”اتنے سالوں بعد تمہاری بیٹی کو دیکھا تو دل خوش ہو گیا۔” میں آنٹی صفیہ کی بات پر چائے سرو کرتے ہوئے بے اختیار مسکرائی، وہ امی کی بہت اچھی دوست تھیں اور کئی سالوں کے بعد ہمارے گھر آئی تھیں۔
”ماشاء اللہ بہت اچھی تربیت کی ہے تم نے مہر کی۔” ان کی نظریں مسلسل مجھ پر تھیں اور میں ان نظروں میں اپنے لیے پسندیدگی پا رہی تھی۔
”بس اللہ کا شکر ہے تم بتاؤ مراد کیسا ہے؟” امی نے جواباً صفیہ آنٹی سے پوچھا۔
”مراد ٹھیک ہے۔” ”تم اسے بھی ساتھ لے آتی۔”
کیسے لے آتی اس کے پاؤں گھر میں ٹکیں تو کہیں لے کر جاؤں… ویسے بھی چند ہفتوں تک Canada جا رہا ہے MBA کرنے آج کل اسی کی تیاریوں میں رہتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں بتا رہی تھیں۔
”MBA کرنے جا رہا ہے ماشاء اللہ اس کا مطلب ہے… لائق ہے۔” امی نے بے اختیار مراد کو سراہا۔
”ہاں سٹڈیز میں تو ہمیشہ ہی اچھا رہا ہے… بس ذرا ویسٹر نائزڈ ہو گیا ہے۔”
”ٹھیک ہو جائے گا صفیہ اس عمر میں سارے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔” امی نے صفیہ آنٹی کو تسلی دی۔
”تم مجھے یہ بتاؤ کہ اتنے سال کہاں رہی؟” اس سے پہلے کہ امی کچھ اور کہتیں میں بول اٹھی۔
”امی میں کھانے کی تیاری کرتی ہوں وقت ہو رہا ہے۔” ”بیٹا پہلے میرے پاس بیٹھو نا۔” صفیہ آنٹی نے کہا۔
”نہیں یہ ٹھیک کہہ رہی ہے واقعی کھانے کا وقت ہو رہا ہے اور اسے اب کھانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔” امی نے کہا۔
”مگر سعیدہ میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔” صفیہ آنٹی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”اتنے سال بعد تم آئی ہو اور میں تمھیں صرف چائے پر ٹرخا دوں… یہ ناممکن ہے۔” امی نے کہا۔
”ذرا مہر کے ہاتھ کا کھانا کھانا پھر تمھیں اندازہ ہوگا کہ تم کفران نعمت کر رہی تھی۔” امی نے میری تعریف کی۔ آنٹی صفیہ نے بے اختیار مجھے دیکھا۔
”اگر مہر کے ہاتھ کے کھانے کی بات ہے تو ٹھیک ہے پھر میں کھانا کھا کر ہی جاؤں گی۔” صفیہ آنٹی نے خوش دلی سے کہا۔ میں مسکراتے ہوئے لاؤنج سے باہر آ گئی۔
”مہر دوسری لڑکیوں سے مختلف ہے۔” میں نے وہاں سے نکلتے نکلتے آنٹی صفیہ کا جملہ سنا۔ میں مسکرا دی۔ میں نے یہ جملہ اپنی زندگی میں اتنی بار سنا تھا کہ اب اگر کوئی میرے بارے میں یہ جملہ نہ کہتا تو میں حیران رہ جاتی… عام لڑکیاں؟… صوبیہ اور ان جیسی دوسری عام لڑکیاں… میں جانتی تھی میں ان سب سے مختلف تھی اور مجھے اس مختلف ہونے پر فخر تھا میں دوسری لڑکیوں کی طرح ایسے بہت سے کام نہیں کرتی تھی جو وہ اپنی زندگی کا ضروری حصہ سمجھتی تھیں… مجھے کنزرویٹو اور نیرو مائنڈڈ کا لیبل اپنے اوپر لگوانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا… اگر جسم کو مہذب طریقے سے ڈھانپنا، عبادت کرنا اور ان عادات اور حرکات سے دور رہنا جن سے دور رہنے کا اللہ نے حکم دیا تھا کسی کو مجھے کنزرویٹو اور نیرو مائنڈڈ قرار دینے پر مجبور کرتا ہے تو پھر مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ میں خوش اور مطمئن تھی کیونکہ مجھے یقین تھا خدا مجھ سے خوش اور مطمئن تھا۔
