”تم اس پہلی لڑکی ‘کیا نام ہے اس کا؟”ایس پی نے پوچھا۔
”امبر فرید۔”اے ایس پی نے بجھے ہوئے لہجے میں بتایا۔
”ہاں ‘تم امبر فرید کے کیس کو دیکھو۔ یہ امبر منصور علی کا کیس میں خود دیکھتا ہوں ‘کیونکہ یہاں معاملہ خاصا سنگین اور نازک ہے۔ اوپر سے بہت سے پریشرز آئیںگے۔ اچھا وہ جو دوسری دو فائلز لانے کا میں نے تمہیں کہا تھاوہ لائے تم؟”اے ایس پی نے منٹوں میں موضوع بدل دیا ۔ اے ایس پی بُری طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا
٭٭٭
ہارون نے کسی چہرے پر چند منٹوں میں جھریوں کا جال بنتے نہیں دیکھا تھا۔ مگر وہ اس وقت دیکھ رہا تھا۔ شائستہ چند منٹوں میں بوڑھی ہو گئی تھی۔
”شائستہ تم. . .”ہارون نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ایک لفظ مت کہنا ۔ کچھ مت کہنا۔ ”
اوپر والی منزل پر یک دم کسی کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑایا جانے لگا۔ پھر اسد کی آواز آئی۔ وہ چلا رہا تھا۔ اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
” نایاب … نایاب …دروازہ کھولو”
ہارون بے اختیار چونکا پھر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسد اب پوری قوت سے دروازہ پیٹ رہاتھا۔ہارون اور شائستہ چندلمحوں کے لیے سب کچھ بھول کر تقریباً بھاگتے ہوئے سیڑھیاں طے کر کے اوپر پہنچے تھے۔ اسد ‘ نایاب کے کمرے کا دراوازہ پیٹ رہاتھا۔ مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ شائستہ نے گھر کے ملازموں کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔
دس منٹ کے بعد نایاب کے کمرے کا لاک توڑ کر ملازموں نے دروازہ کھول دیا۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔
ہارون پاگلوں کی طرح بھاگتا ہوا باتھ روم میں گیا۔ باتھ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔اور باتھ روم کا فرش خون آلود تھا۔ اور اس خون کے تالاب میں نایاب اوندھے منہ گری ہوئی تھی۔
ہارون اندر نہیں جاسکا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دیوار کے ساتھ پڑی امبر کی لاش آئی تھی۔ شائستہ اب بے اختیار چیخیں مار رہی تھی۔ صرف اسد تھا جو باتھ روم کے اندرگیا تھا۔ اس نے نایاب کو سیدھاکر کے اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق تلاش کر نے کی کوشش کی۔ اس نے بلیڈ سے اپنی دونوں کلائیاںکاٹ لی تھیں ۔ اسد اس کو پھر بھی ہاسپٹل لے کر جانا چاہتا تھا۔ ایک آخری امید کے طور پر . . .شایدکہیں کوئی زندگی ہوتی . . .ایک آخری کوشش. . .
مگر کچھ بھی بار آور ثابت نہیں ہوا۔
”انہیں ختم ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا ہے۔ ”
ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی نایاب کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
اسد زندگی میں دوبارہ کبھی شائستہ اور ہارون کمال کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
٭٭٭
روشان اگلے دن کی پہلی فلائٹ سے لاہور آیا تھا۔ مگر پہلے صبغہ کے پاس جانے کے بجائے اس نے منصور کے موبائل پر کال کی ۔ کال کسی اجنبی آواز نے ریسیو کی۔
”آپ کون ہیں ؟” دوسری طرف سے کر خت لہجے میں پوچھا گیا۔
”میں ان کا بیٹا ہوں۔”
”سگا بیٹا؟”
”جی!”
