تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

”زرقا نے جھوٹ بولا ہے ۔ میرے اس سے تعلقات ضرور تھے مگر ان جیسی عورتوں کے بہت سے مردوں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں پھر کیا وہ ہر ایک کی اولاد میرے سرپر تھوپ دے گی۔”
ہارون کمال نے ابتدائی جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے ایک بار پھر جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
”مجھ کو وضاحتیں مت دو ہارون ! میںتم سے اس وقت کوئی وضاحت نہیں مانگ رہی ہوں اور تم ایک کروڑ بار بھی مجھ سے یہ کہو کہ زرقا جھوٹ بول رہی ہے’ تب بھی میں تم پر اعتبار نہیں کروں گی’زرقاپر کروںگی۔ وہ عورت جھوٹ نہیں بول رہی تھی اور تمہیں اگر کوئی شبہ ہے تو میں ثمر اور ثانی کے ڈی این اے ٹیسٹ کروادیتی ہوں۔ بولو’کرواؤں؟”شائستہ نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”جسٹ شٹ اپ۔” ہارون چلا اٹھا۔
”یو شٹ اپ۔” شائستہ نے اس سے زیادہ بلند آواز میں کہا۔
”ساری عمر میں تمہارے جھوٹ سنتی اور ان پر یقین کرتی رہی ہوں ۔ساری عمر…لیکن اب نہیں کروں گی.. اس لیے اب تم مجھ سے صرف سچ بولو۔”
”شائستہ! میں تم سے بہت محبت کرتا..”
ہارون نے یک دم پینترا بدلنے کی کوشش کی۔ اسے چند گھنٹے پہلے اس اے ایس پی کے ساتھ اپنی ملاقات یاد آگئی تھی ۔ اسے شائستہ کی مدد کی بہت ضرورت تھی۔
”خبردار!جو تم نے محبت کا لفظ میرے سامنے استعمال کیا۔ ساری زندگی تم مجھے یہی ایک لفظ استعمال کر کے ایکسپلائٹ کرتے رہے ہو۔ جب شائستہ کی ضرورت ہو’ تمہیںیاد آجاتا ہے کہ تمہیں شائستہ سے محبت ہے۔”
شائستہ کے لہجے میں تندی اور تلخی کے ساتھ نفرت بھی تھی۔ تم اس وقت مجھے اپنی محبت کا یقین دلانے کے بجائے یہ سوچو کہ تم نے اپنی بیٹی کو اس مصیبت سے چھٹکارا کیسے دلواناہے۔ جاکر نایاب کو بتاؤ کہ اس نے اپنے بھائی کے ساتھ کورٹ میرج کرلی ہے اور یہ اس کے باپ کی نوازش ہے اور یہ بات اسے تم ہی بتاؤ گے’میں نہیں۔
تمہیں بھی تو پتاچلے کہ اولاد کے سامنے.. مجرموں کی طرح کھڑے ہونا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔”
ہارون کمال شکست خوردہ انداز میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
٭٭٭
منصور علی کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اے ایس پی کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اسے کچھ دیر پہلے ہی لاک اپ سے نکال کر آفس کی اس کرسی پر لا کر بٹھا یا گیا تھا۔
”میں وہاں کسی کو مارنے نہیں گیا تھا۔ انہوں نے مجھے مشتعل کیا اور امبر . . . وہ تو گھر پر ہی نہیں تھی پھر میں اسے کیسے مار سکتا ہوں ۔ ”
وہ اس ایے ایس پی کو صفائیاں دے رہا تھا جس نے اس سے چند لمحے پہلے کہا تھا کہ اس پر امبر کے قتل کا الزام ہے۔
”میں ابھی کی بات نہیں کر رہا ہوں ۔ میں چند ہفتے پہلے کی بات کررہا ہوں اس لاش کو پہچانیں ۔”
اے ایس پی نے وہی تصویریں اس کے سامنے ٹیبل پر پھیلادیں۔ منصور کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں چند لمحے اے ایس پی کو دیکھا رہا پھر اس نے ان تصویروں پر ایک نظر ڈالی۔ وہ ایک لڑکی کی تصویر تھی ۔ اس کے مختلف پوز تھے ۔ چہرہ عجیب سے انداز میں پھولا ہوا تھا۔ چہرے پر چند زخم کے نشان بھی تھے ۔ پتہ نہیں کیوں اسے چہرہ شناسا لگا مگر اس کا ذہن اس وقت اے ایس پی کی بات میں الجھا ہوا تھا ۔ امبر کے قتل کا الزام…
