صفیہ کو عبداللہ پر ترس آنے لگا۔ ہائے محبت کو محبت سے جدا کرنا بھی کتنا کٹھن ہے۔ یوں ہی تو ابراہیمؑ نے اسماعیلؑ کو ذبح کرتے ہوئے آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی ہو گی۔ کھلی آنکھوں سے کوئی کیسے خون کے رشتے پر چھری پھیر سکتا ہے، خون کے رشتوں کا خون کرنا کتنا مشکل ہے؟
’’اچھا؟‘‘ نبی بخش نے بہت بڑا ہنکارا بھرا اور سوالیہ نظروں سے عبداللہ کو دیکھا۔
’’حشمت…‘‘ نبی بخش نے انتقامی نظروں سے دونوں بہن بھائیوں کو دیکھا۔ حشمت آنِ واحد میں دوقدم آگے آکر حکم بجالایا۔
’’حشمت! چل اس بھگوڑی کے پیروں میں زنجیر ڈال دے۔ سیانے کہتے ہیں چاہے ڈھور ڈنگر ہو چاہے عورت، جس کو ایک بار رسہ تڑانے کا وَل آجائے اس کو نکیل ڈال کر رکھنا چاہیے تاکہ دوبارہ رسہ نہ تڑوا سکے۔‘‘
’’جی سرکار۔‘‘ حشمت نے جی حضوری کی حد کر دی… اور منٹوں میں صفیہ کے پیروں میں زنجیر باندھ دی۔
صفیہ کے لیے زنجیر کے ساتھ قدم اٹھانے مشکل ہو رہے تھے۔ مگر اس کا بے غیرت بھائی آپا کی قسمت پر زارو زار روتے ہوئے اس کو سہارا دیتا چل رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو اپنی مظلوم آپا کو گود میں پھولوں کی طرح اٹھا کر گھر لے جاتا لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔
حشمت نے صفیہ کے گھر کے بیچوں بیچ جانور کو باندھنے والے کھونٹے سے زنجیر کا ایک حصہ مضبوطی سے باندھ دیا۔ صفیہ کے پیروں سے لوہے کی بیڑیوں کی مسلسل رگڑ سے خون رسنے لگا۔ سب چلے گئے اور سناٹا چھا گیا۔ عبداللہ نے جُھک کر صفیہ کے پیروں پر ہاتھ پھیرا اور بے بسی سے بولا۔
’’آپا بہت درد ہوا ہو گا؟‘‘ صفیہ نے جُھک کر عبداللہ کو اٹھایا، عبداللہ صفیہ کو سینے سے لگاکر روتا گیا۔ صفیہ کو بھائی کی بے بسی پہ رونا آرہا تھا۔ اس نے پیار سے کہا:
’’پیروں میں اتنا درد نہیں ہو رہا جتنا تیرے رونے سے دل میں ہو رہا ہے۔ نہ رو… میں مرنے سے پہلے مر رہی ہوں میرے سوہنے شہزادے۔‘‘
’’آپا!‘‘ ’’میں نے نواز سے کہا تھا وہ تم سے شادی کر لیں۔ تم کو لے کر کہیں چلے جائیں… میں نے کہا تھا آپا۔‘‘ اس نے روتے روتے کہا۔
صفیہ نے سکون سے سنا اور ہنس دی۔ اس کی ہنسی میں اتنے ہی زخم تھے جتنے اس کے پیروں پہ آچکے تھے۔
’’مجھے معاف کردینا آپا۔ پتا نہیں سر مر ہی نہ گیا ہو۔ میں بے وقوف تھا۔ مجھ سمجھ نہیں آیا۔ ہم اپنے گھر میں جنگل میں رہتے ہیں جہاں کمزوروں کو بہادروں سے جان کا ڈر لگا رہتا ہے۔ سر نے سوچا تمہیں اس جنگل سے نکال لیں گے، لیکن وہ جان سے چلا گیا اور ہم قید ہو گئے۔ خدا رسولﷺ کی خاطر مجھے معاف کر دے آپا۔‘‘ عبداللہ رو رو کے ہلکان ہوا جا رہا تھا۔
