تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”تم نے مجھے پہلے نہیں بتایا۔”
”میں نہیں جانتی تھی کہ وہ اس طرح اچانک نسبت طے کر دیں گے اور نہ ہی امی یا بابا نے اس بارے میں مجھے بتایا تھا۔ پرسوں شام کو وہ لوگ ہمارے گھر آئے اور مجھے انگوٹھی پہنا کر چلے گئے۔”
”تم نے انکار نہیں کیا؟”
”میں اس وقت کیا کرتی۔ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں سکی۔ اب اس رشتہ سے بچنے کے لیے ہی تو میں آپ سے کورٹ میرج کرنا چاہتی ہوں۔”
”کیا تمہارے گھر والوں نے شادی کی تاریخ طے کر دی ہے؟”
”نہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے، وہ چند ہفتوں تک یہ بھی کر دیں گے۔”
”تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کورٹ میرج کا انتظام کر لیتا ہوں۔ دو تین دن کے اندر ہماری شادی ہو جائے گی۔” ہارون نے اسے تسلی دی۔
”میں کورٹ میرج کے بعد واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔”
”کیا؟”
”ہاں، میں یہ کورٹ میرج صرف اپنے گھر والوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کرنا چاہتی ہوں۔ کورٹ میرج ہو جائے گی تو وہ لوگ میری کہیں اور شادی نہیں کرسکیں گے۔ ہوسکتا ہے پھر وہ آپ کو قبول کرلیں۔” وہ اس کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کر رہی تھی۔ ہارون خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔ جب شائستہ نے اپنی بات ختم کرلی تو اس نے کہا۔
”اگر کورٹ میرج کا پتا چلنے پر تمہارے گھر والوں نے زبردستی اسے ختم کرنے کی کوشش کی تو؟”
”میں کبھی یہ شادی ختم ہونے نہیں دوں گی۔” شائستہ نے فوراً کہا۔
”اپنے گھر والوں کا دباؤ برداشت کر سکو گی؟”
”ہاں، کیوں نہیں۔”
”لیکن مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ تم ایسا کر پاؤ گی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ کورٹ میرج کے بعد تم ہمیشہ کے لیے میرے گھر چلی آؤ؟” ہارون نے اپنے خدشہ کا اظہار کیا۔
”میں ایک آخری کوشش کر لینا چاہتی ہوں۔ ہوسکتا ہے کوئی بہتر صورت نکل آئے لیکن اگر مجھے ایسا ہوتا نظر نہ آیا تو میں وہ گھر چھوڑنے میں دیر نہیں کروں گی۔ آپ کو مجھ پر یقین ہونا چاہیے۔” ہارون کچھ سوچنے لگا۔
٭٭٭




اس شام وہ ربیعہ کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ ایک پرانے طرز کی حویلی نما عمارت کے گیٹ سے گاڑی پر اندر جاتے ہوئے وہ بہت زیادہ مرعوب ہو چکی تھی اور شاید کسی حد تک خوفزدہ بھی۔
ربیعہ اسے ساتھ لے کر اندر لاؤنج میں آگئی اور وہاں اسے بٹھا کر غائب ہو گئی۔ چند منٹوں کے بعد وہ ایک بوڑھے آدمی کے اتھ دوبارہ لاؤنج میں داخل ہوئی۔ ان کے چہروں پر پائی جانے والی مشابہت سے فاطمہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ شخص ہی ربیعہ کے والد ہیں۔
”یہ فاطمہ مختار ہیں اور یہ ان کا بیٹا شہیر۔ فاطمہ! یہ میرے والد ہیں رضا علی۔” اس نے اندر آتے ہی فاطمہ سے اپنے باپ کا تعارف کروایا اور پھر شہیر کو رضا علی کے قریب کر دیا۔ رضا علی شہیر سے باتیں کرتے ہوئے اس کا چیک اپ کرنے لگے اور پھر انہوں نے ربیعہ سے اپنا بیگ لانے کے لیے کہا۔ ربیعہ لاؤنج سے نکل گئی۔
کچھ دیر بعد وہ دوبارہ ایک بیگ کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی اور اس نے وہ بیگ رضا علی کے پاس میز پر رکھ دیا۔ فاطمہ خاموشی سے ان کی سرگرمیاں دیکھتی رہی۔
چند منٹوں کے اندر رضا علی شہیر کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد اسے ایک انجکشن دے چکے تھے۔
”گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ معمولی انفیکشن ہے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا میں جو میڈیسنز لکھ رہا ہوں، یہی اسے دیں۔”
انہوں نے ایک Prescription note اس کی طرف بڑھا دیا۔ فاطمہ نے ممنونیت کے عالم میں وہ کاغذ پکڑ لیا۔
وہ کاغذ پکڑ کر اٹھنے لگی جب ربیعہ نے اسے روک دیا۔
”چائے پیے بغیر تم کیسے جاسکتی ہو؟”
”نہیں۔ میں چائے نہیں پیوں گی، بہت دیر ہو جائے گی۔” فاطمہ نے انکار کر دیا۔
”کوئی بات نہیں، ڈرائیور تمہیں چھوڑ آئے گا۔” پھر فاطمہ کے انکار کے باوجود اس نے فاطمہ کو جانے نہیں دیا۔
وہ دونوں چائے پی رہی تھیں جب فاطمہ نے اس سے کہا۔
”آپ اپنے والد کے پاس رہتی ہیں؟”
”نہیں؟ وقتی طور پر میں یہ ورکشاپ کروانے یہاں آئی ہوں، اس کے بعد واپس چلی جاؤں گی۔” ربیعہ نے چائے پیتے ہوئے کہا۔
”کہاں؟”
”کراچی؟”
”آپ کے شوہر وہاں ہوتے ہیں؟”
”ہاں۔”
