میرے موڈ میں یک دم ہی خوشگوار تبدیلی آئی تھی… اور اس تبدیلی کو ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے میری فرینڈز نے نوٹ کیا تھا۔
”آج کل بڑا چہکنے لگی ہو تم مہر۔” اس دن کالج گراؤنڈ میں آ کر بیٹھتے ہی سمیعہ نے سب سے پہلے مجھے کہا۔
”ہاں آج کل واقعی یہ بڑی خوش رہنے لگی ہے ورنہ پچھلے کچھ ہفتوں سے تو بالکل چپ ہی ہو گئی تھی۔” اس بار ثنا نے تبصرہ کیا۔ میں صرف مسکراتی رہی۔
”آخر کیا بات ہے کہ تمھارے قہقہے بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔” میں صوبیہ کی بات پر یک دم ہنس پڑی۔
”میں تو ہمیشہ ہی ایسے ہی ہنستی تھی صرف تم لوگوں نے اب نوٹ کیا ہے۔” میں نے جھوٹ بولا۔
”خیر یہ تو ٹھیک نہیں ہے مانا کہ تم ہنستی پہلے بھی تھی مگر اب تمہاری ہنسی کچھ زیادہ خوبصورت ہو گئی ہے۔” سمیعہ نے میرے چہرے کا غور سے جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”اور تمہارا چہرہ بھی بہت چمکنے لگا ہے آج کل… رنگت بھی دیکھو کیسے سرخ ہو رہی ہے۔” اس بار یہ ثنا تھی۔
”اب یا تو تم کوئی بہت اچھی فاؤنڈیشن یا بلش آن استعمال کرنے لگی ہو۔” صوبیہ سے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
”یا پھر یہ مان لو کہ تم واقعی آج کل بہت خوبصورت ہو گئی ہو… اور تم پر یہ فرض ہے کہ تم اپنی فرینڈز کو اپنی خوبصورتی کے راز سے آگاہ کرو۔” صوبیہ نے جیسے حکم دیا۔
”کوئی راز نہیں ہے… بس میں خوش رہتی ہوں اس لیے خوبصورت لگ رہی ہوں تم لوگوں کو۔” میں ایک بار پھر بے اختیار ہنسی۔
”تو ہم کیا ہر وقت روتے رہتے ہیں؟” سمیعہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔
”کہ ہمارے چہرے پر نحوست طاری رہتی ہے… نہیں مہر سچ سچ بتاؤ… کیا چیز ہے…” سمیعہ نے میرے کندھے کو جھنجھوڑا۔
”کوئی چیز نہیں ہے سچ کہہ رہی ہوں۔” میں نے اپنا کندھا چھڑاتے ہوئے کہا۔
”کہیں تمھارے پیرنٹس تمہاری بات تو طے نہیں کر رہے؟” ثنا نے یک دم اپنا خیال ظاہر کیا۔ میرا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”عجیب باتیں مت کرو… ایسا کچھ نہیں ہو رہا… اور ہوگا بھی تو سب سے پہلے تم لوگوں کو ہی بتاؤں گی۔” میں نے ہلکی سی خفگی کے ساتھ کہا مگر وہ واقعی اُڑتی چڑیا کے پَر گِن لیتی تھیں۔ میں نے اپنے دل میں اعتراف کیا۔
”تم کہتی ہو تو مان لیتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں مگر اس بات پر مجھے یقین نہیں آ رہا کہ منگنی طے ہونے پر سب سے پہلے تم ہمیں بتاؤ گی۔” صوبیہ نے مشکوک سے لہجے میں کہا۔
”مجھے تو لگتا ہے تم تو ہمیں اپنی شادی پر بھی نہیں بلاؤ گی۔”
”فضول باتیں مت کرو… تمھیں ہمیشہ میرے بارے میں ایسے ہی خدشات ستاتے رہتے ہیں۔” میں اس بار واقعی صوبیہ سے ناراض ہو گئی۔
”کبھی ان دونوں سے بھی ایسی باتیں کیا کرو… ہمیشہ مجھے ہی یہ سب کچھ کیوں کہتی رہتی ہو۔” میں نے سمیعہ اور ثنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ان دونوں کے بارے میں تو سب کچھ مجھے پہلے ہی پتہ چلتا رہتا ہے بس ایک تمہارا پتہ نہیں چلتا۔” صوبیہ نے اس بار جیسے پھر سوچ کر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”کینٹین چلیں؟” میں نے یک دم بات کا موضوع بدلا۔
وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں ان دنوں میں واقعی بہت خوش رہنے لگی تھی… میرے کندھوں سے جیسے کوئی احساسِ جرم، کوئی بوجھ ہٹ گیا تھا… یہ خیال، اور یقین کہ مومی اپنے پیرنٹس سے بات کرے گا اور اس کے پیرنٹس مومی کا پرپوزل لے کر میرے گھر آئیں گے… مجھے ہر احساس جرم اور شرمندگی سے نجات دلانے کے لیے کافی تھا۔ میں اپنی غلطی سے واقف تھی اور مجھے لگتا تھا کہ مومی سے شادی کی صورت میں زندگی میں کی جانے والی یہ پہلی غلطی میرے لیے کوئی خلش یا کسک نہیں بن جائے گی… میں بالآخر اسی ایک شخص کے ساتھ زندگی گزاروں گی جس کے ساتھ میں نے محبت کی وادی میں قدم رکھا تھا… جس کو میرے دل نے دوسرے مردوں سے یک دم الگ کر کے ایک اور حیثیت ایک اور مرتبہ دے دیا تھا اور یہ احساس اگر میرے چہرے کو چمکانے لگا تھا تو میں آخر کیا کر سکتی تھی… انسان دکھ چھپا سکتا ہے… مگر خوشی… خوشی کو کیسے چھپائے؟
مجھے زندگی میں کبھی محبت کو Define کرنا نہیں آیا۔ یہ کیا ہوتی ہے؟کیوں ہوتی ہے؟ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اس کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ میں کبھی ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکی۔ میں نے ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی… کون ہے جو ایک بار محبت میں گرفتار ہو جانے کے بعد خود سے یہ سارے سوالات کرتا ہے… اور جو یہ سارے سوال کرتا ہے وہ بھی تب تک ہی کرتا ہے جب تک اسے خود کسی سے محبت نہ ہو جائے… ایک بار یہ ہو جائے تو پھر انسان کے پاس سارے سوالات ختم ہو جاتے ہیں۔ اسے جیسے صبر آ جاتا ہے… جیسے مجھے آ گیا تھا۔ میری قسمت میں تھا کہ میں ایک دن فون اٹھاؤں مومی سے بات کروں اور… اور مجھے اس اور کے بعد ہونے والی ہر چیز پر شرمندگی تھی اور اس شرمندگی کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہی تھا کہ میں اس شخص سے شادی کر لوں۔
اس رات کئی ہفتوں کے بعد میں نے ایک بار پھر تہجد پڑھی۔ خدا اور کسی وقت یاد آئے یا نہ آئے دو موقعوں پر ضرور یاد آتا ہے… جب کوئی چیز ”چھن” جائے اور جب کچھ ”چاہیے” ہو… مجھے تب ”کچھ” چاہیے تھا اور جو چاہیے تھا وہ دہلیز پر کھڑا نظر آ رہا تھا۔ مگر مجھے پھر بھی دعا کرنی تھی کیونکہ دعا دروازہ کھولتی ہے اور مجھے یقین تھا مہر سمیع کی دعا کو اللہ ضرور سنے گا۔
……***……
”تم نے ممی سے بات کی؟” یہ جملہ جیسے میرا Pet Sentence بن گیا تھا۔
”میں چند دنوں تک بات کروں گا۔” وہ ہر روز کہتا۔ میں پھر بھی ہر روز یہی سوال کرتی۔ ان دنوں یہ میری زندگی کا اہم ترین سوال تھا اور سب کچھ اسی ایک سوال سے وابستہ تھا۔
”میں ممی سے بات کروں گا می می تمھیں کیا لگتا ہے میں نہیں کروں گا؟” اس نے ایک دن کہا شاید وہ میرے اس روز روز کے سوال کی گردان سے تنگ آ گیا تھا۔
”میں جانتی ہوں تم کرو گے مگر کب؟”
”بہت جلدی۔”
مجھے مومی کا پتہ نہیں تھا مگر میں محبت کے بعد اب صرف شادی کرنا چاہتی تھی۔ صرف مومی سے شادی تھی جو میرے دل سے ندامت کے اس احساس کو ختم کر دیتی جو مجھے اس سے محبت کرنے کے بعد اکثر ہوتا تھا۔ تب جب میرے ماں باپ دوسروں کے سامنے میری مثالیں دیتے… اور میرا دل وہاں سے غائب ہو جانے کو چاہتا اور جب میں یہ سوچتی کہ اگر مومی سے میری شادی نہ ہوئی تو… اور اس تو کے بعد مجھے اندھیرے کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں اپنے دل میں ایک شخص کو رکھ کر کسی دوسرے شخص کے گھر میں کیسے رہ سکتی تھی اور اگر رہنے بھی لگتی تو اس دوسرے شخص سے نظر کیسے ملا سکتی تھی… کیسے اسے دھوکہ دیتی… اور پھر میں خود کو تسلی دیتی۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا تھا… اللہ مہربان ہے۔ رحیم ہے دعائیں سننے والا ہے اور میری دعا تو ہمیشہ ہی قبول کرتا ہے پھر میں اس طرح کیوں سوچ رہی ہوں۔ میں اپنے سارے واہموں اور خدشات کو اپنے سر سے جھٹکتی اور ہم سب سمجھتے ہیں۔ واہموں اور خدشات کو جھٹک دینے سے وہ ختم ہو جاتے ہیں… کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے کیا بلی غائب ہو جاتی ہے؟
……***……
اس دن میں گھر پر اکیلی تھی۔ امی ہمارے ہمسائے انکل باری کے گھر پر تھیں اور بابا ابھی یونیورسٹی سے نہیں آئے تھے۔
فون کی گھنٹی بجنے پر فون میں نے اٹھایا۔ خلاف توقع وہ مومی تھا۔ مجھے حیرانگی ہوئی وہ اس وقت فون نہیں کرتا تھا۔ ”ہیلو می می… میرے پاس تمھارے لیے ایک اچھی خبر ہے۔” اس نے کہا۔ مجھے اس کی آواز سننے کے لیے بہت جدوجہد کرنی پڑی۔
”کیسی خبر اور تم کہاں سے فون کر رہے ہو؟”
”میں اس وقت بائیک پر ایک سڑک پر ہوں اور اپنے موبائل سے بات کر رہا ہوں… ممی تمھارے گھر آنا چاہتی ہیں۔”
”کیا؟” مجھے جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”ہاں سچ کہہ رہا ہوں ممی تمھارے گھر آنا چاہتی ہیں۔”
”کب؟” میں نے پوچھا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے مجھے ایک دھماکے کے ساتھ مومی کے چیخنے کی آواز آئی۔ خوف کی ایک لہر میرے وجود سے گزر گئی۔ وہ سڑک پر تھا اسے کیا ہوا تھا؟ میں بے اختیار فون ہاتھ میں لیے چلائی۔
”مومی… مومی… تم ٹھیک ہو؟” موبائل سے اس کی چیخوں اور کراہوں کی آواز سنائی دے رہی تھی مگر وہ بول نہیں رہا تھا اور میرے وجود سے جیسے کوئی میری جاں نکال رہا تھا۔ ”مومی… مومی… خدا کے لیے کچھ بتاؤ… کچھ بولو… کیا ہوا ہے؟… تم کہاں ہو؟… میں آتی ہوں… مومی… مومی…”
میں بچوں کی طرح روتے ہوئے چلا رہی تھی اور تبھی میں نے کراہوں کے درمیان اس کی آواز سنی۔
”می می… می می۔” وہ بمشکل بول رہا تھا۔
”مومی تم ٹھیک ہو؟… تم ٹھیک ہو؟”
”نہیں… می می… میری بائیک کو ایک گاڑی نے ٹکر مار دی۔” وہ لڑکھڑاتی آواز میں کراہتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”اوہ میرے خدا۔” ”میں… میں… خیابان شمشیر۔”… وہ مجھے اب اس جگہ کی نشانی بتا رہا تھا۔
”وہاں ہوں… میں مر… مر رہا ہوں۔”
”پلیز… پلیز مومی… ایسا مت کہو۔” میں گڑگڑائی۔
”تم… تم… میرے پاس آ جاؤ می می… میں آخری بار تمھیں… تمھیں… دیکھنا چاہتا ہوں… میرا سانس… میرا سانس…” اس کی آواز یک دم بند ہو گئی۔
”فارگاڈ سیک مومی… بات کرو… بات کرو مجھ سے۔” مجھے اندازہ نہیں تھا۔ میں کتنا چلاّ چلاّ کر بات کر رہی تھی۔ یوں جیسے میں وہاں گھر پر نہیں تھی وہاں اس سڑک پر اس کے پاس بیٹھی اس کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ”میرے اللہ… میں کیا کروں؟… میرے مومی کو کچھ نہ ہو… مومی… مومی…” وہاں اب بھی کوئی آواز نہیں تھی۔ صرف ٹریفک کے گزرنے کی آوازیں تھیں۔ اور تب میں نے طے کر لیا میں وہاں جاؤں گی… ابھی اور اسی وقت… اس کو میری ضرورت تھی… پوری دنیا میں اس وقت صرف وہی تھا جسے میری ضرورت تھی۔ مگر میں… میں فون ہاتھ سے کیسے چھوڑتی؟… اگر… اگر وہ مجھے پھر پکارتا تو… میں لاؤنج میں فون کا ریسیور لیے بلکتی ہوئی اس کو آوازیں دیتی رہی… اور تبھی اچانک باہر گاڑی کا ہارن سنائی دیا… بابا یونیورسٹی سے واپس آ گئے اور میرے گھر سے نکلنے کے سارے راستے مسدود ہو گئے تھے۔ مجھے اب فون بھی بند کرنا تھا… میں دونوں ہاتھوں سے ریسیور پکڑے بے بسی سے روتی رہی… باہر گاڑی کا ہارن اب بار بار بج رہا تھا… اور میں… میں فون کا ریسیور نہیں رکھ پا رہی تھی۔
