تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

صبغہ نے قدرے بے بسی سے اپنے ہونٹ کاٹے۔ منیزہ جس بات پر اڑ جاتیں’ اس پر اڑی ہی رہتیں۔ کوئی دلیل بھی انہیں اپنے مؤقف سے ہلاتی نہیں تھی۔
”تم نے اسامہ کو اس سارے واقعہ کے بارے میں بتایا ہے؟” منیزہ نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” صبغہ نے کہا۔
”کیوں؟”
”ابھی چند گھنٹے پہلے ہی تو میں نے یہیں پر اس کی بات ماننے سے صاف انکار کیا تھا۔ اب چند گھنٹے بعد میں کس منہ سے اس سے یہ کہوں کہ چونکہ اب مجھے گھر سے نکال دیا گیا ہے’ اس لیے میں اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوں۔”
”تم اس سے بات تو کرو۔” منیزہ نے اصرار کیا۔
”یہ بے کار ہے۔ ابھی میں نہیں جانتی کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے۔ اس کا اور میرا ساتھ آئندہ بھی کبھی قائم رہ سکے گا یا نہیں’ حالات اس پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے یہی بہتر ہے کہ جو چیز کل ختم ہونی ہے’ وہ آج ہی ختم ہو جائے۔ ابھی تو خود کو سمجھا چکی ہوں’ کل شاید نہ سمجھا سکوں۔” صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”بیٹھے بٹھائے خود ہی اندازے لگاتی رہتی ہو۔”
”میں نے اس سے بات کی ہے ممی!”
”کیا بات کی ہے اس سے۔؟”
”وہ مجھے قبول کر سکتا ہے۔ آپ میں سے کسی کو نہیں۔”
”تو وہ غلط کیا کہہ رہا ہے۔”
”میں ان حالات میں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔”
”ہم لوگ تو پہلے ہی صفدر بھائی کے گھر پر ہیں۔ ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے صبغہ!” منیزہ نے اسے سمجھایا۔ ”تم اس کے ساتھ چلی جاؤ میں تمہیں رخصت کر دیتی ہوں۔”
”اس کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔” صبغہ نے موضوع بدلا۔
”تم اسے فون تو کرو’ اس سے پہلے کہ وہ خلع کے پیپرز پر سائن کر دے۔” منیزہ نے بے چینی سے کہا۔
”میں کل فون کروں گی۔” صبغہ نے کھڑے ہوتے ہوئے جھوٹ بولا۔
”آج کیوں نہیں۔؟” منیزہ نے کہا۔
”ابھی بہت سے دوسرے کام نپٹانے ہیں مجھ۔” وہ پلٹ گئی۔
”میں فون کروں اسے ؟۔” منیزہ نے کہا۔
”نہیں ممی! میں خود کر لوں گی۔ امبر کو ڈسچارج کب تک کر رہے ہیں۔؟” اس نے نکلنے سے پہلے پوچھا۔
”اسی ہفتے میں۔ جب سے ہارون نے آنا شروع کیا ہے’ وہ بہت بہتر ہو گئی ہے۔” منیزہ نے بے ساختگی سے کہا۔
صبغہ ٹھٹک گئی ۔ ”ہارون …؟”
”ہارون کمال۔” منیزہ نے کہا۔




”وہ یہاں آ رہے ہیں؟۔” صبغہ نے تعجب سے کہا۔
”ہاں۔”
”کب سے؟”
”کافی دن ہو گئے ہیں۔”
”آپ نے مجھے نہیں بتایا۔”
”خیال نہیں رہا ہو گا۔” منیزہ نے جھوٹ بولا۔
”روز آتے ہیں؟”
”ہاں’ تقریباً ۔”
”مگر کیوں ؟”
”امبر سے بہت ہمدردی ہے انہیں اور ہم لوگوں سے بھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادتی ہوئی ہے۔” منیزہ نے کہا۔
”وہ پاپا کے پارٹنر ہیں ممی! ہم سے ہمدردی کا کیا مطلب ہے۔”
”وہ کہہ رہے تھے کہ پارٹنر شپ ان کی مجبوری ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ منصور نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور انہوں نے منصور کو بہت سمجھایا بھی تھا’ ابھی بھی سمجھا رہے ہیں۔”
”ان کے سمجھانے سے ہمیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوا پھر کیا ضرورت ہے انہیں ہمارے پاس آنے کی۔”
”اچھے آدمی ہیں۔ ہمدردی ہے’ اس لیے آتے ہیں۔”
”آج آئے تھے؟” صبغہ کے ذہن میں جیسے ایک کوندا لپکا۔
”ہاں۔ جب تم اسامہ کے ساتھ لان میں بیٹھی ہوئی تھیں’ اس وقت آئے تھے۔ میں نے سوچا’ تم نے دیکھ لیا ہو گا انہیں کیونکہ انہوں نے تم دونوں کو دیکھا تھا۔ مجھ سے پوچھ رہے تھے۔” منیزہ نے سادگی سے کہا۔
”آپ نے خلع کے بارے میں انہیں بتایا ؟”
”ہاں!”
