تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

ہارون سے یہ اس کی آخری ملاقات نہیں تھی۔ دو تین دن بعد ایک بار پھر نیلوفر پہلے کی طرح کالج سے اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ پہلے سے مقررہ جگہ پر ہارون اس کا انتظار کر رہا تھا وہاں سے وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور ایک ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے دوران مسلسل اس کی برین واشنگ کرتا رہا۔
ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد وہ اسی طرح نیلوفر کے ساتھ کالج واپس آگئی لیکن پچھلی بار کی طرح اس بار وہ عارفہ کو دھوکہ نہیں دے سکی۔ حلیمہ اور عارفہ کو شائستہ نے ایک بار پھر یہی بتایا تھا کہ وہ کالج میں ہی نیلوفر کی کچھ فرینڈز سے ملنے گئی تھی اور اسی وجہ سے کلاسز اٹینڈ نہیں کرسکی۔ حلیمہ نے پچھلی دفعہ کی طرح اس کی بات پر سر ہلا دیا، مگر عارفہ کچھ کہے بغیر صرف خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر شائستہ اور حلیمہ کسی اور موضوع پر بات کرنے لگیں مگر عارفہ خاموش ہی رہی۔
کچھ دیر بعد حلیمہ اکنامکس کی کلاس لینے چلی گئی اور وہ دونوں اکیلی رہ گئیں، تب عارفہ نے بڑی سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
”تم کالج سے کہاں گئی تھیں؟”
شائستہ نے اپنے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا ”کہیں بھی نہیں… بھلا کالج سے کہاں جانا ہے مجھے… میں نے بتایا نا میں نیلوفر اور اس کی فرینڈز کے ساتھ تھی۔”
”میں نے تمہیں نیلوفر کے ساتھ گیٹ سے باہر جاتے دیکھا تھا پھر میں نیلوفر کی فرینڈز کے پاس گئی اور نیلوفر کے بارے میں پوچھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تم نیلوفر کے ساتھ اس کے بھائی سے ملنے گئی ہو۔”
شائستہ کچھ دیر کے لیے سانس بھی نہیں لے سکی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نیلوفر نے کالج سے جانے کی وجہ اپنی فرینڈز کو بتا رکھی ہوگی۔
”اس دن بھی تم نیلوفر کے ساتھ ہی ہوگئی ہوگی اور مجھ سے اور حلیمہ سے تم مسلسل جھوٹ بول رہی ہو کہ تم نیلو فر کی فرینڈز کے ساتھ تھیں۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ یہ سب کیا ہے… تم ایسا کیوں کر رہی ہو؟”
عارفہ کی آواز میں سنجیدگی اور چہرے پر تشویش تھی۔
”نیلوفر کے بھائی سے کیوں ملنے جاتی ہو تم؟ اور وہ بھی اس طرح کالج سے۔”




شائستہ کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، پھر آہستہ آہستہ اس نے عارفہ کو ہارون کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ انگوٹھی کے واقعہ سے لے کر اس کا پرپوزل آنے تک اور پھر آج کی ملاقات کی روداد۔
اپنی بات کے اختتام پر وہ عارفہ کا ردعمل دیکھنے کے لیے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عارفہ بالکل شاکڈ تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر جیسے بے یقینی کے عالم میں شائستہ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اتنی بے وقوف ہوسکتی ہو۔” بہت دیر بعد اس نے اپنی خاموشی توڑی۔
”میں بے وقوف نہیں ہوں۔ میں جو کچھ کر رہی ہوں بہت سوچ سمجھ کر کر رہی ہوں۔” شائستہ نے اپنے لہجے کو حتی الامکان پرسکون رکھتے ہوئے کہا۔
”تم سوچ سمجھ کر دوسروں کے ہاتھ کا کھلونا بنی ہوئی ہو۔”
”نہیں میں کسی کے ہاتھ کا کھلونا نہیں ہوں۔ ہارون مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میں بھی اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور محبت کرنا یا شادی کی خواہش رکھنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔”
”یہ محبت نہیں ہے، تم اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو، ان کے اعتبار کا خون کر رہی ہو۔”
