جواز — امایہ خان

یونہی ہمیشہ کی طرح دس منٹ رودھو کر برباد کرتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا اور رباب کا شکریہ ادا کرتی، سسکیاں بھرتی اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑی۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ مسز رباب دلاور اسے کن نظروں سے دیکھ رہی ہیں، لیکن فی الوقت وہ کوئی وضاحت دینے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ سلیم کے آنے کا وقت ہورہا تھا اور اسے کھانا تیار کرنے کے بعد روٹی بھی ڈالنا تھی۔
اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہوئے اس نے سرسری نگاہ آئینے میں نظر آتے اپنے عکس پر ڈالی۔ شاید تیسرا یا چوتھا دن تھا اسے تیل میں چپڑے بالوں کو پراندہ ڈالے۔ منہ دھوئے تو پورا ہفتہ ہونے والا تھا۔ اس نے ایک لمحے میں اپنا جائزہ لیا اور اس سے بھی کم وقت اپنے متعلق سوچنے پر صرف کرتے ہوئے کچن میں پہنچ کر کھانا پکانے میں جُت گئی۔




خود پر توجہ دینا اس کی ترجیحات میں سے بہت پہلے ہی خارج ہوچکا تھا۔ وہ صرف اور صرف گھر کی صفائی ستھرائی، سودا سلف لاتے شاپنگ، اپنے شوہر اور اس کے دوبھائیوں اور تین رشتہ داروں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ ان کے نہایت اہم کاموں کے دوران وہ سانس لینے جیسا غیر اہم کام بھی انجام دے لیا کرتی۔
وہ خود کو اپنی بیٹی سے بات کرتے ہوئے زندہ محسوس کرتی، جو ایک منٹ کی گفت گو کے دوران کئی بار اس کے پاس آنے کی التجا کرتے ہوئے اسے رونے پر مجبور کردیتی۔ تب بشریٰ کو یاد آتا کہ پردیس میں تو وہ بھی خوش نہیں ہے، اپنی بیٹی کے بغیر۔
بشریٰ سے شادی کے تین سال بعد سلیم اٹلی آگیا تھا۔ ڈیڑھ دو سال سخت محنت کے بعد اس نے کرائے پر بریشیا میں اپارٹمنٹ حاصل کرلیا اور پھر پاکستان سے اپنے بھائی اور رشتہ داروں کے ساتھ بشریٰ کو بھی لے آیا جو تب تک ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی۔
سلیم کے اس عمل کو بشریٰ اس کی محبت سمجھتی رہی اور اس کی اس وقت تک نہایت شکر گزار رہی جب تک اس نے یہاں رہ کر زندگی کی سختی کو برت نہیں لیا۔ سلیم کو دیسی کھانا پکانے والی کے ساتھ ساتھ ایک عورت کی ضرورت تھی۔ بیٹی کو اس نے یہ جواز دے کر گائوں میں ہی اس کی نانی اور ماموں کے پاس چھوڑ دیا، کہ کافروں کے ملک میں بچی بگڑ جائے گی۔
سلیم کی محبت اور لگائو کی خوش فہمی میں بشریٰ نے ممتا کو پسِ پشت ڈال کر بیٹی کو ماں کے پاس چھوڑ دیا لیکن بریشیا آکر اسے شدید افسوس اور پچھتاوا ہوا۔ اسے اپنی بیٹی کو چھوڑ کر نہیںآنا چاہیے تھا۔
اب یہاں اسے دو سال پورے ہونے والے تھے۔ وہ ایک بار پھر اُمید سے تھی۔ ایسی حالت میں اسے صفیہ کی یاد اور زیادہ ستایا کرتی اور وہ پڑوس میں رباب کے گھر فون کرنے چلی جاتی تھی۔
پہلے پہل سلیم نے کوئی اعتراض نہیں کیا، مگر جب اس کی ماں نے فون پر بتایا کہ صفیہ، نانی کے گھر سے بھاگ کر ان کے پاس آنے کی ضد کرتی ہے کہ اسے بھی سلیم اور بشریٰ کے پاس بھیج دیا جائے تب سے سلیم نے غصے میں آکر بشریٰ کو گوجرانوالہ فون کرنے سے منع کردیا۔ اب وہ لمبے وقفے سے اس کے علم میں لائے بغیر فون کرتی اور کئی کئی دن تک چھپ کر روتی رہتی۔
کام جو کبھی ختم نہیں ہوتے تھے اور تھکاوٹ جو کبھی نہیں اُترتی تھی ۔ دونوں نے مل کر بشریٰ کو زندگی سے بے زار کردیا تھا۔ سلیم اور اس کے دونوں بھائیوں اور رشتہ داروں کے مختلف فیکٹریوں میں کام کے اوقات بھی مختلف تھے۔ ایک ناشتا کرکے نکل رہا ہوتا تو دو نائٹ شفٹ بُھگتا کرلوٹ رہے ہوتے۔ وہ ناشتے کے بعد کھانا دے کر ان کے لیٹنے کا انتظام کرتی تو دوپہر کی شفٹ میں جانے والے تیار ہوکر میز پر آجاتے اور یوں بشریٰ ان تمام مردوں کا پیٹ بھرنے کے لیے روٹیاں ڈالتی رہتی۔ چوبیس گھنٹوں میں اسے ہر دو گھنٹے میں کسی نہ کسی کو ڈیوٹی پر بھیجنا یا لیٹنے کے لیے اسے بستر لگا کر دینا ہوتا اور گندے باتھ روم کے ساتھ کپڑوں کا ڈھیر دھونا پڑتا وہاں اپنے آرام کے لیے کبھی آدھا گھنٹا سے زیادہ کا وقت نہیں ملتا تھا۔ نہ تو ا س کی نیند رات میں پوری ہوتی نہ ہی دن میں موقع ملتا۔
