تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

”میں اسامہ سے کیا کہوں؟” منیزہ نے اسے آواز دی۔
”اس سے کہیں وہ مجھے معاف کر دے اور طلاق بھجوا دے۔ میں نہیں چاہتی یہ معاملہ لمبا ہو۔”
اس نے پلٹے بغیر منیزہ سے کہا۔ اور پھر لان کراس کرتی کلینک کے گیٹ سے باہر نکل گئی۔ منیزہ اسے جاتا دیکھتی رہیں۔ آخر اور کتنی مصیبتیں تھیں جو آنا باقی تھیں اور کیا کچھ تھا جو رہ گیا تھا۔ بے اختیار اندر ہی اندر کڑھتے ہوئے انہوں نے سوچا۔
”میں نے شاید بہت غلط کام کیے ہوں گے۔ مگر میری اولاد نے تو کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ پھر انہیں کس چیز کی سزا مل رہی ہے۔” وہ گلوگیر ہو گئیں۔
”وہ تم سے ملنا نہیں چاہتی۔” اسامہ نے شام کو ایک بار پھر فون کیا تھا۔ وہ صبغہ کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ منیزہ نے اسے صبغہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتا دیا۔
”یہ سب اس نے آپ سے کہا؟” اسامہ کو یقین نہیں آیا۔
”ہاں …!”
”میں نے آپ سے کہا تھا کہ جب وہ آئے تو آپ مجھے بلالیں۔ پھر بھی آپ نے مجھے نہیں بلایا۔” اسامہ نے کہا۔
”صبغہ نے مجھے منع کیا تھا۔ وہ تم سے ملنا نہیں چاہتی۔”
”وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے یا نہیں … میں نہیں جانتا۔ آپ اس سے ہر قیمت پر میری ملاقات کروائیں۔” اسامہ مشتعل ہو گیا۔ ”وہ آخر میرے ساتھ کرنا کیا چاہتی ہے۔ مجھ سے کچھ کہتی ہے۔ کرتی کچھ ہے۔”
”وہ چاہتی ہے تم اسے طلاق دے دو۔”
”نہیں’ میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔” اسامہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ ”پہلے وہ مجھ سے بات کرے … میرے سامنے آئے…”
”اسامہ! میں اس سے تمہاری بات نہیں کروا سکتی۔ تم میری پوزیشن جانتے ہو۔ میں اس گھر میں نہیں رہتی۔ ” منیزہ نے قدرے بے بسی سے کہا۔
”جانتا ہوں’ بہت اچھی طرح جانتا ہوں … اس گھر کا راستہ آتا ہے مجھے۔ جا سکتا ہوں میں وہاں۔” اسامہ نے فون پٹخ دیا۔
٭٭٭




”اسامہ صاحب آئے ہیں’ آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں۔” ملازم کی اطلاع نے صبغہ کے پیروں تلے سے زمین غائب کر دی تھی۔
”اسامہ آیا ہے؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”جی … لیکن صبغہ بی بی! منصور صاحب نے منع کیا ہے کہ نہ تو فون پر آپ سے ان کی بات کروائی جائے۔ اور نہ ہی انہیں آپ سے ملنے دیا جائے۔” ملازم نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”چوکیدار نیا ہے’ اس نے انہیں اندر آنے دیا اور میں انہیں باہر نہیں نکال سکا۔ کیونکہ وہ اتنے عرصے سے یہاں آ رہے ہیں۔” ملازم نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کہا۔
صبغہ کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں ملازم کا منہ دیکھے جا رہی تھی۔
”اور پھر وہ اتنا اصرار کر رہے تھے کہ میں آپ تک ان کا پیغام پہنچانے پر مجبور ہو گیا۔ آپ سمجھیں میں نے اپنی نوکری داؤ پر لگا دی ہے۔ اب آپ جا کر ان سے بات کریں۔ اور انہیں سمجھا دیں کہ وہ دوبارہ یہاں نہ آئیں۔”
”تم جاؤ میں آتی ہوں۔” صبغہ نے ملازم سے کہا۔ ملازم کمرے سے نکل گیا۔ صبغہ نے اپنے حواس بحال کرنے کی کوشش کی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اسامہ اس طرح کچھ سوچے سمجھے بغیر وہاں آ جائے گا۔ شاید وہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ گھر کے اندر آنے میں کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہو گا۔ مگر جو ہوا تھا وہ اس کی امیدوں کے برعکس ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر یہ سوچنے میں مصروف رہی کہ وہ اسامہ سے جا کر کیا کہے گی۔ مگر اس کے ذہن میں آنے والی ہر آوازاسے بے کار لگ رہی تھی۔ وہ کچھ دیر سر پکڑے وہیں بیٹھی رہی۔ پھر اٹھ کر نیچے چلی آئی۔
اسامہ نیچے لاؤنج میں تھا اور اس کے چہرے پر ویسے ہی تاثرات تھے’ جیسا وہ توقع کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہو گیا۔
اسامہ پلیز’ آپ یہاں سے چلے جائیں۔” صبغہ نے اس سے نظر ملائے بغیر کہا۔
”کیوں چلا جاؤں؟ میں تم سے ملنے آیا ہوں۔” وہ تیز آواز میں بولا۔
”میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے ملنے آئے ہیں۔ لیکن پاپا کو پتا چل گیا تو …”
اسامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میں تمہارے پاپا سمیت کسی سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ پتا چلتا ہے تو چلے … میں یہی چاہتا ہوں کہ ایسا ہو۔”
”میں آپ کو فون کروں گی’ آپ اس وقت یہاں سے چلے جائیں۔”
اس بار صبغہ کی آواز میں لجاجت تھی۔ اسامہ کے انداز سے وہ جان گئی تھی کہ وہ آج وہاں سے نہ جانے کے لیے آیا ہے۔
