”میں بہت جلد واپس آئوں گی۔” نہایت گرم جوشی سے الوداع کہتے ہوئے اس نے بیپ سے رخصت لی۔ اپنے ریستوران کے مالک گرومیل کو اس نے پہلے ہی مطلع کردیا تھا۔ پیزیریا انٹیکا (pizzeria antica)، اٹلی کے شہر بریشیا کے شمال میں واقع تھا اور اسے وہاں ویٹر کی ملازمت کرتے تین ماہ ہوگئے تھے۔ اس مختصر سی مدت میں ہی اس نے اپنی خوش اخلاقی اور زندہ دلی سے سب گاہکوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ اسی لیے گرومیل ملتانی اس سے بے حد خوش تھا۔ وہ دوسری ایشیائی عورتوں کی طرح مردوں سے ہچکچاتی نہیں تھی بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود مغربی لباس پہنتی اور ان ہی کے اطوار اپنائے ہوئے تھی۔ اطالوی زبان پر اُسے مکمل عبور تھا جس کی اہم ترین وجہ شاید بیپ تیمپینی سے دیرینہ تعلقات تھے۔
گرومیل کئی بار کام ختم ہونے کے بعد اسے تیمپینی کے ساتھ جاتے دیکھ چکا تھا۔ وہ تیمپینی باشندہ تھا۔ پیشے کے لحاظ سے ترکھان اور اس کی عمر پینتیس برس تھی۔ اُس نے موقع دیکھ کر ایک دوبار سمجھانا چاہا۔
” تم ابھی کم عمر ہو، کسی بیس اکیس سال کے لڑکے سے دوستی کیوں نہیں کرتیں؟” جس پر وہ خوش دلی سے مسکرا کر بولی:
”میں نے اس کی عمر دیکھ کر محبت نہیں کی۔” گرومیل اس جواب پر محض کندھے اُچکا کر رہ جاتا۔ ظاہر ہے وہ اپنی زندگی کے فیصلوں میں آزادی تھی۔ جب اس کے ماں باپ نہیں روک سکے، تو وہ کیا کرسکتا تھا؟ اس کے بعد ملتانی نے کبھی ایسا کوئی سوال نہیں کیا، یہ جاننے کے بعد بھی کہ وہ مستقل طور پر تیمپینی کے گھر منتقل ہوگئی ہے، وہ کچھ نہیں بولا تھا۔
اس شام تین دن کی رخصت لے کر وہ اس کے ریستوران سے نکلی اور پیدل چلتی ہوئی بیپ کے اپارٹمنٹ تک پہنچی تو وہ اسے دروازے پر ہی مل گیا۔ دو چار اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد وہ جلد واپسی کا وعدہ کرتی وہاں سے روانہ ہوگئی۔ بیپ کو اس نے بتایا تھا کہ فرانس سے کچھ رشتہ دار ملنے کے لیے آئے ہیں اور اس کا باپ چاہتا ہے وہ خود ان کے لائے ہوئے تحائف وصول کرے ، اس لیے وہ جارہی تھی۔ اپنے والدین اور رشتہ داروں سے مل کر اسے کل شام تک واپس آجانا تھا۔ اپنی چھٹی کا تیسرا دن وہ صرف بیپ کے ساتھ گزارتی مگر ایسا نہ ہوا۔
دوسرا اور پھر تیسرا دن بھی یونہی گزر گیا، اس کی کوئی خیر خبر نہ آئی۔ عموماً بیپ اس سے ان دنوں میں خود سے رابطہ نہیں کرتا تھا جب وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوتی تھی، لیکن اب مجبوری تھی۔ وہ اس کے لیے مزید فکر مند تب ہوا جب لاکھ کوشش کے باوجود بھی موبائل پر اس سے رابطہ نہ ہوسکا۔ اس کا فون مسلسل آف تھا۔
چوتھے دن کا سورج غروب ہوتے ساتھ ہی بیپ کا صبر جواب دے گیا۔ اس نے پولیزیا میں شکایت درج کی جنہوں نے ابتدائی تفتیش کے بعد carbeneria کو حنا کی گمشدگی کی اطلاع کردی۔ انہیں شک تھا کہ بیپ کی لِٹل ڈول کو اس کے باپ نے کہیں غائب کردیا ہے۔
٭…٭…٭
”باجی مجھے بس دو منٹ بات کرنی ہے صفیہ سے، مجھے گوجرانوالہ کا یہ نمبرملادیں۔”
اس کی منت بھرے انداز میں کی گئی درخواست کو رد کرنا رباب کے لیے آسان نہیں تھا، مگر پھر بھی اس نے کہا۔