”اور مجھے لگتا ہے’ انہوں نے ہی پاپا کو میرے اور اسامہ کے بارے میں انفارم کیا’ ورنہ ہم دونوں کی ملاقات کے بارے میں اور کون جانتا تھا۔”
”تم کیسی باتیں کرتی ہو صبغہ! ہارون کیوں ایسا کریں گے۔” منیزہ نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔
”کیونکہ وہ پاپا کے دوست اور پارٹنر ہیں۔
”وہ ان کی مجبوری ہے۔”
”یہ آپ کا خیال ہے۔ وہ پاپا سے بڑے بزنس مین ہیں۔ جب چاہیں پارٹنر شپ ختم کر سکتے ہیں۔ وہ مجبور نہیں ہیں۔”
”تم انہیں غلط سمجھ رہی ہو’ وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔” منیزہ نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ ”انہوں نے ہی امبر کے بلز کلیئر کروائے ہیں۔”
”کیوں؟۔” صبغہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”ان کا اور ہمارا تعلق کیا ہے اور آپ نے ان کی مدد لی کیوں؟”
”انہوں نے خود مدد کی ہے’ بتائے بغیر اور وہ کہہ رہے تھے کہ منصور کو مجبور کریں گے کہ وہ ہم لوگوں کو سپورٹ کرے۔”
”مجھے حیرانی ہو رہی ہے کہ وہ اتنی مہربانیاں کیوں کر رہے ہیں۔ امبر تو سخت ناپسند کرتی تھی انہیں۔”
”نہیں’ ایسا نہیں ہے ۔ امبر ان کی آمد کو پسند کرتی ہے۔ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اس کی حالت بھی ان ہی کی وجہ سے بہتر ہوئی ہے۔” صبغہ بے یقینی سے منیزہ کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”وہ کہہ رہے تھے کہ وہ امبر کی شادی طلحہ سے بھی اچھے آدمی سے کروائیں گے۔ مجھے تو بہت حوصلہ اور سہارا ہو گیا ہے ان کی وجہ سے۔”
صبغہ چپ چاپ منیزہ کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اس کی پریشانیوں میں ایک اور اضافہ ہو گیا تھا۔
”میں نے تمہارے اور اسامہ کے معاملے کے بارے میں بھی انہیں سب کچھ بتایا تھا۔ وہ مجھے یقین دلا کر گئے ہیں کہ وہ منصور کو کسی بھی صورت میں یہ قدم نہیں اٹھانے دیں گے۔ وہ تمہیں طلاق سے بچانے کی پوری کوشش کریں گے۔”
”ممی! ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں’ کوئی رشتہ نہیں ہے۔” صبغہ نے جیسے انہیں یاد دلایا۔
”جن سے تعلق اور رشتے ہیں’ وہ لوگ کہاں ہیں۔” منیزہ نے تلخی سے کہا۔ ”ایک ماہ سے امبر یہاں ہے۔ کتنے لوگ آئے اسے دیکھنے کے لئے ‘ ایک بھی نہیں۔ دنیا میں رشتے اور تعلق کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ سب اچھے دنوں کے ڈھکوسلے ہوتے ہیں۔ بُرا وقت آیا اور سب کچھ غائب۔ میں تو حقیقت جان گئی ہوں۔ دیکھ لیا ہے ہر ایک کو میں نے۔”
صبغہ کچھ بول نہیں سکی۔ منیزہ کے لہجے میں تلخی زیادہ تھی یا تکلیف’ وہ اندازہ نہیں لگا سکی۔
”تم اب جاؤ’ بہت دیر ہو گئی ہے۔” منیزہ نے موضوع بدل دیا۔
وہ چند لمحے کھڑی انہیں دیکھتی رہی پھر ایک گہرا سانس لے کر چپ چاپ وہاں سے نکل آئی۔
٭٭٭
”میں روشان بول رہا ہوں۔” اسامہ نے اپنے موبائل پر غیر متوقع طور پر روشان کی کال ریسیو کی۔
”ہاں روشان! کیا بات ہے؟” اسامہ غیر محسوس طور پر سردمہری سے بولا۔
”اسامہ بھائی! پاپا نے صبغہ’ رابعہ اور زارا کو گھر سے نکال دیا ہے۔”
اسامہ کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ ”کب ؟” بے اختیار اس نے کہا۔
”ابھی کچھ دیر پہلے۔”
”کیوں؟”
”وہ آپ سے ملی تھیں’ پاپا کو پتا چل گیا۔” اسامہ کچھ بول نہیں سکا۔
”اب کہاں ہے وہ ؟”
