جواز — امایہ خان

”وہ برامان جاتی تھی، میں نے سوچا خود آجائے گی۔”
”تم جھوٹ بول رہے ہو۔” آفیسر غصے میں کھڑا ہوگیا۔
”یاد رکھو! ہم تمہارے گھر کی تلاشی کا وارنٹ حاصل کرچکے ہیں۔ اگر وہاں سے ہمیں حنا کی موجودگی کے ثبوت ملے تو تمہاری خیر نہیں، بہتر ہوگا ابھی زبان کھول دو۔ تمہارے پاس آخری موقع ہے۔”
”آپ مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش نہ کریں، میری بیٹی غائب ہوئی ہے۔ میں ہم دردی کا مستحق ہوں۔”ہاشم بھی ہتھے سے اکھڑ گیا۔
”فکر نہ کرو، تم جس چیز کے مستحق ہو، تمہیں وہی ملے گی۔” پولیس آفیسر طنزیہ انداز میں بولا۔ ہاشم سے ابتدائی تفتیش مکمل ہونے کے بعد جلد ہی پولیس نے اس کے گھر کی تلاشی لے کر حنا کا موبائل فون برآمد کرلیا اور اسے باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔
٭…٭…٭




”voglio dor mire con te” سلیم کی آواز سن کر سجاد نے گردن موڑ کر دیکھا، تو ویٹرس نہایت غصے میں مغلظات بکتی دکھائی دی جب کہ سلیم ڈھٹائی سے ہنستا ہوا اس کے پاس میز پر آبیٹھا اور اپنی ڈرنک ختم کرنے لگا۔
”کیا ہوا؟ گالیاں کیوں دے رہی تھی وہ؟” سجاد پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
”اتنی دور سے تو نے کیسے سن لیا؟” سلیم نے اُلٹا سوال کردیا۔
”جیسی بری شکل اُس نے بنائی تھی منہ سے پھول تو جھاڑے گی نا، گالیاں ہی نکالی ہوں گی۔” سلیم ہنس پڑا اور پوری کہانی اُسے سنادی۔ سجاد نے افسوس سے سرہلایا۔
”کیوں اپنی بے عزتی کرواتا ہے؟”
”مذاق کررہا تھا یار۔”
”لیکن وہ تو مذاق نہیں کررہی تھی بھایا، سچ مچ گالی ہی د ی ہے اس نے۔”
”تو اُسے چھوڑ، یہ بتا کام سمجھ میں آگیا؟”
”ہاں! کام تو مشکل نہیںلیکن بھایا مجھے یہ ملک نہیں پسند آیا۔”
”اوئے! پاگل اے تو! تجھے اٹلی نہیں پسند آیا؟”سلیم نے آنکھیں پھاڑیں۔
”سوچتا ہوں واپس چلا جائوں، بلکہ میں تو کہتا ہوں توبھی لوٹ چل، خوار ہوگیا ہے تو بھی۔”سجاد سخت بے زار تھا۔
”اوئے ! تو … تو واقعی پاگل ہوگیا اے۔ اوئے پاکستان میں کیا رکھا ہے؟ کھے تے سواہ؟”
”وہ جیسا بھی ہے، ہمارا اپنا ملک ہے، یہاں کون سے ہیرے بٹ رہے ہیں؟” سجاد کو سلیم کا انداز بہت برا لگا۔
”یہ رہے ہیرے، ہونہہ دیکھ !” سلیم نے جیب سے تنخواہ نکال کر سارے نوٹ اس کے سامنے پھیلادیے اور ایک یورو اُٹھا کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا:
”یہاں کا ایک روپیہ پاکستان کے ایک سو تیرہ روپے بنتے ہیں۔”
”لیکن یہاں تو ایک ہی روپیہ بنتا ہے نا۔” سجاد نے متاثر ہوئے بغیر کہا۔
”اور یہ تجھے مفت میں نہیں ملا، محنت کی ہے تو نے، دن رات کھوتوں کی طرح کام کیا ہے ان خبیثوں کا جو تجھ سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے، اُلٹا نفرت کرتے ہیں تجھ سے۔”