”تمہارا شوہر پھر چلائے گا یہاں آکر، اسی لیے دلاور نے منع کیا ہے کہ میں تمہاری کوئی مدد نہ کروں۔”
”اچھا! تو پھر یہ بیلنس ڈلوادیں فون میں۔” اس نے ڈوپٹے کے پلّو میں بندھے چند مڑے تڑے نوٹ اور سِکے نکال کر اس کے سامنے میز پر رکھ دیے۔ رباب کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ بشریٰ نے یہ معمولی رقم بھی کس مشکل سے جمع کی ہوگی، اس کا دل پسیج گیا۔
”رہنے دو، آئو بات کروادیتی ہوں۔”
”شکریہ جی! لیکن بتایئے گا نہیں آپ دلاور بھائی کو، سلیم کو پتا لگا، تو میری ہڈی پسلی ایک کر دے گا۔”
”ٹھیک ہے! نہیں بتائوں گی لیکن جلدی بات ختم کرنا۔” رباب نے ریسیور کان سے لگا کر اس کے ہاتھ سے پرچہ لیا اور نمبر ملانے لگی۔ کال ملا کر دینے کے بعد وہ خود وہاں سے ہٹ گئی۔ دس منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو منظر حسبِ توقع ہی تھا۔ بشریٰ ہمیشہ کی طرح دوپٹے میں منہ چھپا کر رو رہی تھی۔
”مجھے بھی لے جا اماں، یہاں نئیں رہنا… مینوں لے جا۔” اپنی بیٹی کی وہی پرانی گردان سن کر بشریٰ کے آنسو بہے چلے جارہے تھے۔ رباب کو بہ یک وقت دونوں ماں بیٹی پر غصہ بھی آیا اور ترس بھی۔
”بس فون ملانے کا شوق ہے، بات تو کرتی نہیں ہے بیٹی سے۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی بشریٰ کے نزدیک آئی جو آہستگی سے ریسیور واپس رکھ رہی تھی۔
”کیا ہوا؟ بات کیوں نہیں کی؟”
”کرلی جی!” بشریٰ نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھے اور جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”بہت مہربانی جی! اللہ آپ کو جزا دے۔” اُس نے جاتے ہوئے کہا اور رباب اُس کی دعا پر محض سرہلا کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
”وائی ال انفرنو” (go to hell)” فلورا نے حقارت سے گھورتے ہوئے اسے جہنم میں جانے کا مشورہ دیا اور وہ ڈھٹائی سے مسکراتا اپنی میز کی جانب بڑھ گیا، جیسے بس یہی سننے کے لیے کھڑا ہو۔ چار سال میں اسے اب اتنی اطالوی زبان تو سمجھ آنے لگی تھی مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے پرانے ریستوران سے دھکے دے کر نکالے جانے کے بعد یہاں آنا شروع کردیا تھا۔ تب سے اس کا معمول تھا کہ ریستوران میں داخل ہوتے ہی فلورا کے پاس کائونٹر پر جاکر اسے چھیڑتا۔
”میں تمہارے ساتھ رات گزارنا پسند کروں گا…”vogho dormise con teاس فقرے کو بھی وہ کئی دنوں کی لگاتار محنت کے بعد یاد کرپایا تھا۔ وہ اسکول کے زمانے سے ہی سبق یاد کرنے میں بڑا ”ماٹھا تھا۔” تب ہی تنگ آکر چوتھی کے بعد ماسٹر صاحب اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھر چھوڑ آئے تھے۔ جس کے بعد اس نے ابا کے ساتھ باڑے پر وقت دینا شروع کردیا۔ ابا کے پاس چھے بھینسیں تھیں۔ ان کا دودھ گائوں کے گھر گھر پہنچایا جاتا، وہ بھی ابا کے ساتھ لگ گیا۔ ابا تو ویسے بھی اس کی پڑھائی کے حق میں نہ تھا۔ یہ تو بے چارے اسکول ماسٹر صاحب کا شوق تھا جو زبردستی بچوں کو پکڑ پکڑ کر پڑھنے بٹھاتے۔ انہوں نے کتنے ہی بچوں کو پڑھا یا لیکن سلیم نے ایسا زچ کیا کہ خود ہی تنگ آکر گھر چھوڑ آئے۔
