تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

صبغہ نے گھر کی چابی پراپرٹی ڈیلر سے لے لی تھی۔ گھر میں کچھ مرمت کی ضرورت تھی اور مرمت کے ساتھ رنگ و روغن کی بھی۔ وہ اس دن گھر کا ایک بار پھر جائزہ لینے کے لیے آئی تھی۔ تقریباً آدھ گھنٹہ وہاں رہنے اور ان تمام چیزوں کو نوٹ کرنے کے بعد جو وہاں کروانا چاہتی تھی’ وہ باہر نکل کر گھر کو تالا لگا رہی تھی’ جب فاطمہ نے اپنے گھر کاتالا کھولتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ صبغہ سے نظریں ملنے پر فاطمہ مسکرائی۔ دونوں میں علیک سلیک ہوئی۔
”میری بیٹی مجھے بتا رہی تھی کہ ساتھ والے گھر میں کرایہ دار آنے والے ہیں۔” فاطمہ نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ”مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ بہت عرصے سے یہ گھر خالی پڑا ہوا تھا۔ کب آ رہے ہیں آپ لوگ۔؟”
صبغہ نے اس پستہ قامت’ سیاہ رنگت کی ادھیڑ عمر عورت کو دیکھا جس کی آواز میں بلا کی مٹھاس تھی۔
”ہم لوگ جلدی آ جائیں گے’ صرف یہاں کچھ مرمت اور پینٹ وغیرہ کروانا ہے’ وہ کروا لیں تو آ جائیں گے۔” صبغہ نے اس کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا۔
”اندر آ جاؤ’ میں پانی پلاتی ہوں۔” فاطمہ نے اسے پیشکش کی۔
”نہیں آنٹی! میں جلدی میں ہوں۔”
صبغہ نے انکار کیا مگر فاطمہ اصرار کرنے لگی۔ صبغہ کے ذہن میں پتا نہیں کیا آیا کہ اس نے ہامی بھر لی۔ وہ فاطمہ سے اس محلے کے بارے میں کچھ اور تسلی کرنا چاہتی تھی۔ فاطمہ نے دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کے لیے کہا۔ صبغہ اس کے پیچھے اندر داخل ہوئی۔
”میں اس وقت اسکول سے آتی ہوں۔” فاطمہ نے صبغہ کو اندر کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بتایا۔ صبغہ اس گھر کا جائزہ لے رہی تھی۔ وہ بھی دو کمروں پر بنا ہوا گھر تھا مگر ان کے گھر کی نسبت زیادہ اچھی طرح سے سنوار کر رکھا گیا تھا۔ فاطمہ نے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کے لیے کہا اور لائٹ آن کر دی۔
”آپ بیٹھیں ‘ میں ابھی آتی ہوں۔”
صبغہ کمرے میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ فاطمہ باہر جا چکی تھی۔ صبغہ کمرے میں نظریں دوڑانے لگی۔ کمرے میں دو پلنگ رکھے ہوئے تھے۔ ایک پلنگ دیوار کے ساتھ کونے میں لگا ہوا تھا اور اس کے اطراف کی دو دیواریں مختلف طرح کی چیزوں سے آراستہ تھیں۔ دیواروں سے چھپکائے گئے تھے کچھ چھوٹے چھوٹے کارٹون کریکٹرز … صبغہ لاشعوری طور پر اٹھ کر اس پلنگ کے پاس آ گئی اور دیوار پر لگی کٹنگز کو پڑھنے لگی۔ وہاں ٹائم ٹیبل تھا’ ایک چھوٹا کیلنڈر تھا جس پر پورے سال کے مہینوں کی تاریخوں پہ دائرہ بنا کر مختلف تحریریں اور کام لکھے گئے تھے۔ کسی نے پورے سال کو پلان کیا ہوا تھا۔ چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کے ساتھ۔ دیوار کے ساتھ ہی ایک شیلف میں کتابیں پڑی تھیں۔ شیلف کے سب سے اوپر ریک پر ایک لیمپ دھرا تھا۔ صبغہ دوبارہ دیوار کو دیکھنے لگی’ وہاں کچھ کارڈز بھی لگے تھے۔ چھوٹے بڑے ہر سائز کے کارڈز۔