”ہم ان جیسے نہیں ہیں نا، اس لیے اوکھا (مشکل) لگتا ہے انہیں اور بولی بھی نہیں آتی اُن کی ہمیں۔” سلیم نے گھونٹ گھونٹ اپنا مشروب حلق سے اُتارتے ہوئے دل خراش رویوں کی عجیب توجیہ پیش کی۔ سجاد، جسے یہاں آئے صرف دو ماہ ہوئے تھے سلیم کی دیکھا دیکھی یہاں روزگار کمانے آیا تھا، لیکن بہت جلد اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔
اُسے بشریٰ پر ترس اور سلیم کی بے حسی پر سخت غصہ آتا ۔ اسی لیے موقع دیکھ کر وہ اسے سمجھانے بیٹھ جاتا، لیکن سلیم تو چکنا گھڑا تھا، اس پر اثر نہ ہوتا۔ سجاد بشریٰ کو بھی سلیم پر زور دینے کے لیے کہتا کہ یا تو وہ بچی کو ساتھ رکھے یا واپس چلا جائے۔ اس کے ہمت دلانے پر بشریٰ نے سلیم کو منانے کی کوشش کی اور جواب میں بڑی مار بھی کھائی۔ وہ تو آنے والے بچے کے خرچے کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان تھا، اوپر سے بشریٰ ایک اور مصیبت اُس کے گلے ڈالنے کا کہہ رہی تھی، اُسے غصہ نہ آتا؟ وہ دعا کررہا تھا کہ اگلی اولاد بیٹا ہوتا کہ پردیس میں بھلے کچھ سال بعد ہی سہی، اسے بھی آرام سے زندگی بسر کرنے کا موقع تو ملے۔ فی الحال تو پاکستان سے آئے رشتہ داروں سے کھانے اور رہائش کا کرایہ گزارے کے لیے کافی تھا۔ اس لیے بھی وہ سجاد کو برداشت کرنے پر مجبور تھا کہ وہ آمدنی میں اضافے کا سبب تھا، سو نرمی سے اُسے جواب دیا، لیکن سجاد قائل نہیں ہوا تھا۔




”ساری دنیا کے لوگ ایک جیسے تو نہیں ہوتے، لیکن عزت سب کی ایک جیسی ہے اور ہم ان جیسے نہ سہی مگر ہیں تو انسان، تو پھر یہ گورے ہمیں دیکھ کر زمین پر تھوکتے کیوں ہیں؟ حالاں کہ پلید خود ہیں۔ ناپاک، گندے۔” سجاد کا حلق کڑواہٹ سے بھر گیا۔
”تو ان سے دبتا ہے کیوں کہ یہاں ”پیسا” ہے، اوچل چھوڑ۔”
”تیرے نصیب کا وہاں بھی دے گا رب سوہنا، رزق تو اس کے ہاتھ میں ہے۔”
سلیم نے کبھی اس زاویے سے نہیں سوچا تھا، وہ تو لکیر کا فقیر تھا۔ پاکستان میں ابھی تک گائوں والے اس کے فیصلے کو سراہتے تھے۔ سجاد پہلا انسان تھا جو اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔
”لیکن اپنے ملک میں محنت کا وہ صلہ بھی تو نہیں ملتا نا جو یہاں ہے۔”سلیم نے ذہن میں بسی غلط فہمی کو زبان دی۔
”تو محنت کرے گا تو صلہ ملے گا نا، وہاں اپنے ابے کے پاس دن چڑھے جاکر کھڑا ہوتا تھا۔ جیسی وقت کی قدر تو یہاں کرتا ہے، جو جان توڑ محنت ان کے لیے کرتا ہے اپنے دیس میںکرتا، تو کیا اللہ نے پھل نہیں دینا تھا؟” سلیم سے فوری کوئی جواب بن نہ پڑا۔ سجاد نے ایک سرد آہ بھری۔
”او میں تو بے زار ہوں تیرے اٹلی شہر میں آکے، ساڈی کوئی عزت ہی نہیں اور اپنے گائوں میں تو یار بیلیوں نے کبھی جھپی ڈالتے ہوئے ناک نہیں سکیڑی سب مل جل کر بیٹھتے تھے، کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا۔ سارے مزدور، سارے کسان، ایک ذات۔”
