بے غیرت — دلشاد نسیم

اور وہی ہوا جمعرات کی شام جب صفیہ گائوں کے مزار پر دیا جلانے آئی تو نواز بھی ادھر ہی آگیا۔ صفیہ کو دیکھ کر نواز کی آنکھوں میں ان گنت ستارے جلنے لگتے۔ بالکل ویسے ہی ستارے جیسے الٹے توے کو چمٹا دکھانے کے بعد فضا میں ناچنے لگتے تھے۔ جیسے سیاہ رات کو آسمان پر ننھے ننھے تارے چمکتے رہتے ہیں مگر صفیہ کو ہمیشہ وہم رہتا کوئی دیکھ نہ لے۔ نواز ان کے گائوں کا نہیں تھا۔ وہ قریبی شہر سے آیا تھا۔ پڑھا لکھا، سلجھا ہوا صاف ستھرا انسان، جس کی زندگی کا مقصد روشنی کرنا اور روشنی پھیلانا تھا۔ بچوں کو اچھے دنوں کی آس دلانا تھا۔ یہ سمجھانا کہ محنت ہی عظیم ہے۔ کسی انسان کے سامنے سر نہیں جھکانا، اللہ کے سوا کوئی برتر نہیں۔
اسی نواز نے صفیہ کو دیکھ کر ہوائوں سے کچھ کہا تھا۔
پتا نہیں کب اور کیسے صفیہ نے نواز کی آنکھوں کا اشارہ سُنا، سمجھا اور اقرار میں سر جھکا کر دل اس کے قدموں میں رکھ دیا۔ صفیہ کو تو جیسے کسی نے بوٹی سنگھا دی تھی، جنگلی بوٹی۔ اسے کوئی ہوش ہی نہ رہا… وہ بھول گئی کہ وہ بن ماں باپ کی مجبور لڑکی ہے، اور مجبور لوگوں کے نہ کوئی پیچھے کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سامنے… نہ سر پر ہاتھ رکھنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی ہاتھ بڑھا کر مشکلوں سے بچانے والا…
مزار سے چند گز آگے چل کر ایک نہر تھی جس کا ایک حصہ بالکل خشک اور ایک قدرے کم پانی والا اور ایک طرف خوب پانی بہتا تھا۔ وہ نہر کے خشک حصے کی طرف آجاتے۔ یہ ہی ان کی ملنے کی جگہ تھی۔ اس طرف لوگوں کا آنا جانا نہ ہونے کے برابر ہوتا۔
ایک بار نواز نے پوچھا بھی تھا: ’’تم ہمیشہ یہاں کیوں آ جاتی ہو مجھے لے کر؟‘‘
صفیہ نے بتایا کہ یہاں عبداللہ کا بچپن گزرا ہے۔ وہ یہاں نہانے آتا اور میں اس کے ساتھ اس لیے آجاتی کہ کہیں وہ گہرائی کی طرف نہ چلا جائے پر وہ میری وجہ سے ہلکے پانی میں رہتا حالاں کہ بہت اچھا تیراک ہے۔
’’بہت پیار کرتی ہو عبداللہ سے؟‘‘ نواز نے ایک بے معنی سوال کیا۔
’’جان ہے وہ میری…‘‘ صفیہ کی آنکھوں میں ستارے جگمگانے لگے، وہی ستارے جو محبت کی علامت ہیں۔





’’اور میں کیا ہوں تمہارا؟‘‘ اس نے محبت سے سوال کیا جس کو سن کر صفیہ چپ ہو گئی پھر ایک نظر نواز کو دیکھا اور ریتلی زمین میں انگلیاں پھیر کے بولی:
’’یہ تو تم نے طے کرنا ہے کہ تم میرے کیا ہو…؟‘‘ نواز لاجواب ہوگیا۔ پہلے کچھ سوچا پھر ہنس دیا اور کہنے لگا:
’’تم لازم… میں ملزوم!‘‘ صفیہ کی آنکھوں میں نمی آگئی، اس نے کچھ کہا نہیں۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنوں نے اس کی آنکھوں کی سیاہی کو قدرے کم کرکے اس میں بہت سی روشنی بھر دی۔ نواز نے دیکھا صفیہ ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی ہے۔