”میں تمہاری کسی بات پر یقین نہیں کر سکتا صبغہ! جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے’ اس کے بعد تو مجھے کبھی بھی تمہاری بات پر یقین نہیں آئے گا۔” اسامہ نے اسی انداز میں کہا۔
”پلیز! آپ اس وقت یہاں سے چلے جائیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ سے فون پر بات کروں گی۔”
”نہیں’ میں تم سے فون پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ تم سے جو بات بھی ہو گی آمنے سامنے ہو گی۔ اور بہتر ہے یہیں ہو۔ تمہارے باپ کے گھر پر۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔” اسامہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”پلیز اسامہ! میں ہاتھ جوڑتی ہوں’ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ پاپا آ گئے تو وہ ہم سب کو گھر سے نکال دیں گے۔ انہوں نے منع کیا ہوا ہے مجھے آپ سے ملنے سے۔”
میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں تمہارے پاپا سے خوفزدہ نہیں ہوں’ مجھے قطعاً کوئی پروا نہیں ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔”
اسامہ پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ ”میں آپ سے یہاں کوئی بات نہیں کر سکتی۔ اگر آپ یہاں سے نہیں جاتے تو میں چلی جاتی ہوں۔”
وہ یک دم واپس مڑ گئی۔ اسامہ تیزی سے اس کے پیچھے آیا۔
”مجھ سے بات کیے بغیر تم یہاں سے نہیں جا سکتیں۔” اس نے صبغہ کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔
”اور میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں یہاں آپ سے بات نہیں کر سکتی۔” صبغہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
اسامہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ ”کہاں ملو گی مجھے؟” اس نے غراتے ہوئے جیسے ہتھیار ڈالے۔
”میں فون پر آپ کو بتا دوں گی۔” صبغہ نے کہا۔
”اور اگر تم نے فون نہ کیا تو میں دوبارہ یہاں آؤں گا۔” اسامہ نے اسے دھمکی دی۔
”مجھے اگر دیوار کو د کر بھی آنا پڑا تو بھی میں آ جاؤں گا۔”
صبغہ سنجیدگی سے اسے دیکھتی رہی۔
”اور میں تمہارے پاپا سے کہوں گا کہ تم نے مجھے بلوایا تھا۔”
”میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے تو میں آپ کو فون کروں گی۔ ملوں گی بھی آپ سے۔ پھر آپ مجھے دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں۔” صبغہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”کیونکہ تم … صبغہ تم میرے ساتھ جو کچھ کر رہی ہو’ اچھا نہیں کر رہیں۔ مجھے دھوکا دے رہی ہو۔” اسامہ اس بار قدرے شکست خوردہ انداز میں کہا۔ صبغہ نے جواب دینے کے بجائے لاؤنج سے نکلنے کے لئے قدم بڑھا دیے۔ اسامہ اس بار اس کے پیچھے نہیں آیا۔
صبغہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ زندگی کے بڑے فیصلے خود کرنا’ کتنا مشکل کام تھا اور یہ بڑے فیصلے اگر بہت جلدی کرنے پڑ جائیں تو ہر ایک اسی ذہنی کیفیت کاشکار ہوتاہے۔ جس کاشکار وہ ہو رہی تھی۔
”میں نے تم سے کہا تھا۔ تم یہ فیصلہ مت کرو۔” اسے پتا نہیں چلا’ اور روشان کب کمرے میں آ گیا تھا۔ مگر اس کی آواز نے اسے یک دم چونکا دیا۔ اس نے جلدی سے اپنا چہرہ رگڑ کر آنسو صاف کیے۔
”اسامہ چلا گیا؟” آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے روشان سے پوچھا۔
”چلے گئے ہیں۔” وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔ ”چھوڑو اس گھر کو اور ہم سب کو … کسی کی پروا مت کرو۔ تم اسامہ بھائی کے ساتھ جاؤ۔” روشان نے اسے بہت سنجیدگی سے مشورہ دیا۔
”میں نہیں جا سکتی۔” وہ اب اپنا چہرہ صاف کر چکی تھی۔
”بے وقوفی کر رہی ہو تم۔” روشان نے کہا۔
”تم جو چاہے کہو’ مگر میں فیصلہ کر چکی ہوں۔ میں اس سے خلع لے لوں گی۔”
”اور کل کو پاپا نے اگر تمہیں کسی ایسی ویسی جگہ شادی کرنے کے لیے کہا تو …؟” روشان بولا۔
”وہ بھی کر لوں گی۔”
”تم واقعی بے وقوف ہو۔” روشان بے اختیار بولا۔
”میری جگہ تم ہوتے تو کیا کرتے روشان؟” صبغہ نے اس سے پوچھا۔
”اس وقت میری بات نہیں ہو رہی۔” روشان نے کہا۔
”ہو رہی ہے … میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔ تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟” اس نے کچھ ناراضی سے پوچھا۔
”میں تمہاری جگہ نہیں ہوں’ صبغہ … اس لیے میں تو اس بارے میں کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔” روشان نے سنجیدگی سے کہا۔
”میری جگہ اگر تم ہوتے تو تم بھی وہی کرتے جو میں نے کیا ہے۔” صبغہ نے پورے یقین سے کہا۔
روشان اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر بولا۔ ”ضروری نہیں ہے۔”
”کیا ضروری نہیں ہے؟’و صبغہ نے بے یقینی سے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!