”اور شاید اسی وجہ سے میں اس تصویر کو نہیں پہچان رہا۔ ” منصور نے سوچا”مگر امبر کے قتل کے الزام سے اس لڑکی کی تصویر کا کیا تعلق ہے۔”منصور مزید الجھ رہا تھا اور اس کا ذہن اس وقت اے ایس پی کی بات میں الجھا ہوا تھا ۔ امبر کے قتل کا الزام…
پھر اس کے دل کی ایک دھڑکن مس ہوئی ۔ اس نے بے اختیار ٹیبل پر پڑی ایک تصویر اٹھا لی۔ اے ایس پی نے اس کے ہاتھ کو کپکپاتے ہوئے دیکھا پھر اس کا پورا وجود کپکپانے لگا تھا۔




”تصویر پہچانی آپ نے ؟” اے ایس پی نے اس سے پوچھا۔
وہ صرف دو گھنٹے کی تھی ‘جب منصور علی نے پہلی بار اپنی اس پہلی اولاد کو گود میں لیا تھا اور وہ اسے دیکھتے ہی اس پر نثار ہوگیا تھا ۔ تب بھی اس کی آنکھیں اسی طرح بند تھیں مگر اس کے چہرے پر زخم کا کوئی نشان نہیں تھا۔ نہ اس کا چہرہ اس طرح پھولا ہوا تھا۔ وہ اس کی جان تھی ‘ وہ واقعی اس کی جان تھی۔
منصور کو سب کچھ یاد تھا۔ اس کی پہلی مسکراہٹ ‘ اس کا پہلا لفظ’ اس کا پہلا قدم ‘ گھر سے باہر اسکول میں اس کا پہلا دن . . یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ. ..وہ اس چہرے کو نہ پہچانتا ۔ اسے دیر ضرور لگی تھی مگر اس نے اسے شناخت کر لیا تھا۔ اے ایس پی کو اس وقت اس کا چہرہ بھوت کا چہرہ لگا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے چند منٹوں میں اس کا سارا خون نچڑ گیا ہو ۔ وہ اس تصویر کو یک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ چہرہ امبر کا چہرہ تھا۔
”یہ لاش 12تاریخ کو شام کے وقت ایک بیگ میں تھی جسے نہر سے نکالاگیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے7یا8تاریخ کو قتل کیا گیا۔ موت کی وجہ سر کے پچھلے حصے میں لگنے والی چوٹ تھی مگر اس کے جسم کی بہت سی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں جو اس بیگ میں لاش کو ٹھونسنے کی جدوجہد میں توڑی گئیں۔”
اے ایس پی اب چند کاغذات پڑھ رہا تھا۔
”ہارون کمال نے الزام لگایا ہے کہ وہ آپ کی بیٹی امبر کے ساتھ انوالوڈتھا اور وہ گھر چھوڑ کر اس کے ایک فلیٹ میں رہ رہی تھی مگر آپ نے وہا ں پہنچ کر اسے مارڈالا اور پھر اس نے امبر کو دوبارہ نہیں دیکھا۔ البتہ آپ اس پر الزام لگاتے رہے کہ اس نے امبر سے شادی کر لی ہے۔ پولیس نے اس کے فلیٹ کی تلاشی لی ہے، وہاں ایک کمرے میں آپ کی فنگر پرنٹس ہیں اور امبر کے فنگر پر نٹس بھی ملے ہیں اگر چہ ہمیں وہاں امبر کے استعمال کی کوئی چیز نہیں ملی۔”
منصور علی چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ دوہفتوں سے پاگلوں کی طرح اسے مارڈالنے کے لیے ڈھونڈ رہا تھا اور وہ دو ہفتے پہلے مر چکی تھی۔
اسے ہارون کے فلیٹ پر گزاری وہ رات یاد آئی ۔ اسے باتھ روم میں لٹکا ہوا وہ لباس اور پر فیوم اور کاسمیٹکس کی وہ چیزیں یاد آئیں ۔ اسے یاد آیا اسے وہاںپھیلی ہوئی خوشبو کیوں شناسا لگی تھی۔ وہ امبر کا پرفیوم تھا۔ اس رات وہ وہاں تھی’ دوسرے بیڈروم میں ۔ شاید زندہ. . . شایدمردہ. . . اور وہ بے خبر تھا.. . یا پھر شاید وہ تب تک وہاں نہیں رہی تھی۔ نہر کی تہہ میںایک بیگ میں بند پڑی تھی۔
”آپ کو کچھ کہنا ہے؟”اے ایس پی اس سے پوچھ رہا تھا۔ اسے کون مار سکتا ہے؟ منصور جانتاتھا ۔ اسے کس نے مارا تھا’منصور کو علم تھا۔ اسے یاد آیا۔ وہ خود بھی چند گھنٹے پہلے یہی تو کرنے گیا تھا۔ پستول لے کر امبر کو مارنے. . .
اس کے نہ ملنے پر منیزہ کو مارنے کی کوشش. . .