ان دنوں میری زندگی ایک سیدھی لکیر کی مانند تھی… Ruler کے ساتھ کھینچی گئی ایک سیدھی لکیر… بیچ میں کہیں کوئی ٹیڑھ… کوئی خامی… تھی ہی نہیں… اور میرے ماں باپ کو مجھ پر فخر تھا… فخر ہوتا بھی کیوں نہ… میں ان کی اکلوتی اولاد تھی اور اس اکلوتی اولاد کی انھوں نے حتی المقدور اچھی تربیت کی تھی… اور یہ تربیت میری شخصیت میں نظر آتی تھی… اس دور میں میرے جیسی لڑکیاں کم ہوتی تھیں اور جو ہوتی تھیں وہ اپنے ماں باپ کے لیے اسی طرح قابل فخر ہوتی تھیں۔
میرے لیے تب یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ میں کسی ایسی چیز پر یقین نہ لاتی جو میرے ماں باپ مجھ سے کہتے… کوئی ایسی بات نہ مانتی جو وہ چاہتے… کوئی ایسا کام کرتی جسے وہ ناپسند کرتے… میں ان کی ہر بات کو پتھر کی لکیر سمجھ کر مانا کرتی تھی بلکہ شاید اس سے بھی بڑھ کر وحی کی طرح… میرے لیے سچ صرف وہ ہوتا تھا جو میرے والدین کی زبان سے ادا ہوتا تھا۔ باقی سب کچھ جھوٹ تھا… میری اخلاقیات کا منبع ان کی نصیحتیں اور تعلیمات بھی تھیں… انھیں پتہ تھا کہ میں ان کی ہر بات کو آنکھیں بند کر کے قبول کرتی ہوں… اسی لیے وہ مجھ سے بہت کچھ کہا کرتے تھے… میں ویسے بھی ان کی اکلوتی بیٹی تھی وہ مجھے ہر لحاظ سے پرفیکٹ دیکھنے کے خواہش مند تھے… ایک آئیڈیل اولاد جو ان کے لیے باعث افتخار ہو… سعادت مند، فرمانبردار، اکلوتی اولاد اور میں ایسی ہی تھی۔
اچھائی اور برائی کا جو ترازو میرے ماں با پ نے میرے اندر نصب کیا وہ ساری عمر ناپ تول اور جانچ پرکھ میں مصروف رہا… ہر بار اس کی پیمائش اور تخمینے میرے لیے ٹھیک ثابت ہوتے رہے… صرف ایک بار اس ترازو کے دونوں پلڑوں کا توازن خراب ہوا اور میرے لیے وہ ”ایک بار”… ”بس ایک بار” ثابت ہوئی… میں منہ کے بل گرنے کے بعد دوبارہ کبھی اٹھ نہیں سکی… میں نے اٹھنے کی کوشش بھی نہیں کی… میں جیسے آسمان سے گری تھی۔
**…**…**
انھیں دنوں ہمارے گھر میں پہلی بار Dumb کالز آنے لگیں… پہلے بابا کا خیال تھا یہ ان کے کسی سٹوڈنٹ کی شرارت ہوگی… وہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور بہت نرم طبیعت کے ہونے کے باوجود اپنے اصولوں میں بہت سخت تھے۔ شروع میں ہم سب نے ان کالز کو نظر انداز کیا، خود بابا نے بھی… مگر بعد میں وہ قدرے ٹینس رہنا شروع ہو گئے… فون ہمیشہ امی اٹھاتی تھیں یا بابا… اور دوسری طرف سے فون فوراً بند کر دیا جاتا… میں فون نہیں اٹھاتی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ وہ کالز دراصل میرے لیے آتی تھیں۔
”غلطی میری ہی تھی میں نے اپنے لیے غلط آدمی کا انتخاب کیا۔ وہ شخص اس قابل نہیں تھا کہ میں اس سے…” صوبیہ ایک بار پھر سسکیاں بھرتے ہوئے مجھے اپنے تازہ ترین ناکام افیئر کے بارے میں بتا رہی تھی۔
”میری تم سے بس ایک Request ہے۔” میں نے اس کی بات کاٹی۔
”کہ اب آئندہ تم بوائے فرینڈ بنانے کی کوشش مت کرنا۔”
”میں بوائے فرینڈز کب بنا رہی ہوں مِی مِی… میں تو صرف ایک ایسا شخص ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں جس سے میں کل کو شادی کر سکوں۔”
”اور اس کوشش میں تم پچھلے چند سالوں میں درجنوں لڑکوں کے ساتھ Dating کر چکی ہو۔” میں نے اسے یاد دلایا۔
”اب تم بار بار مجھے میرے ماضی کے حوالے سے طعنے دو گی؟” صوبیہ نے برا منایا۔
”طعنے نہیں دے رہی ہوں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ آئندہ ایسا مت کرنا… اگر تمھارے پیرنٹس کو یہ سب کچھ پتہ چل جائے تو تمھیں اندازہ ہے ان کا ردعمل کتنا شدید ہوگا۔”
