جواز — امایہ خان

”تمہارا جواز قابل قبول نہیں، وہ بالغ اور خود مختار تھی۔ تمہیں زبردستی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔”
”بیٹی خاندان کی عزت ہوتی ہے جناب، میں اتنا بے غیرت نہیں کہ اسے منہ کالا کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتا۔”ہاشم زہریلے لہجے میں بولا۔
”بکواس بند کرو۔” آفیسر مشتعل ہوگیا۔




”تم لوگ بیٹیوں کو پالتو کتا بنا کر رکھتے ہو، وہ تمہارے تلوے چاٹیں تو سر پر ہاتھ پھیرتے ہو ورنہ زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیتے ہو، تم پر جرم ثابت ہوچکا ہے، اب تم بچ نہیں سکتے۔” ہاشم بھی بھرا بیٹھا تھا، اس آفیسر پر اُلٹ پڑا۔
”تم بے حیا قوم ہو، میرے ملک میں تو غیرت کے نام پر قتل کرنا قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ میں نے جو بھی کیا، ٹھیک کیا۔ تم مجھے سزا نہیں دلواسکتے۔”آفیسر نے غصے میں اس کا گریبان پکڑ کو جھنجھوڑ ڈالا۔
”یہ پاکستان نہیں ہے، یہاں کسی کی جان لینا جرم ہے جس کی سزا تمہیں مل کر رہے گی۔ میں تمہیں بچ کر نکلنے نہیں دوں گا سمجھے؟ یہیں سڑوگے تم۔”
یہ سچ تھا کہ بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ کارنبیریا نے اس کے گھر سے حنا کی لاش برآمد کی تھی جس کے ساتھ دفن آلہ قتل اور تیز دھار گوشت کاٹنے والی تین چھریاںبھی ملی تھیں۔
جج نے تمام ثبوتوں کی روشنی میں اسے پندرہ سال قید کی سزا سنائی اور اس کے بھائی او ربھتیجے کو سات سال کے لیے پابندِ سلاسل کردیا۔
ہاشم کے اعتراف جرم نے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تہلکہ مچادیا۔ جو لوگ پہلے ہی پاکستانیوں سے خائف تھے، اب ان کے ملک میں داخلے پر پابندی کامطالبہ کرنے لگے۔ سب کچھ نہایت خوف ناک طریقے سے منظرِعام پر لایا گیا تھا۔ بیپ بھی ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے حنا کے ذکر پر زاروقطار آنسو بہاتا رہا اور اس خوب صورت لڑکی کی یادگار تصاویر دکھاتے ہوئے ہاشم اور شریک جرم افراد کو مغلظات سناتا رہا۔
میڈیا پر حنا کی تشدد زدہ لاش کی تصاویر جاری کی گئیں۔ ہاشم نے اس کی گردن پر چھری پھیری تھی۔ عدالتی پیشی کے دوران وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنے عمل کو جائز قرار دیتا ہوا اسلام کا نام بدنام کرتا رہا۔
بریشیا میں قائم محمدیہ اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر نے اس قتل کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے دین کا دفاع کیا۔
”یہ مذہب کا معاملہ نہیںبلکہ دو تہذیبوں کی جنگ ہے۔”
حنا کی ماں بھی شوہر کے خلاف بیان دیتی نظر آئی۔ اس نے میڈیا کو بتایا کہ ہاشم خود بھی غیر شرعی کاموں میں ملوث رہا ہے۔ وہ اپنی بدقسمت بیٹی کی میت پاکستان لے کر جانے کے لیے بریشیا آئی تھی۔ رو رو کر اس نے ہاشم کو خوب بددعائیں دیں۔ اُس کے مطابق حنا کو بگاڑنے کا اصل ذمہ دار بھی ہاشم ہی تھا جس کی بے ہودہ حرکتوں کی وجہ سے بیٹی بھی بے راہ روی کا شکار ہوئی۔ وہ باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ہر حکم سے انکار کرتی تھی۔ پھر روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر اس نے گھر ہی چھوڑ دیا۔
حنا کو مغربی طرز زندگی بہت پرکشش محسوس ہوتا جب کہ ہاشم کے لیے اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ ناجائز تعلقات ناقابلِ برداشت تھے ،اسی لیے اس نے اسے روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوتے دیکھ کر بیٹی کو قتل کردیا۔
٭…٭…٭
”کھانا دینے سے انکار کرنے پر باپ نے بیٹی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔”
رباب نے گھبرا کر ٹی وی ہی بند کردیا۔ بشریٰ بیٹی سے بات کرنے کے لیے تھوڑی دیر پہلے ہی اس کے پاس آئی تھی۔ وہ ٹی وی پر ہاشم کو اپنی بیٹی کے قتل کا ڈھٹائی سے اقرار کرتے دیکھ کر دھک سے رہ گئی۔ رباب نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے پاکستانی خبروں کا چینل لگایا، تو وہاں بھی بیٹی کو قتل کرنے والے باپ کو دکھایا جارہا تھا۔
باپ کے ہاتھوں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل نے اگر بشریٰ کے دل پر حملہ کیا تھا تو سولہ سالہ نوجوان لڑکی کے باپ کے ہاتھوں قتل ہونے کی وجہ سن کر وہ دم بہ خود رہ گئی تھی۔ اُس دن بیٹی کو فون کیے بغیر ہی وہ گھر واپس چلی گئی۔
٭…٭…٭




