”مگر تم نے فون پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟” صوبیہ نے شکوہ کیا۔
”مجھے یاد نہیں رہا۔” میں نے بے خیالی میں کہا۔
ان تینوں نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔ ”تمھیں یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ تم بیمار ہو… تمھیں بخار ہے؟” ثنا نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
مجھے اپنے جملے کی بے ربطگی کا احساس ہوا۔ ”نہیں اصل میں میں تم لوگوں کو بتا کر تمھیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔” میں نے اپنے جملے کی تصحیح کی۔
”ہم پریشان نہیں ہوتے… ہم لوگ تمہاری عیادت کے لیے آتے۔” سمیعہ نے کہا۔
”مجھے دراصل معمولی بخار تھا۔” میں نے ایک بار پھر جھوٹ بولا۔
تینوں نے ایک بار پھر حیرانگی سے میرا چہرہ دیکھا۔ ”معمولی بخار میں انسان اتنا کمزور نہیں ہوتا جتنی کمزور تم لگ رہی ہو۔” صوبیہ نے ناراضگی سے کہا۔
میں اب اس بے کار بحث سے اُلجھ رہی تھی۔ وہ آخر اس موضوع کو چھوڑ کیوں نہیں رہی تھیں۔ میں بیمار تھی تو بس تھی پھر ان کا اس سے کیا تعلق تھا؟… اور ان کا میری عیادت کے لیے آنا بھی تو ضروری نہیں تھا۔ میرا دل چاہا میں یہ کہوں پھر کہتے کہتے میں رُک گئی… کیا میں انھیں یہ کہتی کہ میری عیادت کے لیے ان کا آنا ضروری نہیں تھا؟… کیا میں اپنی فرینڈز کو یہ کہہ سکتی تھی… مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ایک کے بعد ایک عجیب باتیں میرے ذہن میں آ رہی تھیں… میری ذہنی حالت واقعی ابتر تھی۔
وہ ایک دن میں نے کالج میں بمشکل گزارا… کئی بار تو میں کالج آنے پر پچھتائی… کیونکہ ذہنی طور پر میں کالج میں نہیں تھی… میں اپنے لاؤنج میں فون کے سیٹ کے پاس تھی… اس فون کال کا انتظار کرتے ہوئے جو کبھی بھی آ سکتی تھی… اور کبھی بھی آ جایا کرتی تھی۔
میری فرینڈز نے سارا دن آپس میں میرے بارے میں کیا تبصرے کیے… میں نہیں جانتی اور مجھے ان کو جاننے میں دلچسپی تھی بھی نہیں… مجھے صرف ایک چیز میں دلچسپی تھی۔
”میرا کوئی فون آیا؟” میں نے گھر آتے ہی امی سے کہا اور پھر مجھے اپنے سوال کے بے تکے ہونے کا احساس ہوا۔ کیا مومی فون کر کے امی کو یہ کہتا کہ اسے مجھ سے بات کرنی ہے۔ یا کوئی پیغام دینا ہے۔ ”نہیں۔” امی نے کہا۔ ”کیا کسی کا فون آنا تھا؟” ”نہیں۔” میں نے کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
وہ میری زندگی کے سب سے تکلیف دہ دن تھے… مجھے نہیں لگتا تھا کہ اس سے بڑھ کر تکلیف مجھے دوبارہ کبھی زندگی میں مل سکے گی… بے معنی اور لاحاصل انتظار… کوئی اس کی اذیت سے واقف نہیں ہے… خوف اور بے یقینی میں مکمل طور پر ان کی گرفت میں تھی… امید اور ناامیدی کے درمیان کہیں جھولتی ہوئی… مہر سمیع تو کہیں کھو گئی تھی… کوئی اور تھا جواب میرے وجود پر حاوی تھا… میری زندگی پر قابض تھا…
میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ دوسروں کو نصیحتیں کرتے کرتے کبھی میں خود اس موڑ پر آ کر کھڑی ہو جاؤں گی کہ خود مجھ پر دوسروں کی باتیں بے اثر ہونے لگیں گی… خود میں اسی دلدل میں جا پھنسوں گی۔ جس سے میں دوسروں کو خبردارکیا کرتی تھی… جہاں سے میں دوسروں کو کھینچنے کی کوشش کیا کرتی تھی… یہ نہیں تھا کہ مجھے صرف غم تھا… پچھتاوا نہیں تھا… مجھے پچھتاوا بھی تھا… اگر پچھتاوے کا کوئی مادی وجود ہوتا تو دنیا کو مہر سمیع کے گرد صرف پچھتاوا ہی نظر آتا۔ پر بات صرف اتنی تھی کہ محبت کی اذیت غلطی کے پچھتاوے سے کہیں زیادہ تھی… وہ نہ ہوتی تو پھر صرف پچھتاوا ہی ہوتا۔ میں مومی کو نہ کھوتی تو میں کبھی کسی بھی طرح اس غلطی کو Justify کرنے کی کوشش نہ کرتی جو میں نے کی تھی چاہے مومی سے میری شادی ہوتی یا نہ ہوتی… مگر اب اس کے ایک دم یوں غائب ہو جانے سے سب کچھ بدل گیا تھا… میرا Code of ethics بھی… پتہ نہیں کیوں؟… اور کب؟… میں نے اپنی غلطی کو کسی نہ کسی طرح Justify کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔
”محبت… ہاں… سب ہی تو محبت کرتے ہیں… پھر میں نے کیا غلط کیا؟” میں اپنی ذات کے ساتھ اختلاف رائے رکھتی اپنے Code of ethics کے ساتھ Argue کرنے میں مصروف تھی۔ ”اور پھر محبت تو کی بھی نہیں جاتی… یہ ہو جاتی ہے۔” میں ایک اور دلیل پیش کرتی۔ ”پھر اس میں میری غلطی کیا ہے؟… میں نے تو… میں نے تو اپنے آپ کو ہر لحاظ سے بچانے کی کوشش کی تھی… مومی کو جتنا Resist کر سکتی تھی… میں نے کیا تھا… مگر یہ سب کچھ ایسے ہی ہوتا تھا۔” میرا لہجہ کمزور ہوتا جاتا… میری وضاحتیں بڑھتی جاتیں…
انسان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب وہ خود اپنے آپ کو Contradict کر رہا ہو اور اسے یہ احساس بھی ہو جائے کہ وہ ایسا کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس کی آواز لڑکھڑانے لگتی ہے اور وہ خود آئینے میں اپنی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے کتراتا ہے۔
میں بھی اسی احساس سے دوچار تھی… چاہتی تھی دنیا میں مجھے وہ کونہ نظر آ جائے جہاں میں چھپ جاؤں… اپنی غلطی کے ساتھ… محبت کی اس اذیت کے ساتھ جس نے میرے وجود کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا تھا… حرکت کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔
مجھے نہیں پتہ میری ذہنی ابتری کو میرے ماں باپ نے کس طرح Interpret کیا تھا… میں نہیں جانتی کیا وہ واقعی میری اس بات پر یقین لے آئے تھے کہ یہ سب TV پر دیکھے جانے والے ایک ڈرامے کا نتیجہ تھا… وہ یقین نہیں بھی لائے تھے تب بھی انھوں نے کبھی مجھے اس بات کو جتایا نہیں… پر تب میری یہ خواہش ضرور ہوتی تھی کہ وہ ایک بار پھر مجھ سے مومی کے بارے میں پوچھیں اور اس بار میں انھیں سب کچھ سچ بتا دوں… شاید وہ سچ اس ذہنی فشار سے مجھے نجات دے دے جس کا میں شکار تھی… شاید تب وہ مومی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے… میری محبت میں… مگر مجھ میں اتنا حوصلہ تھا نہ اتنی اخلاقی جرأت کہ میں کبھی واقعی خود ان کے سامنے بیٹھ کر ان کو یہ سب کچھ بتا دیتی… اتنا حوصلہ ہوتا تو میں پہلی بار ہی ان سے جھوٹ کیوں بولتی۔