”کچھ نہیں کہیں گے وہ… انھوں نے مجھے بہت آزادی دے رکھی ہے۔” صوبیہ نے لاپرواہی سے کہا اس کی سسکیاں اب تھم چکی تھیں۔
”آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم انھیں دھوکہ دو… کچھ پابندیاں انسان خود بھی تو اپنے اوپر لگاتا ہے۔” میں نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
”کہہ رہی ہوں ناکہ میں اب دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گی۔” اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
صوبیہ نے پہلی بار یہ وعدہ نہیں کیا تھا… اپنے ہر افیئر کے ختم ہونے کے بعد وہ اسی طرح روتی دھوتی پھر ایسے ہی وعدے کرتی… چند دنوں بعد اس کے تمام وعدے اور آنسو ہوا میں اُڑ جاتے… وہ پھر سے پہلے والی ڈگر پر آ جاتی… کوئی نیا لڑکا، نیا دوست، ہوٹلنگ پھرنا پھرانا، خط و کتابت، تحائف کا تبادلہ، اظہار محبت اور اس کے بعد کھیل ختم… کردار اور تماشائی اپنے اپنے گھر…
مجھے اس کی ان تمام حرکتوں سے گھن آتی تھی… جن Values کے ساتھ میری پرورش ہوئی تھی مجھے اس سے گھن آنی ہی چاہیے تھی اور شاید ایسی ہی شدید ناپسندیدگی صوبیہ میرے خیالات اور طرزِ زندگی کے لیے رکھتی تھی… اس کا خیال تھا میں جانتے بوجھتے ایک پنجرے میں رہ رہی ہوں جن میں میں نے اپنے لیے کوئی کھڑکی تک نہیں رکھی اور اس پنجرے میں مجھے مقفل کرنے والے میرے اپنے ماں باپ تھے۔
……***……
”ہیلو” میں نے فون اٹھا کر کہا۔ ”ہیلو می می بات کر رہی ہیں؟” دوسری طرف کوئی مرد تھا میں الجھی۔
”جی… آپ کون؟”
”میرے خدا۔” اس نے بے اختیار سانس لے کر کہا۔ ”آج کچھ اور مانگتا تو وہ بھی مل جاتا۔” میں سمجھی نہیں۔ میں اس کے جملے پر کچھ اور الجھی۔
”آپ کے گھر میں فون کیا آپ کے والد صاحب کے کمرے میں ہوتا ہے؟” اس نے سوال کیا یا تبصرہ مجھے اندازہ نہیں ہوا۔
”دیکھیں میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔”
”میں آپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں… مگر پہچاننے کے لیے دیکھنا ضروری ہوتا ہے اور فون پر آپ مجھے کیسے دیکھ سکتی ہیں۔” اس کا لہجہ اور انداز انتہائی شوخ تھا۔
”آپ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟” اس بار میں نے قدرے ناراضگی سے کہا۔
”بتایا تو ہے آپ سے۔”
”اپنا تعارف کروائیں۔”
”مجھے مومی کہتے ہیں۔”
”میں کسی مومی کو نہیں جانتی۔”
”اسی لیے تو فون کیا ہے تاکہ آپ کو واقف بنایا جا سکے۔”
”آپ انتہائی بدتمیز انسان ہیں دوبارہ فون مت کریں یہاں پر۔” میں نے بہت غصے میں فون بند کر دیا اور لاؤنج میں بیٹھ کر TV دیکھنے لگی۔ فون کی گھنٹی چند ہی لمحوں کے بعد ایک بار پھر بجی تھی اور میری Instinct نے مجھے بتایا کہ یہ وہی ہے۔ میں نے ریسیور اٹھایا ”ہیلو۔” ”ہیلو می می۔” وہ وہی تھا میں نے اس بار فون بند کرنے کی بجائے ریسیور ٹیبل پر رکھ دیا… زندگی میں پہلی بار میں نے ایسی کوئی کال ریسیو کی تھی اور میں کچھ دیر اس کالر کے بارے میں سوچتی رہی۔ آخر وہ میرا نام کیسے جانتا تھا؟… پھر میں نے سر جھٹکا، جو نمبر جانتا تھا اس کے لیے نام جاننا کیا مشکل تھا… مگر صرف ایک پریشانی تھی یہ میرا نِک نیم تھا اور صوبیہ کے علاوہ اور کوئی مجھے اس نام سے نہیں بلاتا تھا۔
……***……