”یہ میری بیٹی کا پلنگ ہے۔” صبغہ بے اختیار چونک کر پلٹی۔ فاطمہ ایک ٹرے لے کر اندر آئی تھی۔ ”ثانی کا۔”
اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے ایک تپائی پہ ٹرے رکھ دی۔ صبغہ واپس آ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
”یہ سب کچھ وہی کرتی رہتی ہے۔”
صبغہ نے ٹرے میں سے شربت کا گلاس اٹھا لیا۔
”آپ کا نام تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔”
”میرا نام صبغہ ہے۔” صبغہ نے ایک گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
”آپ لوگ کہاں سے آ رہے ہیں۔؟”
”یہیں’ اسی شہر سے۔” صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”اسی شہر سے۔” فاطمہ نے قدرے سوالیہ انداز میں کہا۔
صبغہ ایک لمحہ کے لیے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”ڈیفنس سے۔”
فاطمہ کے چہرے پر تعجب آیا تھا۔ صبغہ نے نظریں چرا لیں۔
”والد صاحب کیا کرتے ہیں آپ کے ؟” اگلا سوال صبغہ کے لیے اور بھی مشکل تھا۔
”ہم پاپا کے ساتھ نہیں رہتے۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد شربت کے گلاس پر نظریں جماتے ہوئے اس نے کہا۔
”میرے والدین میں علیحدگی ہو گئی ہے۔”
کمرے میں ایک تکلیف دہ خاموشی کا وقفہ آیا تھا۔
”آپ لوگ کتنے بہن بھائی ہو؟” فاطمہ کی آواز میں اس بار ہمدردی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔
”چار بہنیں اور ایک بھائی۔ بھائی پاپا کے پاس ہے۔” وہ گلاس کی بیرونی سطح پر انگلی پھیر رہی تھی۔
”آپ سب سے بڑی ہیں؟”
”نہیں’ میں دوسرے نمبر پر ہوں۔ ایک بہن مجھ سے بڑی ہے۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”آپ سب پڑھتی ہیں؟” وہ اس بار ہلکا سا مسکرائی اس نے نفی میں سرہلایا۔
”پہلے پڑھتے تھے’ اب تو کام کرنا پڑے گا’ میں نے اے لیولز کیا ہے۔”
فاطمہ نے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی ٹین ایجر لڑکی کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر جو سنجیدگی تھی وہ اس کی عمر سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس کا لباس’ اس کی شکل و صورت’ اس کے انداز و اطوار ایک نظر میں ہی اس کے کسی اچھے خاندان سے تعلق کو ظاہر کر رہے تھے۔ اور وہ اس محلے میں دو کمروں کے ایک گھر کو کرائے پر لینے آئی تھی۔ ڈیفنس سے اندرون شہر کا سفر … طلاق کے بعد کیا ہوا ہو گا’ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس سوال کا جواب فاطمہ کے لیے مشکل نہیں تھا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے بہت سے جاننے والوں کو اسی تکلیف سے گزرتے دیکھ چکی تھی۔
”آپ پڑھاتی ہیں؟” فاطمہ اچانک کیے جانے والے اس سوال پر حیران ہوئی۔
”میں …۔ ہاں …” صبغہ نے اس کی حیرانی بھانپ گئی۔
”مجھے پراپرٹی ڈیلر نے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔” صبغہ نے کہا تو فاطمہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھل گئی۔
”اس کا مطلب ہے’ آپ کے تعارف سے پہلے میرا تعارف آپ تک پہنچ گیا۔ ہمسائے ہیں اس لیے۔” اس نے شگفتگی سے کہا۔
صبغہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اس کی مسکراہٹ کتنی پھیکی ہو گی’ اسے اچھی طرح اندازہ تھا۔ فاطمہ اس کے چہرے کو کسی کتاب کی طرح پڑھ رہی تھی۔ سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی ابھی اس عمر میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ کہ جہاں وہ اپنے چہرے پر آنے والے تاثرات کو چھپانے میں مہارت حاصل کر سکتی۔ اور پھر شاید صبغہ کے لیے سب کچھ اتنا نیا تھا کہ اسے یہ ”عادت ڈالنے” میں ابھی دشواری اور دقت پیش آ رہی تھی۔
”کیا پڑھاتی ہیں آپ؟”
”Maths۔” صبغہ نے کونے میں پڑے ہوئے اس پلنگ اور اس کے اطراف کی دیواروں کو دیکھا۔
”آپ کی بیٹی کس کلاس میں پڑھ رہی ہے؟”
”انٹرمیڈیٹ میں۔” ثانی کے ذکر پر فاطمہ کے چہرے پر پھر مسکراہٹ آئی۔
”اس وقت’ وہ آج کل گھر پر ہی ہوتی ہے۔ آج ثمر کے ساتھ مارکیٹ گئی ہے۔ ثمر میرا بیٹا ہے۔” فاطمہ نے مزید بتایا۔ ”وہ بھی انٹرمیڈیٹ میں پڑھتا ہے۔”
”آپ کے شوہر بھی ٹیچر ہیں؟”
”نہیں ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔”
”اوہ! آئی ایم سوری…” صبغہ نے تاسف سے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں’ ان کی ڈیتھ کو بہت سال ہو چکے ہیں۔”
”پراپرٹی ڈیلر اس محلے اور یہاں کے لوگوں کی بہت تعریف کر رہا تھا۔” صبغہ نے اس موضوع پر آتے ہوئے کہا ۔ جس پر وہ بات کرنا چاہتی تھی۔ ”میں آپ سے پوچھنا چاہ رہی تھی۔ آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ کوئی مرد نہیں ہو گا اور ہمیں اکیلے رہنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔” فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”پراپرٹی ڈیلر نے ٹھیک کہا تھا۔ یہ محلہ اور یہاں کے لوگ واقعی بہت اچھے ہیں۔ یہاں آپ لوگوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔” فاطمہ نے اسے اطمینان دلایا۔
”آپ یہاں کب سے رہ رہی ہیں؟”
”پندرہ سال ہونے والے ہیں۔ اور ان پندرہ سالوں میں مجھے یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔”
”آپ کی بات دوسری ہے۔ میری ممی ہاؤس وائف ہیں’ انہیں اور میری بہنوں کو یہاں ایڈجسٹمنٹ میں پہلے ہی بہت مشکلات پیش آئیں گی۔” وہ بتا رہی تھی۔
”ہم لوگ اس لائف اسٹائل کے عادی نہیں ہیں’ یہ کسی محلے میں جا کر رہنے کا ہمارا پہلا تجربہ ہو گا اور میں اسی لیے کچھ خوفزدہ بھی ہوں۔”
”گھبرانے کی کوئی بات نہیں بیٹا! یہاں آس پاس کے لوگ واقعی بہت اچھے ہیں۔ اور اگر کوئی مسئلہ ہوا تو بھی ہم لوگ ہیں یہاں پر۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ یہی سمجھ کر یہاں آئیں کہ آپ پہلے سے ہی ہمیں جانتے ہیں۔ کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو بھی بلاجھجک آپ میرے پاس آ سکتی ہیں۔” فاطمہ نے اس سے کہا۔
”تھینک یو …” صبغہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔
”آپ لوگ کب آ رہے ہیں یہاں؟” فاطمہ نے پوچھا۔
”ایک دو ہفتے تک۔ پہلے گھر میں کچھ مرمت اور پینٹ وغیرہ کروانا ہو گا۔”
”وہ کون کروائے گا؟”