اس پرجو سلیم کے رشتہ دار تھے، ان کے کھانے کا خرچہ، الگ سے خریداری کا حساب کتاب رکھنا ہوتا تھا۔ وہ اس اپارٹمنٹ میں رہنے اور کھانے کا کرایہ ادا کرتے جو سلیم کی جیب میں جاتا تھا۔ اس لیے کم از کم سلیم کو تو گھر میں لگے ہجوم سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ وہ بھی باقی تمام مردوں کی طرح ڈیوٹی سے آکر کھانا کھاتا اور پڑ کر سوجاتا۔ مسائل تو سارے اس ایک اکیلی عورت بشریٰ کے لیے تھے جو صرف مشین بن کر رہ گئی تھی۔ اس کے باوجود اس نے کبھی سلیم سے شکوہ نہیں کیا کیوں کہ آس پاس جتنے بھی پاکستانی آباد تھے، ان سب کے گھروں میں عورتوں کا یہی معمول تھا۔ اکثر گھروں میں دس دس پندرہ پندرہ افراد رہائش پذیر تھے۔ سب کی زندگیاں گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ حرکت کرتیں جو دم لینے کے لیے رک بھی نہیں سکتی تھیں۔ وہ سب اس نظام کی قید میں تھے جس کے تحت ان کی اصل شناخت ختم ہوکر محض ہاتھ پائوں کی طاقت کا استعمال رہ گئی تھی۔ وہ کل پرزے تھے، انسان نہیں۔ ان کے پاس ہنر تھا، مگر زندگی کی خوشیوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ وہ اٹلی بلائے ہی اسی لیے گئے تھے کہ افرادی قوت فراہم کرسکیں۔ اس کے علاوہ ان کی ضرورت نہیں تھی۔
اسی لیے شاید ہرپل انہیں ان کی اوقات میں رکھا جاتا تھا۔ دھتکار کر، پھٹکارتے ہوئے، کراہت کے ساتھ۔
”یہاں زندگی بس ان کے لیے ہی ہے جو امیر ہیں، جنہیں پاکستان میں اپنے غریب گھر والوں کو یورو بھیجنے کی حاجت نہیں یا پھر جنہیں آسائشوں کے حصول کی خاطر گدھوں کی طرح کام نہیں کرنا پڑتا۔ جن کا کاروبار ہے اور جن کے بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بس یہ پردیس کی زندگی ان کے لیے بہت سہل ہے۔” بشریٰ، رباب کی ہنستی مسکراتی زندگی کے شب و روز دیکھ کر اکثر حسرت سے سوچتی۔
٭…٭…٭




یہ تیسری بار تھا کہ رباب، بلال کی ٹیچر سے شکایت کرنے پہنچی اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہیں ہنس کر ٹال دیا گیا۔ ان کے نزدیک یہ بچوں کی روز مرہ کی چھیڑ چھاڑ یا کھیل کا حصہ تھا، مگر رباب کی نظر میں مذہبی تعصب کا بدترین اظہار۔ پہلے پہل بلال نے اُسے کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا کہ اس کے کلاس فیلوز پورک نہ کھانے پر اُسے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ سمجھ رہا تھا اس کی خاموشی بہت جلد انہیں کسی دوسری تفریح کی جانب توجہ دینے پر مجبور کردے گی، مگر ایسا نہیں ہوا ۔ وہ لڑکے باز نہیں آئے اور یہ معاملہ بلال کی برداشت سے باہر تب ہوا جب ان لڑکوں نے لنچ بریک میں اس حرکت کو معمول بنالیا۔ جیسے ہی وہ اپنی ٹرے لے کر ٹیبل پر آتا، وہ اس کی پلیٹ یا جوس میں پورک فلے ڈال دیتے اور خوب قہقہے لگاتے۔ مجبوراً بلال کو بھوکا رہنا پڑتا۔ تنگ آکر اس نے ماں سے شکایت کردی۔ رباب تو ہکا بکارہ گئی۔
بھائی کا مسئلہ سن کر دانیہ نے بھی شکوہ کیا۔
”جیزل بھی مجھے تنگ کررہی تھی کہ یہ پورک ساسج چکھ کر دیکھو۔ میں نے منع کیا تو میرے پیچھے بھاگنے لگی کہ ایک دفعہ چکھو تو،لو اتنے مزے کا ہے۔”
رباب نے اپنے طور پر ان کی ٹیچر سے بات کی اور اس مسئلے پر سنجیدگی سے ایکشن لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ کچھ دن سکون رہا، لیکن ہفتے بعد وہی سب حرکتیں دہرائی جانے لگیں۔