”سارے ثبوت آپ کے خلاف ہیں ‘ اگر آپ اس طرح خاموش بیٹھے رہیں گے تو پھر پولیس یہی سمجھے گی کہ آپ اس قتل کا اعتراف کر رہے ہیں۔” اے ایس پی نے ایک بارپھر کہا۔
منصور کو یاد آیا ‘ اس نے اسے دھکے دے کر اپنے گھر سے نکالا تھا اور امبر نے اس سے کہا تھا۔ وہ دوبارہ کبھی اسے اپنی شکل نہیں دکھائے گی۔
منصور علی نے باقی تصویروں کو بھی اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔اے ایس پی اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ منصور تاش کے پتوں کی طرح اب ان تصویروں کو پھینٹ رہا تھا۔ اے ایس پی اور ایس ایچ او نے آپس میں نظروں کا تبادلہ کیا۔ وہ اب ان تصویروں کو پھینٹ کر میز پر رکھ رہا تھا پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کو کترنے لگا۔
سب کچھ کہا ں غلط ہوا تھا؟ غلطی کس کی تھی؟ کہاں ہوئی تھی؟
اس کا ایک گھر تھا جس میں اس کی ایک بیوی تھی۔ بھدی ‘ بے سلیقہ مگر وفادار اور محبت کرنے والی۔
اس کے پانچ بچے تھے۔ چار بیٹیاں ‘ ایک بیٹا ۔ لوگ کہتے تھے ۔ اس کے بچے بہت خوبصورت تھے۔
اس کے پاس بے تحاشا دولت تھی۔ اس کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں سے محبت کرتا تھا۔ ان پر جان نچھاور کرتا تھا۔ وہ جنت میں تھے پھر جنت میں سانپ کیسے آیا تھا اور سانپ کون تھا؟۔
رخشی. . . اس کی بیٹی کی ہم عمر لڑکی جسے منصور نے بیٹی کی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اس کا ہم عمر ہارون کمال جس نے امبر کو بیٹی کی نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔ منیزہ کا غصہ ‘ جلد بازی اور حماقت جس نے منصور کو اسے طلاق دینے پر مجبور کر دیا تھا یا پھر منصور علی کا اپنا نفس … جو رخشی کی محبت میں ہر حدودو قیود کو پار کر گیا تھا یا پھر خود امبر جس نے ہاتھ سے جانے والی آسائشوں کے پیچھے جانے کی کوشش کی تھی۔
منصور علی اب کرسی پر دونوں پاؤں اوپر کر کے بیٹھ چکا تھا۔ وہ اب ایک ہاتھ سے سر کھجاتے ہوئے ۔ دوسرے ہاتھ کے ناخن دانتوں سے کتر رہاتھا۔۔
”یہ اب ڈرامے کر رہا ہے سر جی! ” ایس ایچ او نے بلند آواز سے اے ایس پی کو اطلاع دی۔ ”اسے دو ہاتھ پڑیں گے تو یہ بالکل سیدھا ہو جائے گا۔ سارا پاگل پن بھول جائے گا۔ ”مگر اے ایس پی نے اس کی بات پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ صرف منصور علی کو دیکھ رہا تھا۔اور اس ساری کہانی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
منصور علی اب دو بارہ تصویریں اٹھا رہا تھا پھر وہ امبر کی ایک تصویر اٹھا کر دیکھنے لگا۔
”امبر کو پانی سے بہت خوف آتا تھا۔ آخر پانی میں اکیلے وہ کیسے رہی ہوگی؟” منصور علی اس کی تصویر کو دیکھ کر سوچ رہا تھا۔
اے ایس پی نے کرسی پر دونوں پاؤں رکھے ‘ اس آدمی کو اس تصویر کو بار بار چومتے دھاڑیں مار کر روتے دیکھا۔ وہ اب مسلسل بولتے ہوئے رو رہا تھامگر اس کی باتوں کو سمجھنا اے ایس پی کے لیے مشکل تھا۔
٭٭٭
شہیر ‘ ثمر کیساتھ جب گھر پہنچا تو گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ زندگی میں پہلی بار شہیر کو اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہو تھی۔
”امی آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔ انہیں تو توقع ہی نہیں ہے آپ کے اس طرح واپس آجانے کی۔”
ثمر نے دہلیز سے اندر داخل ہوتے ہوئے شہیر سے کہا۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔
”پتہ نہیں یہ دروازہ کیوں کھلا چھوڑ دیا ہے۔ کہیںپھر ساتھ والوں کے گھر نہ چلی گئی ہوں۔”
ثمر کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور ٹھٹک کرو ہیں رک گیا۔ سامنے کرسی پر برقعے میں ملبوس زرقا بیٹھی ہوئی تھی مگر اس بار اس کے چہرے پر نقاب نہیں تھی۔ اس کا چہرہ آنسو ؤ ں سے بھیگا ہوا تھا۔ ثمر نے بے حد حیرت کے عالم میں ثانی اور فاطمہ کو دیکھا۔ اسے وہ بھی شاکڈ لگیں ۔ثمر نے چند لمحوں میں اس گلو کارہ کو پہچان لیا تھااور اسے ساتھ ہی برقعہ میں ملبوس وہ دوخواتین یاد آئیں جو چند بار اس کے گھر آئی تھیں۔ وہ گلوکارہ اس وقت برقعہ میں ملبوس تھی۔ اس کا مطلب تھاکہ ان برقعہ پوش خواتین میں سے ایک وہ عورت ہی تھی مگر وہ اس وقت وہاں کس لیے موجود تھی اور اس کے چہرے کے تاثرات. . .
ثمر کو حیرت ہوئی’ اس کے عقب میں کھڑے شہیر کو دیکھ کر بھی فاطمہ کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی۔
خود شہیر بھی اس صورت حال سے کچھ گھبرا گیا تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!