میری حالت نے ان کو پریشان کیا تھا اور پھر اسی پریشانی میں انھوں نے میرے بارے میں کچھ اور سوچنا شروع کر دیا تھا… وہی سب کچھ جو ایسی صورت حال میں ماں باپ اپنی بیٹیوں کے بارے میں اکثر سوچا کرتے ہیں۔
……***……
”مہر… مجھے ایک بات کرنی ہے تم سے۔” اس رات امی پچھلے ایک ہفتے کی طرح پھونکیں مارنے کے بعد میرے کمرے سے جانے کی بجائے میرے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔ میں نے حیرانگی سے ان کو دیکھا۔
”جی؟” ”آج صفیہ آئی تھی۔”
”آپ کی دوست؟”
”ہاں… اس کا بیٹا Canada جا رہا ہے MBA کے لیے۔” امی تمہید باندھ رہی تھیں۔
”وہ چاہتی ہے جانے سے پہلے اس کی منگنی کر دے۔”
”تو؟” امی میرے سوال پر چند لمحوں کے لیے خاموش رہیں پھر انھوں نے کہا۔
”وہ تمھارے لیے مراد کا پرپوزل دے کر گئی ہے۔” میرے دل کی دھڑکن رُک گئی۔
امی نے پہلی بار مجھ سے کسی پرپوزل کی بات کی تھی… اس سے پہلے جب بھی کوئی میرے سامنے ان سے یا بابا سے اس طرح کی بات کرتا تو وہ دونوں صاف کہہ دیتے تھے کہ ابھی انھیں میری شادی نہیں کرنی… اور اب وہ مجھ سے اس پرپوزل کی بات کر رہی تھیں۔
”تمھارے بابا سے بھی اُس نے بات کی… اب تمھارے بابا کی خواہش تھی کہ ہم تمھارے لیے اس لڑکے کو دیکھیں… اور اگر ممکن ہو تو… طے کر دیں مگر تمھارے بابا کہہ رہے تھے کہ میں پہلے تم سے بات کروں۔” امی میرے کانوں میں جیسے پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیل رہی تھیں… میں مومی کے ملنے کی دعائیں مانگ رہی تھی اور وہ… وہ میرے لیے کسی اور مرد کے بارے میں سوچ رہی تھیں… میں نہیں جانتی مجھے کیا ہوا بس میں نے یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ امی گھبرا گئیں۔
پتہ نہیں… آنسوؤں سے میں ہمیشہ کیا صاف کر دینے کی کوشش کرتی ہوں… قسمت کے لکھے کو؟ پتہ نہیں… میں اتنا روئی تھی کہ امی مجھ سے معذرت کرنے لگی تھی۔
”تم نہیں چاہتی تو کوئی بات نہیں میں صفیہ کو انکار کر دیتی ہوں… تم سمجھو میں نے ایسی کوئی بات ہی نہیں کی۔” وہ بمشکل مجھے چپ کروا کے بے حد پریشان اور نادم کمرے سے چلی گئیں۔
میں ان کے جانے کے بعد پھر رونے لگی وہ مجھ سے کہہ کر گئی تھیں۔ ”یہ نہیں… نہ سہی… اور رشتے مل جائیں گے۔” ”اور رشتے۔” میں نے بے یقینی سے سوچا… اور میں کتنی بار اس طرح آنسو بہا کر اپنے ماں باپ کو بلیک میل کر سکوں گی؟ شادی؟… مجھے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرنی پڑے گی؟ اس سے محبت نہ ہونے کے باوجود… مومی سے محبت کرنے کے باوجود؟… پھر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا؟… اتنا غم… اتنا غصہ… اتنا جنون… میرے اندر جیسے کوئی طوفان برپا ہو گیا تھا… میں نے اس رات اللہ سے بے پناہ شکوے کیے… بے پناہ… زندگی میں اگر کبھی میں نے کوئی ذرا سی پریشانی اور تکلیف بھی اٹھائی تھی تو میں نے اس کے بارے میں بھی اس کو بتایا… بلکہ جتایا… کہ وہ اب تک میرے ساتھ کیا کرتا رہا ہے اور میں… پھر بھی اس سے محبت کرتی رہی ہوں… اس کی عبادت کرتی رہی ہوں… اور اب… اب جب میں اپنی زندگی کے سب سے مشکل مرحلے میں تھی تو اللہ… اللہ… کیا اللہ میری دعا قبول نہیں کرے گا؟… کیا وہ مجھے خالی ہاتھ لوٹائے گا… مجھے ٹھیک سے یاد نہیں اس رات میں نے اللہ سے کیا کیا کہا تھا… بس کہا تھا جو دل میں آیا کہا تھا۔
