تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”ہاں، ان کی فیملی میں موروثی طور پر یہ بیماری چلی آرہی ہے اور کچھ سالوں تک وہ بھی نابینا ہو جائیں گے۔”
”کیا شادی سے پہلے انہوں نے آپ کو یہ سب نہیں بتایا تھا؟”
”نہیں، انہوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔” ربیعہ نے بڑے مطمئن انداز میں کہا۔
”پھر بھی آپ نے ان سے شادی کرلی؟” فاطمہ کو اس کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
”ہاں، کیونکہ مجھے محبت تھی ان سے۔”
فاطمہ کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ کس ردعمل کا اظہار کرے۔ ”یہ جاننے کے باوجود کہ وہ نابینا ہو جائیں گے۔ آپ نے ان سے صرف اس لیے شادی کرلی کیونکہ آپ کو ان سے محبت تھی؟”
”فاطمہ! میری مراد کے ساتھ اتنی انڈر اسٹینڈنگ تھی کہ میں کسی دوسرے شخص کے ساتھ خوش رہنا تو دور کی بات، رہ ہی نہیں سکتی تھی۔”
”آپ کے گھر والوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا؟”
”مراد بڑے سالوں سے ہمارے گھر آرہا تھا۔ میرے فادر کے اسٹوڈنٹس میں سے تھا۔ پھر بعد میں کچھ عرصہ ان کے پرائیویٹ کلینک پر بھی کام کرتا رہا۔ اس لیے میرے فادر اس کو بہت اچھی طرح جانتے تھے بلکہ ان کی اس موروثی بیماری کے بارے میں بھی۔ جب اس نے مجھے سب کچھ بتایا اور پھر پرپوز کیا۔ تو میں نے خاصا سوچا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ مجھے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی آنکھیں ہوں یا نہ ہوں۔ میرے فادر نے بھی میری امی کے ساتھ خاصی مخالفتوں کے بعد شادی کی تھی۔ اوہ میں نے تمہیں شاید یہ نہیں بتایا کہ میری امی معذور تھیں۔ ٹانگیں نہیں تھیں ان کی۔”
فاطمہ اس کے انکشاف پر اب نہیں چونکی تھیں۔ اس کے سامنے جو عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی ہر بات چونکانے والی تھی اور اب وہ اس سے کسی بھی چیز کی توقع کرسکتی تھی۔




”میرے فادر جسمانی طور پر بالکل ٹھیک تھے اور مجھے کئی بار حیرت ہوتی تھی کہ ان دونوں کی شادی کیسے ہوگئی۔ انہوں نے میری امی سے اتنی لمبی چوڑی مخالفت کے باوجود کیوں شادی کی۔ ایسی کیا خاص بات تھی ان میں۔ میری امی زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ ایف اے کیا تھا انہوں نے۔ بڑی حسین و جمیل بھی نہیں تھیں، ہاں یہ تھا کہ پہنے اوڑھے اچھی لگتی تھیں۔ گریس تھا ان میں اور شائستگی بھی مگر وہ معذور تھیں۔ میرے فادر کے پاس علاج کے لیے کچھ عرصہ آتی رہیں، شاید چند ہفتے، میرے فادر تعریف کیا کرتے تھی ان کی ذہانت کی اور ایک دن انہوں نے ایسے ہی تعریف کی تو میری امی نے کہا۔
”تقریریں نہ کریں۔ آپ کے بقول معذوری کے باوجود میری جرأت اور اعتماد متاثر کن ہے اور میری شخصیت عام لڑکیوں سے زیادہ نمایاں ہے تو شادی کیوں نہیں کر لیتے آپ مجھ سے مگر یہ کام آپ کبھی نہیں کریں گے کیونکہ ڈاکٹر کا کام وکیل کی طرح صرف جھوٹ بولنا ہوتا ہے اور آپ اگر میری تعریفیں اس لیے کرتے رہتے ہیں تاکہ معذوری کی وجہ سے ہونے والی ٹینشن یا ڈپریشن ختم ہو جائے تو میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آپ کو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ مجھے اپنی معذوری سے کوئی ڈپریشن نہیں ہے نہ ہی مجھے اپنی ٹانگیں دیکھ دیکھ کر ہول آتا ہے۔ میں اپنی معذوری کو تسلیم کرچکی ہوں۔ سمجھوتا کرچکی ہوں اس کے ساتھ اور یہ کام آپ جیسے لوگوں کے دلاسوں اور تسلیوں کے بغیر کیا ہے۔ میں نے، اس لیے آپ اپنے قیمتی لفظ مجھ پر ضائع نہ کریں۔