”اور آپ کے والدین یہاں لاہور میں رہتے ہیں؟”
”والدین نہیں صرف والد۔ میری والدہ کی چند سال پہلے ڈیتھ ہو چکی ہے۔”
”اوہ!” فاطمہ نے بے اختیار کہا۔ ”آپ کے والد اکیلے ہوتے ہیں یہاں؟”
”ہاں کہنے کو اکیلے ہوتے ہیں مگر جتنی مصروفیات انہوں نے پال رکھی ہیں، شاید ان مصروفیات کی موجودگی میں انہیں اکیلا کہنا ٹھیک نہیں۔” ربیعہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
”آپ کے کوئی بھائی نہیں ہیں؟”
”نہیں۔ ہم دو بہنیں ہیں۔”
”دوسری بہن وہ لاہور میں ہوتی ہیں؟”
”نہیں۔ وہ انگلینڈ میں ہوتی ہیں۔”
”آپ کی یہ آخری ورکشاپ ہے۔ آپ کو افسوس نہیں ہوگا کہ باہر سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی آپ اپنا کیریئر ختم کر رہی ہیں۔ کیا سب کچھ چھوڑ دینا اتنا آسان ہوتا ہے۔”
ربیعہ اسے دیکھ کر کچھ عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ ”نہیں۔ بہت آسان تو نہیں ہے لیکن بس ایک بار بیٹھ کر خود کو سمجھانا پڑتا ہے جب بندہ خود کو سمجھا لیتا ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہتا اور میں خود کو سمجھا چکی ہوں۔”
”آپ اپنی ساس کے لیے کوئی کل وقتی ملازمہ بھی تو رکھ سکتی ہیں۔”
”ہاں ایسا کرسکتی ہوں لیکن ملازمہ میرا متبادل نہیں ہوسکتی۔”
”آپ کی ساس تو بہت محبت اور قدر کرتی ہوں گی آپ کی؟”
”نہیں۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتیں۔”
فاطمہ کو اس کے جواب پر شاک لگا۔ ”پسند نہیں کرتیں؟ کیوں؟”
ربیعہ بہت دلکش انداز میں مسکرائی ”دراصل میں نے اور مراد نے اپنی پسند سے شادی کی تھی اور میری ساس اس شادی پر رضامند نہیں تھیں۔ ہمارے ساتھ رہنے کے باوجود انہوں نے کبھی اس شادی کو قبول نہیں کیا اور وہ ابھی بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔”
”پھر بھی آپ ان کے لیے جاب چھوڑ رہی ہیں؟” وہ حیران ہو رہی تھی۔
”مراد کو بہت پیار ہے اپنی ماں سے اور مجھے مراد سے بہت محبت ہے شاید اس لیے، مجھے اپنی ساس سے بھی محبت ہوگئی ہے۔ اصل میں میں سارا دن گھر سے باہر رہتی ہوں تو مجھے ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے کہ میری عدم موجودگی میں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ گھر میں ملازم ہیں لیکن پھر بھی مجھے ان کے بارے میں پریشانی ہوتی ہے۔ شاید میں کچھ عرصہ اور جاب کرتی، مگر دو ماہ ہپلے وہ کمرے سے نکلتے ہوئے کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑیں۔ ان کے گھٹنے پر چوٹ لگی۔ میں جب شام کو گھر آئی تو وہ اپنے کمرے میں بیٹھی رو رہی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی نہ ہی مجھے برا بھلا کہا۔ بس خاموشی سے روتی رہیں۔ میری دس سالہ ازدواجی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا کہ انہوں نے اپنے غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ بہت بے عزتی کا احساس ہوا مجھے۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے شوہر سے محبت کے دعوے کرتی ہوں اور میرے شوہر کی ماں میرے ہی گھر میں ٹھوکریں کھاتی پھرے اور مجھے احساس ہوا کہ میری بیرون ملک سے لی جانے والی ان ڈگریز کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر میں اپنے ہی گھر میں موجود لوگوں کی زندگی کو آرام دہ نہیں بنا سکتی۔ ان کی معذوری اور بڑھاپے میں میرا کوئی قصور نہیں ہے مگر اگر وہ میرے ہی گھر میں ٹھوکریں کھاتی پھریں تو میرے لیے اس سے زیادہ شرمناک اور قابل نفرت چیز کوئی اور نہیں، اس لیے میں نے اگلے دن آفس جا کر نوٹس دے دیا۔ میں ویسے بھی آج کل بریل سیکھ رہی ہوں۔ جاب چھوڑنے کے بعد ان کو سکھا سکوں گی، پھر بریل میں لکھی ہوئی کتابیں وغیرہ پڑھتے ہوئے وہ اتنی ڈپریس نہیں رہا کریں گی جتنی آج کل رہتی ہیں۔”
”آپ کی فطرت میں بہت ایثار ہے۔”
”نہیں، ایثار نہیں ہے بس مجھے اپنے حقوق و فرائض کا پتا ہے اور میرے ماں باپ نے ان پر عمل کرنا سکھایا ہے۔”
ربیعہ اتنے نارمل اور معمول کے انداز میں بات کر رہی تھی جیسے اپنے بجائے کسی دوسرے شخص کی بات کر رہی ہو ”اور ویسے بھی کچھ سالوں کے بعد ساس کی وجہ سے نہیں تو شوہر کی وجہ سے یا پھر بچوں کی وجہ سے جاب چھوڑنا پڑتی۔”
”کیوں؟”
ربیعہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے کہا۔ ”کیونکہ میرے شوہر بھی نابینا ہو جائیں گے۔”
فاطمہ چند لمحوں کے لیے سانس نہیں لے سکی۔” نابینا ہو جائیں گے؟” اس نے بمشکل کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!