”تو پھر آپ پولیس اسٹیشن آئیے ۔ ہم پہلے ہی منصور علی کی فیملی کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ”
”کیا مطلب ؟”
”آپ ایڈریس نوٹ کریں ۔” دوسری طرف سے ایڈریس بتا کر فون بند کر دیا گیا۔ روشان بے حد پریشانی کے عالم میں پولیس اسٹیشن پہنچا تھا۔
”منصور علی کو اپنی بیٹی کو قتل کرنے کے شبہ میں پولیس حراست میں لیا گیاہے۔ ان پر اپنی سابقہ بیوی پر قاتلانہ حملہ کرنے کا بھی الزام ہے۔ ”
ایس ایچ او نے روشان کو پہنچتے ہی بتایا۔روشان کچھ سمجھ نہیں سکا۔
”کون سی بیٹی؟کیسا قاتلانہ حملہ ؟”وہ بے حد حیران ہوا۔
”ان کی بیٹی امبر۔”کسی نے روشان کے دل پر گھونسہ مارا تھا۔
”امبر کا . . امبر کا . . قتل ؟” وہ بمشکل بولا تھا۔
”ہاں۔”ایس ایچ او نے تفصیلات بتاناشروع کر دیں ۔روشان بے حس و حرکت اس کی باتیں سنتا رہا۔
”یہ لاش کی تصویریں ہیں ۔”ایس ایچ او نے ایک لفافہ روشان کے سامنے ٹیبل پر رکھا۔ روشان و حشت زدہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا۔
”آپ دیکھنا نہیں چاہتے۔”
”نہیں ۔ ”اس نے بمشکل کہا۔
منصور علی سے ملنا چاہتے ہیں؟”
”نہیں ۔”روشان نے اسی انداز میں کہا۔
ایس ایچ او کچھ اور کہہ رہا تھا۔ روشان سنے بغیر باہر نکل گیا ۔ وہ بہت دیر پاگلوں کی طرح سڑک پر چلتا رہا۔
”امبر کی لاش۔”اس کا ذہن ان الفاظ کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھایا پھر شاید سمجھنا چاہتا ہی نہیں تھا۔ ہارون سے تعلقات ‘منصور علی نے قتل کی کوشش کی۔ منصور علی پر قتل کا الزام ‘منصور علی کی خراب ذ ہنی کیفیت وہ ان میں سے کسی بھی بات کو نہیں سمجھ پا رہا تھا۔
تو کیا اسے صبغہ نے اس لیے لاہور بلوایا تھا؟ مگر اس نے کہا تھا کہ امبر ٹھیک ہے۔روشان یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا’اسے یقین تھا اس نے صبغہ کے منہ سے یہی سنا تھا۔ اورپھر وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر اس ایڈریس پر چلا گیا جو صبغہ نے اسے دیا تھا۔
دروازہ صبغہ نے کھولا تھا’وہ روشان سے بے اختیار لپٹ گئی۔
”تم نے مجھے امبر کی ڈیتھ کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔ ”روشان نے اسے خود سے الگ کر کے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔ صبغہ ساکت ہوگئی۔ اندر کمرے سے منیزہ ‘رابعہ اورزاراکے ساتھ باہر نکل آئیں ۔
”موت کیسی موت. . . ؟امبر چند ہفتوں سے لاپتہ ہے۔ مگر وہ زندہ ہے۔ ”صبغہ نے بے اختیار کہا۔ ”تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے۔ ”
منیزہ تب تک لپک کر روشان کے پاس آچکی تھیں ۔ روشان انہیں خود سے لپٹائے بے یقینی سے صبغہ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ تو کیا انہیں ابھی تک امبر کی موت کا پتہ نہیں تھا۔ صبغہ کو روشان کے تاثرات لر زارہے تھے۔ اس نے امبر کی موت کی بات کیوں کی تھی۔
آگے بڑھ کر اس نے منیزہ کو روشان سے الگ کیا۔
”امبر کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے تم؟”اس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
منیزہ نے چونک کر روشان کو دیکھا وہ بے حس و حرکت کھڑاصبغہ کو دیکھتا رہا۔ صبغہ کانپنے لگی تھی۔ اسے لگاوہ گرجائے گی۔
”امبر گھر سے چند ہفتے پہلے چلی گئی تھی۔ وہ ہارون کمال سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اور ہم اس پر تیار نہیں تھے۔ مگر میں تمہیں یہ سب کچھ یہاں کھڑے کھڑے کیوں بتا رہی ہوں ۔”منیزہ نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔ ”تم تھکے ہوئے آئے ہو گے۔ اندر آؤ بیٹھو ۔ پہلے کچھ کھاؤ پیو پھر بات کریںگے۔”
منیزہ نے اس کا بارو پکڑ کر کھینچا ۔ روشان نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔
”تمہیں امبر کے بارے میں کسی نے کچھ کہا ہے۔ ؟”
صبغہ کی آواز اب بری طرح کپکپارہی تھی۔ اس کی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا احساس دلارہی تھی۔
روشان اب بھی اسی طرح صبغہ کو دیکھ رہا تھا’مینزہ نے حیرت سے ان دونوں کو دیکھا۔
”امبر ٹھیک ہے ناروشان ؟”صبغہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے روشان کے پاس آئی تھی۔
”پلیز دیکھو. . مجھے بتا دو. . وہ ٹھیک ہے نا؟” روشان کی آنکھوں میں نمی امڈنا شروع ہوگئی تھی۔
صبغہ نے دونوں ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیے۔ اس کے بدترین خدشات کی تصدیق ہو رہی تھی۔ روشان نفی میں سر ہلا رہا تھا۔
”She is dead”(وہ مرچکی ہے)روشان بچوںکی طرح رونے لگا ۔ اس نے ہمیشہ امبر کو موردالزام ٹھہرایا تھا۔ کیونکہ وہی ان کی زندگی میں رخشی کو لانے کا باعث بنی تھی۔اور دنیا کی کوئی چیز اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی تھی۔ منیزہ بے یقینی سے اس کو دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ روشان. . .امبر تو. . .”
”میں اس کی لاش کی تصویریں دیکھ کر آیا ہوں ۔ ”روشان نے منیزہ سے لپٹتے ہوئے کہا۔ ”آپ نے اسے گھر سے کیوں جانے دیا؟ ”
وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اور یہ وہ سوال تھا جواب ساری عمر کے لیے منیزہ کے گرد بھوت بن کر پھرتا رہتا۔
٭٭٭