رباب کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اپنے بچوں کو ان مسائل سے نمٹنے کا کیا طریقہ بتائے۔ اسے اٹلی میں تیرہ سال ہونے والے تھے۔ بلال اور دانیہ تو یہیں پیدا ہوئے تھے۔ دو تین سال بعد پاکستان کا چکر لگتا تب بھی بچوں کا وہاں چند ماہ گزارنا دوبھر ہوجاتا نہ تو انہیں اُردو سمجھ آتی اور نہ ہی وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں گرمی برداشت کرپاتے۔ وہ اٹلی میں خوش تھے۔ رباب خود اٹالین میک اپ مصنوعات کا آن لائن کاروبار کرتی تھی اور دلاور بوتیک چلاتا تھا۔ شادی کے ابتدائی چند سال وہ بلونیا میں رہے پھر کچھ عرصہ فلورنس میں رہ کر اب بریشیا میں آن بسے تھے۔ پہلے کبھی ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا مگر اب۔ جہاں اپنے ملک پاکستان کے بگڑتے حالات پر ان کا دل کڑھتا، وہیں آس پاس رہنے والوں میں دین ِ اسلام سے بڑھتی بدگمانیوں پر ان کا دل جلتا تھا۔
ایسا محسوس ہوتا کہ دنیا کا ہر دوسرا شخص اپنی برداشت کھو چکا ہے۔ مروت ، لحاظ اور وضع داری کی جگہ نفرت، تعصب اور خود غرضی نے لے لی ہے۔ آہستہ آہستہ مگر مسلسل جاری رہنے والی اس تبدیلی کے منفی اثرات روز بہ روز واضح ہوتے جارہے تھے۔
اس شام دلاور بھی جلدی گھر واپس آگیا۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ رباب نے اسکول کے واقعے کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ رات کھانے کے بعد دلاور نے اسے پاس بلایا اور کہا:
”میںپاکستان واپس جانا چاہتا ہوں…ہمیشہ کے لیے۔”
رباب سے حیرت کے مارے کچھ کہا نہیں گیا۔ اتنے سالوں میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ دلاور نے پاکستان واپس جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور وہ بھی فیصلے کی صورت میں۔
”یہ اچانک پاکستان جانے کاخیال کیوں آگیا…؟”
”یہ اچانک نہیں، میں کئی ماہ سے سوچ رہا ہوں اس بارے میں۔ بس اب یہاں مزید رہنا مشکل ہے۔” دلاور کو کاروبار میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس نے تھوڑی بہت تفصیل رباب کو سنائی اور پھر سردرد کی گولی لے کر آرام کی غرض سے لیٹ گیا۔ پر رباب کی نیندیں اُڑ چکی تھیں۔ وہ پہلے سے پریشان تھی اور اب یہاں سے ہمیشہ کے لیے جانے کی بات کرکے دلاور نے اسے مزید فکر مند کردیا تھا۔
٭…٭…٭
”تم نے متعدد بار اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ بیپ نے ہمیں بتایا ہے تمہیں حنا کا اس سے میل جول پسند نہیں تھا۔” پولیس آفیسر، حنا کے باپ ہاشم سے تفتیش کررہا تھا۔ ان کے ساتھ ایک ترجمان بھی موجود تھا جس کی مدد سے انہیں بیان سمجھنے میں دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہاتھا۔ ان کے سوال پر ہاشم نے نہایت پرُ اعتماد انداز میں نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا:
”ہم مسلمان ہیں، ہمارے دین میں قتل کرنا جرم نہیں، گناہ ہے۔”
پولیس آفیسر نے اس کے جواب کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی، وہ بہ دستور مشکوک نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔ ”تم نے اُسے کال کرکے گھر بلایا تھا؟”
”جی ہاں! مگر وہ میرے پاس نہیں آئی۔”
”تم نے رپورٹ درج کیوں نہیں کروائی؟”
”کیوں کہ وہ اکثر وعدہ کرنے کے باوجود ملنے نہیں آتی تھی۔”
”تم نے اسے فون نہیں کیا، جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ وہ کیوں نہیں آسکی۔” آفیسر تابڑ توڑ سوال کررہا تھا اور ہاشم بنا گھبرائے اس کے جواب دے رہا تھا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۲

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!