’’چل اب اتنی معافیاں بھی نہ مانگ کہ مجھے مرنے کا غم ہی لگ جائے۔‘‘ صفیہ نے پھیکی سی ہنسی سے کہا۔ عبداللہ کے آنسو اور زیادہ روانی سے بہنے لگے۔
’’اچھا سُن! میرے جانے کے بعد گم صم نہ ہو جانااور یہ کبھی نہ سوچنا تیرے ہاتھ سے کوئی غلط کام ہوا ہے۔ لاڈلے کے ساتھ شادی کر کے روز روز مرنے سے کہیں بہتر تھا کہ ایک بار تیرے ہاتھوں سے مرجائوں۔ اپنے پیارے بھائی کے ہاتھوں سے… قسم خدا کی ذرا درد نہیں ہے مجھے ایک ذرا سا بھی غم ہو تو کہوں تجھ سے۔‘‘ وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے بولی۔
عبداللہ صفیہ کو دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ صفیہ نے عبداللہ کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھر کے اپنے سامنے کر لیا۔
’’جیتے جی تو منہ نہ موڑ… دیکھ تو لینے دے، جی بھر کے۔ میں نے تو آج تک تجھے نظربھر کے کبھی دیکھا ہی نہیں… ڈرتی رہی اللہ نہ کرے۔ کہیں میرے شہزادے کو میری نظر نہ لگ جائے۔‘‘ کہتے کہتے صفیہ اپنے آنسو روک نہ سکی۔ عبداللہ نے صفیہ کے دونوں ہاتھ چوم لیے۔
آسمان پر سیاہی ہی سیاہی تھی، چاند کی راتیں اور سناٹا۔ ویسے بھی پورے گائوں کو سانپ سونگھا ہوا تھا۔ پنچایت کا فیصلہ اور صفیہ کی موت کا دکھ… پرندے تک اس بھیانک فیصلے کے بعد اپنے گھونسلے سے نہ نکلے ہوں گے۔ کوئی تارہ آسمان پہ چمکنے کو تیار نہیں تھا۔ سردیوں کی راتیں ویسے ہی کیا کم ظالم ہوتی ہیں؟ صفیہ موت کی آہٹیں گن رہی تھی کہ خاموشی کو چیرتی آواز نے اس کو چونکا دیا۔
’’جا دیکھ چاچا آیا ہو گا…‘‘ صفیہ نے اطمینان سے کہا۔
عبداللہ اُٹھا اور اُٹھتے اُٹھتے اس نے پلٹ کر آپا اور اس کے حوصلے کو دیکھا جو بہت اطمینان سے کہہ رہی تھی۔
’’ہمت کر ورنہ ساری برادری میں بے غیرت کے نام سے مشہوری ہو جائے گی تیری۔‘‘
عبداللہ نے دروازہ کے سامنے سرخ روئی آنکھوں کے ساتھ رخشی کو کھڑے دیکھا تو جانے کیوں اس کو ایک لمحے کے لیے اطمینان محسوس ہوا۔ اسے لگا ابھی کچھ پل اور آپا کے ساتھ گزار سکتا ہے۔ رخشی نے آہستہ سے کہا:
’’خون بہت بہ گیا تھا سر نواز کا، ڈاکٹر نے کہا ہے جانے ٹانگ کاٹنی ہی نہ پڑ جائے۔ بہت دیر تک پڑا رہا ہے زخم کے ساتھ۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ عبداللہ نے بھی سرگوشی کی۔
’’فرید کو… ابا سے چُھپ کے بھیجا تھا… رات جیسے ہی پتا چلا کہ سر نواز کو حشمت نے گولی مار دی ہے میں نے اسی وقت فرید کو بھیج دیا تھا…‘‘ وہ اسے بتا رہی تھی۔
’’چاچا آگیا کیا…؟‘‘ تبھی صفیہ کی آواز آئی۔
عبداللہ او ررخشی کو مرے مرے قدموں سے آتے دیکھ کر صفیہ ہذیانی سے انداز میں ہنس دی۔
’’لے دس! مجھ سے تو اب موت کا انتظار بھی نہیں کیا جا رہا۔‘‘ رخشی صفیہ کے پاس بیٹھ کر اس سے لپٹ گئی اور بُری طرح رو دی۔
