تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

رابعہ کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔ ”ہم سے الگ ‘ ہمیں چھوڑ کر۔”
”ہاں۔” صبغہ نے نیچے کھڑے ملازم کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
”آپ روشان بھائی سے کہیں’ وہ یہاں کیوں رہ رہے ہیں۔ ہم کو پاپا نے نکال دیا ہے تو …” رابعہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنی بات کیسے مکمل کرے۔
”پاپا نے روشان کو نہیں نکالا’ صرف ہمیں نکالا ہے۔” صبغہ نے ملازم کو سامان اٹھانے کے لیے کہا۔
”اگر روشان بھائی نہیں جائیں گے تو ہم بھی نہیں جائیں گے۔ پاپا انہیں زبردستی نہیں رکھ سکتے ہیں۔” رابعہ نے ناراضی سے کہا۔
”پاپا نے اسے زبردستی نہیں رکھا۔ وہ خود اپنی مرضی سے یہاں رہنا چاہتا ہے۔”
صبغہ نے اپنا شولڈر بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے کہا۔ ملازم وزنی سوٹ کیس نیچے لے کر جا رہا تھا۔ زارا لپک کر روشان کے بیڈ روم کے دروازے کی طرف گئی اور اس نے اسے بجانا شروع کر دیا۔
”روشان بھائی …! روشان بھائی …!” اس نے بلند آواز میں کہا۔ اندر بیڈ پر بیٹھے ہوئے روشان نے اپنی شرٹ کی آستین سے اپنی گیلی آنکھوں کو رگڑا۔ وہ زارا کی آواز سن رہا تھا مگر اس نے اٹھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ دروازے کو دیکھتے ہوئے وہیں بیٹھا روتا رہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے زارا! آؤ چلتے ہیں۔” اس نے دروازے کے باہر صبغہ کو کہتے سنا۔
”مگر صبغہ آپا! روشان بھائی کو ساتھ جانا چاہیے ہمارے’ وہ کیوں یہاں رہیں گے۔؟” زارا کہہ رہی تھی۔
”دیر ہو رہی ہے زارا! پاپا باہر نکل آئے تو شاید اتنا سامان لے جانے پر اعتراض کریں۔ بس آ جاؤ’ وہ یہاں رہنا چاہتا ہے’ اسے رہنے دو۔”
روشان بے اختیار اٹھ کر دروازے کی طرف گیا۔ دروازے کے دوسری طرف قدموں کی چاپ اب دور جا رہی تھی۔ زارا احتجاج کر رہی تھی۔ صبغہ اسے سمجھاتے ہوئے وہاں سے لے جا رہی تھی پھر باہر آواز مکمل طور پر بند ہو گئی۔
روشان پلٹ کر کمرے میں موجود کھڑکی کی طرف چلا گیا۔ وہ ڈرائیو وے پر نظریں جمائے ہوئے تھا’ جہاں کچھ دیر بعد پورچ سے نکلتی اس گاڑی کو گزرنا تھا جس میں وہ تینوں تھیں۔ وہ گاڑی دو منٹ کے بعد پورچ سے نکل کر ڈرائیووے پر آئی تھی۔ شام کے دھندلکے میں گھر کی بیرونی روشنیوں میں اس نے کھلے گیٹ سے اس گاڑی کو باہر جاتے دیکھا۔ وہ اس کے اندر بیٹھی تینوں بہنوں میں سے کسی کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس گھر میں اس سے پہلے اسے ایسی تنہائی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ یہاں اس گھ میں اس کا کوئی بھی نہیں رہا تھا اور یہ انتخاب اس نے خود اپنے لیے کیا تھا۔ وہ بزدل تھا۔ اسے اس اعتراف میں عار نہیں تھا۔ وہ اپنی بہنوں اور ماں کے ساتھ اس گھر سے باہر جا کر دھکے کھانے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔ وہ اس لائف اسٹائل کو نہیں چھوڑ سکتا تھا جس کا وہ عادی تھا۔ اس گھر میں اس کے لیے ہر وہ آسائش تھی جو وہ چاہتا تھا۔ صفدر کے گھر جا کر وہ طفیلی کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ اسے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگ تھی۔ اس نے چند منٹوں میں فیصلہ کر لیا تھا اور اب جب وہ فیصلہ کر چکا تھا تو وہ کھڑکی میں کھڑا بچوں کی طرح بلک بلک کر اس گاڑی کو گیٹ سے باہر جاتے دیکھ رہا تھا۔ وہ ٹین ایجر تھا’ ننھا بچہ نہیں تھا۔ وہ مرد تھا’ عورت نہیں تھا پھر بھی آنسو تھے کہ سیلاب کی طرح اس کو بہائے لے جا رہے تھے۔ منصور علی اور رخشی سے اس کی نفرت میں اور اضافہ ہوا تھا۔
