تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

وہ دونوں آواری میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سفینہ سلور گرے سلک کی ساڑھی باندھے ہوئے تھی۔ اس کے کھلے بال جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے سیلولیس بلاؤز سے نظر والے بازوؤں پر گرتے تو وہ کبھی سر اور گردن کے جھٹکے سے انہیں پیچھے کر لیتی۔
شجاع علی اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پارہے تھے وہ سارادن آفس میں ساتھ ہوتے تھے۔ شجاع علی سارادن اسے دیکھتے رہتے، اس سے باتیں کرتے رہتے، اس کے باوجود جب بھی رات کو اس کے ساتھ ڈنر کے لیے کہیں جاتے، سفینہ انہیں اسی طرح مسمرائز کردیا کرتی تھی۔
شجاع علی کے لیے ہر بار اسے بنا سنورا دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ کل زیادہ اچھی لگ رہی تھی یا آج … وہ ہر بار پہلے سے زیادہ پر کشش اور حسین لگتی تھی اور وہ خود کو ہر بار پہلے سے زیادہ مجبور اور بے بس پاتے تھے انہیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا کہ سفینہ دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہے۔
”آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو مجھ سے کوئی خاص بات کرنا ہے۔ ”سفینہ نے اپنے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے شجاع علی کو یاد دلایا۔
”دراصل میں تم سے بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ تلاش کر رہا ہوں ، میں بہت دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہتا تھا مگر ہر بار میری ہمت جواب دے جاتی تھی ۔ آج بہر حال میں نے یہ طے کرلیا کہ جو بھی ہو، مجھے آج تم سے یہ بات کہہ دینا ہے۔ ”شجاع علی بڑی سنجیدگی سے گفتگو کر رہے تھے جبکہ سفینہ بے نیازی سے مشروب پینے میں مصروف تھی۔
”سفینہ! میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
شجاع علی کا خیال تھا کہ سفینہ ایک دم حیران ہو جائے گی، نروس ہو گی ۔ کہے گی کہ میں ایسی بات کی توقع ہی نہیں کر رہی تھی۔ بے یقینی سے انہیں دیکھے گی لیکن ان کی کوئی توقع پوری نہیں ہوئی۔ سفینہ کے چہرے پر حیرت آئی نہ بے یقینی…شاک نظر آیا نہ اس کا رنگ بدلا …نہ اس کے ہونٹ کپکپائے۔
اس نے ان کی بات ان کے چہرے پر نظریں جما کر سنی اور پھر ٹیبل سے مشروب کا گلاس دوبارہ اٹھاتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”کیوں…”
شجاع علی اس سوال کی توقع نہیں کر رہے تے اور شاید اس رد عمل کی بھی۔
”کیوں کے بارے میں تو میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے آپ سے محبت ہے اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ ”شجاع علی نے کہا۔ سفینہ نے مشروب کا ایک اور گھو نٹ لیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے گلاس کو نیچے رکھ دیا۔
”میں جانتی ہوں، آپ کو مجھ سے محبت ہے اور یقینا آپ کو بھی پتا ہو گا کہ مجھے تم سے محبت ہے مگر شادی…”وہ رک گئی۔
”تم نے بات ادھوری کیوں چھوڑ دی؟” شجاع علی کچھ بے چین ہوئے۔
”میں نے آپ سے شادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔”سفینہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں ؟”شجاع علی کو جیسے شاک لگا۔
”کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کو کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے ۔”
”کیسی تکلیف؟”
”آپ کے گھر والے…”سفینہ نے ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ دی ۔




”سفینہ!میرے گھر والے میرا مسئلہ ہیں ۔تمہیں ان سے کسی قسم کا خدشہ نہیں ہونا چاہیے ۔”شجاع علی نے فوراََ کہا۔
”مجھے ان سے اپنے بارے میں کوئی خدشہ نہیں ہے، میں آپ کے بارے میں پریشان ہوں ۔ میں نہیں چاہتی آپ کسی پریشانی کا شکار ہوں۔”
”تم فکر مند مت ہو، میں اس صورت حال کو ہینڈل کر لوں گا۔ میں اس سارے معاملے پر غور کر چکا ہوں اور پھر فوری طور پر تو اس شادی کے بارے میں میرے اور تمہارے علاوہ کسی اور کو پتابھی نہیں چلے گا۔ تم اسی طرح آفس آتی رہو گی۔ ”شجاع علی نے کہا۔
سفینہ کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی ۔ شجاع علی نے اچانک ایک انگوٹھی نکال کر میز پر سفینہ کے سامنے رکھ دی۔ سفینہ کی نظریں اس انگوٹھی پر جم گئیں ۔ اس کی آنکھوں میں پسند یدگی تھی، کچھ دیر تک انگوٹھی کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے انگوٹھی اٹھانے کے بجائے اپنا ہاتھ شجاع علی کی طرف بڑھا دیا۔ شجاع علی کے چہرے پر چمک آگئی ۔ سفینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے شجاع علی نے دوسرے ہاتھ سے انگوٹھی سفینہ کی انگلی میں پہنا دی۔
٭٭٭
گلی کے کونے پر موجود کوڑے کے ایک بہت بڑے ڈرم کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ اس ڈرم کے گرد جیسے گھیرا ڈالے کھڑے تھے مگر کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ کچھ عورتیں افسوس کرتے ہوئے واپس آرہی تھیں ۔
”کیاہوا؟”رابعہ نے ان سے پوچھا۔
”بس قرب قیامت کی علامت ہے اور کیا ہے۔ ” ایک عورت نے مالک مکان کی بیوی کے بولنے سے پہلے ہی کہا۔
”وہاں کوڑے کے ڈرم میں کینوس کے ایک تھیلے کے اندر دونوزائیدہ بچے کوئی پھینک گیا ہے۔ ایک بچہ تو مرچکا ہے جبکہ دوسرے بچے کو چوہوں نے کتر دیا ہے مگر وہ ابھی رورہا ہے ۔ چند سانس باقی ہیں اس کے ۔”وہ دم بخود سب کچھ سنتی رہی۔
”تو اس کو ہسپتال لے جائیں ۔”رابعہ نے بے اختیار کہا۔
” پولیس کو فون کیا ہے، پولیس کے آنے سے پہلے کوئی پاس جانا نہیں چاہتا مگر انہوں نے چو ہوں کو ہٹا دیا ہے۔
ویسے بھی ایسے بچوں کو بچا کر کیا کرناہوتا ہے، جنہیں پیدا کرنے والے پھینک جاتے ہیں ۔ انہیں دنیا کیسے اٹھائے۔
اچھا ہے وہ بھی مرجائے۔ ذلت اور خواری کی زندگی سے بہتر ہے۔” ایک عورت نے کچھ افسردہ سے انداز میں کہا۔
رابعہ وہاں نہیں رکی۔ وہ تیز قدموں سے کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھ گئی۔ لوگوں کے ہجوم کو چیرتے ہوئے وہ آگے بڑھ آئی ۔باقی لوگوں کی طرح ڈرم میں صرف جھانکنے کے بجائے اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ تھیلا نکال لیا جس میں ہلکی حرکت کے ساتھ کچھ رونے کی نحیف سی آواز آرہی تھی۔
”ارے …ارے…یہ کیا کررہی ہو بی بی ! ہاتھ مت لگاؤ۔ پولیس کو آنے دو۔”اس کے پیچھے کھڑے محلے کے ایک آدمی نے کہا۔