’’بڑی پیاری ہے تو… بڑی ہی پیاری، سن اپنا خیال رکھنا اور… میرے شہزادے کا بھی۔ اس کو رونے نہ دینا۔‘‘ صفیہ بڑے پیار سے رخشی کو سمجھا رہی تھی۔
عبداللہ اور رخشی رونے لگے۔ رو تو صفیہ بھی رہی تھی مگر وہ روتے روتے ہنس بھی رہی تھی۔
’’وعدہ کر…کر وعدہ…‘‘ وہ زبردستی اس سے وعدہ لینے لگی۔
رخشی چیخ مار کے صفیہ سے لپٹ گئی۔
’’آپا تو نہیں مر سکتی آپا… نہیں… مر سکتی کبھی۔ میں تجھے نہیں مرنے دوں گی۔‘‘ رخشی کا لہجہ اس کا کلیجہ چیرنے لگا۔
صفیہ مُسکرا دی… زخمی مسکراہٹ دل کو چیرنے والی مسکراہٹ، وہ کچھ کہنے ہی لگتی تھی کہ دروازہ ٹھوکر سے کھل گیا۔ رخشی دوڑ کر کمرے میں جا کر چھپ گئی اور دروازے کی اوٹ میں ہو گئی… وہ دروازے کی اوٹ سے دیکھنے لگی۔ پشاوری چپل کی چرچر، ساکت اندھیری رات کا سناٹا چیر رہی تھی۔ چاچا اور حشمت اپنے چار اور ملازموں کے ساتھ گھر میں آچکا تھا۔ صفیہ کسی حجت کے بغیر اٹھنے لگی۔ عبداللہ نے صفیہ کو سہارا دیا۔ صفیہ نے مرے مرے قدموں سے خود کو گھسیٹنا شروع کر دیا۔ رخشی کا چہرہ آنسو سے تر تھا۔
اس کی نظر صفیہ کے پیروں کی زنجیر پر تھی۔ اس کا اتنا جی چاہا کہ روک لے سب کو۔ آپا کو بلا لے، عبداللہ کو روک لے، ابا کے سامنے آجائے… مگر سب کچھ کتنا مشکل تھا۔
موت کا قافلہ چل پڑا۔ رات کی تاریکی… صفیہ سب سے آگے… پیروں کی زنجیر کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ وہ گرتی سنبھلتی پھر چلتی ایک جگہ تو اس کی ہمت ڈھیر ہی ہو گئی۔ اس نے پیر اٹھانا چاہا مگر اس سے اٹھا نہیں۔ وہ گر گئی۔ عبداللہ نے بے ساختہ صفیہ کو بازئوں میں بھرلیا اور بلبلا کر بولا۔
’’چاچے آپا کی زنجیر کھول دے۔ دیکھ کتنا خون بہ گیا ہے اس سے چلا بھی نہیں جا رہا۔ غریب نے مرتو جانا ہی ہے۔ کھول دے زنجیر۔ کہاں جائے گی اب یہ…‘‘
تکلیف کی وجہ سے صفیہ کی آنکھیں نیم وا ہو رہی تھیں، نبی بخش نے احسان کیا اور زنجیر کھول دی۔ زنجیر سے رہائی نے صفیہ کو یک دم بے وزن کر دیا۔ وہ چلنے لگی پھر لڑکھڑا گئی، عبداللہ کا سہارا نہ ہوتا تو یہیں ختم ہو جاتی… فضا میں بہت سوگ واری تھی رفتار کتنی ہی سست ہو چلتے رہو تو منزل ہی آجاتی ہے۔ نیم تاریکی میں نہر کا چاندی جیسا اجلا پانی جادوئی کہانیوں کا منظر لگ رہا تھا۔
مینوں موت تو ڈرا کے کڑیا منہ نہ توں موڑ
میں تاں نیتی اے نماز میری نیت نہ تو توڑ
جند یار دے حوالے، جند یار دے حوالے
عبداللہ نہر کو دیکھ رہاہے اور صفیہ عبداللہ کو دیکھ رہی ہے، جیسے آنکھوں میں یہ چاند سا چہرہ لے کر مرنا چاہتی ہو۔
عبداللہ کو یاد آتا ہے بچپن میں وہ ہمیشہ اسی نہر پہ نہانے آیا کرتا تھا۔ نہر کا ایک حصہ قدرے کم پانی والا اور ایک حصہ زیادہ پانی والا۔ اسے یاد آرہا تھا اس نے کئی بار آپا سے سنا نہ نہایا کرو نہر پہ جا کے… مجھے پانی سے ڈر لگتا ہے اور اس کا کہنا۔ جہاں میں نہاتا ہوں وہاں زیادہ پانی نہیں ہوتا۔