”آخر تمھیں کنسرٹ میں جانے پر کیا اعتراض ہے؟” صوبیہ پچھلے ایک گھنٹہ سے فون پر مجھ سے مسلسل ایک ہی بات پوچھ رہی تھی۔
”ایک نہیں بہت سے اعتراضات ہیں۔” میں نے شاید 100 ویں بار اسی اطمینان سے کہا۔
”انسان کو کبھی تفریح کے لیے گھر سے باہر بھی نکلنا چاہیے ہر وقت 100 سال کی بوڑھی عورتوں کی طرح گھر میں گھس کر نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔” وہ اب طنز کر رہی تھی۔
”تمھارے ماں باپ نے بھی تمھیں بالکل اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا ہوا ہے… کہیں باہر نکلنے ہی نہیں دیتے۔” وہ اب امی اور بابا پر تنقید کر رہی تھی۔
”حالانکہ یہی تو عمر ہوتی ہے ایسی سرگرمیوں کی… اگر اس عمر میں یہ سب نہیں کرو گی تو پھر کس عمر میں کرو گی؟”
”میں کسی بھی عمر میں اس طرح کی چیزوں میں شرکت نہیں کروں گی۔” میں نے اس کی بات کاٹ کر دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔
”کیوں؟… اب کنسرٹ میں شرکت بھی کیا گناہ ہو گئی ہے؟” وہ طنزیہ انداز میں پوچھ رہی تھی۔
”مجھے نہیں پتہ کہ وہاں جانا گناہ ہے یا نہیں مگر میں اس طرح کی کمپنی کو انجوائے نہیں کرتی۔”
”کیسی کمپنی کو؟” صوبیہ نے قدرے تیز لہجے میں میری بات کاٹی۔
”تم میری بات کر رہی ہو؟” وہ غلط فہمی کا شکار ہو رہی تھی۔
”نہیں میں تمہاری کمپنی کی بات نہیں کر رہی۔” میں نے کہا۔
”میں وہاں آنے والے دوسرے لڑکے لڑکیوں کی بات کر رہی ہوں جو بغیر کسی وجہ کے ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں۔”
”اب کنسرٹ میں تو شور ہی ہو گا وہاں لوگ چپ کا روزہ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتے۔” صوبیہ نے کہا۔
”جانتی ہوں چپ کا روزہ نہیں رکھ سکتے مگر مجھے ان کے شور شرابے سننے میں کوئی دلچسپی ہے نہ ہی ان کا ناچ گانا دیکھنے میں۔” میں نے اطمینان سے کہا۔
”چلو نا یار… آخر اتنی ضد کیوں کر رہی ہو؟” وہ اب منتوں پر اتر آئی۔
”جلد آ جائیں گے… میں وعدہ کرتی ہوں۔”
”نہیں صوبیہ میں اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتی مجھے کل ویسے بھی بہت سے کام ہیں۔” میں اس کی منت سماجت سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”ایک دن کی تفریح سے تمھارے کون سے کام رک جائیں گے۔” وہ اسی انداز میں کہہ رہی تھی۔
”تمھیں پتہ ہے میں کبھی تم سے ساتھ چلنے کے لیے نہ کہتی اگر میرے ساتھ جانے کے لیے کوئی اور ہوتا مگر میرے ساتھ جانے کے لیے کوئی اور نہیں ہے اس لیے تمہاری منتیں کر رہی ہوں… چلو نا۔” اس نے ایک بار پھر منت کی۔
”اچھا اگر میں تمہاری منت کروں کہ تم وہاں نہ جاؤ تو پھر؟” میں نے جواباً کہا۔
”مجھے تم سے اسی فضول بات کی توقع تھی۔” وہ یک دم ناراض ہو کر بولی۔
”اب تم مجھے مجبور کرو گی کہ میں وہاں نہ جاؤں اور تمہاری طرح اس عمر میں گھر میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا شروع کر دوں۔”
”نہیں میں تمھیں یہ نہیں کہہ رہی کہ تم گھر میں بیٹھ کر اللہ اللہ شروع کر دو… تم ویسے ہی گھر میں بیٹھ جاؤ… یہ ضروری تو نہیں کہ تم شہر میں ہونے والا ہر کنسرٹ اٹینڈ کرو… یہ کنسرٹ چھوڑ دو… اگلی بار میری بجائے کوئی اور تمھیں ساتھ جانے کے لیے مل جائے گا تو پھر تمھیں میری منتیں نہیں کرنا پڑیں گی۔” اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتی اس نے دوسری طرف سے فون پٹخ دیا۔
……***……