تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”کہ میں تمہارے جیسا فیصلہ کرتا۔” اس کی آواز اس بار مدھم تھی۔
”تم صرف اپنی پروا کرتے۔ ہماری نہیں؟” وہ استہزائیہ انداز میں مسکرائی۔
”ہاں میں ایسا ہی کرتا…” روشان نے اثبات میں سرہلایا۔
”یہ ناممکن ہے’ تم اتنے بے حس نہیں ہو سکتے۔” صبغہ نے نفی میں سرہلایا۔
”وقت وقت کی بات ہوتی ہے صبغہ!”
”تم اگر سمجھ رہے ہو روشان کہ تمہاری ایسی باتوں سے میں اپنا فیصلہ واپس لے لوں گی تو تم غلط سمجھ رہے ہو۔” اس بار روشان خاموش بیٹھا رہا۔
”تم اسامہ کو فون کر دو۔ اس سے کہنا کہ وہ پرسوں امبر کے کلینک پر سہ پہر میں آ جائے۔ میں وہاں اس سے ملوں گی۔”
”تم ان سے کیا کہو گی؟” روشان نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
”کہہ دوں گی کچھ نہ کچھ ۔”
روشان مزید کچھ پوچھنے کے بجائے بیڈ پر لیٹ گیا۔
”بعض دفعہ مجھے لگتا ہے صبغہ! یہ سب ایک nightmare (بھیانک خواب) ہے۔” صبغہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ چھت کو گھور رہا تھا۔
”مجھے بھی یونہی لگتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہی لگتا ہے۔” صبغہ نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
”گھر اتنی جلدی ٹوٹ سکتے ہیں؟” وہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے چت لیٹے اس سے پوچھ رہا تھا۔ صبغہ کا دل بھر آیا۔
”ابھی بھی اس سوال کے جواب کی ضرورت ہے تمہیں؟”
”ہاں!” اس نے صبغہ کی طرف دیکھا۔ ”تم کہہ دو … نہیں گھر کبھی اتنی جلدی نہیں ٹوٹ سکتے۔” روشان کے لہجے میں رنجیدگی تھی۔
صبغہ نے منہ نیچے کرتے ہوئے کہا۔ ”بہت سارے لوگوں کے گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ” روشان کے لہجے میں رنجیدگی تھی۔
”پھر …؟” روشان نے عجیب سوال کیا۔
”پھر … کچھ نہیں …” سارے لفظ یک دم بھک سے اس کے ذہن سے غائب ہو گئے تھے۔ پھر کے بعد آگے کیا جواب دیا جا سکتا تھا۔ یہ کہ کوئی بات نہیں … وقت گزرتا رہتا ہے۔ زندگی رکتی نہیں۔ خواہشیں بھی نہیں مرتیں۔ خواب بھی فنا نہیں ہوتے۔ سب کچھ یونہی رہتا ہے’ بس گھر نہیں رہتا۔ اور اس کے ساتھ انسان بھی بدل جاتا ہے۔ جیسے وہ سب بدل گئے تھے۔ جیسے امبر بدل گئی تھی۔ یا منیزہ اور وہ …
”یہ سب آخر ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا صبغہ …؟ ہمارے ساتھ کیوں … اتنے سارے لوگ ہیں دنیا میں … کسی اور کے ساتھ یہ سب کچھ ہو جاتا …” روشان بے چینی کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔




”ہم نے ایسا کیا کیا تھا کہ یہ سب کچھ صرف ہمارے ساتھ ہوا؟” وہ ایک بار پھر وہی سوال کر رہا تھا۔ جو وہ پچھلے کئی ماہ میں درجنوں بار اس سے کر چکا تھا۔
”ابھی میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ جب جواب آئے گا تو میں تمہیں بتا دوں گی۔” اسے خود نہیں معلوم تھا’ اس نے روشان سے یہ کیوں کہا۔