٭٭٭




صفدر انکل گھر پر نہیں تھے مگر ان کی بیوی گھر پر موجود تھی۔ صبغہ’ رابعہ اور زارا کو سامان سمیت وہاں دیکھ کر اس نے اپنے تاثرات یا کیفیات چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی اور چند لمحوں میں ہی اس کی حیرانی نے ناراضی کی شکل اختیار کر لی تھی۔
”صبغہ! مجھے کم از کم تم سے یہ توقع نہیں تھی کہ تم اس طرح ان دونوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر آ جاؤ گی۔ دو کو پہلے ہی ہم سپورٹ کر رہے ہیں’ اب تم تینوں بھی…” اس کی آواز کی … تلخی میں بدل گئی۔ ”اب یہ گھر ہے’ محل تو ہے نہیں کہ لوگ یوں دھڑا دھڑ سامان لپیٹے تشریف لاتے رہیں۔ ہماری اپنی فیملی ہے اور …”
صبغہ نے اس کی بات نرمی سے کاٹ دی۔
”آنٹی ! ہم چلے جائیں گے’ صرف چند دنوں کے لیے آئے ہیں۔”
”مفت کا مال اور جگہ چھوڑ کر کون جاتا ہے۔” صفدر کی بیوی نے کسی لحاظ اور مروت کے بغیر کہا۔
”آنٹی ! ہم چلے جائیں گے’ اس وقت رات ہو رہی ہے اور ہم کہیں اور نہیں جا سکتے تھے’ اس لیے یہاں آ گئے۔” صبغہ نے دبے لہجے میں کہا۔
”نہیں’ رہو تم … ہم لوگوں کا گھر تھوڑی ہے … یہ تم لوگوں کا ہی گھر ہے…” صفدر کی بیوی اکھڑ انداز میں کہتے ہوئے لاؤنج سے نکل گئی۔
صبغہ نے مڑ کر رابعہ اور زارا کو دیکھا۔ وہ دونوں گم صم کھڑی تھیں۔
”آؤ سامان لے کر اندر چلتے ہیں۔” صبغہ نے ان سے نظریں ملائے بغیر متانت سے کہا۔
”میں ممی کے پاس جا رہی ہوں۔” منیزہ کو دیے ہوئے کمرے میں اپنا سامان لے آنے کے بعد صبغہ نے ان دونوں سے کہا۔
”مجھے تھوڑی دیر ہو جائے گی وہاں’ تم دونوں سو جانا اور کچن میں جا کر کھانا کھا لینا۔” صبغہ نے اپنا بیگ نکالتے ہوئے انہیں ہدایات دیں۔
”صبغہ آپا! آپ ہمیں ساتھ لے جائیں۔ ہمیں بھی ممی کے پاس جانا ہے۔” رابعہ نے اصرار کیا۔
”اس وقت نہیں’ کل چلیں گے۔” صبغہ نے کہا۔
”میرا دل یہاں نہیں لگ رہا۔” زارا نے اچانک رونا شروع کر دیا۔ ”ہم واپس کیوں نہیں جا سکتے؟”
صبغہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر اسے تھپکنے لگی۔ ”واپس تو ہم نہیں جا سکتے لیکن ہم یہاں سے ضرور چلے جائیں گے۔”
”مجھے پاپا سے نفرت ہے۔” زارا نے روتے ہوئے مٹھیاں بھینچیں۔ ”وہ بہت خراب آدمی ہیں۔”
”اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔” صبغہ نے اسے بہلایا۔
”اور آنٹی … آخر آنٹی ایسا کیوں کر رہی ہیں۔ انہیں ہماری مشکل اور پریشانی کا احساس نہیں ہے۔” رابعہ نے کہا۔
”وہ تو ہم سے اتنا پیار کرتی تھیں اور اب … اب کس طرح کر رہی ہیں۔ کوئی گھر میں آنے والے سے ایسی باتیں کرتا ہے۔”
”لیکن انہوں نے ہم کو گھر میں آنے سے روکا تو نہیں’ نکالا بھی نہیں۔” صبغہ نے رابعہ کا کندھا تھپکا ۔
”مگر انہوں نے ہماری انسلٹ تو کی ہے۔”
”کوئی انسلٹ نہیں ہوئی۔” صبغہ ہولے سے مسکرائی۔ ”ابھی ہم مشکل وقت میں ہیں اور مشکل وقت میں ہر ایک سے ہر قسم کی بات سننا پڑتی ہے۔ ناراض ہونے یا دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسا ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔” وہ انہیں سمجھا رہی تھی۔