’’ڈھلتے سورج کو نہیں دیکھتے یہ اداس کر دیتا ہے، مایوسی بھر دیتا ہے زندگی میں، دن سے جدا جو ہورہا ہوتا ہے۔
نواز نے کہا تو صفیہ نے سورج کو دیکھتے دیکھتے کہا: ’’کیوں کہ اسے کہیں اور اجالا کرنے جانا ہوتا ہے۔‘‘
نواز نے ہنس کر صفیہ کا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ صفیہ کو بھی اٹھایا اور بولا: ’’شام ہو رہی ہے۔ آئو میں تمہیں تمہاری گلی تک چھوڑ آئوں۔‘‘
صفیہ بلاحجت کھڑی ہو گئی۔ نواز کے ہر قدم پر صفیہ دل و جان چھڑکتی تھی لیکن دل و جان چھڑکنے کا یہ مطلب تو نہیںتھا کہ وہ جان بھی دے مگر اسے یہی سزا ملی۔ صفیہ نے دیکھا اور نہ ہی نواز نے، لیکن دو آنکھیں مسلسل ان دونوں کے تعاقب میں تھیں۔ انہی دو تعاقب کرتی آنکھوں نے جو دیکھا، اور سنا چوہدری نبی بخش کے سامنے مرچ مصالحہ لگا کر کہا: ’’چوہدری نبی بخش۔ زہریلا ہوگیا۔ سر سے پیر تک زہر ہی زہر۔‘‘
بڑے سے گول کمرے میں بپھرے شیر کی طرح چکر لگاتے ہوئے اس نے اعلان کردیا کہ صفیہ اور لاڈلے کی شادی اسی ماہ کردی جائے گی۔ لاڈلا وہاں بیٹھا ہاتھوں کی انگلیوں سے دیوار پہ جانور بنا رہا تھا کہ اس کے کانوں تک باپ کی بات پہنچ گئی۔
چھبیس سال کا لاڈلا صرف عمر ہی گذار رہا تھا۔ ذہن تو شاید کہیں بہت پیچھے رک گیا تھا۔ اس لیے تو اس نے شادی والی بات پر حیران ہوکر باپ سے پوچھا:
’’جیسے بھائی بلوکی ہوئی تھی…؟‘‘
لاڈلا چوہدری کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے چار سال بعد رخشی دنیا میں آئی تھی مگر بیٹا چوہدری کو کوئی خوشی نہ دے سکا اور نہ ہی آئندہ کی امید تھی اور اس ناامیدی میں ڈاکٹروں کی رائے بھی شامل تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جسم اور ٹھہرے ہوئے دماغ والا لاڈلا ایسا ہی رہے گا، اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں تھا۔
لاڈلے کے سوال پر چوہدری کے بہ جائے حشمت نے چہک کر کہا:
’’لاڈلا صاحب دلہا بنیں گے۔ سہرا سجے گا۔‘‘
’’دلہا؟‘‘ لاڈلا گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ لاڈلے کو اپنے چچا زاد بھائی کا سہرا سجا چہرہ یاد آگیا… گھوڑے پہ بیٹھا بلال لاڈلے کو بہت اچھا لگا تھا۔
’’ہاں دلہا لاڈلے صاحب… گھوڑے پہ بیٹھیں گے آپ۔‘‘ حشمت اسے بہلانے والے انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’مجھے ابھی گھوڑے پر بیٹھنا ہے ابھی… اماں۔‘‘ لاڈلا ضدی بچے کی طرح ہاتھ پائوں مارتا ہوا بولا۔
اس نے ضد کرنی شروع کردی۔ چوہدری سے کہاں برداشت ہونا تھا، وہ باہر نکل گیا۔
’’مجھے گھوڑے پر بیٹھنا ہے۔ حشمت تم گھوڑا بن جائو۔‘‘ چھے فٹ کے ہٹے کٹے لاڈلے نے حشمت کو ہاتھ کے ایک ہی وار میں زمین پرگرا دیا۔
’’گھوڑا بنو۔ لاڈلا دلہا بنے گا۔‘‘وہ اپنے آپ میں مست اونچا اونچا گا رہا تھا۔