”میں خود کرواؤں گی’ آج میں جا کر کچھ مزدور وغیرہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں۔ پھر پلمبر اور کار پینٹر کا انتظام کروں گی۔” وہ بتاتے ہوئے ساتھ ہی کچھ سوچ بھی رہی تھی۔
”اگر میں انتظام کر دوں؟”
”آپ کیسے کریں گی؟”
”اس محلے میں کچھ لوگ یہی کام کرتے ہیں۔” فاطمہ نے بتایا تو صبغہ کو یک دم محسوس ہوا جیسے اس کے کندھوں سے کوئی بوجھ ہٹ گیا ہو۔ وہ پچھلے چند دن سے گھر کی مرمت اور اس کے انتظامات کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔ اسے اخراجات کی پریشانی نہیں تھی۔ اسے یہ فکر تھی کہ وہ مزدوروں کا انتظام کہاں سے اور کیسے کرے گی۔ اگر کسی نہ کسی طرح وہ خود مزدوروں کا انتظام کر بھی لیتی ہے تو کیا وہ قابل بھروسا ہوں گے اور اچھا کام کریں گے؟۔ اب فاطمہ کی آفر سے یک دم سکون اور اطمینان محسوس ہوا تھا۔ کسی کے ریفرنس سے آنے والے مزدور اپنے کام کو یقینا بہت اچھے نہیں تو کم از کم تسلی بخش طریقے سے ضرور کریں گے۔
”آپ مجھے بتا دیں’ آپ کو کیا کیا کام کروانے ہیں۔ میں سب کروا دوں گی۔ اور پھر اس کے بعد باقی سب کام بھی ہو جائیں گے۔” فاطمہ نے اسے مزید مطمئن کیا۔
”میں نہیں جانتی میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔” فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اس میں شکریہ ادا کرنے والی کوئی بات نہیں۔ اب تو آپ لوگ ہمارے ہمسائے میں آ جائیں گے۔ ایک دوسرے سے کام پڑتے ہی رہیں گے۔”
صبغہ نے اپنے بیگ میں رکھا وہ کاغذ نکال لیا جن پر اس نے ان تمام کاموں کی فہرست بنائی تھی’ جو اسے نئے گھر میں کروانے تھے۔ اس نے اس فہرست کو فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔ فاطمہ کاغذ پر نظر دوڑانے لگی۔
چند لمحوں کے بعد فاطمہ اٹھ کر ایک نوٹ بک اور پین لے آئی اور اس کے بعد ان تمام کاموں کو ترتیب دینے لگی۔ کون سا کام پہلے ہونا چاہیے۔ اور کون سا بعد میں۔
وہ بڑی تیز رفتاری سے اس لمبی چوڑی فہرست کو دوبارہ سے ترتیب دے رہی تھی۔ صبغہ نے قدرے متاثر ہو کر اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کے کام کرنے کا طریقہ بہت منظم تھا۔ صبغہ کو پلنگ کے ساتھ دیواروں پر لگی ڈیڈ لائنز اور ٹائم ٹیبل یاد آئے۔ ثانی میں وہ سب کچھ کہاں سے آیا ہو گا اسے اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ چپ چاپ اس کے موٹے سیاہ بھدی انگلیوں والے جھریوں زدہ ہاتھوں کو کاغذ پر لکیریں کھینچتے دیکھ رہی تھی۔
دس منٹوں کے بعد فاطمہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرائی۔
”اب یہ تو طے ہو گیا کہ کل یہ کام ہوں گے اور اتنے وقت میں ہوں گے۔”
”اگر مزدوروں کا انتظام نہ ہو سکا تو …” صبغہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
”ایسا نہیں ہو گا … میں نے بتایا نا اس محلے میں یہ کام کرنے والے بہت لوگ ہیں۔ اگر ان میں سے ایک نہیں ملے گا تو دوسرا مل جائے گا اور کوئی بھی نہ ملا تو کہیں اور سے انتظام ہو جائے گا۔ یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!