اس کے بعد میرے فادر نے چند دنوں کے بعد ان کے گھر پرپوزل بھیج دیا۔ میرے والد اکلوتے تھے، اور میری امی سے عمر میں دس بارہ سال بڑے تھے اکلوتے ہونے کی وجہ سے میرے ددھیال والوں کے لیے یہ بات ناقابل قبول تھی کہ وہ کسی معذور لڑکی سے شادی کر لیتے۔ مخالفت کا ایک لمبا چوڑا طوفان اٹھا۔ خاندان کے ہر بڑے نے انہیں سمجھایا۔ لیکن میرے فادر کی ایک ہی رٹ تھی کہ مجھے جیسی لڑکی چاہیے تھی، وہ مجھے مل چکی ہے۔ کوئی شخص ٹانگوں، ہاتھوں، آنکھوں سے شادی نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے اس کے ساتھ میری زندگی اچھی گزر جائے گی۔ اس لیے میں اسی سے شادی کروں گا۔ پھر انہوں نے ایسا ہی کیا تیس سال وہ لوگ اکٹھے رہے اور میں نے اپنے ماں باپ سے زیادہ مطمئن کپل آج تک نہیں دیکھا۔ کوئی عجیب سی کیمسٹری تھی دونوں کے درمیان۔ میرے فادر ہر فنکشن میں امی کو ساتھ لے کر جایا کرتے تھے ان کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے اور میں نے کبھی انہیں اس چیز سے اکتاتے یا اس پر شرمندگی محسو کرتے نہیں دیکھا۔ اسپیشلائزیشن کے لیے وہ باہر گئے تب بھی امی ان کے ساتھ تھیں پھر کچھ سالوں بعد واپس آئے تو بہت زیادہ مصروف ہو گئے۔ اتنے مصروف کہ بعض دفعہ صرف ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے گھر آتے تھے پھر واپس چلے جاتے تھے۔ مگر امی کو ہر چیز کے بارے میں بتاتے رہتے تھے۔ ہم دونوں بہنیں اکثر سوچتی تھیں کہ ان کی کامیابی میں امی کا کتنا ہاتھ ہے اور ایک بار ہم نے ان سے پوچھا بھی۔
”میں جو کچھ بھی ہوں، تمہاری امی کی وجہ سے ہوں۔ میں چوبیس گھنٹے جاگ کر کام کرسکتا ہوں اور اس کے بعد بھی پرسکون رہوں گا مجھے کوئی ٹینشن نہیں ہوگی اگر ہوگی تو میں تمہاری امی سے بات کروں گا پانچ منٹ، دس منٹ۔ جو چیز مجھے پریشان کر رہی ہوگی۔ میں انہیں بتاؤں گا۔ وہ دو منٹ میں اس کا حل پیش کر دے گی یا کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہہ دے گی کہ مجھے اپنے کندھوں سے ہر بوجھ ہٹتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں پھر اگلے چوبیس گھنٹے لگاتار کام کرنے کے لیے تیار ہوں گا، میری زندگی میں جتنی کامیابیاں ہیں ان کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں بے سکون نہیں ہوں۔ تمہاری امی کی صورت میں سکون کا ایک زمینی ذریعہ ہے میرے پاس جو میرے ساتھ کے اور لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ بہت سارے کولیگز ایسے ہیں میرے جو مجھ سے زیادہ اچھے ڈاکٹرز ہیں، مجھ سے زیادہ کوالیفکیشن ہے ان کے پاس، لیکن ان کی زندگی میں اطمینان اور سکون نہیں ہے اور ان چیزوں کی عدم موجودگی پورے وجود کو جس انتشار میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اس کا اندازہ بھی تم لوگ نہیں کرسکتے شادی سے پہلے مجھے بھی وہ ڈپریشن تھا۔ عجیب سی meaninglessness (بے معنی) تھی زندگی میں پھر زینب سے ملاقات ہوئی میری۔ عجیب سا سکون ملتا تھا مجھے اس سے بات کرکے، یوں لگتا تھا اس کے پاس ہر بات کا جواب ہے۔ ہر مسئلے کا حل ہے مجھے لگتا تھا میں اس سے ملتا ہوں تو جیسے کسی سائیکالوجسٹ سے مل رہا ہوں، میں انتظار کرتا رہتا تھا کہ وہ ہاسپٹل آئے۔ میں اس سے بات کروں اور میں پریشان رہتا تھا کہ جب یہ آنا چھوڑ دے گی تو کیا ہوگا پھر جب زینب نے شادی کا کہا تو مجھے بڑی ہنسی آئی کہ میں نے اس چیز کے بارے میں کیوں نہیں سوچا اور تب مجھے احساس ہوا کہ ہاں یہ لڑکی اگر میری زندگی میں آجائے تو میں اپنی فیلڈ میں بہت آگے جاسکتا ہوں اور میرا یہ اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ میری اماں کہا کرتی تھیں۔”تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے معذور لڑکی سے شادی کر رہے ہو۔ تمہارے ساتھ چل پھر نہیں سکتی۔ کیا کرو گے تم؟ تمہیں سنبھالنے کے بجائے الٹا خود تمہیں اسے سنبھالنا پڑے گا۔ رضا عقل سے کام لو” اور میں ان سے کہتا تھا کہ ”اماں بیوی صرف ساتھ چلنے پھرنے یا کام کرنے اور کروانے کے لیے نہیں ہوتی” میری بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، کیونکہ میں اپنے اور زینب کے تعلق کو انہیں سمجھا نہیں پاتا تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح زینب میری زندگی میں آگئی اور پھر میری زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا…”
فاطمہ کسی بت کی طرح ربیعہ کی باتیں سن رہی تھی۔
”میں پھر بھی اپنے فادر سے یہ کہا کرتی تھی کہ معذور لڑکی سے شادی کے لیے خاصی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کہتے تھے کہ محبت میں ایک وقت وہ آتا ہے جب آپ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں، اس کے ہاتھ، کان، ناک، پاؤں، آنکھیں ہیں یا نہیں۔ تب آپ کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ شخص ہے۔ مجھے ان کی بات پر کبھی یقین نہیں آیا لیکن جب مجھے مراد سے محبت ہوئی تب مجھے پہلی بار پتا چلا کہ ہاں واقعی ایسا ہوتا ہے۔ میں نے جب اپنے والدین سے مراد کے بارے میں بات کی تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ ہاں میری امی نے مجھ سے یہ ضرور کہا کہ میں اپنے فیصلے پر اچھی طرح سوچ لوں، بعد میں میرا کوئی پچھتاوا میرے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری زندگیوں کو بھی عذاب بنا دے گا۔ میں نے خاصا سوچا مگر اتنے لمبے چوڑے غور و خوض نے بھی میرے فیصلے کو نہیں بدلا، پھر ماسٹرز کے بعد مجھے اسکالرشپ مل رہا تھا تو میرے والدین نے مجھ سے کہا کہ میں اس سے فائدہ اٹھاؤں اپنا کیریر بنانے کے لیے یہ ضروری تھا۔ کل کو مراد کی معذوری کی صورت میں میں فیملی کو سپورٹ کر سکوں گی۔”
”اور اب آپ وہ کیریر چھوڑ رہی ہیں؟”
