دربارِدل — قسط نمبر ۱

”اے اللہ آپ کے فضل اور مہربانیوں کی کوئی کمی نہیں… میں قدم قدم پر آپ کو احسان کرتا ہوا پاتی ہوں، مجھ سے آپ کی مہربانیوں کا شکر ادا نہیں ہو پاتا… میری اس کمی کو درگزر فرما… مجھے ہر درد اور تکلیف سے محفوظ رکھ… میرے دل کے سکون اور میری خوشیوں کی حفاظت فرما۔”
تاریکی میں میں موم بتیاں جلائے بغیر بھی اس جگہ پر پہنچ سکتی تھی جہاں امی نماز پڑھنے کے بعد دعا کر رہی تھیں… میں بچپن سے یہ دعا سنتی آ رہی تھی… اور بچپن سے امی کو لاؤنج میں اسی جگہ پر نماز ادا کرتے دیکھتی آ رہی تھی کہ اب اگر مجھے آنکھیں بند کر کے گھر میں کسی بھی جگہ کھڑا کر دیا جاتا تو میں صرف امی کی آواز کے سہارے کسی چیز کو چھوئے بغیر مقناطیس کی طرح اس جگہ پہنچ جاتی جہاں وہ نماز ادا کرتی تھیں… وہ جائے نماز جیسے میرے وجود کے لیے لوہا تھا یا پھر مقناطیس جو مجھے کھینچتا تھا… اور وہ جائے نماز واحد جگہ نہیں تھی جہاں میں آنکھیں بند کیے پہنچ سکتی تھی… گھر میں دوسری جگہ کچن کی وہ کیبنٹ تھی جہاں موم بتیاں ہوتی تھیں اور میں تاریکی میں بھی اس کیبنٹ کو کھول کر بغیر ٹٹولے باری باری ساری موم بتیاں نکال سکتی تھی… بغیر انھیں الٹا سیدھا کیے، بغیر انھیں گرائے… اور پھر ماچس کی تیلی سے ان کو روشن کرنے کے لیے بھی مجھے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ میں دیکھے بغیر ماچس کھولتی… ٹٹولے بغیر تیلی نکالتی اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اسے ٹیڑھا کر کے رگڑتی، مجھے کبھی دوسری کوشش نہیں کرنی پڑی تھی… پہلی بار میں ہی میں اندھیرے کو روشن کر دیا کرتی تھی… تب ”روشنی” جیسے ”میری مٹھی” میں تھی…
اور کبھی اگر ایسا ہوتا کہ امی نماز پڑھ رہی ہوتیں اور بجلی چلی جاتی تو میں ہر ٹارچ ہر بیٹری کو چھوڑ کر صرف ان موم بتیوں کے پاس ہی جاتی تھی، انھیں روشن کرتی اور امی کے پاس لے آتی… روشنی، جائے نماز، دعا اور… خدا، گِھر کے اس ایک کونے میں سب کچھ تھا۔
خدا سے میرا پہلا تعارف میری ماں نے کروایا تھا… تب میں کتنے سال کی تھی؟… یاد نہیں… ہاں مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ میں بڑی لگن کے ساتھ خدا کو یاد کرتی تھی اور اس سے دعا مانگا کرتی تھی… چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے… آج بابا گھر جلدی آ جائیں… آج بابا مجھے سیر کے لیے لے جائیں… آج میں بیمار ہو جاؤں تاکہ مجھے سکول نہ جانا پڑے… آج امی مجھے آئس کریم کھلا دیں… آج بابا میری پاکٹ منی بڑھا دیں… آج امی ناشتہ کی ٹیبل پر مجھے دودھ کا گلاس پینے کے لیے نہ دیں… بابا مجھے سکول کے ٹرپ کے ساتھ باہر جانے دیں… آج Teacher میرے ہوم ورک پر سٹار دیں… آج میں سکول میں ہونے والی ریس میں جیت جاؤں… آج بابا ہمیں ماموں کے گھر لے جائیں… آج میری دوست مجھ سے ناراضگی ختم کر لے…
مجھے یاد نہیں تب میری کتنی خواہشات کے پورا ہونے میں دعا کا عمل دخل تھا مگر مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ ہر بار دعا قبول نہ ہونے پر میں امی سے شکایت ضرور کیا کرتی تھی۔
”اللہ نے میری دعا قبول کیوں نہیں کی؟” میں شکایت لے کر امی کے پاس جاتی۔ وہ مسکرا دیتیں۔
”کیا دعا کی ہے تم نے؟” وہ مجھ سے پوچھتیں۔
”میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ میں فرسٹ آؤں۔” میں بڑے دکھ سے بتانا شروع کرتی۔
”مگر دیکھیں میں فرسٹ نہیں آئی میں سیکنڈ آئی ہوں۔” میں انھیں اپنا رزلٹ کارڈ تھماتے ہوئے کہتی۔
”مگر سیکنڈ تو آئی ہو… پوزیشن تو آئی ہے۔” وہ میرا رزلٹ کارڈ دیکھتے ہوئے کہتیں۔





