تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”کیوں؟”
”مجھے وہ لڑکا پسند نہیں ہے۔”
”تم نے پہلے اس کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں کیا؟”
”میں نے امی کو بتا دیا تھا مگر امی نے زبردستی میری منگنی طے کر دی۔”
”کیا برائی ہے اس لڑکے میں؟” وہ خاموش رہی۔
پڑھا لکھا نہیں؟”
وہ کچھ نہیں بولی۔
”اچھی شکل و صورت کا نہیں؟”
”اچھے خاندان کا نہیں؟”
”دولت مند نہیں؟ برائی کیا ہے اس میں؟”
”کوئی برائی نہیں ہے، بس میں اس سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔” اس نے سر جھکائے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”پھر کس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟”
”ہارون سے۔” اکبر یک دم مشتعل ہو گئے۔
”اس ذلیل اور گھٹیا شخص سے جس کو تہذیب چھو کر نہیں گزری۔”
”بابا! جو بھی ہے، وہ مجھے پسند ہے۔”
”انگوٹھی والی گھٹیا حرکت کے بعد بھی۔”
”بابا! اس نے کوئی گھٹیا حرکت نہیں کی تھی، اس نے مجھے صرف انگوٹھی پہنائی تھی اور وہ بھی اس لیے کیونکہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔”
اکبر اسے دیکھتے رہ گئے۔ یہ ان کی وہ بیٹی تھی جس کے منہ میں زبان ہی نہیں ہوتی تھی اور آج وہ…
”وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔” انہوں نے اپنا غصہ دباتے ہوئے آواز ہلکی کی۔
”کیوں اچھا نہیں ہے۔ اس میں کیا کمی ہے؟ وہ پڑھا لکھا ہے، خوبصورت ہے، اچھے خاندان کا ہے، دولت مند ہے۔”
”اچھا خاندان؟… اس کا خاندان اچھا ہے؟ اس کا باپ فارماسیوٹیکلز کا کام کرتا ہے۔ دو نمبر کا مال بازار میں بھجوا کر نوٹ کما رہا ہے۔” اکبر نے تلخی سے کہا۔
”بابا! وہ ہیں تو ہمارے ہی خاندان کا حصہ۔”




”وہ ہمارے خاندان کا حصہ نہیں ہے۔ غلط کام کرنے والا اور حرام رزق کمانے والا میرے خاندان کا حصہ نہیں ہو سکتا۔” اکبر نے حتمی لہجے میں کہا۔
”آپ باپ کی سزا بیٹے کو کیوں دے رہے ہیں۔ ہارون مختلف ہے۔”
”سانپ کا بیٹا سنپولیا ہوتا ہے۔ ہارون نے آکر اسی کاروبار کو سنبھالا ہے۔ وہ بھی باپ جیسے حربے استعمال کر رہا ہے۔”
”بابا! مجھے ان کے بزنس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مجھے تو اس سے شادی کرنی ہے، اس کے بزنس سے نہیں۔”
”ان کے گھر کا ماحول دیکھا ہے تم نے؟… کس طرح کے مرد اور عورتیں وہاں آتے ہیں۔ اس کی بہنوں کو دیکھا ہے۔ کس طرح کے لباس پہنے پھرتی ہیں وہ۔” اکبر یک دم چلائے۔ ”میں تمہیں خود دوزخ میں بھیج دوں؟”
شائستہ یک دم رونے لگی۔ ”بابا! آپ مجھ پر اپنی مرضی کیوں مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ میری زندگی کے فیصلے آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں جو حق مجھے دین دیتا ہے، وہ آپ کیوں نہیں دے رہے مجھے؟”
”میں تمہیں کون سا حق نہیں دے رہا۔”
”مرضی سے شادی کا… کوئی دس بارہ شادیاں تو نہیں کرنی ہوتیں زندگی میں ایک شادی کرنی ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنی مرضی سے نہ کریں کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ پوری زندگی گزار دیں جو پسند ہی نہیں ہے۔” وہ بری طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ”آپ تو بڑے دین دار بنتے ہیں ہر وقت نمازیں پڑھتے ہیں۔ دین کی باتیں کرتے رہتے ہیں جب بیٹی اپنی مرضی سے شادی کا حق مانگ رہی ہے تو آپ وہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ اولاد کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ آپ اپنی مرضی سے کیوں کر دیتے ہیں۔ اتنی کم عقل تو نہیں ہوتی اولاد… میں اگر اسے پسند کر رہی ہوں تو کچھ نہ کچھ تو اچھا ہوگا اس میں… آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہر کوئی چیزوں کو آپ کی نظر سے دیکھے۔ میں آپ کے ذہن کو سمجھ نہیں پائی۔ کیا دین صرف باتیں کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ عمل کے لیے نہیں… یہ قول و فعل کا تضاد نہیں کہ آپ بات دین کی کرتے ہیں مگر اولاد کو اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر چلانا چاہتے ہیں۔” وہ بنار کے بولتی جا رہی تھی۔