میری دنیا نہیں اُجڑی تھی دل اُجڑا تھا، میں بھلا چپ کیسے رہتی… کوئی اور مرد… مومی کی جگہ کوئی اور مرد… میری زندگی میں مومی کی جگہ کوئی اور مرد ہو… بعض دفعہ انسان کا اپنے آپ سے کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ اس رات میرے ساتھ یہی ہوا تھا۔ میری زندگی Transform ہو گئی تھی۔ میں ساری رات بیٹھی یہی سوچتی رہی تھی کہ اللہ کے نزدیک میری کیا حیثیت کیا اہمیت ہے؟… آخر مہر سمیع ہے کیا اس کے لیے جس کی وہ پرواہ کرتا۔
ہم سب اللہ سے اپنے تعلق کو دعا قبول ہونے سے پرکھتے ہیں… دعا قبول ہو تو سب کچھ ٹھیک ہے… قبول نہیں ہوتی تو… آخر کیوں نہیں ہوتی۔ تو کیا تعلق نہیں ہے؟… کچھ بھی نہیں ہے؟… میں نے بھی یہی سوچا تھا اگر سیدھے راستے پر چلتے ہوئے بھی مجھے وہ نہیں ملنا تھا جو مجھے چاہیے تھا تو پھر سیدھا راستہ کیوں؟… صوبیہ جیسی لڑکی سال میں کبھی ایک بار بھی اللہ کے سامنے سر نہیں جھکاتی تھی ان تمام احکامات کی خلاف ورزی کرتی تھی جو اللہ نے دیے تھے… جسم کو عیاں کرنے والے لباس پہنتی تھی… مردوں کے ساتھ کھلم کھلا گھومتی تھی… زندگی کو عیش و عشرت میں گزارتی تھی اور پھر اپنی خواہشات کے پورا نہ ہونے پر میرے سامنے روتی تھی… اور میں مہر سمیع جس نے اپنے جسم کو اس طرح چھپایا جیسے خدا نے چاہا… جو روح کی گہرائی سے اللہ سے محبت کرتی تھی… میں نے ہر کبیرہ گناہ سے اپنے آپ کو بچایا… اور میں… میں بھی زندگی میں صوبیہ کی طرح خالی ہاتھ بیٹھی تھی… تو پھر سیدھا رستہ کیوں؟… کیوں میں اس سیدھے رستے کے لیے اپنی خواہشات مارتی جو مجھے ”اجر” نہیں دے سکتا تھا… کون جنت اور دوزخ کی فکر کرے… اگر زندگی صرف ایک خواہش پوری ہونے سے جنت اور نہ پوری ہونے سے دنیا میں ہی دوزخ میں بدل جائے…
اور اس رات میں بہت پچھتائی… ہر اس کام کے نہ کرنے پر جسے میں کرنا چاہتی تھی اور صرف اس لیے نہ کرتی رہی کہ اللہ ناراض ہوگا… مجھے پچھتاوا ہوا کہ میں… میں مومی کی خواہش پر اس سے کیوں نہیں ملی… آخر کیوں؟… میں کیوں اس ایکسیڈنٹ پر فوراً گھر سے نہ چلی گئی… گھر بھاڑ میں جاتا مگر مومی تو رہتا… ماں باپ کی عزت کو میں نے ہوّا بنا کر سر پر کیوں سوار کر لیا… محبت نام کی شے سے میں کیوں خوف کھاتی رہی… دنیا میں رہ کر ”دنیا” سے کیوں بھاگتی رہی؟… ہر پچھتاوا ہر ملال ہر رنج اس رات میرے سامنے مجسم آتا رہا… ایسا نہیں تھا کہ اس رات اور اس کے بعد مجھے خدا کے وجود پر یقین نہیں رہا تھا… مجھے یقین تھا… صرف یہ ہواتھا کہ میرے اور اس کے درمیان شکوے کی خلیج حائل ہو گئی تھی اور میں نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش نہیں کی… میں نے اسے بڑھنے دیا… اتنا… اتنا… اتنا… کہ پھر خدا ”محسوس” ہونا بند ہو گیا، نظر تو وہ پہلے ہی نہیں آتا تھا… اور ”ضرورت” اب ضرورت کسے رہی تھی اس کی…
اس رات میں نے بیٹھ کر طے کیا کہ اب مجھے کیسی زندگی گزارنی تھی… اور پھر اس کے بعد میں صرف ایک ”جسم” بن گئی… روح کو مار دیا میں نے…
**…**…**