”انکل صفدر کے گھر پر۔”
”اوہ۔”
”میں نے آپ کو اس لیے انفارم کیا ہے کہ آپ انہیں طلاق نہ دیں۔ وہ اس گھر میں رہنے کے لیے آپ سے خلع مانگ رہی تھیں مگر اب تو وہ وجہ ہی ختم ہو گئی ہے۔” اسامہ نہیں جانتا کیوں مگر اسے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی تھی۔
”آپ انکل صفدر کے گھر ان سے کانٹیکٹ کریں۔”
”یہ اس نے تم سے کہا ہے؟”
”نہیں’ میں خود کہہ رہا ہوں۔”
”کب گئی ہے وہ یہاں سے؟”
”چند گھنٹے پہلے۔”
”انکل صفدر کے گھر تو دس پندرہ منٹ میں پہنچ گئی ہو گی لیکن ابھی تک اس نے تو مجھ سے کانٹیکٹ نہیں کیا۔” اسامہ نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”وہ بہت پریشان تھیں۔ شاید پریشانی کی وجہ سے خیال نہیں رہا ہو گا۔” روشان نے اس کی طرف سے صفائی دینے کی کوشش کی۔
”خیال تو خیر اس کو میرا پہلے بھی کبھی نہیں رہا۔”
”میں سمجھتا ہوں اسامہ بھائی! کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔” روشان نے کہا۔ ”میں نے انہیں منع کیا تھا کہ وہ پاپا کی بات مان کر ان پیپرز پر سائن نہ کریں مگر وہ …”
اسامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”مگر اس نے صرف تم لوگوں کے لیے اپنی اور میری زندگی اور ہمارے درمیان رشتے کو داؤ پر لگا دیا۔ تم کو منصور چچا نے نہیں نکالا۔؟” اسامہ کو اچانک خیال آیا۔
”میں خود نہیں گیا۔” روشان کی آواز یک دم دھیمی پڑ گئی۔
”کیوں؟”
روشان کچھ نہیں بولا۔ اسامہ نے ہلکا سا استہزائیہ قہقہہ لگایا۔ ”اتنی سمجھ دار وہ ہوتی تو آج اپنے اور میرے لیے اس نے اتنے مسائل کھڑے نہ کیے ہوتے۔”
”اسامہ بھائی!” روشان نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”اس کو اگر ضرورت ہوئی تو خود مجھ سے رابطہ کر لے گی اور پھر میں دیکھوں گا کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا لیکن میں خود اس سے رابطہ نہیں کروں گا۔”
”اسامہ بھائی! پلیز۔” روشان نے التجائیہ انداز میں کہا۔
”خدا حافظ۔” اسامہ نے فون بند کر دیا۔
طمانیت کا ایک عجیب سا احساس تھا جو اسے ہوا تھا۔ یعنی اب اسے صبغہ کو طلاق نہیں دینی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں ٹہلنے لگا اور اب وہ خود بہت جلد اس سے رابطہ کرنے والی تھی اور پھر وہ بھی روشان کی طرح یہ درخواست کرے گی کہ میں اب اسے طلاق نہ دوں۔ وہ خلع کا نوٹس واپس لے لے گی۔ وہ کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچ رہا تھا مگر میں اتنی آسانی سے تو اس کی بات نہیں مانوں گا۔ اسے پہلے میری ضرورت نہیں تھی تو اس نے آسانی سے مجھے چھوڑ دیا اور اب میری ضرورت آن پڑی تو وہ میرے پیچھے بھاگے گی بلکہ بھاگنا شروع بھی کر دیا ہے اس نے۔ ورنہ روشان سے اس طرح فون کبھی نہ کرواتی۔
”میں اس سے رابطہ کر لوں؟” اس نے تنفر سے سرجھٹکا۔ ”کیوں کروں’ میں کیوں کروں۔ پہلے بے عزتی کرواؤں پھر خود ہی اس کے پیچھے بھاگوں۔ نہیں’ اس بار تو محترمہ صبغہ منصور علی کو ہی رابطہ کرنا پڑے گا۔ میں تو کسی صورت اس سے رابطہ کروں گا نہ ہی بہت آسانی سے اس کی معذرت قبول کروں گا۔”
اس نے اپنے دل میں تہیہ کیا۔ چند گھنٹے پہلے صبغہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو ابھی تک اس کے ذہن میں تازہ تھی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!