”اور پولیس کے آنے تک یہ مرگیا تو…؟”
”اچھا مر جائے ، اس طرح کی غلاظت…”ایک بزرگ بڑا بڑائے ۔
وہ ان کی بات پر توجہ دیے بغیر گلی میں لگے ہوئے بلب کے نیچے اس تھیلے کو لے آئی ۔ تمام لوگ اب اس کے گرد جمگھٹا لگانے لگے ۔رابعہ نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ تھیلے کے اندر سے وہ نحیف سا دجود نکالا اور وہ جیسے دھک سے رہ گئی۔ اس بچے کا ایک پوراکندھا خون سے بری طرح لت پت تھا اور وہاں سے گوشت بھی نظر آرہا تھا۔بچے کے جسم پر کوئی کپڑے نہیں تھے ، صرف ایک کپڑے کے ٹکڑے سے اسے لپیٹا گیا تھا۔ رابعہ کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
زمین پر آلتی پالتی مارتے ہوئے اس نے اس بچے کو گود میں ڈال لیا اور ہاتھ تھیلے کے اندر ڈال کر دوسرے بچے کو بھی باہر نکالا۔ اس بچے کو بھی اسی طرح کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپیٹا گیا تھا۔ وہ چوہوں کی دسترس سے مکمل طور پر محفوظ تھا۔ اس کا جسم سر داور نیلا تھا۔ دیکھنے میں یونہی لگ رہا تھا جیسے وہ مر چکا تھا۔ رابعہ نے اس کے دل کی دھڑکن تلاش کرنے کی کوشش کی اور دل کی دھڑکن تلاش کرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ بچہ بھی مردہ نہیں تھا، اس کا سانس بہت نامحسوس انداز میں چل رہا تھا۔ چند لمحوں کی جدوجہد کے بعد وہ اس کے دل کی دھڑکن کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
تھیلا پھینکتے ہوئے وہ ان دونوں کو بازوؤں میں سنبھالتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”رابعہ !کیا کررہی ہو؟” مالک مکان کی بیوی نے اس سے پوچھا۔
”میں ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جارہی ہوں ۔ یہ دونوں ابھی زندہ ہیں ۔”اس نے قدم اپنے گھر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
”میں چاہتا ہوں جب تمہارے گھر والوں کو اس کورٹ میرج کے بارے میں پتا چلے تو وہ اسے کاغذ کا صرف ایک ٹکڑا سمجھ کر تمہیں اس سے چھٹکارا دلوانے کی کوشش نہ کریں ۔”وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے چند گھنٹے پہلے کورٹ میرج کی تھی۔
”وہ یہ جان جائیںکہ تمہاری شادی ہوچکی ہے اور بقول انکل !لڑکیوں کی شادی ایک بار ہی ہوتی ہے، بار بار نہیں ، اس لیے بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ انہیں یہ معلوم ہو جائیں کہ تم اس سوچ اور سمجھ کا اپنی مرضی سے استعمال کر چکی ہو، میں چاہتا ہوں وہ مجھے اپنے داماد کے طور پر قبول کر لیں اور یہ سب کورٹ میرج کے کاغذکے ایک ٹکڑے سے نہیں ہوگا۔”وہ وہ بہت سنجیدہ تھا۔
”مگر عثمان …”ماریہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن عثمان نے بایاں ہاتھ اٹھا کر مدھم مگر مستحکم آواز میں اس کی بات کاٹ دی۔
”مجھے بحث کرتی ہوئی عورتیں اچھی نہیں لگتیں اور اپنی بیوی کو بحث کرتے تو بالکل پسند نہیں کروں گا۔ مجھے ایسی عورتیں اچھی لگتی ہیں جن میں تابعداری ہو۔”
ماریہ نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا ۔ عثمان کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔
”یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ عثمان کو عورتوں کی کمی نہیں تھی پھر بھی اس نے اگر تمہارا انتخاب کیا ہے تو وہ تمہیں ان تمام عورتوں سے بہتر اور برتر دیکھنا چاہتا ہے۔ ”
وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی۔
”میں تمہیں تمہاری مرضی کے خلاف یہاں لایا ہوں نہ تم سے کوئی زبردستی کروں گا۔ تمہیں اختیار ہے چاہو تو میری بات مانو یا مت مانو مگر یہ ضرور سوچ لو کہ میرے ساتھ تمہیں وہ زندگی گزارنی ہے جس کے بارے میں تم خواب دیکھتی آئی ہو ۔ خوابوں میں نظر آنے والی چیزوں کو مٹھی میں لینے کے لیے ہاتھ کی گرفت کو بہت مضبوط ہونا چاہیے۔ ” وہ اب اسے دیکھنے کے بجائے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہا تھا۔
”تم اگر آج میری بات نہیں بھی مانتیں ، تب میری بیوی بہر حال تم ہی ہو گی مگر ہمارا رشتہ شاید اتنا مضبوط کبھی نہ ہو سکے ، جتنا ہم دونوں کو توقع ہے ۔”ماریہ نے سر جھکا لیا۔
”میرے ساتھ رہتے ہوئے تمہیں قدم قدم پر ایسے بہت سے فیصلے کرنے پڑیں کے جن پر تمہارے باپ کی اخلاقیات بہت سے فتوے عائد کردے گی مگر وہ سب کچھ عثمان کی زندگی کا حصہ ہے اور میں ان چیزوں کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اب اگر تم چاہو تو میں تمہیں داپس کالج چھوڑآتا ہوں۔”اس نے گیند اس کے کورٹ میں پھینک دی۔ماریہ کچھ بول نہیں سکی ۔ عثمان اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے منتظر نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ماریہ نے کھڑکی سے باہر لان میں نظر دوڑائی۔ دور تک سبزہ پھیلاہواتھا۔اس نے ونڈاسکرین سے اپنے سامنے کھڑی عمارت کو دیکھا۔
اس نے اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھا۔
اس نے چند لمحے آنکھیں بند کر کے کچھ سوچا۔ اس کے تین طرف پرفیکشن تھی۔ اسے یوں محسوس ہوا ، وہ ایک چوکور کا وہ چوتھا کونہ ہے جو پرفیکٹ نہیں ہے مگر پر فیکٹ ہو سکتاہے۔ آنکھیں بند کیے ہوئے دائیں طرف بیٹھے شخص کے وجود سے اٹھتے ہوئے کو لون کی مہک اسکے حواس کو متاثر کرنے لگی۔
اس نے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے نظر آنے والی عمارت اس کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگی۔
اس نے بائیں جانب سر گھمایا۔ دور تک پھیلا ہوا سبزہ اس کے دل و دماغ کو عجیب سا سکون پہنچانے لگا۔ وہ سحر زدہ ہونے لگی ۔ اس کے تین طرف پرفیکشن تھی۔”Perfection begets perfection” اس نے سرگوشی کی۔ چوکور کے تین کونے خواب زار، ایک قدم جنت ارضی ۔
اس نے بایاں ہاتھ ہینڈل پر رکھا اور دروازہ کھول دیا۔ چوکور کے چوتھے نامکمل کونے نے Perfectionتلاش کرلی تھی۔
گاڑی اب خالی تھی۔ وہاں کوئی ذی نفس نہیں تھا، صرف خاموشی تھی،تنہائی تھی۔
تھوڑا سا آسماں
تھوڑا سا آسماں
ایک لمبی سانس ہو
اورایک آسماں
ایک آنچ درد کی
اور ہلکا سا دھواں
تھوڑا سا آسماں
ہوا کے دوش پر رکھ دو
یا اس کو آنچ پر رکھ دو
ہے چند اُڑتے ہوئے تنکوں کا
میرا آشیاں دیکھو
میں اس کو اوڑھوں یا بچھاؤں
یا میں اس کو بانٹ دوں
میرے حصے کا جتنا بھی ہے
میرا آسماں دے دو
تھوڑا سا آسماں
تھوڑا سا آشیاں
تھوڑا سا یہ جہاں
***** ختم شد*****




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!