تب زندگی میں پہلی بار مجھے پتہ چلا کہ تلوار کی دھار پر چلنا کیسا ہوتا ہے… زندگی اور موت کا سوال کیسے اٹھتا ہے؟… Hard choices کیا ہوتی ہیں؟… ایک قدم آگے بڑھانے پر کنواں اور پیچھے ہٹانے پر کھائی کیسے آتی ہے۔
میں نے فون کا ریسیور رکھ دیا۔ دوپٹے سے چہرے کو رگڑتے ہوئے میں لاؤنج سے بھاگتی ہوئی باہر گیٹ کھولنے گئی… میں بابا کے ایک ہارن پر بھاگ کر دروازہ کھولا کرتی تھی اور آج وہ شاید پانچ منٹ ہارن دیتے رہے… انھیں پریشان تو ہونا ہی تھا اور ان کی اس پریشانی میں اضافہ میرے چہرے نے کر دیا تھا۔ وہ گاڑی گیٹ سے اندر لاتے ہی اسے روک کر اتر گئے۔ ”تمھیں کیا ہوا؟” وہ میری طرف آئے۔
”کچھ نہیں… میں ٹھیک ہوں۔” میں نے بمشکل کہا۔
”کیا ٹھیک ہو؟… چہرہ زرد ہو رہا ہے تمہارا… اور تم… تم رو رہی تھی۔” بس ان کا اتنا کہنا کافی تھا میرے لیے… میں اس سے زیادہ خود پر کنٹرول کیا کرتی۔ میں یک دم بلک بلک کر رونے لگی۔
”میری طبیعت خراب ہے بابا۔” میں جھوٹ بولنے کے علاوہ کیا کرتی۔ بابا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
”کیا ہوا؟ کیا ہوا مہر؟ کیا ہوا بیٹا؟” میں انھیں کیا بتاتی کہ کیا ہوا ہے؟… کیا ہو رہا ہے؟
”بابا میرے سر میں درد ہے…” میں اسی طرح بلک بلک کر کہتی رہی۔ بابا اس قدر گھبرا گئے تھے کہ انھوں نے اسی وقت مجھے گاڑی میں بٹھایا اور گھر کھلا چھوڑ کر مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ میں ان کا سب سے قیمتی اثاثہ تھا… مجھ سے بڑھ کر کس چیز کی حفاظت کرتے وہ۔ مگر میں ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں چاہتی تھی… میں بابا سے کہنا چاہتی تھی کہ کوئی اور ہے جسے اس وقت ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ جو زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے… مگر میں اپنے ہونٹ سینے پر مجبور تھی… اس ”کسی” کا تعارف میرے باپ پر بجلی بن کر گرتا۔ ساری عمر میرے ناز اٹھانے والا مجھ پر فخر کرنے والا میرا باپ دنیا کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتا… آخر مومی کون تھا میرا؟… بوائے فرینڈ؟ محبوب؟ شناسا؟ آشنا؟ دنیا کی کوئی ایسی ڈکشنری نہیں تھی جس میں میں اس مرد کے اپنے باپ سے تعارف کے لیے کوئی ایسا لفظ ڈھونڈھ پاتی جو قابل اعتراض نہ ہوتا… عورت اور مرد کے درمیان جب تک کوئی تعلق رشتہ نہیں بنتا وہ داغ دار ہی رہتا ہے… سیاہ ہی نظر آتا ہے چاہے اسے دن کی روشنی میں دیکھیں یا چاندنی میں… اور میں… میں مومی سے اقرار محبت کے باوجود ایک مشرقی لڑکی تھی… ایک منافق مشرقی لڑکی… جو محبت کو عزت پر ترجیح کبھی نہیں دے سکتی… میں نے بھی نہیں دی… باپ کے سامنے اپنا بھرم رہنے دیا۔ اس کے سر اور کندھوں کو اپنی غلطی کے اعتراف سے نہیں جھکایا… اور بڑی بے رحمی سے اس شخص کو مر جانے دیا… جو میرا کُل تھا… ساری عمر کُل ہی رہا۔
**…**…**