”مگر میں نے سیکنڈ آنے کے لیے تو دعا نہیں کی… حالانکہ آپ کہتی تھیں کہ وہ ہمیشہ دعا قبول کرتے ہیں۔” میں اصرار کرتی۔
”آخر انھوں نے میری دعا کیوں قبول نہیں کی؟… کیا وہ Busy تھے اس وقت؟…”
امی ہنس دیتیں۔ ”وہ تو ہر وقت Busy ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت لوگوں کی دعائیں قبول کر رہے ہوتے ہیں” وہ بتاتیں۔
”مگر میری دعا؟” میری سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوتی۔
”ہو سکتا ہے تم نے دل سے دعا نہ کی ہو۔” امی یک دم کچھ سنجیدہ ہو کر کہتیں۔ میں حیرانگی سے امی کو دیکھتی۔
”یہ دل سے دعا کیسے مانگتے ہیں؟ میں سوچ میں پڑ جاتی۔ مجھے امی کی بات عجیب لگتی تھی… دل سے دعا… میں اتنی کم عمر تھی کہ دل اور زبان کے فرق کو نہیں سمجھتی تھی اور مجھے یہ تشویش بھی ہوتی تھی کہ میں واقعی صرف زبان سے بول بول کر دعا مانگا کرتی تھی… تو پھر کیا دعا مانگنے کا طریقہ کوئی اور تھا؟… کوئی ایسا طریقہ جس سے دعائیں واقعی قبول ہو جاتی تھیں۔
مجھے تجسس ہوتا اور میں اپنی سیکنڈ پوزیشن کو بھول جاتی۔
”دل سے دعا اس طرح مانگتے ہیں کہ انسان ہر وقت صرف وہی ایک چیز مانگے جو اسے چاہیے ہو۔” امی مجھے بڑی سنجیدگی سے بتانا شروع کرتیں۔
”اور اگر ایک سے زیادہ چیزیں چاہیے ہوں؟” مجھے یک دم اُلجھن ہوتی۔
”مگر ایک وقت میں تو کوئی ایک ہی چیز بہت زیادہ چاہیے ہوتی ہے… دوسری کسی بھی چیز سے زیادہ۔” امی کہتیں۔
”کوئی ایسی چیز یا دعا جس کے آگے باقی تمام چیزیں اور دعائیں غیر ضروری لگیں۔” امی کہہ رہی تھیں۔
”پھر” میں جلدی سے پوچھتی ”اور دعا کرتے ہوئے ذہن میں کوئی دوسری چیز نہیں آنی چاہیے… کوئی بھی دوسری چیز۔” امی مجھے سمجھاتیں اور میں سمجھ جاتی۔
اگلے کئی گھنٹے میں امی کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہتی۔ ”واقعی میری دعا کیسے قبول ہو سکتی تھی… میں تو دعا مانگتے ہوئے ساتھ اور بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھی… دوستوں کے بارے میں… امی اور بابا کے بارے میں… اپنے کھلونوں کے بارے میں… سکول کے بارے میں… اپنی کتابوں کے بارے میں… اپنے گھر کے بارے میں… سوچنے کے لیے چیزوں کا ایک انبار… ایک جِم غفیر ہوتا تھا اس وقت میرے پاس۔
”ٹھیک ہے اگلی ٹرم میں میں دل سے دعا مانگوں گی صرف زبان سے نہیں۔” میں امی کی وضاحت سے مطمئن ہوتے ہوئے طے کرتی۔
اگلی ٹرم میں میں ساری دعاؤں کے باوجود سیکنڈ بھی نہیں آئی… میری تھرڈ پوزیشن تھی اور میں بے حد خفا۔
”مگر اس بار تو میں نے دل سے دعا مانگی تھی۔” میں ایک بار پھر امی سے شکایت کرتی۔ ”ہو سکتا ہے اس بار کسی اور نے تم سے زیادہ دل سے اللہ سے دعا مانگی ہو۔” امی کہتیں۔ میں ناراض ہوتی۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟” مجھے امی کی بات کی سمجھ نہیں آئی۔ ”کیا اب اللہ بھی دعاؤں کا Competition کروایا کریں گے؟” میں پوچھتی۔ ”آپ تو کہتی ہیں کہ وہ ہر ایک کی دعا قبول کرتے ہیں۔” میری ناراضگی میں اور اضافہ ہوتا۔