”زندگی میں بہت سی چیزیں ہماری پلاننگ کے بغیر ہوتی ہیں۔ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتے، سوائے انہیں قبول کرنے کے۔ ابھی مراد ٹھیک ہے۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ایک بڑے ہاسپٹل میں کام کر رہا ہے۔ ابھی اگر میں جاب نہیں بھی کروں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ بس یہ ہوگا کہ ایک دو ملازم کم ہو جائیں گے اور گھر کے کچھ کام مجھے اپنے ذمہ لینا پڑیں گے مگر میں اس قابل ضرور ہو جائیں گی کہ اپنی ساس کے ساتھ کچھ وقت گزار سکوں، انہیں اس قابل کر دوں کہ وہ اس معذوری کے ساتھ ایڈجسٹ ہو جائیں پھر باقی کی زندگی وہ آسانی سے گزار لیں گی۔”
فاطمہ نے اپنے اس بازو کو دیکھا جس سے اسے نفرت تھی۔
٭٭٭
ہارون نے تین دنوں کے اندر تمام انتظامات کرلیے تھے۔ چوتھے دن وہ شائستہ کو ایک مقررہ وقت پر کورٹ لے گیا۔
دو گھنٹے کے بعد کورٹ سے باہر آتے ہوئے شائستہ کسی اور جہاں میں تھی۔ شائستہ اکبر سے شائستہ کمال کا سفر اس نے جس جرأت سے طے کیا تھا اسے اس پر خود بھی حیرت ہو رہی تھی۔
واپس گاڑی میں آکر بیٹھتے ہوئے اس نے ہارون سے پوچھا۔
”کیا تایا ابو کو اس شادی کے بارے میں آپ نے بتایا ہے؟”
”ہاں!” ہارون نے گاڑی اسٹاف کرتے ہوئے مختصراً جواب دیا۔
”ان کا کیا ردعمل تھا؟” شائستہ نے محتاط انداز میں پوچھا۔
”وہی جو ہونا چاہیے، وہ بہت خوش ہیں بلکہ میرے تمام گھر والے ہی خوش ہیں۔”
”انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا؟”
”کیوں کرتے؟ اور اگر کرتے بھی تو میں کسی اعتراض کی پروا نہیں کرتا۔”
”پھر بھی اس طرح مجھ سے شادی کرنے پر وہ زیادہ خوش تو نہیں ہوں گے؟” شائستہ کے خدشات میں کمی نہیں ہوئی۔
”میرے گھر والے تمہارے گھر والوں کی طرح نہیں ہیں۔ وہ لبرل ہیں۔ دوسروں کی آزادی اور حقوق کا احترام کرتے ہیں، چاہے وہ اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ اسے مٹھی میں بند کرکے نہیں رکھتے۔” شائستہ نے اس بار اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔
گاڑی چلتی رہی۔ شائستہ کا خیال تھا، وہ اسے واپس کالج چھوڑنے جا رہا ہے۔ مگر گاڑی ایک رہائشی علاقے میں مڑ گئی۔ شائستہ کوئی سوال کیے بغیر دلچسپی سے اس پوش علاقے کو دیکھتی رہی۔ پھر ایک گھر کے سامنے اس نے ہارون کو گاڑی موڑتے اور ہارن دیتے دیکھا۔ اس نے کچھ حیرانی سے ہارون سے پوچھا۔
”آپ مجھے کہاں لے کر آئے ہیں؟” ہارون کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”یہ تمہارا گھر ہے۔” ایک چوکیدار اب گیٹ کھول رہا تھا۔
”کیا مطلب؟”
”یہ میرا گھر ہے۔” ہارون اب گاڑی اندر لے کر جا رہا تھا۔
”لیکن آپ مجھے یہاں لے کر کیوں آئے ہیں؟”
”کیونکہ اب تم میری بیوی ہو اور میں تمہیں یہاں لانے کا حق رکھتا ہوں۔”
گاڑی اب پورچ میں رک چکی تھی۔
”مگر ہارون! میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں اس طرح گھر چھوڑنا نہیں چاہتی۔ ہم کورٹ میرج کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ تک ہم اس کورٹ میرج کو خفیہ رکھ سکتے ہیں۔ اتنے عرصہ میں میں اپنے والدین کو آپ کے بارے میں رضامند کرنے کی کوشش کروں گی۔” شائستہ نے اس سے کہا۔
”ہاں۔ ٹھیک ہے، تم ایسا کرتی رہنا۔ میں نے تمہیں منع نہیں کیا۔” ہارون نے اطمینان اور لاپروائی سے کہا۔
”تو پھر آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں۔ کیا آپ مجھے یہ گھر دکھانا چاہتے ہیں؟” شائستہ نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!