”اوپر… ” سلیم نے پھر کچھ کہنا چاہا جو سجاد سننے کے لیے تیار نہ تھا۔
”اوئے رہندے! ظالم ہے تو، اپنی بیٹی کو چھوڑ آیا اکیلے، اتنا شوق ہے یہاں رہنے کا تو اسے بھی ساتھ رکھ لے۔”
”او نہیں اوئے۔ ایتھے کڑیاں خراب ہوجاندی آں نیں۔ (یہاں لڑکیاں خراب ہوجاتی ہیں۔”
”تو سیدھے رستے پر چلے گا تو اولاد بھی چلے گی۔ ایتھے کم والی کڑیاں نوں چھیڑ دا اے شرم نئیں اوندی۔ ڈھاڈی فکر کر دا اے بیٹی دی تربیت دی تے نال کیوں نئیں رکھدا۔ اس کا سایہ بن، اچھے بُرے کی تمیز سکھا۔”
”چلا جاواں گا… تھوڑے اور پیسے کمالوں… ” اس نے ٹالتے ہوئے کہا۔
”کیا کرے گا پیسے کا؟” سجاد نے اسے لتاڑا۔
”جب بڑھاپے میں چٹخی ہڈیوں کو لوگ دھکے ماریں گے۔”
”دھکے کیوں ماریں گے؟”
”اوئے تو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر یہاں آبیٹھا ہے، تیرے بچے تجھے چھوڑ کر کسی دوسرے دیس جا بیٹھیں گے۔”
”تو نے جانا ہے تو جا، میں نے نہیں جانا…” سجاد کی ہر دلیل بے کار گئی۔ اس نے افسوس کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔
”ہاں! میں تو چلا جائوں گا، میرے دیس کی تپتی دھوپ بھی چھائوں ہے۔ یہاں تو ٹھنڈی برف میں بھی پنڈا (جسم) جلتا ہے، لیکن تو بہت پچھتائے گا بھایا۔”
سجاد کچھ دن بعد واپس وطن لوٹ گیا۔بشریٰ کے غم کو جو وقتی ڈھارس ملی تھی، وہ بھی چھوٹ گئی۔ سلیم کے وہی دن رات تھے، کچھ نہیں بدلا تھا۔ تب ہی ایک دن ٹی وی پر خبر چلی جس نے سب کچھ بدل ڈالا۔
٭…٭…٭
”میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا، وہ میری لاڈلی بیٹی تھی۔” ہاشم نہایت جذباتی انداز میں اعترافِ جرم کررہا تھا۔
”اگر تمہارا ارادہ قتل کا نہیں تھا، تو تم نے اپنی بیوی اور چھوٹی بیٹی کو پہلے پاکستان کیوں بھجوا دیا؟” تفتیشی افسر نے اس کے آنسوئوں سے متاثر ہوئے بغیر سخت لہجے میں پوچھا۔
”وہ …میں…”
”تمہارا بھائی اور بھتیجا دونوں اعترافِ جرم کرچکے ہیں۔ تم سب نے مل کر اسے چھریوں کے پے در پے وار کرکے مار ڈالا اور بیک یارڈ میں زمین کھود کر دفن کردیا۔” سب حقیقت کھل چکی تھی پھر بھی وہ نہایت ڈھٹائی سے اپنا دفاع کررہا تھا۔
”میں اسے مارنا نہیں چاہتا تھا، اس نے مجھے مجبور کیا۔”
”کیسے؟”
”وہ اپنے بوائے فرینڈ کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی۔ میں نے اسے پیش کش کی کہ وہ میرے بھتیجے سے شادی کرلے۔ ہم پاکستان واپس چلے جائیں گے اور اسے سرآنکھوں پر بیٹھا کر رکھیں گے، مگر وہ نہیں مانی۔ مجھے غصہ آگیا، وہ حرام کاری پر بہ ضد تھی جب کہ میں اسے جہنم میں جانے سے روکنا چاہتا تھا۔”آفیسر نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔
”اُسے قتل کرنے کے بعد تم جنت میں جانے والے ہو؟” ہاشم نے سرجھکا لیا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۲

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!