حشمت نے لاچاری اور بے بسی سے خود کو سنبھالا اور گھوڑا بن گیا۔ ماں نے الگ بے کسی کا گھونٹ بھرا اور بولی: ’’لاڈلے بیٹے، حشمت گھوڑا نہیں ہے… اترو…‘‘
رخشی نے آکر تمسخر اڑایا اور ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی:
’’اس سے شادی کرنا چاہتی ہیں آپ؟ اس لڑ کی کی جو خوب صورت ہی نہیں بلکہ پورے ہوش حواس میں رہتی ہے۔ سوجھ بوجھ والی…‘‘ حشمت کی سانس اکھڑنے لگی… لاڈلا مطمئن تھا۔ زلیخاں کو رخشی کی بات پر آگ لگ گئی۔ اگر حشمت وہاں موجود نہ ہوتا تو شاید کہ وہ اس کی زبان درازی پر تھپڑ بھی مار دیتی اور اس پر لاڈلے کی بدتمیزی۔ زلیخاں سے رہا نہ گیا، اس نے رخشی کی بہ جائے لاڈلے کو بھرپور تھپڑ مارا اور لاڈلے کو غصے سے کہا: ’’اترو… اترونیچے۔‘‘ وہ آخری بار چیخی۔
لاڈلے کا منہ بن گیا۔ اس نے گال پہ ہاتھ رکھا اور کھڑا ہوگیا۔
حشمت نے اس کے نیچے اترتے ہی ذرا دیر نہ لگائی اور رینگتا ہوا آگے کھسکا۔
’’اماں!‘‘ لاڈلے نے منہ بسورا۔
’’میرا گھوڑا…‘‘ اس نے حشمت کی طرف اشارہ کیا اور روتے ہوئے بولا۔
زلیخاں نے ضبط کیا، لمبے لمبے سانس لیے اور اونچی آواز میں بولی:
’’فرید لے جائو اس کو کمرے میں۔ خیراں… خیراں!‘‘ زلیخاں نے رخشی کو نظرانداز کرنے کے لیے خیراں کو بلایا۔
رخشی زلیخاں کے مقابل آکھڑی ہوئی۔
’’خیراں باورچی خانے میں ہے اماں۔‘‘
زلیخاں ان پڑھ تھی، کتاب کا لکھا نہیں پڑھ سکتی تھی مگر آنکھوں کا کہا وہ بآسانی پڑھ گئی۔ سو رخشی نے جو کہا نہیں وہ سمجھ گئی۔ اسی لیے تو منہ پھیر کے بولی:
’’یہ تیرے تائے نے مرنے سے پہلے فیصلہ دیا تھا وہ تب بھی جانتا تھا لاڈلا…‘‘ ماں سے کہا نا گیا کہ وہ تب بھی جانتا تھا کہ لاڈلا پاگل ہے۔
’’اماں… میں نے تو ابھی کوئی سوال کیا ہی نہیں تھا۔ آپ نے کیوں جواب دیا۔‘‘ رخشی نے طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا:
’’دیکھ رخشی۔‘‘ زلیخاں نے تحمل سے کہنا شروع کیا…
’’تو کچھ بھی کہہ… کچھ بھی سمجھ مگر یہ بیاہ تو ہو کے رہے گا۔ ویسے بھی وٹے سٹے کی شادی میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔ کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ رخشی نے کیا کہنا اور کیا سمجھنا تھا۔ جہاں عزت اور خود داری چوہدری کی حویلی کے تہ خانوں میں پڑی رہتی ہو وہاں کوئی التجا، کوئی آنسو کام نہیں آسکتا۔ پھر بھی اس نے ماں سے التجا کر ڈالی۔
’’اماں اگر میں صفیہ آپا کی جگہ ہوتی اور عبداللہ کی جگہ لاڈلا بھائی تو…‘‘ اس کی بات درمیان میں رہ گئی۔
زلیخا نے آنکھیں نکال کر رخشی کو گھورا اور پھنکار کے بولی: ’’زبان گدی سے کھینچ لوں گی اگر اب ایسی بکواس کی تو۔‘‘
رخشی پر اس پھنکار کا بس یہ اثر ہوا کہ وہ چلی گئی۔
٭…٭…٭
رات اور گہری ہورہی تھی۔ صفیہ کو نیند کا جھونکا آیا تو اس نے خود کو جھٹکا۔