’’لیکن مجھے تو ڈر لگتا ہے ناں۔ ’’بس نہ جایا کرو نہر پہ۔‘‘صفیہ کہتی ہے۔
’’آپا ڈرپوک… آپا ڈرپوک۔‘‘ عبداللہ ہنستا ہے…
لیکن اس وقت وہ رو رہا تھا۔
نبی بخش سے برداشت نہیں ہو رہا تھا، ڈپٹ کر بولا:
’’بس اب جلدی کر تُو تو ہمیں پڑھنے ڈال رہا ہے۔ اگر تیری اب ہمت نہیں ہو رہی تو میں پھینک دیتا ہوں پانی میں، دھکا ہی تو دینا ہے۔‘‘ عبداللہ نے تحمل سے سنا اور صفیہ کے پاس آکر اطمینان سے بولا:
’’رب راکھا پھر ملیں گے۔‘‘
دھڑکنوں کا شور مچا ہوا تھا اور کوئی آواز نہیں آرہی تھی صفیہ نہر میں گرچکی تھی۔ عبداللہ نے جھانک کر دیکھا۔ نہر میں پانی کا دائرہ ختم ہو چکا تھا۔
٭…٭…٭
اس واقعے کو آٹھ سال بیت گئے۔
سردیوں کا موسم تھا۔ ریلوے لائن پر دھند نے بسیرا کر رکھا تھا، ہر طرف دھندلے منظر خواب ناک فضا بنا رہے تھے۔ وہ ریلوے سٹیشن کسی غیرآباد گائوں کا تھا۔ پورے ریلوے سٹیشن پر چند ایک لوگ بھی ہیں جو چلتے پھرتے نظرآرہے تھے۔ البتہ ایک چائے والا جس کے سٹال پر ’’آپ کا چائے والا‘‘ لکھا تھا، لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، جس کے عقب میں چودہ انچ کا ٹی وی چل رہا تھا، جس کی تصویر ناہم وار تھی اور آواز بھی کبھی کبھی ڈوب جاتی۔ اس سے اچھی آواز میں تو وہ فقیر بلّھے شاہ کی کافیاں سنا رہا تھا جس نے خود بھی پیوند لگے کپڑے پہن رکھے تھے… اور دنیا سے بے نیاز سردی کی پروا کیے بغیر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
’’اوئے چھوٹے۔‘‘ چائے والے نے مصروف انداز میں آواز دی اور چائے کو پونے سے اوپر سے نیچے پھینٹا۔
چھوٹا منہ سے دھواں اُڑاتا سرخ ناک اور سردی سے نیلے ہونٹ لیے بوتل کے جن کی طرح آگیا۔
’’جی استاد جی؟‘‘
چائے والے نے دھار کی طرح اوپر سے لے جا کر نیچے چائے کو کپ کی گہرائی میں بھرا۔ چائے کے اوپر جھاگ کی مقدار بڑھنے لگی۔ چائے والے نے مستعدی سے کپ اٹھا کر چھوٹے کو دیا اور کہا: ’’جا کے فقیر کو چائے پلا دے، بڑی سردی ہے۔‘‘
’’اچھا جی!‘‘ چھوٹے نے کہا۔
ٹرین کی چھک چھک نزدیک ہو رہی تھی۔ سٹیشن پہ ہلکی سی ہلچل بھی۔
’’گرم انڈے بسکٹ، ٹھنڈی ٹھار بوتلیں، بھنی گرما گرم مونگ پھلی۔‘‘
مختلف آوازوں کے درمیان ریل گاڑی یوں رُکی جیسے لمبے سفر کے بعد اس نے سانس لیا ہو۔