میلان پہنچ کر کئی مواقع پر اسے اپنی تعلیم سے عدم توجہی پر پچھتاوا ہوا۔ اگر وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی ہی بول پاتا تو شاید اسے ایسی مشکل پیش نہ آتی۔ اَسّی نوے کی دہائی سے اٹلی کی حکومت کی آسان پالیسیوں کی بہ دولت سینکڑوں پاکستانی روزگار کے حصول کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر آتے رہے تھے۔ سلیم بھی اپنی تمام تر نالائقیوں کے باوجود کام حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ فیکٹریوں میں زیادہ تر سِکھ سپروائزر تھے جن سے مشینوں کا کام سمجھنا مشکل نہ تھا۔ تکلیف تو رہائش، کھانے پینے اور ملنے جلنے میں تھی۔
میلان میں کچھ عرصہ گزار کر اب وہ بھی دیگر پاکستانیوں کی دیکھا دیکھی بریشیا شفٹ ہوگیا تھا۔ یہاں جنوبی ایشیا سے آئے مسلمانوں کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی تھی۔ زیادہ تر کا تعلق غریب اور ان پڑھ طبقے سے تھا اور غیر قانونی طریقے سے آئے پاکستانیوں کو بھی قدرے کم معاوضے پر کام مل جاتا تھا۔ ملازمت دینے میں بہت فیاض مگر عزت دار شہری کی حیثیت سے انہیں تسلیم کرنے میں اطالوی معاشرہ نہایت تنگ دل ثابت ہوا۔
دن رات گدھوں کی طرح کام میں مصروف رہنے کے بعد بدبودار پسینے میں شرابور، گندے کپڑوں میں ملبوس مزدوروں کا ریستوران میں گھس آنا میلان کے نازک طبع شہریوں کو بے حد گراں گزرتا تھا۔ حال تو بریشیا میں بھی کم و بیش یہی تھا۔ مقامی لوگ ان سے کراہت محسوس کرتے لیکن زیادہ تر خوف کھاتے تھے، اسی لیے میل جو ل بڑھانے سے گریز کرتے تھے۔ ویسے ہی ان کے پاس تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ نائٹ لائف انجوائے کرنے کے لیے زیادہ تر کے پاس فاضل رقم نہ ہوتی اور جن کے پاس ہوتی ان کے انداز و اطوار دیکھ کر کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا۔
سلیم یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ فلورا کبھی اثبات میں جواب نہیں دے گی۔ اس کے باوجود وہ محض تنگ کرنے کے لیے یہ فقرہ اسے بلاناغہ سنایا کرتا۔ پہلے پہل تو اس کے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں بولے گئے اطالوی فقرے کو فلورا سمجھ ہی نہ پائی اور اسے نظر انداز کردیا، مگر جب ہر روز ریستوران کا چکر لگانا اور خاص طور پر فلورا کے نزدیک آکر یہ جملہ کہنا اس کا معمول بن گیا تب اسے توجہ دینا پڑی اور جب اُسے سمجھ آیا کہ سلیم اُسے رات گزارنے کی پیشکش کررہا ہے تو وہ غصے میں آگ بگولا ہوگئی۔ مجبوری یہ تھی کہ ویٹرس کی حیثیت سے اسے ریستوران میں آئے گاہکوں سے بدلحاظی کی اجازت نہ تھی۔ تنگ آکر اس نے ریستوران کے مالک سے شکایت کردی جس نے اسے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ یعقوب، جو کچن میں صفائی ستھرائی پر مامور تھا، کو بلوا کر سلیم کو دھمکی دی گئی کہ اگلی بار معمولی سی شکایت پر اسے فی الفور ہراساں کرنے کے الزام میں پولیزیا کے حوالے کردیا جائے گا۔ یعقوب نے نہایت واضح الفاظ میں اسے وہاں آنے سے ہی منع کردیا جس کے بعد سلیم نے دوبارہ اس ریستوران کا رُخ نہیں کیا، وہ کہیں اور جانے لگا۔
٭…٭…٭