”لیکن اگر ایک چیز ایک ہی وقت میں دو لوگ مانگ رہے ہوں تو پھر یہ تو طے کرنا پڑے گا کہ کس کی دعا قبول کرنی چاہیے اور کس کی نہیں۔” امی مجھے سمجھاتیں۔ مجھے اس بار امی کی فلاسفی سمجھ میں نہیں آئی۔ میرے نزدیک ایک چیز دو لوگوں کے مانگنے کا مطلب تھا کہ اللہ مجھے اور دوسری لڑکی دونوں کو فرسٹ پوزیشن دلوا دیتے اور بس… بات ختم… مگر اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ زندگی میں ہر چیز دو لوگوں میں برابر بانٹی جا سکتی ہے نہ ہر جگہ دو لوگوں کی جگہ ہوتی ہے۔
”ہو سکتا ہے فرسٹ آنے والی لڑکی نے تم سے زیادہ دعا مانگی ہو۔” امی اپنی بات کو جاری رکھتیں۔ ”ہو سکتا ہے اس نے تم سے زیادہ اچھی طرح دعا مانگی ہو۔” امی کہتی جاتیں۔ میں ان کی بات سے متفق نہ ہونے کے باوجود ان کی بات سنتی رہتی۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ کوئی دوسری لڑکی مجھ سے زیادہ اچھی دعا مانگ سکے؟ میں خفگی سے سوچتی۔ اور یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دوسری لڑکی ہر وقت ہی دعا مانگتی رہی ہو؟ میں اس پوائنٹ پر بھی متفق نہیں تھی۔ مگر پھر یہ کیسے ہو گیا کہ میں فرسٹ نہیں آئی اور وہ دوسری لڑکی فرسٹ آ گئی۔ مجھے یہ حقیقت الجھاتی۔ ”اچھا ٹھیک ہے اگلی بار میں اس سے بھی زیادہ دل کے ساتھ دعا کروں گی۔” میں ایک بار پھر سے پہلے کی طرح طے کرتی۔
میں نے زندگی میں دعا کرنا اسی طرح سیکھا تھا اور مجھے یقین تھا کہ مجھے دعا کرنا آ گیا تھا… اور وقت کے ساتھ ساتھ میری دعا میں اثر بھی آ گیا تھا… کم از کم مجھے تو اس وقت یہی لگتا تھا… اور صرف مجھ کو نہیں اور بھی بہت سے لوگوں کو… اور جس شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ اس کی دعا میں اثر ہے اس کے پاؤں پھر زمین پر کہاں ٹکتے ہیں۔ میرے پاؤں بھی زمین پر ٹک نہیں رہے تھے۔
**…**…**
”میں محبت پر یقین ہی نہیں کرتی تو محبت کرنے کا سوال کہاں سے اٹھتا ہے؟” میں نے صوبیہ سے کہا۔
”تو یہ ساری دنیا پاگل ہے جو محبت کے بارے میں لکھ لکھ کر اور بول بول کر اپنا دماغ ضائع کر رہی ہے؟”۔
”ساری دنیا صرف لڑکے اور لڑکی کے درمیان والی محبت کی بات نہیں کرتی۔” میں نے اس کی جھنجھلاہٹ کو انجوائے کرتے ہوئے کہا۔
”تو یہ جو سسّی پنوں، مرزا صاحباں، رومیو جولیٹ، ہیر رانجھا… یہ سب لوگ تھے… یہ کیا تھے؟”
”پتہ نہیں کیا تھے مگر جو کام یہ کر رہے تھے وہ غلط تھا… غلط نہ ہوتا تو ان کا اتنا برا انجام نہ ہوتا جتنا ہوا تھا۔” دوسری طرف سے صوبیہ کم از کم ایک منٹ کچھ بول نہیں پائی تھی۔ شاید اس نے زندگی میں ان لوگوں کو ملامت کا نشانہ بنتے ہوئے پہلی بار سنا تھا جن کی محبت کے بارے میں لوگ باتیں کر کر کے مر رہے تھے۔
”مجھے ایک بات بتاؤ؟… تم زندگی میں کبھی کسی سے محبت نہیں کرو گی؟” اس نے بالآخر اپنے ہوش و حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔
“Never” میں نے مزے سے کہا۔
”چاہے کوئی مرد تمھیں کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے؟” اس نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میں مردوں کو کبھی اتنے غور سے دیکھتی ہی نہیں کہ مجھے وہ اچھے لگنے لگیں۔” میں نے اسے اور چڑایا۔
”فرض کرو تم کسی کا چہرہ نہیں دیکھتی پھر بھی تمھیں اس سے محبت ہو جاتی ہے۔” وہ سنجیدہ تھی۔