”میں تم دونوں سے آ کر بات کروں گی’ اس وقت مجھے جانا ہے۔” وہ شولڈر بیگ اٹھاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
٭٭٭
منیزہ’ صبغہ کو اس وقت وہاں دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ امبر سونے کے لیے لیٹ چکی تھی اور وہ ابھی سونا چاہتی تھیں’ جب انہیں صبغہ کے آنے کی اطلاع ملی تھی۔ صبغہ نے کمرے میں آنے کے بعد کسی تمہیں کے بغیر انہیں سب کچھ بتا دیا۔ منیزہ کی حالت غیر ہونے لگی۔
”منصور کو کس نے یہاں کا ایڈریس دیا اور پھر تمہارے اور طلحہ کے بارے میں بتایا؟”
”یہ میں نہیں جانتی مگر جو بھی ہوا’ ہمارے لیے تو بُرا ہی ہوا۔”
منیزہ سے اب بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ ”روشان … وہ … وہ کیسے وہاں رک گیا۔ وہ تو … میں … میری سمجھ میں نہیں آ رہا … اب کیا ہو گا۔” وہ اپنے حواس کھو رہی تھیں۔
”کچھ نہیں ہو گا’ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”صفدر بھائی تو پہلے ہی خوش نہیں تھے اور اب … اب تم تینوں کو دیکھ کر …” منیزہ کو اب بھائی اور بھابھی کی فکر ستانے لگی۔
”ممی! ہم اب ان کے گھر پر نہیں رہیں گے۔”
”تو کہاں رہیں گے؟۔” منیزہ نے الجھ کر اس کو دیکھا۔
”ہم کہیں کرائے پر گھر لے لیتے ہیں’ وہاں رہ لیں گے۔ میں اور امبر کوئی جاب کر لیں گے۔”
”امبر کی حالت دیکھی ہے تم نے ۔ کیا جاب کرے گی وہ ۔ خدا خدا کر کے تو اس کی حالت سنبھلی ہے اور …” صبغہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”تو میں جاب کر لوں گی۔ کافی رقم ہے میرے پاس ۔ جیولری بھی ہے’ کچھ دوسری قیمتی چیزیں بھی ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔”
”اور اس کے بعد۔؟”
”اس کے بعد امبر بھی کام کرنے لگے گی۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”صبغہ ! تم بچکانہ باتیں کر رہی ہو۔” منیزہ نے اس کی تجویز کو رد کر دیا۔
”نہیں ممی!” صبغہ نے نفی میں سرہلایا۔ ”آپ اس سارے معاملے کو سمجھ نہیں رہیں۔ صفدر انکل اور آنٹی ہمیں زیادہ عرصہ برداشت نہیں کریں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں گھر سے چلے جانے کا کہیں’ ہمیں خود اس بارے میں سوچنا چاہیے۔”
”میں دھکے کھانے کے لیے اب کہیں نہیں جا سکتی۔ پہلے ہی خاصی رسوائی سر لے چکی ہوں۔”
”امبر کے بارے میں سوچیں ممی! وہ اس گھر میں مطمئن نہیں ہے۔” اس بار منیزہ خاموش رہیں مگر ان کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
”ہم سب اکٹھے رہیں گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا۔” صبغہ نے انہیں تسلی دی۔
”تم ابھی بہت کم عمر ہو صبغہ! تمہیں دنیا کا تجربہ نہیں ہے۔ جوان ہوتی لڑکیوں کے ساتھ کسی مرد کے بغیر رہنا مشکل ہو گا۔”
”ممی! میں کم عمر ہوں لیکن بے وقوف نہیں ہوں۔” صبغہ نے سنجیدگی سے کہا۔ ”کچھ عرصہ مشکل ہو گی پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے یہ حل دو دن میں نہیں نکالا’ بہت وقت لیا ہے۔ ہر طرح سے سوچا ہے’ تب ہی آپ سے بات کی ہے۔”
”نہیں ‘ ہم اس گھر سے نہیں نکلیں گے۔ ہم وہیں رہیں گے۔” منیزہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!