چند ایک مسافر اُترے جن میں ایک عبداللہ تھا۔ عبداللہ نے اترنے سے پہلے مفلر سے اپنا آدھا چہرہ ڈھکا۔ لمبے اوورکوٹ اور ڈھکے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کی شناخت غیریقینی تھی۔ اس نے اپنا سامان سمیٹا، ایک چھوٹا سا سفری بیگ اور ایک لفافہ جس میں سنہری بالوں والی سوئی جاگی گڑیا مُسکرا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا یہ سوئی جاگی گڑیا آج بھی آپا کی سہیلی ہو گی۔ عبداللہ کی آنکھوں میں خوف ہے۔ اپنے پہچانے جانے کا خوف اس نے پلٹ کر ٹرین میں دیکھا۔ آدھی رات کو سوئے جاگے لوگوں نے شاید توجہ بھی نہ دی ہو کہ کون ٹرین سے اُترا کون سوار ہوا۔ عموماً سنسان اور غیرآباد علاقوں میں ٹرین چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں رکتی۔ اب بھی اس کے رُکنے کا امکان نہیں تھا۔ سوعبداللہ پہلے بھی تیاری کر چکا تھا۔
عبداللہ نے ریل کی آخری سیڑھی پر اُترنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھ کر اطمینان کر لیا کہ اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ اس کو اس وقت دیکھنے والا بے شک کوئی نہیں تھا لیکن وہ یہ نہیں بھولا تھا کہ ایک شخص ایسا ہے جو شدت سے اس کی راہ دیکھ رہا ہے اور وہ کوئی اور نہیں اس کی بہت پیاری بہن صفیہ تھی۔
عبداللہ کی آنکھوں میں صفیہ کی محبت نے نمی بھر دی۔ اسے یقین تھا صفیہ اس کا انتظار کر رہی ہو گی۔ وہ ہمیشہ دو ماہ بعد ایک چکر لگا جاتا تھا… مگر اس بار اس کو آتے دو ماہ سے زیادہ دن ہو چکے تھے اور واقعی صفیہ کی سماعت آہٹوں پر تھی۔ اسے بھائی کا چہرہ دیکھے کئی دن ہو چکے تھے۔
اب بھی دروازے پہ دستک ہوئی تو صفیہ نے بھاگ کر دروازہ کھولا اور عبداللہ کو دیکھ کر شدت غم سے رو دی۔ عبداللہ کے ساتھ ایک موٹرسائیکل رکی جس پر نواز اور اس کے دو بیٹے سوار تھے۔ عبداللہ کو دیکھ کر ان تینوں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ عبداللہ نے دونوں ہاتھ کھول کر بچوں کو لپٹا لیا۔
نواز کے پیر میں لنگ سا تھا مگر اس نے خوش دلی سے عبداللہ کو گلے سے لگایا۔
’’اندر نہیں لے کر چلو گی بھائی کو؟‘‘
نواز دروازے کی طرف بڑھتا ہے وہ ابھی تک اسی طرح خوش پوش سا نوجوان تھا، اسے اپنی ٹانگ کے لنگ کا ذرہ بھر بھی احساس نہ تھا۔
’’ایسے کیسے گھر میں آنے دے گی؟ اسے نظراتار لینے دیں۔ تیل ڈال لینے دیں۔‘‘
صفیہ نے دوپٹے کے کونے کی گرہ کھولی او رسو روپے عبداللہ کے سرسے وارے… تیل ڈالا اور بولی: ’’شالا میرے بھائی کو کبھی نظر نہ لگے۔‘‘
’’بے غیرت بھائی کو۔‘‘ عبداللہ نے ہنس کے کہا اور جھک کر دوسال کے اریب کو گود میں اٹھا لیا۔
’’خبردار جو کبھی ایسا سوچا بھی۔‘‘ صفیہ نے پیار بھری خفگی سے کہا۔
عبداللہ نے ایک ہاتھ سے اریب کو تھاما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے صفیہ کو کندھے سے تھاما اور اس کا ماتھا چوم کر گلے سے لگا لیا۔ نواز بہن اور بھائی کی محبت پر آب دیدہ ہو گیا۔
٭…٭…٭