”میں کیسے ایک ایسے شخص کی بیوی بن کر رہوں جسے میرا دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ اس کو دیکھ کر مجھے ہارون یاد آیا کرے گا تو گناہ کسے ہوگا مجھے یا آپ کو… وہ اچھا ہے یا برا مجھے اس سے محبت ہے۔ حرام کماتا ہے یا حلال کماتا ہے، مجھے کسی بھی چیز پر اعتراض نہیں ہے۔ مگر میں آپ کی پسند کے مطابق شادی نہیں کرسکتی۔” اس نے بات ختم کر دی کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔
”تمہیں منگنی سے پہلے مجھ سے یہ سب کچھ کہنا چاہیے تھا۔ اسی طرح جس طرح آج کہا۔”
”ان سے پوچھیں، میں نے ان سے کہا تھا۔ انہوں نے میری بات نہیں سنی۔” اس نے اپنی ماں کی طرف اشارا کرتے ہوئے تلخی سے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں تمہاری شادی ہارون سے کر دیتا ہوں مگر کل کو اگر وہ تمہیں تنگ کرے یا چھوڑ دے تو میرے گھر مت آنا۔ کبھی بھی اس کی کوئی شکایت لے کر میرے گھر مت آنا…” شائستہ کے آنسو تھم گئے۔
”ٹھیک ہے۔”
”ہارون سے کہو اپنے ماں باپ کو یہاں بھجوائے۔” شائستہ بے یقینی سے انہیں دیکھتی رہی۔ اسے توقع نہیں تھی وہ اتنی آسانی سے اس کی بات مان لیں گے مگر انہوں نے اس کی بات مان لی تھی۔
کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے پاؤں زمین پر نہیں آسمان پر پڑ رہے تھے۔
٭٭٭
اس نے دوسرے دن ہارون کو فون پر یہ سب کچھ بتا دیا۔ وہ بڑی خاموشی سے اس کی ساری گفتگو سنتا رہا پھر اس نے کہا۔
”بہت اچھی بات ہے… اچھا کیا تمہاری فیملی نے۔”
”پھر اب آپ کب اپنے گھر والوں کو بھجوا رہے ہیں؟” شائستہ نے مسرور ہوتے ہوئے پوچھا۔
”اس بار میرے گھر والے نہیں آئیں گے۔ تم اپنے گھر والوں سے کہو کہ وہ تمہارا رشتہ لے کر ہمارے گھر آئیں۔” وہ اس کی بات پر ہکا بکا رہ گئی۔
”مگر ہارون! یہ کیسے ممکن ہے۔ لڑکی والے تو رشتہ لے کر نہیں جاتے۔”
”یہاں لڑکی یا لڑکے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ دونوں فیملیز رشتے دار ہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر اس بار تمہارے گھر والے ہمارے ہاں آجائیں۔”
”مگر یہ مناسب نہیں ہے۔”
”کیوں مناسب نہیں ہے اگر میرے گھر والے اتنی بار تمہارے گھر ذلیل و خوار ہو کر آسکتے ہیں تو پھر تمہارے گھر والے بھی میرے گھر آ سکتے ہیں۔”
”تم بدلہ لینا چاہتے ہو؟”
”کس چیز کا بدلہ؟… میں نے ایسا کچھ سوچا ہے نہ ہی کہا ہے۔”
”تو پھر تم اپنے گھر والوں کو ہمارے ہاں کیوں نہیں بھجوا رہے۔” وہ یک دم چلائی۔
”چلانے کی ضرورت نہیں ہے شائستہ! میں نے جتنی بار اپنے گھر والوں کو تمہارے ہاں بھیجا ہے۔ تم جانتی ہو، اب ایک بار ان کو بھی تو ہمارے ہاں آنا چاہیے اور میرے ماں باپ کم از کم تمہارے ماں باپ کے ساتھ وہ سلوک نہیں کریں گے جو انہوں نے کیا تھا۔ وہ پرپوزل لے کر آئیں ہم پرپوزل قبول کرلیں گے۔”
”ہارون! میں نے اتنی مشکل سے اپنے گھر والوں کو رضامند کیا ہے اب اگر میں نے یہ بات ان سے کہی تو بابا دوبارہ ناراض ہو جائیں گے۔” شائستہ نے منت بھرے انداز میں کہا۔
”یہ تمہارا اور ان کا معاملہ ہے۔ یہ تم کو ہینڈل کرنا ہے۔” ہارون کا لہجہ بہت پرسکون تھا۔
”وہ میری شادی تم سے نہیں کریں گے۔”
”تو نہ کریں۔” وہ ہارون کی بات پر ہونٹ بھینچ کر رہ گئی۔
”تمہیں میرے گھر والوں کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہے؟” وہ روہانسی ہوگئی۔
”تمہارے گھر والے میرے گھر والوں سے زیادہ عزت والے نہیں ہیں۔” اس نے اس بار اکھڑ لہجے میں کہا۔
”اگر وہ بار بار تمہارے باپ کے سامنے بے عزت ہونے جاسکتے ہیں تو تمہارا باپ کیوں نہیں آسکتا۔ ویسے بھی چھوٹا بھائی ہے وہ میرے باپ کا… اب میں فون بند کرنے لگا ہوں۔ مجھے کہیں جانا ہے۔” دوسری طرف سے کال ختم کر دی گئی۔ شائستہ بے یقینی سے ریسیور کو ہاتھ میں لیے گھورتی رہی۔
٭٭٭
”صرف تیس پرسینٹ شیئرز!” شبانہ چلا اٹھی۔ ”یہ بھیک لینے کی کیا ضرورت تھی۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”اس سے تو بہتر تھا، تنخواہ لے کر اس فیکٹری میں کام کر لیتے، کم از کم کوئی مخصوص ورکنگ آورز تو ہوتے اور فیکٹری کے نفع نقصان کی ذمہ داری بھی آپ پر نہ ہوتی۔”
”منصور تیار ہی نہیں تھا اس سے زیادہ دینے پر… تو میں کیا کرتا۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔” مسعود نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”واہ واہ… کیا بہتری ہے۔ چھوٹا بھائی ہو کر اس نے آپ کا لحاظ کیا ہے نہ ہی دوسرے رشتے کا۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!