’’صفیہ تجھے سونے کی کیا جلدی ہے؟ اس کے بعد تو نیند ہی نیند ہے۔‘‘ عبداللہ کھلی آنکھوں سے آسمان دیکھ رہا تھا۔ صفیہ نے عبداللہ کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ماتھے پر پیار کیا اور دکھی ہنسی ہنس کے بولی:
’’مجھے معلوم ہوتا کہ اتنی جلدی جدا ہو جانا ہے کہ تو تجھے میں جی بھر کے پیار کرتی… تیرے نخرے اٹھاتی…‘‘ صفیہ کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
’’میرے تو ابھی چاہ بھی نہیں اترے تھے۔ سوچا تھا کہ سہرا سجائوں گی، رخشی کو بیاہ کر لائوں گی… تم دونوں کے بہت سارے نخرے اٹھائوں گی۔‘‘ صفیہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بول رہی تھی۔
عبداللہ نے کچھ نہیں کہا۔ اس کے دماغ میں تو وہ بات سانپ کی طرح پھنکاریں مار رہی تھی جو مدرسے سے واپسی پر رخشی نے اس کو راستے میں روک کر کہی تھی:
’’مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے عبداللہ۔‘‘ اس طرح بیچ راہ میں روکنے سے عبداللہ یک دم پریشان ہو گیا تھا۔
’’کیا بات کرنی ہے؟‘‘ اس نے پریشانی سے پوچھا۔
’’تجھ سے ایک وعدہ لینا ہے۔‘‘ اس نے جھٹ عبداللہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ عبداللہ نے تیزی سے اپنا ہاتھ گھسیٹا۔
’’بات کیا ہے؟‘‘ اس نے سٹپٹا کر کہا۔
’’تو آپا کو لے کر کہیں دور چلا جا…‘‘ اس کے لہجے میں گڑگڑاہٹ تھی۔
’’کیا مطلب ہے؟‘‘ اس نے احمقوں کی طرح پوچھا۔
’’مطلب میں نہ پڑ، کام کی بات کر اور چلا جا۔‘‘
عبداللہ بہ غور رخشی کو دیکھ رہا تھا۔ سترہ سال کا معصوم بن ماں باپ کا سادہ سا لڑکا بھلا پہیلیوں کو کیسے سمجھتا، جھنجھلا کر بولا: ’’صاف صاف کیوں نہیں بتا رہی ہو۔؟‘‘
’’تو آپاکی کہیں شادی کیوں نہیں کردیتا؟ اب وہ بڑی ہوگئی ہے۔‘‘ اب وہ میرے مدعا پر آگئی۔
عبداللہ سٹپٹا کر رہ گیا۔ آپا تو بڑی ہوگئی تھی مگر وہ خود کہاں ابھی اتنا بڑا ہوا تھا کہ ایسی بات سوچ بھی سکتا۔ عبداللہ کو خاموش دیکھ کر رخشی نے دکھ سے کہا: ’’کیا تجھے معلوم ہے؟ صفیہ آپا کی نسبت لاڈلے بھائی کے ساتھ طے ہے۔‘‘
’’تم سے کس نے کہا؟‘‘ عبداللہ کو جھٹکا لگا۔
’’اس پاگل کے ساتھ آپا کی شادی…؟ نہیں نہیں۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو آپا ضرور ذکر کرتی تم سے کسی نے جھوٹ کہا ہے۔‘‘ وہ سیدھا سادا لڑکا یہ بات ماننے پر راضی نہیں تھا۔
’’اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ یہ جھوٹ سچ نہ ہو جائے۔ اماں اور ابا کہتے ہیں انہوں نے تائے کی زندگی میں یہ رشتہ طے کر دیا تھا۔‘‘ رخشی نے اسے سچائی بتاتے ہوئے کہا تو عبداللہ سوچ میں پڑ گیا۔




Loading

Read Previous

حاضری — کنیز نور علی

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!