا تھا۔ مومی کی کال کا… اور مجھے صوبیہ کی کال سے الجھن ہوتی… میں ہمیشہ یہی چاہتی کہ وہ جلد از جلد فون رکھ دے تاکہ مومی کال کر سکے… اور صوبیہ نے میرے لہجے میں آنے والی اس تبدیلی کو چند دنوں میں ہی نوٹ کر لیا تھا اور اب وہ مجھ سے وجہ پوچھ رہی تھی اور میں اسے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”تم اس وقت کسی اور کو کال کرتی ہو؟” اس نے یک دم بات بدلتے ہوئے کہا۔ میں ایک لمحے کے لیے کچھ بول نہیں سکی۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اس طرح کا کوئی نتیجہ اخذ کرے گی۔
”تم یہ کیوں کہہ رہی ہو؟” میں نے اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے معمول کے انداز میں کہا۔
”کیونکہ ایک دو بار میں فون رکھنے کے بعد کچھ یاد آنے پر تمھیں دوبارہ کال کرتی رہی ہوں مگر تمہارا فون انگیج ملتا ہے۔” اس نے کہا۔
”اگر فون انگیج ملتا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہر بار میں ہی فون استعمال کر رہی ہوں؟” میں نے جان بوجھ کر لہجے میں کچھ خفگی لاتے ہوئے کہا۔
”تم کو پتہ ہونا چاہیے کہ میرے گھر میں میرے علاوہ بھی دو افراد رہتے ہیں اور ان میں سے ایک فرد یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ بابا فون کرتے ہوں گے یا ان کا کوئی فون آتا ہوگا۔” غیر ارادی طور پر میری وضاحت لمبی ہو گئی تھی۔
”تم ناراض کیوں ہو رہی ہو؟” صوبیہ نے میرے لہجے میں جھلکنے والی خفگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”میں تو ایسے ہی کہہ رہی ہوں… بس ذہن میں ایک بات آئی تو میں نے پوچھ لیا۔”
”مجھے لگا تم مجھ پر شک کر رہی ہو؟” میں نے لہجے کو سخت رکھتے ہوئے کہا۔
”اوہ کم آن مہر… میں نے شک والی کیا بات کی ہے؟” اس نے یک دم میری بات کاٹ کر احتجاج کیا۔
”میں تو صرف یہ کہہ رہی تھی کہ تم کسی اور کو تو کال نہیں کرتی… میرا مطلب تھا کسی اور فرینڈ یا کزن کو۔” میں نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
”میں کیا تمھیں جانتی نہیں کہ تم پر شک کروں گی… تمھیں کیا لگا کہ میں کیا کہنا چاہ رہی تھی؟” اس نے اس بار مجھ سے پوچھا۔
”میں نے سوچا شاید تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ میں کسی لڑکے کو فون کرتی ہوں۔” میرے لاشعور نے میرا خوف میری زبان سے خدشے کی صورت میں اگلوایا تھا۔
”نہیں… نہیں… یہ میں کیسے کہہ سکتی ہوں؟” صوبیہ نے بے اختیار وضاحت کی۔
”تم بھلا کیوں کسی لڑکے کو فون کرو گی… میں تمہاری نیچر کو جانتی ہوں… کوئی اور ہوتا تو میں شاید ایسا کچھ کہہ بھی دیتی… مگر تم سے میں یہ نہیں کہہ سکتی۔” مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑا تھا۔ میں کچھ کہنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ آئینہ نے یک دم جیسے مجھے میرا عکس دکھایا تھا اور وہ عکس دیکھ کر مجھے شرم محسوس ہوئی تھی… کیا میں نے منافقت کی سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دی تھیں… یا پھر میں نے اب زندگی میں پہلی بار جھوٹ کو عادت بنا لیا تھا… کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جو میرے ساتھ غلط تھا… یا پھر میں مکمل طور پر غلط تھی۔
**…**…**




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!