روشان نے مزید کچھ نہیں کہا۔ وہ چپ چاپ اٹھ کر اس کے پاس سے چلا گیا۔ صبغہ نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔ دو دن کے بعد اسے ایک بار پھر اسامہ کا سامنا کرنا تھا۔
٭٭٭
”منصور چچا جیسے خود غرض آدمی کے لیے’ تم اپنی اور میری زندگی کو داؤ پر لگا رہی ہو۔” اسامہ تلخ انداز میں کہہ رہا تھا۔
وہ دونوں کلینک میں موجود تھے۔ اسامہ اس سے بہت دیر پہلے وہاں آیا تھا۔ جب کہ وہ دس منٹ پہلے ہی وہاں پہنچی تھی۔ اور اب وہ لان میں ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پچھلے دس منٹ سے اسامہ ہی بول رہا تھا۔ وہ صرف سن رہی تھی۔
”تمہیں ان پیپرز پر سائن کرتے ہوئے ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا۔ میں نے کتنی بڑی قربانی دی ہے تمہارے لیے … اور تم … تم نے مجھے چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے چند منٹ بھی نہیں لگائے۔” اس نے تاسف سے کہا۔
”تمہاری نظروں میں میری یا اس رشتہ کی یہ اہمیت تھی؟ میں سمجھتا رہا کہ تم … تم … ہر قیمت پر میرا ساتھ دو گی۔ لیکن تم … تم … اس قدر کمزور’ اتنی بزدل ثابت ہوئیں۔”
وہ چپ چاپ اسامہ کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہارا باپ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح مجھ سے بڑی آسانی سے پیچھا چھڑا لے گا۔ نہیں … میں اس بار اس کو مزہ چکھا دوں گا۔ آنے دو تم اس کو کورٹ میں … دیکھنا کیا حشر ہو گا اس مقدمے کا۔ کئی سال لگ جائیں گے۔ مگر میں فیصلہ نہیں ہونے دوں گا۔ جتنا لٹکا سکا … اس مقدمے کو لٹکاؤں گا۔”
”کئی سال لگ جائیں گے …”
صبغہ نے کہا۔ ”اس کے بعد کیا ہو گا … جب بھی مقدمے کا فیصلہ ہو گا پاپا جیت جائیں گے۔ یہ آپ جانتے ہیں؟”
”تم اگر میرا ساتھ دو… ” صبغہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اور میں آپ کا ساتھ نہیں دوں گی۔ میں آپ سے وعدہ کر بھی لوں تو بھی آپ کا ساتھ نہیں دے سکوں گی۔” وہ کہہ رہی تھی۔ ”میں قابل اعتبار نہیں ہوں۔”
”تم نے خود اپنے آپ کو ناقابل اعتبار بنایا ہے۔”
”نہیں’ حالات نے مجھے ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔” وہ عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”آپ اس معاملے کو ختم کر دیں۔ مجھے طلاق دے دیں۔”
”تمہارے منہ میں منصور کی زبان ہے۔ اس آدمی نے برین واشنگ کی ہے تمہاری۔”
”آپ یہی سمجھ لیں … اسی لیے … آپ سے کہہ رہی ہوں کہ اس معاملے کو ختم کر دیں۔”
”اتنے سالوں سے میرے نکاح میں ہو۔ تمہارے دل میں ذرہ برابر میرے لیے محبت نہیں ہے؟” اسامہ کو اس کی بات پر تکلیف ہوئی۔
”مجھے دیکھو’ میں تمہارے لیے’ اپنے گھر والوں سے بے عزت ہوتا پھر رہا ہوں۔ اور تم … تمہیں پروا ہی نہیں ہے میری۔ تم سے تو امبر بہتر ہے۔ وہ ایک ایسے آدمی کے لئے پاگل ہو رہی ہے جس نے اسے چھوڑنے میں دو منٹ کا تامل نہیں کیا۔ اور تم … تمہارے اندر تو میرے لیے کوئی فیلنگز ہی نہیں ہیں صبغہ!”
”آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس کلینک کے ایک کمرے میں امبر کی طرح ہوش و حواس سے عاری ہو کر آپڑوں تاکہ آپ کو یہ یقین آ جائے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا۔”
”آپ مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں؟”
اسامہ نے بات کاٹ دی۔ ”دعویٰ … ؟ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔”
”اور آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کیلئے گھر چھوڑ کر آ جاؤں۔’و صبغہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”میں آ جاتی ہوں مگر میرے ساتھ روشان’ زارا اور رابعہ بھی ہوں گے۔ رکھیں گے انہیں؟”
”ان کو کیوں رکھوں میں’ ان سے میرا کیا تعلق ہے۔”
”صرف میرے بہن بھائی تو نہیں ہیں وہ … آپ سے ان کا خونی رشتہ بھی ہے۔ آپ ان کے کزن ہیں۔”
”مگر وہ میری ذمہ داری نہیں ہیں’ تم میری ذمہ داری ہو۔”
”وہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہیں مگر میری ذمہ داری تو ہیں۔ جیسے آپ کو مجھ سے محبت ہے’ ویسے ہی مجھے ان سے محبت ہے۔” اس نے ٹہرتے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ”آپ اپنی محبت کے لیے قربانی نہیں دے سکتے’ میں دے سکتی ہوں۔”
”صبغہ! تم …” اسامہ کا لہجہ اب کمزور تھا۔
صبغہ نے اس کی بات کاٹ دی ۔ ”اسامہ ! میں آپ کے سامنے چوائس رکھ رہی ہوں۔ آپ وہ چوائس کر رہے ہیں جس کا حتمی نتیجہ میری اور آپ کی علیحدگی ہی ہے پھر آپ صرف مجھے الزام کیوں دے رہے ہیں۔”
”میرے پاس ابھی کوئی وسائل نہیں کہ میں تمہاری فیملی کو سپورٹ کر سکوں۔” اسامہ نے کہا۔
”آپ کی کون سی سپورٹ چاہیے ہمیں۔ مالی … ؟ نہیں’ ہم آپ پر بوجھ تو کبھی نہیں بنیں گے۔ میں نے آپ سے یہ تو نہیں کہا کہ آپ میری فیملی کو ”پالنا” شروع کر دیں۔ آپ کہتے ہیں میں اپنا گھر چھوڑ کر آپ کے ساتھ چلی جاؤں’ تو آپ مجھے کہاں رکھیں گے۔ کوئی نہ کوئی گھر تو ہو گا۔ اس گھر کی چھت کے نیچے کیا کچھ عرصے کے لیے میرے بھائی بہنوں کے لیے جگہ نہیں نکل سکتی۔ آپ سے اس سے زیادہ سہارا تو نہیں چاہیے۔ اس کے علاوہ اور کچھ مت دیں’ صرف اتنا۔”
اسامہ خاموش رہا۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ آہستہ سے مسکرا دی۔
”میں نے خلع کے پیپرز سائن کر کے کوئی غلطی نہیں کی’ صرف آپ کو اور اپنے آپ کو آزمائش سے بچایا ہے۔ خدا حافظ۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اسامہ نے کچھ نہیں کہا۔
کلینک کے گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا پورا وجود سراپا سماعت تھا … وہ … اب … شاید اب اسے آواز دے گا … اب … شاید اب …
وہ گیٹ کی طرف ہر قدم بڑھاتے ہوئے سوچتی رہی۔
کوئی جادو … کوئی منتر … کچھ … مگر وہ روک لے … اب…اب…اب…اب…
اس نے آنکھیں بند کر کے گیٹ کر اس کیا پھر سڑک کی نیم تاریکی میں آنکھیں کھول دیں۔ شام ہو رہی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ ہو اسے اس کے تراشیدہ بال اُڑ رہے تھے۔ کلینک کے باہر اسامہ کی گاڑی کھڑی تھی اور اس گاڑی سے ان دونوں کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ اس نے سڑک پار کرنے سے پہلے ایک بار اس گاڑی کو دیکھا۔ بہت نرمی سے اس کے بونٹ کو چھوا پھر مسکرا دی۔ سڑک پار کرنے میں اسے چند سیکنڈز لگے تھے۔ ہر چیز میں بس سیکنڈز ہی لگتے ہیں۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!