”یہ کیسی محبت ہے جو چہرہ بھی نہیں دیکھتی؟” میں نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”محبت واقعی چہرہ بھی نہیں دیکھتی کچھ بھی نہیں دیکھتی… اگر یہ محبت ہے تو۔” میں نے بے اختیار جماہی لی۔
”اچھا واقعی پھر؟” مجھے محبت کے بارے میں ڈسکشن میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور صوبیہ کو اس ڈسکشن کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔
”اب تم یہ مت کہنا کہ اگر تم نے کبھی اس کی آواز بھی نہ سنی ہو… اس کا نام تک پتہ نہ ہو اور پھر بھی تمھیں محبت ہو جائے تو۔”
میں نے مزید مذاق اڑایا۔
”محبت ایسے بھی ہو سکتی ہے۔” اس نے اسی انداز میں کہا۔
”تو پھر یہ محبت نہیں تماشہ ہے۔” میں نے لاپرواہی سے کہا۔
”اور مجھے ایسے کھیل تماشوں میں دلچسپی نہیں ہے۔”
صوبیہ نے میرا چہرہ ناراضگی سے دیکھا۔ ”محبت کے بارے میں تمہارا رویہ ابنارمل ہے۔” اس نے کہا۔ میں نے ہلکی سی ناراضگی کے ساتھ اسے دیکھا۔
”نہیں محبت کے بارے میں تمہارا رویہ ابنارمل ہے۔”
”محبت ایک حقیقت ہے۔” اس نے اصرار کیا۔
”میں نے کب کہا کہ یہ ایک Myth ہے؟” میرا انداز برقرار تھا۔
”پھر تم اس طرح کی باتیں کیوں کر رہی ہو؟” اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”کس طرح کی باتیں؟” میں نے جواباً پوچھا۔
”تم محبت کا مذاق اڑاتی ہو۔”
”نہیں میں محبت کرنے والوں اور ان کی حرکتوں کا مذاق اڑاتی ہوں۔” میں نے اس کے جملے کی تصحیح کی۔
”تمھارے نزدیک محبت صرف وہ ہے جو انسان اپنے ماں باپ سے کرتا ہے۔” اس بار صوبیہ کا انداز تمسخر لیے ہوئے تھا۔
”ہاں۔” میں نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا۔
”اورجو میں کر رہی ہوں۔” میں نے اس کی بات کاٹی۔
”اور جو تم وقتاً فوقتاً مختلف لوگوں کے ساتھ کرتی ہو… اسے رومانس کہتے ہیں یا فلرٹ۔” وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”ہر آدمی اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ محبت جیسے آفاقی جذبے کو سمجھ سکے اور اسے اپنے دل میں جگہ دے سکے۔” صوبیہ نے ناراضگی سے کہا۔
”محبت خوش قسمت لوگوں کے لیے ہوتی ہے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے لیے نہیں ہوتی۔”
”اچھا؟” میں مذاق اڑانے والے انداز میں کہتی… مجھے صوبیہ کی باتوں سے کچھ زیادہ فرق پڑا تھا نہ اثر ہوا تھا… میں جانتی تھی کہ لاشعوری اور غیر ارادی طور پر میں اکثر اسے اپنی باتوں سے Irritate کر دیا کرتی تھی اور وہ اپنے ردعمل کا اظہار پھر اسی طرح کے جملوں سے کرتی تھی۔
ان دنوں محبت کے بارے میں میرے خیالات ایسے ہی تھے اور میں ان خیالات کا اظہار کرنے سے چوکتی بھی نہیں تھی… اور یہ اظہار بہت سے لوگوں کو ناراض کر دیا کرتا تھا… خاص طور پر وہ لڑکیاں جو محبت کو مقدس گائے سمجھا کرتی تھیں ناراض ہونے والوں میں میری فرینڈز بھی شامل ہوتی تھیں کیونکہ بعض دفعہ انھیں لگتا تھا میں ان کے کردار پر انگلی اٹھا رہی ہوں۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا… میں تو صرف اپنی رائے کا اظہار کرتی تھی وہ بھی تب جب مجھے ایسا کرنے کے لیے کہا جاتا۔
……***……




Loading

Read Previous

لال جوڑا — علینہ ملک

Read Next

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!