”انہوں نے مجھے یہ کرنے پر خود مجبور کیا ہے۔ جب ہارون نے اپنا پرپوزل بھجوایا تو انہوں نے کیوں مجھ سے پوچھے غیر انکار کیا۔ میں انسان ہوں، اپنا اچھا برا سوچ سکتی ہوں اپنے لیے خود فیصلہ کرسکتی ہوں۔ ماں باپ اولاد کو جانور کیوں سمجھتے ہیں اپنے فیصلے کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ مجھے زندگی کس شخص کے ساتھ گزارنی ہے۔”
”تو ٹھیک ہے۔ یہ سب کچھ اپنے ماں باپ سے کہہ دو ان کے سامنے بیٹھو اور اپنا پوائنٹ آف ویو ان کے سامنے رکھو انہیں بتاؤ کہ تم کیوں اس شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو، ان سے بات کرو انہیں قائل کرو۔”
”میں یہ سب نہیں کر سکتی۔ مجھ میں بابا سے اس بارے میں بات کرنے کی ہمت نہیں ہے، انہیں خود سمجھنا چاہیے۔”
”تم ایک شخص کو اتنی ہمت دلا سکتی ہو کہ وہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں رنگ پہنا دے، اس کے ساتھ سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پھرنے کے لیے جاسکتی ہو لیکن تمہارے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ تم اپنے ماں باپ کو یہ بتا سکو کہ تم کس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”وہ اس پرپوزل کو ٹھکرا چکے ہیں۔”
”تو ٹھیک ہے پھر لعنت بھیجو اس پر۔”
”یہ بات دوبارہ مت کہنا۔ میں ہارون سے محبت کرتی ہوں اور میں اس کے بارے میں کوئی فضول بات برداشت نہیں کروں گی۔” شائستہ نے تلخی سے کہا۔
”اگر تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا چل گیا تو تم کیا کرو گی؟” شائستہ خاموش رہی۔
”دبارہ وہ کبھی تم پر اعتبار کر سکیں گے یا تم کبھی ان کے سامنے سر اٹھا کر کھڑی ہو سکو گی؟”
”میں اپنے گھر کے ماحول سے تنگ آچکی ہوں، زندگی صرف دین نہیں ہوتی، ہر وقت مذہب، ہر وقت مذہب، یہ حلال ہے یہ حرام ہے، یہ اسلامی ہے، یہ غیر اسلامی ہے، میں تنگ آچکی ہوں اس تکرار سے۔ میرے باپ کے لیے دنیا کی ہر آسائش غیر اسلامی اور حرام ہے۔ ہر وہ کام جس سے خوشی مل سکے۔ وہ غلط ہے۔ میں بھی نماز پڑھتی ہوں میں بھی روزے رکھتی ہوں۔ کلمہ پر بھی یقین ہے مجھے لیکن عبادت کا مطلب یہ تو نہیں کہ انسان زندگی کی ہر خوشی اور آرام کو خود پر حرام کرلے۔ چوبیس گھنٹے آیتیں اور حدیثیں، چوبیس گھنٹے علما کے اقوال، حد ہوتی ہے ہر چیز کی۔ کیا سارا دین میرے ہی گھر کے لیے رہ گیا ہے اور وہ کل کو مجھے ایسے ہی ایک اور گھر میں بھیج دیں گے۔ وہاں بھی یہی سب کچھ ہوگا یہاں بابا نے زندگی تنگ کر رکھی ہے وہاں شوہر جینا حرام کر دے گا۔ مجھے نفرت ہے اس چادر اور چار دیواری سے جس کے اندر میں زندگی گزار رہی ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرے پر کاٹ کر کسی نے مجھے ایسے پنجرے میں قید کر دیا ہو جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ ہو اور میں اب یہ سب برداشت نہیں کر سکتی۔ میں ہارون کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں ویسی زندگی جو وہ اور تایا کی فیملی گزار ہے ہیں اور میں کچھ بھی غلط نہیں چاہتی۔ ہارون ٹھیک کہتا ہے دین یہ حق دیتا ہے مجھے کہ میں وہاں شادی کروں جہاں میں چاہتی ہوں اور مجھے اس سلسلے میں کوئی مجبور نہیں کر کتا۔ شریعت مجھے حق دیتی ہے کہ میں اس شخص کو دیکھوں، جس سے میں شادی کرنا چاہتی ہوں اور میں اور ہارون اس طرح مل کر کوئی غلط کام نہیں کر رہے۔ وہ میرا کزن بھی ہے اور اسے مجھ سے محبت بھی ہے اور اس نے اس محبت کو کسی سے نہیں چھپایا۔ اس نے سب کے سامنے مجھے انگوٹھی پہنائی۔ اپنے ماں باپ کو میرے گھر بھیجا۔ اپنی بہن کے ذریعے مجھ سے ملنے کی خواہش کی اور وہ دوبارہ اپنے ماں باپ کو میرے گھر بھیجنے پر تیار ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر اس کی محبت کا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے؟”
وہ چیلنج کرنے والے انداز میں عارفہ سے کہتی گئی۔