اس واقعے کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ سلیم نے تنگ آکر ادھر اُدھر نکلنا ہی چھوڑ دیا۔ وہ صبح صبح کام پر جاتا اور شام کو سیدھا گھر واپس آتا۔ تین ماہ گزر جانے کے باوجود یہ قصہ ابھی تک لوگوں کی بحث کا موضوع بناہوا تھا۔ گھرمیں وقت گزارنا سلیم کی مجبوری بن چکا تھا۔ اسی مجبوری کو سہتے سہتے اس کی نظر بشریٰ پر پڑی جو آخری دنوں سے تھی اور بالکل ڈھانچہ بن چکی تھی۔
بشریٰ کی یہ حالت دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانا بھی مجبوری تھی، اگر بشریٰ مرجاتی تو؟
ڈاکٹر نے اسے خوب لتاڑتے ہوئے بچے کی صحت سے متعلق فکر مند ہوکر الٹراسائونڈ کیا اور بیٹی کی متوقع پیدائش کی خبر بھی سنادی۔ سلیم نے کسی قسم کی خوشی کااظہار نہیں کیا جب کہ بشریٰ خوف زدہ ہوگئی۔
ڈاکٹر نے اسے وٹامنز کے استعمال اور اچھی غذا کے مشورے کے ساتھ رخصت کردیا۔
اپنے اپارٹمنٹ کی جانب جاتے ہوئے بشریٰ نے خالی خالی نظروں سے رباب کے گھر کی طرف دیکھا۔ اُسے مستقل طور پر پاکستان گئے ایک مہینہ ہونے والا تھا۔
بے نام سی اُداسی دل میں دباتی بشریٰ چپ چاپ اپنے فلیٹ میں داخل ہوگئی۔ سلیم اس کا رُکنا اور اُداس ہونا دیکھتا رہا۔
رات کو اس نے بشریٰ سے نرمی سے پوچھا۔
”تجھے صفیہ بہت یاد آتی ہے نا؟”
بشریٰ نے فوراً نفی میں گردن ہلادی۔ہاشم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
”تو پریشان نہ ہو۔ اختر دو ہفتے بعد پاکستان جارہا ہے تو بچی کو لے کر ساتھ چلی جانا، مل آنا صفیہ سے میں ٹکٹ کا انتظام کرادیتا ہوں۔”بشریٰ نے پھر سے نفی میں زور سے گردن ہلائی، سلیم جھلا گیا۔
”او کیوں؟ چلی جانا۔”
”مجھے نہیںجانا، تو بس بچی کو بھیج دینا اختر کے ساتھ۔”سلیم کو لگا اس نے غلط سنا ہے۔ اس نے بے یقینی سے بشریٰ کی جانب دیکھا۔
”دماغ چل گیا ہے کیا تیرا؟” اتنی چھوٹی بچی کو وہ کیسے سنبھالے گا جہاز میں؟”
بشریٰ کو احساس ہوا کہ واقعی ایسا ممکن نہیں ، تو بولی۔
”اچھا پھر مجھے بھیج دے، میں اُسے اماں کے پاس چھوڑ کر واپس آجائوں گی۔”
”تو؟ رہ لے گی اس کے بغیر؟”
”ہاں رہ لوں گی۔”
”او رہنے دے! یہاں تو میری جان کھاندی ریندی سی کہ صفیہ یاد آرہی ہے، اب دوسری اولاد کو بھی اُدھر چھوڑ آئے گی؟ تو پاگل تو نہیں ہوگئی؟”
”تو نے ہی کہا تھا میں واپس نہیں جاسکتی ورنہ تو چھوڑ دے گا مجھے۔ کہاں تھا نا؟”
”ہاں! پر…”
”تو پھر؟ میں کہہ تو رہی ہوں کہ بچی چھوڑ کر آجائوں گی۔”
”تیری ماں رکھ لے گی اُسے؟” سلیم کا لہجہ نرم ہوا۔
”ہاں…”
”تو یاد نہیں کرے گی اُسے؟”
”کروں گی۔” لاکھ کوشش کے باوجود بشریٰ کی آنکھوں سے آنسو اُبل پڑے۔
”تو کیوں چھوڑ کے آنا چاہتی ہے؟” سلیم کا دل بھی کچھ پسیج گیا۔
بشریٰ کے حلق میں آنسوئوں کا گولہ اٹک رہا تھا۔ وہ فوری طور پر کچھ بول نہ کسی لیکن سلیم کی بات کا جواب دیے بغیر بات ختم ہونے والی نہیں تھی اس لیے وہ دل کی بات بالآخر زبان پر لے ہی آئی۔
”میں … چاہتی ہوں… میری بیٹیاں زندہ رہیں۔” سلیم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”کیا؟”سلیم حیرانی اور ناسمجھی کے ملے جلے تاثرات لیے بولا۔ بشریٰ مزید کچھ کہے بغیر، بس روتی رہی۔
ماں بس رو سکتی ہے۔ بیٹی کو جرگے کا فیصلہ بھیڑیوں کے آگے ڈال دے کہ اس کی عزت خراب کریں یا باپ روٹی نہ دینے پر گولی مار دے، بیٹی کی لاش پر مائیں بس رو ہی سکتی ہیں۔
بشریٰ ابھی رو رہی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کی زندگی چاہتی ہے اور اس کے لیے … انہیں باپ سے دور رکھنا ضروری ہے۔
ہاں! شایدہماری بیٹیاں تب ہی زندہ بچ سکیں گی جب انہیں ہاشم اور سلیم جیسے باپ بھائیوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے گا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۲

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!