”ہو سکتا ہے تمہیں وہ فراڈ لگتا ہو، مگر محبت سچی یا جھوٹی نہیں ہوتی محبت یا ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی اور اسے مجھ سے محبت ہے وہ میرے علاوہ کسی اور سے شادی پر تیار نہیں ہے اور اسے کوئی خوف نہیں ہے وہ ہر ایک کے سامنے میرے لیے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ کچھ بھی چھپا کر نہیں کر رہا، اگر کچھ چھپا رہی ہوں تو میں چھپا رہی ہوں اور اس کے کہنے پر نہیں، اپنی مرضی سے۔ جس کے دل میں چور ہوتا ہے وہ مرد محبت کا اظہار کرتے ہوئے ڈرتا ہے خوفزدہ رہتا ہے جھوٹ بولتا ہے ہارون کمال جیسا بے خوف بندہ نہیں۔”
شائستہ کے لہجے میں فخر تھا اور اس فخر نے عارفہ کو ملال میں مبتلا کیا۔
”دین اور شریعت تمہیں یہ شخص سکھائے گا جو خود اخلاقیات سے عاری ہے، جو خود کسی اسلامی طور طریقے پر نہیں چلتا وہ تمہیں بتائے گا کہ اسلام تمہیں کیا حق دیتا ہے اور کیا نہیں جس شخص کا اسلام اس کے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے شروع ہو کر دوسرے ہاتھ کی پوروں پر ختم ہو جائے۔ اس شخص کی کوئی دلیل مجھے مت دو۔ یہ شخص تمہیں تمہارے حقوق پر لیکچر دیتا ہے۔ تمہیں بتاتا ہے کہ دین تمہیں اپنی مرضی سے شادی کا حق دیتا ہے۔ یہ شخص تمہیں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ تمہارا حق تو یہ بھی ہے کہ تم سے شادی کی خواہش رکھنے والا یہ شخص تمہارے خاندان کی عزت کرے۔ تمہارے باپ کی باتوں کا مذاق نہ اڑائے، یہ بھی تو دین ہی کہتا ہے ناکہ سسر باپ جیسا ہوتا ہے اور دین تو پھر تمہیں یہ حق دیتا ہے کہ شادی سے پہلے کسی رشتہ کے بغیر بھرے مجمع میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں انگوٹھیاں نہ پہنائی جائے۔ یہ شخص تمہیں صرف ایک حق کیوں یاد دلاتا ہے باقیوں کی بات کیوں نہیں کرتا۔” وہ سرد اور پرسکون انداز میں بول رہی تھی۔
”ویلیوز کا ایک نیا پٹارہ باہر سے لے کر آنے والا یہ تعلیم یافتہ، روشن خیال، دولت مند اور خوبصورت شخص تمہیں پہلی نظر دیکھتے ہی تم پر مرمٹا بقول تمہارے اس کو تم سے عشق ہو گیا۔ ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کا ایک اور ورژن ایسی لازوال اور طوفانی محبت کہ دوسرے دن اس شخص نے تمہیں پرپوز کرکے انگوٹھی پہنا دی اور پانچویں دن اپنے ماں باپ کو تمہارے گھر بھجوا دیا۔ آٹھ دن میں ہونے والی یہ محبت آٹھ دن میں ختم نہیں ہو جائے گی۔ اس کی کیا گارنٹی ہے تمہارے پاس؟ جو شخص تمہیں دیکھتے ہی تم پر عاشق ہو گیا وہ اس سے پہلے کتنوں پر عاشق ہوا ہوگا اور تمہارے بعد کتنوں پر ہوگا تمہیں حساب رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ جو شخص اپنے معاشرے میں اپنے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ اس طرح سلوک کرتا ہے وہ باہر کیا نہیں کرتا رہا ہوگا۔”
”مجھے اس کے ماضی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔” شائستہ نے اس کی بات کاٹ کر برہمی سے کہا۔
”کیوں تمہیں اور اسے تم سے محبت ہے۔ ہے نا۔” عارفہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسی۔
”تم نے ٹھیک کہا۔ محبت یا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی مگر ہر شخص محبت کے قابل ہوتا ہے نہ ہر شخص محبت کرسکتا ہے کیونکہ ہر شخص محبت کے تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں ہوتا محبت تو انسان کو قلندر بنا دیتی ہے۔ اس شخص کا نام تک آپ احترام سے لینے لگتے ہیں جس سے آپ کو محبت ہوتی ہے اس کو پہنچنے والی تکلیف آپ کے اپنے وجود کو گھائل کرتی ہے۔ ایک پتھر تک آپ اس کے رستے میں نہیں دیکھ سکتے۔ دنیا اٹھا کر آپ اس کو دے دینا چاہتے ہیں اور یہ شخص تم سے کہتا ہے کہ اگر تمہاری شادی اس سے نہیں ہوئی تو وہ کسی سے بھی تمہاری شادی نہیں ہونے دے گا۔ تم ساری عمر اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی رہو گی کیوں؟ کیا تم اس کی جاگیر ہو یا ملکیت یا پھر اس نے کس منڈی سے خریدا ہے تمہیں جسے تم اس کی محبت کہتی ہو وہ مکاری اور فریب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی یہ بے خوفی جو تمہیں متاثر کر رہی ہے یہ تمہاری تذلیل اور تحقیر ہے۔ سب کے سامنے اس نے تمہیں انگوٹھی اس لیے نہیں پہنائی کہ وہ تمہارے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا بلکہ اس لیے پہنائی تاکہ خاندان میں تمہارا نام بدنام ہو جائے کوئی دوسرا تمہارے لیے پرپوزل نہ بھجوائے۔ اس کی بہن دھڑلے سے تمہیں کالج سے لے جاتی ہے۔ چار دن کے بعد اسی کالج میں تم پر انگلیاں اٹھ رہی ہوں گی۔ لوگ اندھے ہوتے ہیں نہ بے وقوف اور نہ ہی انہیں ایسا سمجھنا چاہیے۔ ہارون اس لیے اتنا بے خوف ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تم دونوں کو اکٹھا دیکھے اور ایشو بنے، وہ مرد ہے اس کا کیا جائے گا۔ مگر تم مرد نہیں ہو نہ ہی یہ سب افورڈ کرسکتی ہو۔ اگر تمہیں اپنے ماں باپ جن سے تمہارا خونی رشتہ ہے۔ وہ مخلص نہیں لگتے تو پھر یہ شخص کیسے لگ سکتا ہے اور تم اگر مذہب سے تنگ آئی ہو تو مت کرو عبادت… نہ پڑھو نمازیں مگر یہ ضرور سمجھنے کی کوشش کرو کہ مذہب تمہیں جو کچھ سکھانے کی کوشش کر رہا ہے وہ تمہاری اپنی حفاظت کے لیے ہے۔”
”ہاں تمہیں تو لگتا ہے کہ میں گناہ کر رہی ہوں۔” شائستہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”میں تمہارے گناہ اور ثواب کا فیصلہ کرنے تمہارے پاس نہیں آئی ہوں نہ ہی مجھے یہ کام کرنے کا حق ہے۔ میں تو تمہیں صرف صحیح اور غلط کا فرق بتا رہی ہوں کیونکہ یہ کام میں کرسکتی ہوں اور تم صحیح رستے پر نہیں ہو۔”
”میں صحیح رستے پر ہوں یا نہیں مگر مجھے ہارون کمال کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرنی ہے۔ چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔” اس کی کسی بات نے شائستہ پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔
”شادی صرف محبت کے ستونوں پر تعمیر نہیں ہوتی۔ اس کو عزت کی چاردیواری بھی چاہیے، کم از کم اس معاشرے میں جہاں ہم رہتے ہیں۔”
”میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا۔ وہ مجھے بلائے گا میں جاؤں گی۔”
اس نے قطعی انداز میں کہا۔ عارفہ کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے اپنی کتابیں اپنے بیگ میں رکھ کر بیگ بند کرلیا۔
”اگر ایسا ہے تو پھر آج کے بعد میں تم سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گی۔ میں کبھی یہ نہیں چاہوں گی کہ تمہاری وجہ سے مجھے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔” شائستہ یک دم طنزیہ انداز میں ہنسی۔
”تم صرف اچھے وقتوں کی دوست ہو۔ برے وقت میں کام نہیں آؤں گی۔”
”تم پر برا وقت ابھی نہیں آیا مگر آجائے گا اور یہ برا وقت لانے میں تمہارے علاوہ کسی کا ہاتھ نہیں ہوگا تم اگر کسی گٹر میں اپنی مرضی سے گرنا چاہتی ہو تو میں تمہارا ہاتھ صرف اس لیے پکڑے نہیں رکھوں گی کہ میں تمہاری دوست ہوں اور دوستی کا حق تب ہی ادا ہوگا جب میں بھی تمہارے ساتھ غلاظت میں اتر جاؤں۔ میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کروں گی لیکن اگر تم پھر بھی گٹر میں اترنے پر مصر رہیں تو میں تمہارا ہاتھ چھوڑ دوں گی اور میں نے یہی کیا ہے۔ میں نے تمہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ تم اگر بات سننے پر تیار نہیں ہو تو میں تمہارے ساتھ مزید آگے جانے پر تیار نہیں ہوں۔ جب تم اس گٹر سے باہر نکل آؤ تو پھر میرے پاس آسکتی ہو۔ ہم دوستی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ختم کر رہے ہیں۔” عارفہ اب کھڑی ہو چکی تھی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!